حقوق لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
حقوق لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ, نومبر 30, 2012

فلسطین اقوام متحدہ کا غیر مبصر رکن بن گیا

اقوام متحدہ نے فلسطینی کو غیر رکن مبصر ملک کا درجہ دے دیا ہے۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی اتھارٹی کا درجہ بڑھائے جانے کی تجویز پر ہونی والی ووٹنگ میں 193 ممالک میں سے 138 ممالک نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا۔ اسرايل، امریکہ اور کینیڈا سمیت نو ممالک نے اس تجویز کے خلاف ووٹ ڈالا جب کہ 41 ممالک نے اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا۔

ووٹنگ سے پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب میں فلسطینی رہنما محمود عباس نے کہا، ’آج اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ فلسطین کے پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کرے۔‘ انہوں نے مزید کہا ’پیسنٹھ سال پہلے آج ہی کے دن اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی نے قرارداد 181 کو منظوری دے کر فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا اور اسرائيل کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ دے دیا تھا۔‘


اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہونے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر جشن کا ماحول تھا۔ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر نغمے گائے، آتش بازی کی اور گاڑیوں کے ہارن بجا كر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اسرائيل کے سفیر نے ووٹنگ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’اس تجویز سے امن کو کوئی فروغ نہیں ملے گا بلکہ اس سے امن کو دھچكا ہی لگے گا اسرائيلي لوگوں کا اسرائيل سے چار ہزار سال پرانا تعلق اقوام متحدہ کے کسی فیصلے سے ٹوٹنے والا نہیں ہے۔‘ امریکہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اسرائيل کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنی چاہیے اور اس طرح اقوام متحدہ میں یک طرفہ اقدامات کے ذریعے ریاست کا درجہ حاصل نہیں کرنا چاہیے۔ برطانیہ اور جرمنی نے اس تجویز کے لیے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، لیکن دونوں ملک فلسطینیوں کی اس تجویز کے لائے جانے سے خوش نہیں تھے۔ لیکن اقوام متحدہ میں اس تجویز کو بھارت سمیت فرانس، روس، چین اور جنوبی افریقہ جیسے کئی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ گزشتہ سال فلسطینی اتھارٹی نے مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں درخواست دی تھی لیکن سلامتی کونسل میں امریکہ نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا تھا اور فلسطینیوں کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے رکن ممالک سے کہا کہ وہ فلسطینی انتظامیہ کی کامیابیوں کو تسلیم کریں۔


غیر مبصر رکن کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد اب فلسطین کو اقوامِ متحدہ کے اداروں میں شمولیت حاصل ہو جائے گی جن میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف بھی شامل ہے۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی بیت المقدس کے علاقوں کو فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے جن علاقوں پر اسرائیل نے سنہ 1967 میں قبضہ کر لیا تھا۔

فلسطین اقوام متحدہ کا غیر مبصر رکن بن گیا

ہفتہ, نومبر 24, 2012

موٹر وے کے بیچوں بیچ رہائشی چینی جوڑا

بیجنگ… این جی ٹی… اپنے گھر سے محبت کسے نہیں ہوتی لیکن اس چینی میاں بیوی کے تو کیا ہی کہنے ہیں، جنہوں نے موٹر وے کی تعمیر کے لئے اپارٹمنٹ خالی کر دینے کا فیصلہ رد کر دیا۔ 

کہانی صرف یہیں تمام نہیں ہوئی بلکہ جب اس چینی جوڑے نے حکومت کی جانب سے مناسب رقم نہ ملنے پر اپنا اپارٹمنٹ چھوڑ دینے سے انکار کر دیا تو حکومت نے بھی بلڈنگ کے ارد گرد ہی موٹروے تعمیر کر دی۔ اب یہ عمر رسیدہ جوڑا سڑک کے بیچ رہائش اختیار کئے ہوئے ہے۔
 

پیر, نومبر 19, 2012

پولیس نے سکول میں تھانہ بنا لیا

شکار پور میں پولیس نے گورنمنٹ پرائمری سکول میں تھانہ بنا لیا، بچے تعلیم سے محروم، پولیس کے ڈرسے لوگ بات کرتے ہوئے ڈرنے لگے۔

پاکستانی پولیس کے انداز ہی نرالے ہیں جان ومال کے یہ محافظ جو کہہ دیں وہی قانون کہلاتا ہے۔ یہی نہیں قانون کے رکھوالے جسے چاہیں اپنی ملکیت قرار دے دیں۔ چاہے وہ کوئی سرکاری دفتر ہو یا بچوں کا سکول پولیس والے جہاں براجمان ہوجائیں وہاں سے انہیں نکالنا پھرکسی کے بس میں نہیں رہتا۔ 

ایسا ہی ہوا شکار پورکے نواحی گاؤں جہاں گورنمنٹ پرائمری سکول کی عمارت میں پولیس نے گزشتہ ایک سال سے تھانہ قائم کر رکھا ہے جس کے بعد گاؤں کا واحد سکول بند ہوگیا۔ تدریسی عمل ٹھپ ہوا تو سکول میں تعینات تین اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرنے لگے۔ اہل علاقہ نے مقامی وڈیروں کے ڈر سے موقف دینے سے انکار کر دیا جبکہ پولیس اور محکمہ تعلیم کےافسران بھی موقف دینے سے انکار کررہے ہیں۔

جمعہ, نومبر 16, 2012

ہیمبرگ کے لیے تاریخی دن

جرمن شہری ریاست ہیمبرگ کی حکومت اور مسلم تنظیموں کے مابین حقوق اور ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس طرح ہیمبرگ سرکاری سطح پر اس نوعیت کا معاہدہ کرنے والی پہلی جرمن ریاست بن گئی ہے۔

ہیمبرگ میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت مسلم تہواروں کو سرکاری سطح پر تسیلم کر لیا گیا اور سکولوں میں اسلامیات کی تدریس کے نظام کو مزید بہتر بنانے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اب مسلم شہری مذہبی تہواروں پر چھٹیاں لے سکیں گے اور طالب علموں کو بھی سکولوں سے چھٹی کرنے کا حق حاصل ہو گا۔

خواتین اور ہم جنس پرستوں کے ساتھ کسی بھی سطح پر امتیازی سلوک کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سمجھوتے کی رو سے مساجد اور ثقافتی مراکز کی تعمیر مزید سہل بنانے کے علاوہ تابوت کے بغیر تدفین کی اجازت بھی دی گئی ہے۔

ہیمبرگ میں تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار مسلمان اور علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے پچاس ہزار افراد آباد ہیں۔ اس معاہدے پر چار نمائندہ تنظیموں نے دستخط کیے ہیں۔ ان میں علوی فرقے کے نمائندے، ترک برادری کی تنظیم ’ DITIB‘، کونسل آف اسلامک کمیونیٹیز ’شوری‘ اور فیڈریشن آف اسلامک کلچر سینٹر ’ VIKZ ‘ شامل ہیں۔ علوی فرقہ زیادہ تر ترک نژاد افراد پر مشتمل ہے اور ان کا شمار آزاد خیال گروپوں میں ہوتا ہے۔

اس حوالے سے ہیمبرگ کے سٹی ہال میں خصوصی تقریب منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شہر کے سوشل ڈیموکریٹ میئر اولاف شولز نے کہا کہ یہ معاہدہ اس شہری ریاست کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’’اس معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے ہم نے شہر کی سماجی بنیادوں کو مزید مستحکم بنایا ہے‘‘۔ DITIB کے ذکریا التوگ کے بقول یہ صرف ہیمبرگ کے لیے ہی نہیں بلکہ جرمنی کے لیے بھی ایک تاریخی دن ہے۔

ہیمبرگ کے پروٹسٹنٹ اور کیتھولک بشپس نے بھی اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ دستخط کے باوجود ہیمبرگ کی پارلیمان سے اس معاہدے کی منظوری ہونا ابھی باقی ہے۔ پارلیمان میں سوشل ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے جبکہ اپوزیشن کرسچن ڈیموکریٹس بھی اس سمجھوتے کی تائید کر چکے ہیں۔

ہیمبرگ میں اس حوالے سے مذاکرات شروع کرنے کی تجویز 2006ء میں سابق میئر اولے فان بوئسٹ نے پیش کی تھی۔ اس سے قبل 2005ء میں ہیمبرگ کی حکومت نے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ چرچ کے ساتھ بھی اسی نوعیت کے معاہدے کیے تھے۔ جبکہ 2007ء میں یہودی برادری کے ساتھ بھی ایک سمجھوتہ طے پایا تھا۔ جرمنی کی دیگر ریاستیں بھی ہیمبرگ کی طرز پر مسلم برادری کی نمائندوں کے ساتھ ایسے ہی معاہدے کرنا چاہتی ہیں۔

ہیمبرگ کے لیے تاریخی دن

جمعرات, نومبر 15, 2012

امریکہ کے ساتھ رہنے سے کون انکاری ہے؟

اگرچہ اس بارے میں یقین کرنا دشوار ہے لیکن اپنی ریاستوں کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے جدا کرنے کے خواہش مندوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 6 نومبر کو ہوئے صدارتی انتخاب کے بعد وہائٹ ہاؤس کی سائٹ پر ”ہم ۔۔ عوام“ نام کے کالم میں ایسے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ تاہم اس خواہش کو علیحدگی پسندانہ رجحان پہ محمول نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے لوگوں کی اکثریت کا خیال یہ ہے کہ اس علیحدگی کا تعلق وفاقی سرکاری پالیسیوں سے جان چھڑانا ہے۔ امریکی واشنگٹن سرکار کو پسند نہیں کرتے۔ یوں ایسے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ماسوائے احتجاج کی ایک اور شکل کے مزید کچھ نہیں ہے۔ ویسے تو لگتا ہے کہ یہ معاملہ مذاق میں شروع ہوا تھا۔

کچھ عرصہ قبل اس نوع کی ریاستوں میں بیس ریاستوں کے نام شامل تھے، جن میں ٹیکساس اور نیویارک جیسی بڑی ریاستوں کے نام بھی ہیں۔ پھر نیو جرسی، نارتھ اور ساؤتھ کیرولینا، الاباما، جارجیا، فلوریڈا اور دیگر ریاستیں بھی اس فہرست مں درج ہیں۔

13 نومبر کو ان میں 8 اور باغی ریاستوں کے نام شامل ہو گئے ہیں جن میں کیلیفورنیا، نیوادا، پینسلوانیا اور اوہائیو بھی ہیں۔ اس طرح کے احتجاج کو سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہیے، ماسکو سٹیٹ انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروریکٹر آرتیوم مالگین سمجھتے ہیں، ”انتخابی مہم کے دوران اس طرح کی معلومات کو سیاسی لطیفے کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ ایسے لطائف کے اثرات نہیں ہوا کرتے اور بھلا اثر ہو بھی کیا سکتا ہے۔“

مسئیہ تو کچھ اتنا عاقلانہ نہیں ہے تاہم ”وہائٹ ہاؤس“ نے اس کے لیے ایک کالم بنا دیا ہے۔ ”وی دی پیپلٴٴٴٴٴٴ‘ امریکہ کے دستور کے اولیں الفاظ ہیں، یوں امریکہ کے شہریوں کو براہ راست صدر کی انتظامیہ تک رسائی فراہم کی گئی ہے تاکہ سنا جاسکے کہ لوگ کس قسم کی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ باراک اوبامہ نے 2008 کی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی انتظامیہ کو بے مثل حد تک قابل رسائی بنائیں گے اور انہوں نے ایسا کر دکھایا۔

ایسی پٹیشن 13 سال سے زیادہ عمر کو کوئی بھی شہری ارسال کر سکتا ہے۔ 150 دستخط پورے ہو جانے کے بعد اسے ”وہائٹ ہاؤس“ کی سائٹ پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ جب فہرست میں درج لوگوں کی تعداد پانچ ہزار ہو جائے گی تو وہائٹ ہاؤس کے وعدے کے مطابق، ایسی درخواست رسمی دستاویز کی شکل اختیار کر لے گی جس کا جواب دیا جانا لازمی ہوگا۔

کچھ پٹیشنوں پہ یہ تعداد دس پندرہ ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے یعنی مذاق سے شروع ہونے والی بات سنجیدہ شکل اختیار کر چکی ہے۔ اب تک وصول ہونے والی پٹیشنوں میں سے بیشتر گذشتہ ہفتے موصول ہوئی ہیں۔ اب تک کسی کا بھی سرکاری جواب نہیں دیا گیا۔ لگتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس طے نہیں کر پا رہا کہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ رہنے سے کون انکاری ہے؟

جمعرات, نومبر 01, 2012

گوگل ہتکِ عزت کا مقدمہ ہار گیا

آسٹریلیا میں گوگل کے خلاف ہتکِ عزت کے ایک مقدمے میں جیوری نے ایک شکایت کے بعد اسے ہرجانے کا موجب قرار دیا ہے۔ شکایت میں کہا گیا تھا کہ اس کے سرچ کے نتائج میں ایک مقامی شخص کو جرائم کی دنیا سے وابستہ دکھایا گیا ہے۔ ملوراڈ ٹرکلجا نامی شخص نے الزام لگایا تھا کہ امریکی کمپنی کی وجہ سے اس کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے۔ باسٹھ سالہ شخص کا کہنا تھا کہ جب سرچ انجن کو اسے ہٹانے کے لیے کہا گیا تو اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے پہلے وہ یاہو کے خلاف بھی مقدمہ جیت چکے ہیں۔ گوگل نے ابھی اس فیصلے پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے۔ اگلے دو ہفتوں میں جج یہ طے کریں گے کہ ہرجانہ کتنا ہونا چاہیے۔

ملوراڈ ٹرکلجا 1970 کے اوئل میں یوگوسلاویہ چھوڑ کر آسٹریلیا آ بسے تھے۔ اس کے بعد وہ تارکینِ وطن کی برادری کے اہم رکن بن گئے اور 1990 کے دہائی میں یوگوسلاو موضوعات پر ’مکی فولکفیسٹ‘ نامی ٹی وی شو بھی چلاتے رہے۔ سنہ 2004 میں ایک ریستوران میں بالاکلاوا (ایک خاص قسم کا کنٹوپ) پہنے ایک شخص نے ان کی کمر پر گولی مار دی تھی۔ یہ کیس کبھی بھی حل نہیں ہوا لیکن بعد میں ہیرالڈ سن اخبار نے اس کی یہ خبر لگائی کہ پولیس کے مطابق میلبورن زیرِ زمین مافیا کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں جب بھی ملوراڈ ٹرکلجا کا نام گوگل تصاویر میں ڈالا جاتا تو کئی افراد کی تصاویر ان کے نام کے ساتھ آ جاتیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ مبینہ طور پر قاتل ہیں اور ایک منشیات فروش بھی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں سے کئی ایک تصاویر کے نیچے ’میلبورن کرائم‘ بھی لکھا آتا ہے جس میں سے ایک ٹرکلجا کی بھی ہے، جس کے متعلق وہ الزام لگاتے ہیں کہ دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ وہ بھی جرائم پیشہ ہیں۔.

گوگل کو جرمنی کے سابق صدر کی اہلیہ بیٹینا وولف کی جانب سے بھی شکایت کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی ان کا نام لکھ کر سرچ کیا جاتا ہے تو ’وحشیا‘ اور ’بازارِ حسن‘.جیسی مجوزہ سرچ کے نتائج آتے ہیں۔

گوگل ہتکِ عزت کا مقدمہ ہار گیا

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہفتہ وار تبدیلی روک دی گئی

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہفتہ وار اضافہ اور گیس کی قیمتوں کو پٹرول سے منسلک کرنے کا کوئی قانون موجود نہیں۔ سی این جی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ سی این جی کی قیمت پٹرول سے الگ کردی جائے تو گیس 25 روپے فی کلو سستی ہوجائے گی۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ عوام سے وصول کی گئی اضافی رقم واپس دینے کا فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ بنچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اوگرا کمپنیوں کے کہنے پر بغیر جانچ پڑتال کے قیمتیں بڑھا دیتی ہے۔ اگر عدالت کو مطمئن نہ کیا گیا تو سخت فیصلہ دیا جائے گا۔ 

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ استحصال کر کے عوام کی جیب سے پیسے نکلوانے کا کسی کو اختیار نہیں۔ حکومت اوگرا کو نہیں کہہ سکتی کہ گیس کی قیمتیں بڑھائی جائیں۔ 

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جس ایم او یو پر دستخط ہوئے اس میں سیٹھ ہے، حکومت ہے اور وزارت پٹرولیم ہے، اس مفاہمتی یاداشت میں نہ اوگرا ہے اور نہ صارف۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ اوگرا نے عوام کی جیب سے اضافی رقم نکال کر سیٹھ کو دے دی۔ یہ رقم واپس ہونی چاہئے، اوگرا یا حکومت نے کبھی بھی سوئی نادرن اور سادرن سے نرخوں کے متعلق سوال نہیں کیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ایک کاغذی کارروائی کے ذریعے قیمت بڑھا دی جاتی ہے۔ اب تک اوگرا جو کرتا رہا وہ عوام کے مفاد میں نہیں کیا۔ قانون کہتا ہے کہ اوگرا نے عوام کے مفاد کا خیال بھی رکھنا ہے، اوگرا حکام نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے ابتک صارفین کو 32 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یو ایف جی کے تحت آپ نے کیا فائدہ پہنچایا اور کیا نقصان، ہمارے علم میں ہے۔ اوگرا نے غریب کی جیب پر نقب لگائی، پٹرول کی قیمت کے ساتھ گیس کی قیمت بڑھانا ہمیں ہضم نہیں ہورہا۔ آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے صدر غیاث پراچہ نے فاضل عدالت کو بتایا کہ یکم جنوری 2012 سے گیس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ پٹرول کی قیمت سے منسلک نہ کیا جائے تو سی این جی 25 روپے فی کلو سستی ہوسکتی ہے۔ اوگرا اور وزارت پٹرولیم کہتی ہے کہ صارف کی نہیں بلکہ اپنے منافع کی بات کرو۔ عدالت نے غیاث پراچہ کو اپنا بیان تحریری شکل میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ بنچ نے سوئی نادرن اور سدرن کے ایم ڈی صاحبان کو کل کے لئے نوٹس جاری کردئیے ہیں۔
 

ہفتہ, اکتوبر 06, 2012

سویڈن میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی درخواست منظور

سٹاک ہوم (عارف کسانہ) سویڈن کی فضاؤں میں پہلی بار اذان سنائی دے گی۔ سٹاک ہوم کی ایک میونسپیلیٹی بوتشرکا کی کونسل نے فتیا میں قائم ترک جامع مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے مسجد کے مینار سے لاؤڈ سپیکر سے اذان دینے کی درخواست منظور کرلی ہے۔ مقامی کونسل کی تمام سیاسی جماعتوں ماسوائے کرسچین ڈیموکریٹ پارٹی نے درخواست کی حمایت میں ووٹ دیا۔ اب مقامی پولیس سے اجازت ملنے کے بعد اذان لاؤڈ سپیکر سے دی جاسکے گی۔ یہ فیصلہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر سویڈن کی دیگر مساجد میں بھی سپیکر سے اذان دینے کی اجازت طلب کی جا سکتی ہیں۔ مقامی مسلمانوں نے اس فیصلہ پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

سویڈن میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی درخواست منظور

اتوار, ستمبر 23, 2012

یورپ میں آزادی اظہار کا دوہرا معیار

فرانس کی پیرس ویسٹ یونیورسٹی کے Pierre Guerlain کہتے ہیں کہ اگر کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے کارٹونوں کے بارے میں شکایت کو کامیاب ہونا ہے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ کارٹون نسل پرستی پر مبنی ہیں۔

20 مسلمان ملکوں میں فرانس کے سفارت خانے، قونصلیٹ اور انٹرنیشنل سکول جمعے کے روز بند کردئیے گئے۔ اس ہفتے کے شروع میں فرانس کے ایک مزاحیہ رسالے میں پیغمبرِ اسلام کو کارٹونوں کی شکل میں دکھایا گیا تھا۔ ان کارٹونوں کے خلاف جو ردعمل ہوا ہے اس کے جواب میں فرانس کی حکومت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فرانس میں اظہارِ رائے کی ضمانت دی گئی ہے۔ لیکن بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ آزادیٔ تقریر کے معاملے میں، فرانس اور بعض دوسرے یورپی ملکوں نے، دوہرے معیار اپنائے ہوئے ہیں۔

فرانس کی حکومت نے کہا ہے کہ ان کارٹونوں سے جن لوگوں کے جذبات مجروح ہوئےہیں، وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جا سکتے ہیں۔

اطلاع کے مطابق، کم از کم ایک مسلمان گروپ نے پیرس میں پراسیکیوٹرز کے پاس پہلے ہی فوجداری شکایت درج کرا دی ہے۔ سرکاری وکیلوں کو ابھی یہ طے کرنا ہے کہ کوئی قانونی کارروائی کی جائے گی یا نہیں۔

اس سے قبل جب مذہبی گروپوں کی دل آزاری کرنے کے الزام میں ہفتے وار رسالے Charlie Hebdo کے خلاف مقدمے دائر کیے گئے ہیں، تو ان کا فیصلہ رسالے کے حق میں ہوا ہے۔ چار سال قبل، جب اس رسالے نے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں وہ کارٹون شائع کیے جو اس سے پہلے ڈنمارک کے ایک رسالے میں شائع ہوچکے تھے، تو اس نے وہ مقدمہ جیت لیا تھا جو اس کے خلاف دائر کیا گیا تھا۔ 2008 میں جب اس رسالے نے پوپ کا کارٹون شائع کیا، تو اس کے خلاف شکایت درج کرائی گئی تھی لیکن وہ بھی ناکام رہی تھی۔

فرانس کی پیرس ویسٹ یونیورسٹی کے Pierre Guerlain کہتے ہیں کہ اگر ان کارٹونوں کے بارے میں شکایت کو کامیاب ہونا ہے تو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ کارٹون نسل پرستی پر مبنی ہیں۔ فرانس میں مذہبی وجوہ، کافی نہیں ہوتیں۔


وہ کہتے ہیں کہ مذہب پر تنقید کرنا مقبول قومی مشغلہ ہے۔ انگریزی بولنے والے ملکوں میں لوگوں کا خیال ہے کہ فرانس کیتھولک ملک ہے۔ لیکن یہ مفروضہ غلط ہے۔ یہاں بیشتر لوگ سیکولر، لا دین یا دہریے ہیں۔ وہ مذہبی شعائر پر عمل نہیں کرتے۔ اور روایتی طور پر، فرانس میں بائیں بازو کی تحریک نے اپنی بنیاد کیتھولک چرچ کی مخالفت پر رکھی تھی۔ لہٰذا، فرانس میں مذہب کی مخالفت کی روایت بڑی طویل ہے اور یہ مخالفت دوسرے مذاہب تک پھیلی ہوئی ہے۔

Matt Rojansky امریکہ میں قائم ریسرچ تنظیم Carnegie Endowment for International Peace سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپ میں فرانس  کے علاوہ اور بھی ملک ہیں  جہاں  تقریر کی آزادی پر پابندیاں عائد ہیں۔ اس طرح منافقت اور دو عملی کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، الجزائر اور دوسرے ملکوں میں رہنے والے مسلمان اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ یورپ کے بعض ملکوں میں سر پر حجاب لینا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ وہ یہ بات سمجھتے ہیں کہ یورپ میں آزادیٔ تقریر پر بعض پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ لیکن پھر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان ملکوں  میں، دوسرے لوگ، ان کے خیال میں، سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرسکتے ہیں، وہ کارٹون شائع کرسکتے ہیں اور جو چاہیں کہہ سکتے ہیں۔ قوم پرست سیاستداں بہت سے باتیں کہتے ہیں، اور ان چیزوں کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ لہٰذا، مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ یہ سرا سر منافقت ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جب تک یورپ اس تضاد کو دور نہ کرے، مسلمانوں کا استدلال صحیح ہے۔

مکمل مضمون پڑھنے کے لئے براہ کرم نیچے لنک پر کلک کریں

یورپ میں آزادی اظہار کا دوہرا معیار ہے