پیر, اگست 27, 2012

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی ٹیسٹ، ایک روزہ اور ٹی 20 ٹیم رینکگ


دہر ميں اسم محمد سے اجالا کر دے...

قصہ مختصر…عظيم سرور

رمضان کا مبارک مہينہ اس سال بہت سي حسين ياديں چھوڑ کر رخصت ہو گيا۔ ان يادوں ميں بہت اچھے ٹي وي پروگراموں کي ياديں بھي ہيں جو جيو ٹي وي پر پيش کيے گئے۔ ان پروگراموں ميں ايک سادہ سا پروگرام وہ تھا جس نے ميرے دل اور ذہن ميں بہت سے چراغ روشن کرديئے۔ يہ پروگرام اسم محمد کے رنگوں سے سجا ہوا تھا۔ اس پروگرام کو ديکھتے ہوئے مجھے ہر بار احساس ہوا کہ اس ميں قرآن پاک ميں اللہ تعالٰي کے فرمان ”ورفعنا لک ذکرک“ کي تفاسير پرنور رنگوں کي صورت ميں پيش ہورہي ہيں۔ ہر روز پروگرام ميں تين شرکاء اسم محمد کے ايک پہلو کو ذہن ميں رکھ کے خطّاطي کرتے اور خطوں اور رنگوں کے ذريعے اسم محمد کي رحمتوں، برکتوں اور عظمتوں کو اجاگر کرتے۔

جيو ٹي وي پر يہ پروگرام ڈاکٹر محمد طاہر مصطفٰي پيش کررہے تھے۔ ڈاکٹر طاہر نے اسماء النبي پر مقالہ لکھا اور لاہور کي ٹيکنالوجي يونيورسٹي کے اسلامي علوم کے شعبے سے ڈاکٹر کي ڈگري حاصل کي۔ ٹيلي وژن پر يہ پروگرام کرنے کا خيال ان کو اس طرح آيا کہ مغربي دنيا ميں شرپسند اور شيطان صفت لوگ پيغمبر اسلام کي بے ادبي کرتے ہوئے آئے روز اخباروں اور کتابوں ميں خاکے بناتے رہتے ہيں۔ ہم ان خاکوں پر احتجاج تو کرتے ہيں ليکن اس کا کوئي مثبت جواب نہيں ديتے۔ حال ہي ميں ايک شيطان صفت عورت نے انٹرنيٹ پر پيغمبر اسلام کي شخصيت پر خاکے بنانے کا مقابلہ کروايا ہے اور دنيا بھر کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اس خاص سائٹ پر اپنے يہ خاکے ارسال کريں۔ پہلے جو کام کسي ايک اخبار ميں کوئي ايک شخص کرتا تھا اب انٹرنيٹ پر وہ کام کئي افراد کررہے ہيں۔

اقبال نے کہا تھا، چراغ مصطفوي سے شرار بو لہبي ہميشہ جنگ جاري رکھے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے ميں بھي لوگ ان کے اور ان کے پيغام کے دشمن تھے۔ ان کو کبھي جادوگر، کبھي مجنون، کبھي شاعر، کبھي ابتر کہہ کر پکارتے تھے۔ اللہ تعالٰي ان کي ہر ہر بار ترديد فرماتا تھا اور قرآن کي آيات ميں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات اور نام کي سربلندي کا حکم ديتا تھا۔ اللہ تعالٰي نے نبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کرنے کا جو وعدہ فرمايا ہے وہ قيامت تک جاري رہے گا، اس عرصے ميں شيطان بھي اپني کارروائياں جاري رکھے گا ليکن اللہ کے بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شيدائي بھي اسم محمد کا پرچم بلند کرتے رہيں گے۔ اسم محمد کے اجالے سے دنيا کو منوّر کرتے رہيں گے اور اسم محمد کي رحمتوں کے رنگوں سے زمين کو سجاتے رہيں گے۔ جيو ٹي وي کا يہ پروگرام بھي اس کا حصّہ تھا۔ ڈاکٹر طاہر مصطفٰي نے خيال پيش کيا کہ ہم پاکستان کے لوگوں کو دعوت ديں کہ وہ آئيں اور نبي اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي شخصيت کے مختلف پہلوؤں کو ان کے ”اسماء“ کے رنگوں سے سجي خطّاطي کے ذريعے اجاگر کريں۔ بہت پہلے پاکستان کے نامور مصوّر صادقين نے سورة الرحمن کي آيات کي خطّاطي کرکے مصوّري ميں ايک باب کا اضافہ کيا تھا۔ ڈاکٹر طاہر نے کہا کہ کيوں نہ ہم اسمائے محمد کي خطاطي کے شہہ پارے پيش کرکے مغرب کے شيطان صفت لوگوں کے شر اور فساد کا مثبت اور پر نور جواب ديں۔ ان کا يہ خيال منظور ہوا اور رمضان کے پورے ماہ ميں انہوں نے ہر روز تين مصوّروں کو بلا کر ان سے يہ نور پارے تخليق کروائے۔

اس پروگرام کو ديکھتے ہوئے ميں نے ہر بار سوچا کہ اس ماہ رمضان کا يہ تحفہ جاري رہنا چاہئے، لوگ اپنے نور پارے ساري دنيا سے ارسال کريں گے تو پوري دنيا کو پيغام جائے گا کہ اسم محمد کا اصل رنگ و روپ کيا ہے۔ الفاظ اور اسماء کي تاثير ہوتي ہے، ان ميں طاقت ہوتي ہے اور ان کے ارتعاش ميں پيغام ہوتا ہے۔ پھر جب نام محمد کي قوّت اس خوبصورت انداز ميں ساري دنيا ميں پھيل جائے گي تو پھر رحمت کے اثرات مرتّب ہونے لگيں گے اور دنيا ميں سلامتي کي فضاء پيدا ہونا شروع ہو جائے گي۔ اس پروگرام ميں حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کرنے والے اپني عقيدتوں اور محبتوں کے رنگ بھي جگائيں گے اور پھر اقبال کا وہ پيغام عملي صورت اختيار کر جائے گا جس ميں انہوں نے کہا تھا:

قوّت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر ميں اسم محمد سے اجالا کردے

بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں

تپتی زمیں پر آنسوؤں کے پیار کی صورت ہوتی ہیں

چاہتوں کی صورت ہوتی ہیں

بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں


دل کے زخم مٹانے کو


آنگن میں اتری بوندوں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں

نامہرباں دھوپ میں سایہ دیتی

نرم ہتھیلیوں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں

چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں

تنہا اداس سفر میں رنگ بھرتی

رداؤں جیسی ہوتی ہیں

بیٹیاں چھاؤں جیسی ہوتی ہیں


کبھی بلا سکیں، کبھی چھپا سکیں

بیٹیاں اَن کہی صداؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی جھکا سکیں، کبھی مٹا سکیں

بیٹیاں اناؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی ہنسا سکیں، کبھی رُلا سکیں

کبھی سنوار سکیں، کبھی اجاڑ سکیں


بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دعاؤں جیسی ہوتی ہیں

حد سے مہرباں، بیان سے اچھی

بیٹیاں وفاؤں جیسی ہوتی ہیں

پھول جب شاخ سے کٹتا ہے بکھر جاتا ہے

پتیاں سوکھتی ہیں ٹوٹ کے اُڑ جاتی ہیں

بیٹیاں پھول ہیں


ماں باپ کی شاخوں پہ جنم لیتی ہیں

ماں کی آنکھوں کی چمک بنتی ہیں

باپ کے دل کا سکوں ہوتی ہیں

گھر کو جنت بنا دیتی ہیں

ہر قدم پیار بچھا دیتی ہیں

جب بچھڑنے کی گھڑی آتی ہے

غم کے رنگوں میں خوشی آتی ہے

ایک گھر میں تو اُترتی ہے اداسی لیکن

دوسرے گھر کے سنورنے کا یقیں ہوتا ہے


بیٹیاں پھول ہیں

ایک شاخ سے کٹتی ہیں مگر

سوکھتی ہیں نہ کبھی ٹوٹتی ہیں

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں

اور پھول کے مقدر میں
بالآخر بکھرنا ہے
انہیں تو بس مہکنا ہے
سجا دو سیج پر چاہے
چڑھا دو یا مزاروں پر
سہرے میں انہیں گوندھو
لگا دو یا کہ مدفن پر
انہیں خوشبو پھیلانی ہے
بھلا پھولوں کی مرضی کون پوچھتا ہے
بتاﺅ تم کو بالوں میں سجائیں یا کہ مرقد پے
آبیاری ہو کہیں یا قطع و برید ہو
پھولوں کے اختیار میں بس مہکتے رہنا ہے
اجنبی جذبات کو اپنی زباں میں کہنا ہے
جس رنگ میں چاہے باغباں
گلدستے میں سج جانا ہے
جس کیاری میں چاہے
وہیں پے ان کو اگنا ہے، وہیں پھل پھول دینے ہیں
وہیں مرجھانا ہے ان کو

پرندوں اور پودوں میں
یہی اک فرق ہے ازلی
کبھی جو بے سبب یہ مہرباں برساتیں روٹھ جائیں تو
یا بد قسمت گھٹائیں راستے بھول جائیں تو
کبھی جب پانیوں کی کوکھ بانج ہو جانے کا خدشہ ہو

پرندے ہجرتیں کرکے، نئی آب و زمیں کھوجیں
ٹھکانے، آشیانے، چمن و گلشن سب نیا ڈھونڈیں
مگر پھولوں کو پودوں کو، مگر بیلوں کو بانہوں کو
وہیں پانی کے مدفن پر، وہیں اشجار کے ساکت بدن پہ خاک ہونا ہے
انہی گجروں میں سجنا ہے
انہیں راہوں میں رلنا ہے
گلدان آباد کرنے ہیں
یہی پھولوں کی قسمت ہے، یہی ان کا مقدر ہے

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں

بندر سمجھ کر اپنا ہی بیٹا مار دیا

جنوبی نیپال میں ایک کسان نے غلط فہمی کا شکار ہوکر اپنے ہی بارہ سالہ بیٹے کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ کسان سمجھا کہ بندر اس کی فصل خراب کررہا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ چترا بہادر نامی بارہ سالہ بچہ درخت پر چڑھ کر ان بندروں کا تعاقب کررہا تھا، جو اس کے گھرانے کے لیے پریشانی کی وجہ بنے ہوئے تھے۔ لیکن اس دوران چترا کے پچپن سالہ والد گپتا بہادر نے بندر سمجھ کر جس پر فائر کیا، وہ اس کا اپنا ہی بیٹا تھا۔ گپتا بہادر کے بقول یہ بندر اس کی فصلیں خراب کرتے تھے اور بطور خوراک انہیں لے کر بھاگ جاتے تھے۔

جنوبی نیپال میں آرگھا کھانچی نامی دور دراز علاقےکے پولیس حکام نے بتایا ہے کہ چترا بندروں کا تعاقب کرتے ہوئے درختوں میں چھپا ہوا تھا کہ اس کے والد نے اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہوئے کہ وہ بندر کو نشانہ بنا رہا ہے، اپنے ہی بیٹے پر فائر کھول دیا۔ علاقے کی پولیس کے نائب سربراہ ارون پاؤڈل نے بتایا کہ بچہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا، ’’بچہ درخت پر ٹہنیوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا، جو گولی لگنے کے بعد وہیں ہلاک ہوگیا۔‘‘

ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ گپتا بہادر کو علم نہیں تھا کہ اس کا بیٹا بندروں کو بھگانے کے لیے کھیتوں میں گیا ہوا ہے، اس لیے اس سے یہ غلطی سرزد ہوئی۔ پولیس نے بتایا کہ گپتا بہادر کو تحویل میں لے لیا گیا ہے اور وہ بندوق بھی برآمد کر لی گئی ہے، جس سے اس نے فائر کیا تھا۔

نیپال کی سرکاری نیوز ایجنسی نے آج اتوار کو بتایا کہ یہ واقعہ جمعے کے روز رونما ہوا۔ گپتا بہادر نے بعد ازاں ذرائع ابلاغ کو بتایا، ’’مجھے اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب فائر کے بعد میرا اپنا ہی بیٹا درخت سے گر کر شاخوں میں پھنس گیا۔‘‘

بندر سمجھ کر اپنا ہی بیٹا مار دیا

نئی دہلی میں یومیہ 12بچے اغوا ہوتے ہیں

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، اِس وقت پورے بھارت میں 55000 بچے لاپتا ہیں اور محکمہ پولیس اُن کا سراغ لگانے میں ناکام رہا ہے، جب کہ دارالحکومت دہلی میں روزانہ 12 بچے لاپتا ہوتے ہیں، جِن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔

اِس سلسلے میں سپریم کورٹ نے مرکز اور تمام ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اُس نے یہ کارروائی مفادِ عامہ کی ایک عذر داری پر سماعت کے دوران کی، جسے ایک وکیل سرو مِترا نے داخل کیا ہے۔

جسٹس آفتاب عالم کی سربراہی والے بینچ نے اِس بارے میں حکومتوں سے جواب طلب کیا ہے۔ عذر داری میں کہا گیا ہے کہ لاپتا بچے اذیت ناک حالت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اُن کو اغوا کرنے والے گروہ کسی بچے کا ایک ہاتھ کاٹ دیتے ہیں تو کسی کا ایک پیر اور کسی کی آنکھ پھوڑ دیتے ہیں۔ پھر اُنھیں بھیک مانگنے پر مجبور کردیا جاتا ہے یا جسم فروشی کے دھندے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

عذرداری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس محکمہ اغوا کے معاملات کی جانچ کرنے اور لاپتا بچوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ صورت حال اِن معصوم بچوں کو زندہ رہنے کے حق اور آزادی سے محروم کرنے جیسا ہے۔ ایسے بچوں کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے اور اُن کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔

ادھر، دہلی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق دارالحکومت دہلی میں ایک سال کے اندر 3171 بچے لاپتا ہوئے ہیں، جن میں 1652 لڑکیاں اور 1519 لڑکے ہیں۔

یہاں یومیہ 12بچے غائب ہوتے ہیں۔ تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کےمقابلے میں امسال گمشدگی کی شرح کم ہوئی ہے، کیونکہ گذشتہ سال 14بچے یومیہ گم ہورہے تھے۔ لیکن، ایک اعلیٰ پولیس افسر کےمطابق بچوں کی گمشدگی کی کوئی ایک خاص وجہ نہیں ہے۔

جِن بچوں کو تلاش کرلیا گیا ہے اُن کی گمشدگی کی وجوہات میں والدین کا غلط سلوک، دوسرے لوگوں کے ذریعے گمراہ کیا جانا، تعلیم کا بوجھ، دماغی خلل یا کسی کے ساتھ بھاگ جانا شامل ہے۔

نئی دہلی میں یومیہ 12بچے اغوا ہوتے ہیں: پولیس ذرائع

بھارت نے انڈر - 19 کرکٹ عالمی کپ چیت لیا

بھارتی کھلاڑی فائنل میچ جیتنے پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں
 بھارت نے 19 سال سے کم عمر کھلاڑیوں کی کرکٹ کے عالمی کپ مقابلوں کے فائنل میچ میں آسٹریلیا کو شکست دے کر چیمپیئن کا اعزاز تیسری مرتبہ چیت لیا۔

آسٹریلیا کے شہر ٹاؤنس ولے میں کھیلے جانے والے فائنل میں بھارتی ٹیم نے میزبان ملک کو چھ وکٹوں سے شکست دی۔ اس سے قبل 2000ء اور 2008ء میں بھارت نے انڈر - 19 عالمی کرکٹ کپ میں فتح حاصل کی تھی۔

فائنل میچ میں بھارت نے ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی۔ میزبان ٹیم نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے آٹھ وکٹ کے نقصان پر 225 رنز بنائے تھے۔ بھارتی بلے بازوں نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے چار وکٹوں کے نقصان پر اڑتالیسویں اوور میں یہ ہدف حاصل کرلیا۔

بھارتی ٹیم کے کپتان انمکت چند نے جیت میں اہم کردار ادا کیا انھوں نے 111 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔

انمکت چند کو میچ کا بہترین کھلاڑی ’مین آف دی میچ‘ قرار دیا۔

بھارت نے انڈر - 19 کرکٹ عالمی کپ چیت لیا