بدھ, اگست 08, 2012

محبت کی انوکھی داستان

جاوید اور ریحانہ (کرسٹینا) 2006 میں ملے اور 2010 میں ان کی شادی ہوئی
جاوید اور کرسٹینا کی محبت اور شادی کی داستان کسی فلم سے کم نہیں۔ جاوید بھارت کی گلیوں اور فٹ پاتھوں پر پلے بڑھے لیکن انہیں امریکی سیاح کرسٹینا سے محبت ہو گئی۔ دونوں کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ امریکی شہر اٹلانٹا میں رہتے ہیں۔

اب جاوید نیند میں بھی انگریزی میں ہی بڑبڑاتے ہیں جس سے ان کی بیوی کو لگتا ہے کہ وہ اپنے نئے ملک سے ہم آہنگ ہورہے ہیں۔

لیکن وہ کہتی ہیں ’وہ آج بھی جاوید ہے اور آج بھی بھارتی ہے‘۔

جاوید کا تعلق بھارتی ریاست بہار کے مونگیر ضلع سے ہے۔ وہ بچپن میں ہی گھر سے بھاگ کر پہلے ممبئی اور پھر دلی گئے جہاں انہیں نشے اور جوئے کی عادت پڑ گئی۔ اس وقت انہیں آوارہ بچوں کی سماجی آباد کاری کے لیے کام کرنے والے ’سلام بالک‘ نامی ٹرسٹ نے بچایا۔

جاوید کی ملاقات کرسٹینا سے پہلی بار سنہ دوہزار چھ میں اس وقت ہوئی جب کرسٹینا نے سلام بالک ٹرسٹ کے زیرِ انتظام دہلی کی سیر کے لیے آئیں۔

دو سال قبل کرسٹینا اور جاوید کی شادی ہوچکی ہے اور جاوید اٹلانٹا میں فارمیسی کے کورس میں داخلہ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔

کرسٹینا کہتی ہیں کہ میں جاوید کی اس وقت مدد کرتی ہوں جب وہ انگریزی میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر پاتے ہیں۔

جاوید اور کرسٹینا کی شادی کی تصاویر آج سلام بالک ٹرسٹ کے دفاتر میں لگی ہوئی ہیں۔ وہاں لوگ جاوید کو بہت محبت بھرے الفاظ میں یاد کرتے ہیں اور جاوید اور کرسٹینا کی محبت کی داستانیں سناتے ہیں۔

ٹرسٹ میں کام کرنے والے ایک کارکن اے کے تیواری کا کہنا ہے ’وہ ایک بہت خوش مزاج بچہ تھا، وہ اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہتا تھا، وہ دہلی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ایک سماجی کارکن بن گیا۔ اور پھر اس کی کرسٹینا سے ملاقات ہوئی‘۔

یہ محبت کی داستان دہلی میں پہاڑ گنج کے علاقے میں شروع ہوئی جہاں جاوید ایک سیاحی رہنماء کے طور پر کام کررہے تھے۔ وہ سیاحوں کو اپنی کہانی سنایا کرتےکہ وہ کیسے نشے کے عادی ہوتے تھے اور کس طرح سلام بالک نے انہیں ان لعنتوں سے بچایا۔

جاوید کی کہانی سننے والوں میں ایک کرسٹینا بھی تھیں۔

بعد میں کرسٹینا نے ٹرسٹ میں رضاکارانہ طور پر کام کیا اور وہ بھاگے ہوئے بچوں کے لیے تصویریں بناتیں، بچوں کو کہانیاں سناتیں اور ان کو لکھنا سکھاتیں۔ کرسٹینا کے اپنے والدین طلاق شدہ تھے جس کی وجہ سے انہیں پیار کی اہمیت کا اندازہ تھا۔

جاوید کی کہانی سن کر کرسٹینا کہتی کہ یہ غیرمعمولی کہانی ہے کیونکہ امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ کرسٹینا کو جاوید کی مسکراہٹ اور اس کی آنکھوں کی چمک بے حد پسند تھی۔

امریکہ واپس آنے کے ایک سال بعد کرسٹینا نے لکھا کہ معلوم نہیں کہ وہ جاوید کو یاد بھی ہیں یا نہیں۔ یاد دہانی کے لیے انہوں نے لکھا کہ میں وہی ہوں جو ایک کالے کتے کے ساتھ بچوں کو کھیلاتی تھی۔ 

انھوں نے لکھا کہ حالانکہ میں تم بہت دور ہوں لیکن میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میں زندگی میں تم جیسے کسی ایسے آدمی سے نہیں ملی (امریکہ میں بھی نہیں) جس کے لیے میرے دل میں اتنی جگہ ہو۔۔۔

جاوید نے اس ای میل کو کئی بار پڑھا۔ اسے وہ لڑکی بخوبی یاد تھی لیکن اسے اس بات کا احساس تھا کہ کہاں وہ گلیوں اور سڑکوں والا اور کہاں وہ پردیسی!

جاوید نے جواب میں لکھا کہ میں تو ’کچھ بھی نہیں مگر تم تو سب کچھ ہو‘۔

جاوید اور ریحانہ (کرسٹینا) اب امریکی شہر اٹلانٹا میں رہ رہے ہیں
اس کے بعد کرسٹینا نو بار بھارت آئیں اور جاوید سے ملتی رہیں۔ جاوید نے اپنے والدین کو کرسٹینا کے بارے میں بتایا تو وہ ان سے ملنے دہلی آئے۔

دونوں کی شادی جاوید کے گاؤں میں سنہ دو ہزار دس میں ہوئی۔ کرسٹینا نے شادی پر لال ساڑی پہنی اور ہاتھوں میں مہندی لگائی۔ انہوں نے اپنا نام تبدیل کرکے ریحانہ خاتون رکھا اور کئی دنوں تک جشن کا ماحول رہا۔

جب کرسٹینا کو پتہ چلا کہ جاوید کے والدین کی شادی چالیس سال پرانی ہے تو اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس کی خواہش ہے کہ اس کی بھی شادی اسی طرح قائم رہے۔

کرسٹینا کے والد امریکی ایئر لائن ڈلٹا میں پائلٹ ہیں اور وہ جاوید سے ملنے دو بار ہندوستان آچکے ہیں۔ شادی کے بعد کرسٹینا نے کہا کہ وہ جاوید کو امریکہ میں قسمت آزمائی کا ایک موقعہ دیں اور اگر انہیں پسند نہیں آیا تو وہ واپس بھارت آجائیں گے۔

کرسٹینا نے کہا سب اتنا اچھا ہوا کہ یقین نہیں آتا۔ ’یہ محبت کی عجیب داستان ہے، لوگ ہمیں اس پر کتاب لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں‘۔

محبت کی انوکھی داستان

پالیکیلے: ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی بھارت فاتح

بھارتی کھلاڑیوں کے خوشی کا اظہار
پالیکیلے میں کھیلے جانے والے واحد ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھارت نے سری لنکا کو انتالیس رنز سے شکست دے دی۔ سری لنکا کی پوری ٹیم مطلوبہ ہدف کے تعاقب میں اٹھارہ اوورز میں صرف ایک سو سولہ رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔ سری لنکا کی جانب سے میتھیوز نے اکتیس جے وردھنے نے چھبیس اور تھرمین نے بیس رنز بنائے۔ ان تینوں بلے بازوں کے علاوہ سری لنکا کے کھلاڑی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے اور ان کی وکٹیں وقفے وقفے سے گرتی رہیں۔ سری لنکا کے سات بلے بازوں کا سکور دوسرے ہندے تک نہ پہنچ سکا۔ بھارت کی جانب سے اشوک ڈینڈا نے چار اور عرفان پٹھان نے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

اس سے پہلے بھارت نے مقررہ بیس اوورز میں تین وکٹوں کے نقصان پر ایک سو پچپن رنز بنائے۔ بھارت کی جانب سے ویرات کوہلی نے اڑسٹھ جبکہ رائینہ نے چونتیس رنز بنائے۔ سری لنکا کی جانب سے ایرنگا نے دو اور مینڈس نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔

پالیکیلے: ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی بھارت فاتح

سنکیانگ میں روزے پر پابندی

چین کے شہر کاشغر کی ایک مسجد میں نماز ادا کرتے ایغور مسلمان
چین کے نیم خود مختار مغربی صوبے سنکیانگ کے مسلمانوں نے شکوہ کیا ہے کہ چینی حکومت نے ان پر رمضان کے مہینے میں بے جا پابندیاں عائد کردی ہیں اور انہیں آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات کی ادائی کی اجازت نہیں دی جارہی۔

واضح رہے کہ صوبے کے کئی سرکاری دفاتر اور سکولوں کی ویب سائٹوں پر گزشتہ ہفتے جاری کیے گئے ایک سرکاری بیان میں حکمران جماعت ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے ارکان، سرکاری ملازمین، طلبہ اور اساتذہ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ رمضان میں روزے رکھنے اور دیگر مذہبی سرگرمیوں میں شرکت سے اجتناب برتیں۔

چینی حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ پابندی عوام کی صحت کو درپیش خطرات کے پیشِ نظر عائد کی گئی ہے۔ حکام کے بقول وہ علاقے کے رہائشیوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں کہ وہ ”اپنی ملازمتوں اور تعلیم کی ذمہ داریاں بہتر طور پر ادا کرنے کی غرض سے مناسب خوراک استعمال کریں“۔
واضح رہے کہ چین کے اس دور دراز صوبے میں مسلمانوں سمیت کئی نسلی اقلیتیں موجود ہیں اور ایغور نسل کے مسلمان صوبے کی آبادی کا لگ بھگ 45 فی صد ہیں۔

سنکیانگ کی ایک مسجد میں قرآن کی تعلیم
 جلاوطن ایغور باشندوں کی تنظیم ’ورلڈ ایغور کانگریس‘ کے ترجمان دلشاد رسیت نے چند روز قبل ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ سنکیانگ کی مقامی حکومت نے رمضان کے دوران علاقے میں سیکیورٹی اور استحکام برقرار رکھنے کی غرض سے کئی نئے منصوبے شروع کیے ہیں۔

دلشاد رسیت کے مطابق ان منصوبوں کے تحت سیکیورٹی اہلکاروں کو مساجد کی نگرانی کے علاوہ سرکاری سطح پر تقسیم کیے جانے والے مذہبی لٹریچر، نجی طور پر شائع ہونے والے کتب و رسائل کی ضبطی کے لیے گھروں کی تلاشی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

’ورلڈ ایغور کانگریس‘ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سنکیانگ کی علاقائی حکومت نے خطے کی مساجد میں نمازیوں کی ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے عہدیداران کے ساتھ ”فکری نشستوں“ کی منظوری بھی دی ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں

اولمپکس ہاکی: آسٹریلیا نے پاکستان کو سات گول سے ہرا دیا

لندن اولمپکس کے ہاکی مقابلوں میں منگل کو آسٹریلیا نے پاکستان کو سات، صفر سے ہرا دیا جس کے ساتھ ہی پاکستانی ٹیم میڈل کی دوڑ سے باہر ہوگئی ہے۔

عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کی ٹیم میچ کے آغاز سے ہی کھیل پر چھائی رہی اور جلد ہی یکے بعد دیگرے دو گول کرکے مخالف ٹیم پر دباؤ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔

پہلے ہاف میں اسے پاکستانی ٹیم پر چار، صفر سے برتری حاصل تھی۔ دوسرے ہاف میں بھی آسٹریلوی ٹیم نے میچ پر گرفت مضبوط رکھی اور جارحانہ کھیل پیش کرتے ہوئے مزید تین گول کیے۔

سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو یہ میچ جیتنا بہت ضروری تھا۔

گروپ اے میں شامل آسٹریلیا سیمی فائنل کے لیے کوالی فائی کرگیا ہے اور اب تک اپنے گروپ میں پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست ہے۔

اولمپکس ہاکی: آسٹریلیا نے پاکستان کو سات گول سے ہرا دیا

مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر موصول

خلائی گاڑی کی جانب سے بھیجی گئی مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر
امریکی خلائی ادارے ’ناسا‘ کو مریخ پر اترنے والی اپنی خلائی گاڑی سے مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر موصول ہوگئی ہے۔

’ناسا‘ کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دور سے لی گئی سرخی مائل بھورے رنگ کی یہ تصویر مریخ کی سطح پر موجود ایک گڑھے کی شمالی دیوار اور دہانے کی ہے جسے سائنس دانوں نے ’گال کریٹر‘ کا نام دے رکھا ہے۔

’ناسا‘ کے مطابق تصویر خلائی گاڑی ’کیوریوسٹی‘ کے روبوٹک بازو میں نصب کیمرے نے کھینچی ہے۔

یاد رہے کہ ’کیوریوسٹی‘ آٹھ ماہ طویل خلائی سفر کے بعد اتوار کی شب کامیابی سے مریخ کی سطح پر اتر گئی تھی۔ اس سے قبل خلائی گاڑی کے نیچے نصب کیمروں نے اس کے اترنے کے عمل کے دوران میں مریخ کی سطح کی سیکڑوں تصاویر کھینچ کر ’ناسا‘ کو روانہ کی تھیں تاہم سیارے پر اترنے کے بعد خلائی گاڑی کی جانب سے لی گئی یہ پہلی تصویر ہے۔

گو کہ یہ تصویر دھندلی ہے لیکن ’ناسا‘ کے سائنس دانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’کیوریوسٹی‘ میں نصب کیمرے ’ہائی ریزو لوشن‘ تصاویر بھی لینے لگیں گے۔

مریخ پر اتاری جانے والی گاڑی کیوریاسٹی
 اپنے دو سال طویل مشن کے دوران ایک ٹن وزنی اور ایک گاڑی کے حجم کے برابر مکمل طور پر خودکار ’کیوریوسٹی‘ مریخ کی سطح، موسم اور وہاں موجود تابکاری کی مقدار کے جائزے کا کام انجام دے گی۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ ڈھائی ارب ڈالرز مالیت کے اس منصوبے سے اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنا ممکن ہوپائے گا کہ کیا مریخ پر کبھی زندگی موجود تھی اور آیا اس سرخ سیارے پر مستقبل میں کبھی زندگی گزارنے کا امکان ہے یا نہیں۔

مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر موصول

وسکانسن گوردوارے پر فائرنگ سابق امریکی فوجی نے کی

امریکی حکام نے ریاست وسکانسن کے سکھ گوردوارے میں اتوار کو فائرنگ کے ذریعے چھ عبادت گذاروں کو ہلاک کرنے والے شخص کی شناخت ایک سابق امریکی فوجی کے طورپر کی ہے۔

تفتیش کاروں نے پیر کے روز کہا کہ فائرنگ کرنے والے سابق فوجی کا نام ویڈ مائیکل پیج تھا اور اس کی عمر 40 سال تھی۔ اس نے 1990ء میں نوکری سے نکالے جانے سے قبل فوج میں 7 سات سال تک خدمات انجام دیں تھیں۔

تفتش کاروں نے بتایا کہ فوجی کے جسم میں متعدد ٹیٹو بنے ہوئے تھے جن میں سے ایک ٹیٹو 11-9 تھا جو 2001ء کے اس مہلک دہشت گرد حملے کی تاریخ ہے جس میں 3000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح مل واکی شہر کے قریب واقع گوردوارے پر حملہ مقامی دہشت گردی کا واقعہ ہے یا پھر وہ نفرت پر مبنی جرم ہے۔

امریکہ میں آباد جو سکھ پگڑیاں پہنتے ہیں اور داڑھیاں رکھتے ہیں، انہیں غلطی سے مسلمان سمجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ایک ایسی ہی غلطی فہمی کے نتیجے میں 2001ء کے حملوں کے چار دن بعد ایری زونا میں ایک سکھ کو ہلاک کردیا گیا تھا۔

پولیس نے فائرنگ کی وجوہ کا کھوج لگانے کے لیے پیج کے اپارٹمنٹ کی تلاشی لی مگر وہاں سے کچھ نہیں ملا۔

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہا ہے کہ انہیں اس حملے کا سن کر دھچکا لگا اور بہت دکھ ہوا اور انہوں نے اسے ایک انتہائی بزدلانہ واقعہ قرار دیا۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سکھ بھارت میں آباد ہیں۔

حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔

وسکانسن گوردوارے پر فائرنگ سابق امریکی فوجی نے کی

'لندن اولمپکس' کی واحد افغان خاتون ایتھلیٹ

گزشتہ ہفتے جب ’لندن اولمپکس‘ میں خواتین کی 100 میٹر دوڑ کے ابتدائی مرحلے میں تہمینہ کوہستانی نے ’فِنش لائن‘ پار کی تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

لیکن یہ آنسو اس وجہ سے نہیں تھے کہ وہ اس مقابلے میں سب سے آخری نمبرپر آئی تھیں۔ بلکہ ان کے آبدیدہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ’لندن اولمپکس‘ میں اپنے ملک افغانستان کی نمائندگی کرنے والی واحد خاتون ایتھلیٹ تھیں۔

اس 23 سالہ نوجوان ایتھلیٹ نے پیر کو ’وائس آف امریکہ – اردو سروس‘ کے لندن میں موجود نمائندے عادل شاہ زیب کو انٹرویو میں ان مشکل حالات کا تذکرہ کیا جن سے گزر کر وہ اس مقام تک پہنچیں۔

تہمینہ نے بتایا کہ وہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جس سٹیڈیم میں دوڑنے کی مشق کیا کرتی تھیں وہاں نہ صرف انہیں لوگوں کی چبھتی ہوئی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا بلکہ ان پر آوازیں بھی کسی جاتی تھیں۔ تہمینہ کے بقول ان میں سے اکثر لوگ چاہتے تھے کہ وہ گھر ہی سے باہر نہ نکلیں۔

کابل کے ایک ٹیکسی ڈرائیور نے یہ سن کر انہیں سٹیڈیم تک لے جانے سے انکار کردیا تھا کہ وہ لندن میں ہونے والے ’لندن اولمپکس‘ کے مقابلوں میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی واحد خاتون ایتھلیٹ ہوں گی۔

تہمینہ کے بقول اس ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں کہا، ”میری ٹیکسی سے اتر جاؤ میں تمہیں تمہاری منزل تک نہیں لے جانا چاہتا کیوں کہ یہ ٹھیک نہیں۔ تم صحیح لڑکی نہیں ہو“۔

سنہ 1990 کی دہائی میں طالبان حکومت کے دوران میں افغان عورتوں کو ملازمت کرنے، تعلیم حاصل کرنے حتی کہ کسی مرد کے بغیر کہیں آنے جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔

گوکہ 2001ء میں امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت کے خاتمے کےبعد سے افغان عورتوں کی زندگی میں خاصی تبدیلی آئی ہے، افغان معاشرے میں خواتین کے سرگرم کردار کے خلاف موجود مزاحمت اب بھی شدید ہے۔

لیکن اس کے باوجود تہمینہ کوہستانی کا عزم پختہ ہے اور اپنی ہم وطن عورتوں کے لیے ان کا پیغام ہے کہ وہ گھروں سے نکلیں، ایک دوسرے سے رابطے بڑھائیں اور افغان معاشرے میں خود کو درپیش مشکلات کا مل جل کر مقابلہ کریں۔

گوکہ تہمینہ ’لندن اولمپکس‘ میں اپنے وطن کے لیے کوئی تمغہ تو نہیں جیت پائیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کی دنیا کے ان سب سے بڑے مقابلوں میں ان کی شرکت سے افغان عورتوں کے لیے امید کا ایک نیا در در ضرور وا ہوا ہے۔

'لندن اولمپکس' کی واحد افغان خاتون ایتھلیٹ