پنچایت کا کہنا ہے کہ محبت کی شادی کرنے والے کسی بھی جوڑے کو گاؤں میں نہیں رہنے دیا جائےگا۔ |
دلی سے تقریباً چالیس کلومیٹر دور ایک گاؤں میں مقامی برادریوں کے رہنماؤں نے محبت کی شادیوں اور عورتوں کے اکیلے گھر سے باہر نکلنے پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اساڑا گاؤں دلی سے ملحق باغپت ضلع میں واقع ہے جہاں ’چھتیس برادریوں کی پنچایت‘ نے بدھ کے روز یہ فیصلہ کیا ہے۔ گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ قدم عورتوں کی حفاظت کے لیے اٹھایا گیا ہے جنہیں بازار جاتے وقت چھیڑ چھاڑ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
مقامی رہنماؤں نے اپنی پنچایت میں فیصلہ کیا ہے کہ چالیس سال سے کم عمر کی کوئی بھی عورت کسی مرد کو ساتھ لیے بغیر ’اتوار کو لگنے والے بازار نہیں جائے گی۔ لڑکیوں کو گھر سے باہر گلیوں میں موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور وہ سر ڈھک کر ہی گھر سے باہر نکلیں گی‘۔
شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے پنچایت کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے اور اسے ’طالبانی فیصلہ‘ قرار دیا جارہا ہے۔
خواتین کے قومی کمیشن کی سابق سربراہ گریجا ویاس نے کہا کہ پنچایت کے فیصلے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے اور کسی کو اس پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خواتین کے بنیادی شہری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
لیکن گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ عورتوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اور علاقے کی عورتیں پنچایت کے فیصلے سے پوری طرح اتفاق کرتی ہیں۔ یہ فیصلہ مقامی آبادیوں کے رہنماؤں کی پنچایت میں کیا گیا تھا جو گاؤں کا انتظام سنبھالنے والی منتخب پنچایتوں سے مختلف ہوتی ہیں۔
جمعہ کو چنڈی گڑھ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کہا کہ ’ان پنچایتوں کے جاری کردہ فرمانوں کی جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہے اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے جن کے اکسانے پر اس قسم کا فیصلہ کیا گیا ہے‘۔
ہندوستان میں گزشتہ دو تین ہفتوں میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جن سے عورتوں کے حقوق کا معاملہ سرخیوں میں آگیا ہے۔
کچھ روز قبل شمال مشرقی ریاست آسام میں ایک خاتون قانون ساز اور ان کے دوسرے شوہر کو لوگوں نے بے رحمی سے پیٹا تھا۔ آسام میں ہی اسی ہفتے ایک لڑکی کے ساتھ کچھ نوجوانوں نے اس وقت سرعام بدسلوکی کی جب وہ ایک پارٹی میں شرکت کے بعد اپنے گھر لوٹ رہی تھی۔ ایشیائی کھیلوں میں گولڈ میڈل جیتنے والی پنکی پرمانک کے ساتھ ذیاتیوں کے الزامات بھی کئی روز سے سرخیوں میں ہیں۔
اساڑا گاؤں کی پنچایت کا فیصلہ منظر عام پر آنے کے بعد پولیس حرکت میں آئی ہے اور خبر رساں اداروں کے مطابق پورے واقعے کی تفتیش کی جارہی ہے۔
’محبت کی شادیوں پر پابندی‘
اساڑا گاؤں دلی سے ملحق باغپت ضلع میں واقع ہے جہاں ’چھتیس برادریوں کی پنچایت‘ نے بدھ کے روز یہ فیصلہ کیا ہے۔ گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ قدم عورتوں کی حفاظت کے لیے اٹھایا گیا ہے جنہیں بازار جاتے وقت چھیڑ چھاڑ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
مقامی رہنماؤں نے اپنی پنچایت میں فیصلہ کیا ہے کہ چالیس سال سے کم عمر کی کوئی بھی عورت کسی مرد کو ساتھ لیے بغیر ’اتوار کو لگنے والے بازار نہیں جائے گی۔ لڑکیوں کو گھر سے باہر گلیوں میں موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور وہ سر ڈھک کر ہی گھر سے باہر نکلیں گی‘۔
شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے پنچایت کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے اور اسے ’طالبانی فیصلہ‘ قرار دیا جارہا ہے۔
خواتین کے قومی کمیشن کی سابق سربراہ گریجا ویاس نے کہا کہ پنچایت کے فیصلے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے اور کسی کو اس پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خواتین کے بنیادی شہری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
لیکن گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ عورتوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اور علاقے کی عورتیں پنچایت کے فیصلے سے پوری طرح اتفاق کرتی ہیں۔ یہ فیصلہ مقامی آبادیوں کے رہنماؤں کی پنچایت میں کیا گیا تھا جو گاؤں کا انتظام سنبھالنے والی منتخب پنچایتوں سے مختلف ہوتی ہیں۔
جمعہ کو چنڈی گڑھ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کہا کہ ’ان پنچایتوں کے جاری کردہ فرمانوں کی جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہے اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے جن کے اکسانے پر اس قسم کا فیصلہ کیا گیا ہے‘۔
ہندوستان میں گزشتہ دو تین ہفتوں میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جن سے عورتوں کے حقوق کا معاملہ سرخیوں میں آگیا ہے۔
کچھ روز قبل شمال مشرقی ریاست آسام میں ایک خاتون قانون ساز اور ان کے دوسرے شوہر کو لوگوں نے بے رحمی سے پیٹا تھا۔ آسام میں ہی اسی ہفتے ایک لڑکی کے ساتھ کچھ نوجوانوں نے اس وقت سرعام بدسلوکی کی جب وہ ایک پارٹی میں شرکت کے بعد اپنے گھر لوٹ رہی تھی۔ ایشیائی کھیلوں میں گولڈ میڈل جیتنے والی پنکی پرمانک کے ساتھ ذیاتیوں کے الزامات بھی کئی روز سے سرخیوں میں ہیں۔
اساڑا گاؤں کی پنچایت کا فیصلہ منظر عام پر آنے کے بعد پولیس حرکت میں آئی ہے اور خبر رساں اداروں کے مطابق پورے واقعے کی تفتیش کی جارہی ہے۔
’محبت کی شادیوں پر پابندی‘
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔