اتوار, اکتوبر 20, 2013

ہندو ۔ مسلم فسادت میں جنسی زیادتی کے واقعات

بھارتی ریاست اتر پردیش میں گزشتہ ماہ کے ہندو ۔ مسلم فسادات میں قتل اور لُوٹ مار کے علاوہ جنسی زیادتی کے واقعات بھی پیش آئے۔ ایسے صرف پانچ واقعات رپورٹ کیے گئے تاہم خدشہ ہے کہ ان کی تعداد کہیں زیادہ رہی ہے۔

جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بعض خواتین اور ان کے خاندان بد نامی کے خوف سے خاموش رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ فاطمہ کا تعلق بھی ایسے ہی ایک متاثرہ خاندان سے ہے جو اس وقت ضلع مظفر نگر کے علاقے مَلک پور میں ایک امدادی کیمپ میں رہائش پذیر ہے۔

فاطمہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں بتایا کہ سات ستمبر کو شروع ہونے والے تین روزہ فسادات کے دوران چھ افراد ان کے گھر میں گھُس گئے تھے۔ وہ درانتیاں اور تلواریں لیے ہوئے تھے۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ مسلح افراد نے انہیں ایک کرسی پر باندھ دیا اور ان کے سامنے ان کی 17 سالہ بیٹی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر ان کی بیٹی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے کی بات پھیل گئی تو کون اس سے شادی کرے گا۔ انہوں نے کہا: ’’اسے بد چلن قرار دے دیا جائے گا اور ہماری اپنی برادری ہمیں باہر نکال پھینکے گی‘‘۔

ایک 19 سالہ لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ سکوٹر پر اپنے دادا کے ساتھ فساد زدہ علاقے سے فرار ہو رہی تھی جب چھ افراد نے انہیں روکا۔ اس لڑکی نے بتایا کہ وہ اسے قریبی گنے کے کھیت میں لے گئے اور چھ گھنٹے تک زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بعد ازاں گشت پر مامور فوج کے ایک دستے نے اس کی جان بچائی۔

مَلک پور کے کیمپ میں رہائش پذیر فاطمہ اور دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کبھی اپنے گھروں کو نہیں لوٹیں گے۔ اے ایف پی کے مطابق مظفر نگر کے فسادات میں ایسے کئی واقعات پیش آئے۔ تاہم پولیس نے ان فسادات کے نتیجے میں مجرمانہ نوعیت کے جو 280 مقدمات درج کیے ان میں محض پانچ جنسی تشدد سے متعلق تھے۔

ایک وکیل نوشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ خواتین انتقامی کارروائیوں کے خوف کے ساتھ ساتھ پولیس اور عدلیہ پر بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی ایسے معاملات رپورٹ کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’’انتہائی محتاط اندازے کے باوجود، صرف اجتماعی جنسی زیادتی کے کم از کم 50 واقعات پیش آئے ہوں گے۔‘‘

انسانی حقوق کے ایک گروپ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کی صہبا فاروقی کہتی ہیں: ’’جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بعض خواتین نے جرأت کا مظاہرہ کیا اور پولیس تک پہنچیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ حملہ آوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو اس سے دیگر خواتین کے حوصلے بھی ٹوٹے‘‘۔

جنوبی ایشیا کے لیے ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کہتی ہیں: ’’اتر پردیش کی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایسا ماحول پیدا کرے جس میں زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین انصاف کے لیے سامنے آ سکیں۔‘‘

مظفر نگر کے فسادات کے حوالے سے پولیس نے اب تک تقریباً ڈیڑھ سو افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں چار سیاستدان بھی شامل ہیں جن پر مشتعل ہجوم کو اکسانے کا الزام ہے۔

ہفتہ, اکتوبر 19, 2013

مظفر نگر فسادات: رنگ برنگے خیموں تلے امید دم توڑ رہی ہے

سہیل حلیم، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

تشدد میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے
بھاگ کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لی
 پانی پت کے تاریخی میدان جنگ سے صرف تقریباً تیس کلومیٹر دور مغربی اترپردیش کے کچھ دیہی علاقوں میں آپ کو جگہ جگہ رنگ برنگے خیموں کی بستیاں نظر آئیں گی۔

یہ خیمے رنگین ضرور ہیں لیکن ان کے نیچے بقا کی جنگ لڑنے والوں کی زندگی میں کوئی رنگ نہیں۔ ستمبر میں مظفر نگر کے دیہی علاقے جب مذہبی فسادات کی آگ میں جل رہے تھے تو یہ لوگ جان بچانے کے لئے اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگے تھے اور ایک مہینے بعد بھی واپس لوٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

سلمیٰ اور ان کے شوہر بھی ہزاروں مسلمانوں کے اس ہجوم میں شامل ہیں جس نے کیرانا کے قریب ملک پور کے کیمپ میں پناہ لے رکھی ہے۔

’سات ستمبر کی شام مندر سے اعلان کیا گیا کہ گاؤں کے مسلمانوں پر حملہ کرو لیکن کچھ جاٹوں نے ہم سے آ کر کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو کچھ نہیں ہوگا، ہم آپ کی حفاظت کریں گے ۔۔۔ لیکن اگلے دن صبح مار کاٹ شروع ہوگئی۔ ہمارا گھر جلا دیا گیا، ہم جان بچانے کے لئے کھیتوں میں بھاگے ۔۔۔ نفسا نفسی کے اس عالم میں میری چار مہینے کی بچی گھر میں ہی رہ گئی ۔۔۔ اسے زندہ جلا دیا گیا۔‘

مذہبی تشدد میں ایک طرف جاٹ تھے اور دوسری طرف مسلمان۔ اس علاقے میں جاٹوں کی اکثریت ہے اور مسلمان زیادہ تر ان کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ تشدد میں پچاس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے بھاگ کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لی۔ پانچ عورتوں نے اجتماعی ریپ کے مقدمے قائم کرائے ہیں۔

جمیلہ خاتون (اصلی نام نہیں) کی بیٹی ان میں شامل نہیں ہے۔ جب جمیلہ اور ان کے شوہر بچوں کو لے کر بھاگ رہے تھے تو ان کی ایک بیٹی کو حملہ آوروں نے پکڑ لیا۔ اس بچی کی لاش برآمد نہیں کی جاسکی ہے۔

’ہم نے مڑ کر دیکھا تو انہوں نے ہماری بیٹی کو پکڑ رکھا تھا ۔۔۔ ہم واپس نہیں گئے کیونکہ وہ ہمیں بھی مار ڈالتے۔۔۔‘

فسادات کے دوران جنسی زیادتی کے بہت سے الزامات تو سامنے آئے ہیں لیکن سماجی کارکن شبنم ہاشمی کہتی ہیں کہ ان کی صحیح تعداد کا کسی کو اندازہ نہیں کیونکہ دیہی علاقوں میں عورتیں بدنامی کے ڈر سے خاموش ہی رہ جاتی ہیں۔

بنیادی سہولیات سے محروم ان گندے کیمپوں میں اب
امداد کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے
تشدد تو اب ختم ہوگیا ہے لیکن خوف کا ماحول نہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اب ان عارضی کیمپوں میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ زیادہ تر محنت مزدوری کرنے والے غریب لوگ ہیں۔ جس سے بھی بات کریں، زبان پر ایک ہی بات ہے۔

’ہم تو انہیں کی غلامی کرتے تھے، انہوں نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ ہم کسی بھی حالت میں واپس نہیں جائیں گے ۔۔۔ حکومت ہم سے کہہ رہی ہے کہ تمہارے پکے گھر بنوا دیں گے ۔۔۔ لیکن ان لوگوں کا کیا بھروسہ جنہوں نے ہم پر حملہ کیا تھا۔ ہم سڑک پر زندگی گزار لیں گے لیکن واپس نہیں جائیں گا ہماری کوئی مدد کرے یا نہ کرے‘۔

گجرات میں 2002ء کے مذہبی فسادات کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر پہلی مرتبہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ ریاستی حکومت اور ضلع انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ تمام ملزمان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ دو ارکان اسمبلی سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایک رکن پارلیمان کو گرفتار کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے مرنے والوں کے لواحقین کے لئے سرکاری  نوکریوں اور تمام متاثرین کے لئے معاوضہ کا اعلان کیا ہے۔

مقامی لوگ بھی مانتے ہیں کہ متاثرین کے لئے اب اپنے گھروں کو لوٹنا آسان نہیں ہوگا ’کیونکہ دیہی علاقوں میں دشمنی آسانی سے ختم نہیں ہوتی ۔۔۔ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سب کو معلوم ہوتا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے لوگ کون تھے ۔۔۔ یہ غریب لوگ ہیں یہ حملہ آوروں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔‘

بنیادی سہولیات سے محروم ان گندے کیمپوں میں اب امداد کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے اور پلاسٹک کے ان رنگ برنگے خیموں کے نیچے امید دم توڑ رہی ہے۔ یہاں نئی زندگیوں کا آغاز بھی ہے اور تاریک مستقبل کا خوف بھی۔

ان لوگوں کے گھر تو قریب ہیں لیکن منزل بہت دور۔

پیر, اکتوبر 14, 2013

بھارتی مسلمانوں پر مظالم کی داستان

بھارت میں کروڑوں مسلمان آباد ہیں اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود دہشت گرد ہندئوں کے خوف سے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے باوجود کہ بھارت کی مرکزی حکومت میں کئی مسلمان وزیر کے عہدہ پر فائز ہیں وہ بھی مسلمان شہریوں پر ہندو انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے منظم حملوں اور مظالم سے اپنے مسلم بھائیوں کو بچانے سے قاصر ہیں۔ اس کی وجہ شاید مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری اتحاد کا فقدان ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں پر مظالم کی دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بھارتی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ بھی ہو مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیتے چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ ان اداروں میں بھی ہندئوں کی اکثریت ہے۔

بھارت میں ستمبر 2013 میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا واقع پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ سازش کے تحت مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا گیا اور منصوبہ بندی کے تحت بچوں اور خواتین سمیت ہر عمر کے افراد کا نہ صرف قتل عام کیا گیا بلکہ ان کے گھروں، دکانوں میں لوٹ مار کی گئی، مساجد کی بے حرمتی کی گئی، ان کی املاک جلا دی گئیں، مسلمان خواتین کی عزتیں پامال کی گئیں اور مسلمانوں کو ہی گرفتار بھی کیا گیا۔ اور تو اور ان واقعات کی وجہ مسلمانوں کو قرار دیا گیا۔ ستمبر میں جو کچھ ہوا وہ 1980 میں مراد آباد، 1993 میں ممبئی اور 2000 میں گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا تسلسل ہے۔ 

ان خوف زدہ معصوم چہروں اور عمر رسیدہ روتا چہرہ تو دیکھو اور بین کرتی خواتین کو دیکھو ۔ ۔ایک سوال ۔ ۔ ۔ ہمارا کیا قصور ہے؟
ایسے واقعات سن کر مجھے ان لوگوں کی باتیں یاد آتی ہیں جو یہ سب کچھ جاننے کے باوجود قیام پاکستان کو ایک انگریز کے ایجنٹ کی غلطی قرار دیتے ہیں اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کو گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہندئوں کا یہ ظالمانہ سلوک دیکھ کر یہ یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ پاک وطن کسی سازش کے تحت نہیں بلکہ محض اللہ کے حکم سے وجود میں آیا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے جو خواب دیکھا تھا وہ اللہ کی حکمت تھی جس کے بعد قیام پاکستان کی جد و جہد رنگ لائی اور آج ہم کسی بھی ایسے خوف کے بغیر چین کی نیند سوتے ہیں جو ہمارے بھارتی مسلمان بھائیوں کو ہر وقت دامن گیر رہتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی قائداعظم کو برا بھلا اور انگریز کا ایجنٹ کہنے والے اگر پاکستان سے خوش نہیں ہیں تو بھارت کیوں جا کر بسیرا نہیں کر لیتے؟ پاکستان کو برا کہنے والو کیا کبھی تم نے سوچا ہے کہ تم نے اس ملک کو کیا دیا ہے؟ اس ملک کے لئے تم نے کیا کیا ہے؟ اس کے بدلے میں جو تم نے اس ملک سے حاصل کیا ہے۔ اس ملک کی آزاد فضا میں لی ایک ایک سانس کا بدلہ نہیں دے سکتے، یقیناً نہیں دے سکتے۔ یقیناً وہ ایسا نہیں کریں گے کیوں کہ جو سکون انہیں اس پاک سر زمین پر میسر ہے بھارت میں تو کیا دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملے گا۔ اللہ کا شکر ادا نہ کرنے والو یہ تفصیل پڑھو اور پھر شکر ادا کرو اس اللہ کا جس نے ہمیں اپنا وطن عطا کیا۔
اب اس کی تفصیل پڑھیں جو ستمبر میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے شہر مظفر نگر میں مسلمانوں پر بیتی ہے تاکہ آپ کو حقیقت میں اندازہ ہو کہ یہ آزاد وطن کتنی بڑی اللہ کی نعمت ہے؛ 
پڑھتا جا اور شرماتا جا؛


پڑھنے میں دشواری کی صورت میں یہاں کلک کریں اور دوسری صورت میں آپ صفحہ کمپیوٹر میں محفوظ (save) کرکے با آسانی پڑھ سکتے ہیں۔

اتوار, اکتوبر 13, 2013

ننھا داعی

عبدالمالک مجاہد | دین و دانش

جمعہ کو نماز عصر کے بعد باپ بیٹے کا معمول تھا کہ وہ لوگوں کو دین کی دعوت دینے کے لیے اپنے گھر سے نکلتے، بازار کے وسط میں سڑک کنارے کھڑے ہو جاتے، آتے جاتے لوگوں میں اسلامی لٹریچر تقسیم کرتے۔ باپ مقامی ...مسجد میں خطیب ہیں ان کا گیارہ سالہ بیٹا گزشتہ کئی سالوں سے موسم کی شدت کی پروا کیے بغیراپنے والد کے ساتھ جاتا تھا۔

ایمسٹر ڈم ہالینڈ کا دارالحکومت ہے۔ یورپ کا یہ چھوٹا سا ملک بے حد خوبصورت ہے۔ یہاں بے حد و حساب پھول پیدا ہوتے ہیں۔ بارشیں کثرت سے ہوتی ہیں، اس لیے یہاں ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے۔ دودھ کی پیداوار اور اس کی پروڈکٹ کے اعتبار سے یہ ملک بڑا مشہور ہے۔ کتنی ہی مشہور زمانہ کمپنیاں یہاں سے خشک دودھ دنیا بھر میں سپلائی کرتی ہیں۔


اس روز موسم بڑا ہی خراب تھا۔ صبح سے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ یخ بستہ سردی کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے بارش بھی ہو رہی تھی۔ جمعہ کا دن تھا اور معمول کے مطابق باپ بیٹے کو لٹریچر تقسیم کرنا تھا۔ والد تھوڑی ہی دیر پہلے مسجد سے گھر پہنچے تھے۔ انہیں قدرے تھکاوٹ بھی تھی۔ بیٹے نے خوب گرم کپڑے پہنے اور اپنے والد صاحب سے کہنے لگا: ابا جان چلیے! لٹریچر تقسیم کرنے کا وقت ہو چکا ہے۔
مگر بیٹے! آج تو موسم بڑا خراب ہے۔ سردی کے ساتھ ساتھ بارش بھی ہو رہی ہے۔
میں تو تیار ہو گیا ہوں۔ بارش ہو رہی ہے تو پھر کیا ہے؟ یہاں تو بارش کا ہونا معمول کی بات ہے، بیٹے نے جواب دیا۔
بیٹے! موسم کا تیور آج ہم سے یہ کہہ رہا ہے کہ ہم آج گھر پر ہی رہیں، والد نے جواب دیا۔
ابا جان! آپ تو خوب جانتے ہیں کہ کتنے ہی لوگ جہنم کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمیں ان کو بچانا ہے۔ انہیں جنت کا راستہ دکھانا ہے۔ آپ کو تو خوب معلوم ہے کہ جنت کا راستہ نامی کتاب پڑھ کر کتنے ہی لوگ راہِ راست پر آگئے ہیں۔
والد: بیٹے! آج میرا اس موسم میں باہر جانے کا قطعاً ارادہ نہیں ہے کسی اور دن پروگرام بنا لیں گے۔
بیٹا: ابا جان! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آج میں اکیلا ہی ان کتابوں کو تقسیم کر آئوں۔ بیٹے نے اجازت طلب نگاہوں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ والد تھوڑی دیر تردد کا شکار ہوئے اور پھر کہنے لگے: میرے خیال میں تمہارے اکیلے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ کا نام لے کرتم بے شک آج اکیلے ہی چلے جائواور لوگوں میں کتابیں تقسیم کر آئو۔

والد نے بیٹے کو Road to Paradise ’’جنت کا راستہ‘‘ نامی کچھ کتابیں پکڑائیں اور اسے فی اما ن اللہ کہہ کر الوداع کہہ دیا۔ قارئین کرام! اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ہمارے اس ننھے داعی کی عمر صرف گیارہ سال ہے اسے بچپن ہی سے اسلام سے شدید محبت ہے اور وہ نہایت شوق سے دین کے کاموں میں پیش پیش رہتا ہے۔

ننھا داعی گھر سے نکلتا ہے، اس کا رخ بازار کی طرف ہے جہاں وہ کافی عرصہ سے لٹریچر تقسیم کرتا چلا آ رہا ہے۔ اب وہ بازار میں اپنی مخصوص جگہ پر کھڑا ہے وہ اپنی مسکراہٹ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان کو سلام کرتا ہے۔ انہیں روکتا ہے۔ ان سے بات چیت کرتا ہے مسکراتے ہوئے ان سے کہتا ہے: دیکھیے سر!
میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے شدید محبت کرتا ہے۔ وہ انہیں کتاب پیش کرتا ہے، ان سے کہتا ہے: جناب! یہ فری ہے۔ یہ آپ کے لیے ہے۔ ان میں کچھ لوگ اس ننھے لڑکے سے کتاب لے لیتے ہیں کچھ شانے اچکا کر آگے نکل جاتے ہیں۔ کچھ کتابیں تقسیم کرنے کے بعد اب اس کا رخ قریبی محلے کی طرف ہے وہ بعض گھروں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے اگر کوئی باہر نکلتا ہے تو مسکراتے ہوئے اسے کتاب کا تحفہ پیش کرتا ہے۔ کوئی قبول کرلیتا ہے کوئی انکار کرتا ہے مگر وہ ان چیزوں سے بے پروا اپنے مشن میں لگا ہوا ہے۔

کتابیں تقسیم کرتے ہوئے کم و بیش دو گھنٹے گزر چکے ہیں۔ اب اس کے ہاتھوں میں آخری کتاب رہ گئی ہے۔ وہ اس سوچ میں تھا کہ یہ آخری کتاب کسے دی جائے۔ اس نے گلی میں آنے جانے والے کئی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انہیں کتاب دینے کی پیش کش کی، مگر انہوں نے تھینک یو کہہ کر انکار کیا اور آگے چل دئیے۔

گلی میں ایک جگہ جہاں بہت سارے گھر ایک ہی ڈیزائن کے بنے ہوئے ہیں وہ ان میں سے ایک گھر کا انتخاب کرتا ہے اور اس کے دروازے پر جا کر گھنٹی بجاتا ہے، کسی نے جواب نہ دیا۔ اس نے بار بار گھنٹی بجائی، مگر اندر مکمل خاموشی تھی۔ نجانے اسے کیا ہوا۔ یہ اس کے طریق کار کے خلاف تھا کہ وہ کسی کے دروازہ کو اس طرح بجائے مگر آج اس نے دروازہ کو زور زور سے بجانا شروع کر دیا زور سے کہا: کوئی اندر ہے تو دروازہ کھولو۔
 
 اندر بدستور مکمل خاموشی تھی۔ وہ مایوس ہونے لگا، اس نے کچھ سوچا اور آخری بار اپنی انگلی گھنٹی پر رکھ دی۔ گھنٹی بجتی رہی، بجتی رہی… اور آخر کار اسے اندر سے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ اس کے دل کی حرکت تیز ہونے لگی۔ چند لمحوں بعد آہستگی سے دروازہ کھلتا ہے۔
ایک بوڑھی خاتون چہرے پر شدید رنج و غم کے آثار لیے سامنے کھڑی تھی، کہنے لگی: ہاں میرے بیٹے! بتائو میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟
ننھے داعی نے مسکراتے ہوئے کہا: نہایت ہی معزز خاتون! اگر میں نے آپ کو بے وقت تنگ کیا ہے تو اس کے لیے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ دراصل میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے حقیقی اور سچی محبت کرتا ہے۔ آپ کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ میں کچھ کتابیں تقسیم کر رہا تھا۔ میرے پاس یہ آخری کتاب بچی ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ کتاب میں آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ اس کتاب میں کیا ہے؟ یہ آپ کو پڑھنے کے بعد معلوم ہو گا، مگر اتنی بات میں کہے دیتا ہوں یہ کتاب آپ کو آپ کے حقیقی رب کے بارے میں بہت کچھ بتائے گی۔ اسے پڑھ کر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے پیدا کرنے والے نے ہمیں کن مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے اور ہم اپنے رب اپنے خالق اور مالک کو کیسے راضی کر سکتے ہیں۔ بوڑھی عورت نے کتاب وصول کی اور بچے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: جیتے رہو بیٹا، جیتے رہو۔

ننھے داعی کا آج کے لیے مشن مکمل ہو چکا تھا، اس کو جتنی کتابیں تقسیم کرنا تھیں وہ کر چکا تھا۔ اس کا رخ اب اپنے گھر کی طرف تھا۔ یوں بھی شام کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ وہ ہنستا مسکراتا اپنے گھر واپس آ گیا۔

ہفتہ کے ایام جلد ہی گزر گئے۔ آج ایک بار پھر جمعہ کا دن ہے۔ باپ بیٹا حسب معمول جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں ہیں۔ ننھے داعی کے والد نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ نماز پڑھانے کے بعد حسب معمو ل حاضرین سے کہا کہ آپ میں سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہو یا کوئی بات کہنا چاہتا ہو تو اسے بر سر عام ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ وہ اٹھ کر بیان کر سکتا ہے۔
حاضرین میں تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ آج کسی کے پاس کوئی خاص سوال نہیں۔ اچانک پچھلی صفوں پر بیٹھی ہوئی خواتین میں سے ایک بوڑھی خاتون کھڑی ہوتی ہے۔ وہ قدرے بلند آواز میں کہنا شروع کرتی ہے;

خواتین و حضرات! آپ لوگوں میں سے مجھے کوئی بھی نہیں پہچانتا نہ ہی آج سے پہلے میں کبھی اس مسجد میں آئی ہوں۔ میں تو گزشتہ جمعہ تک مسلمان بھی نہ تھی بلکہ میں نے اسلام قبول کرنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔

چند ماہ گزرے میرے خاوند کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد میں اس دنیا میں بالکل تنہا تھی۔ گزشتہ جمعہ کے روز موسم غیر معمولی ٹھنڈا تھا۔ وقفے وقفے سے ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں اس دنیا اور تنہائی سے تنگ آچکی تھی۔ دنیا میں میرا کوئی بھی نہ تھا۔ میں کتنے دنوں سے سوچ رہی تھی کہ میں خود کشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کیوں نہ کر لوں۔

جب میرا خاوند نہیں رہا تو میں اس دنیا میں رہ کر کیا کروں گی۔ بالآخر گزشتہ جمعہ کو میں نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ میں بازار گئی وہاں سے ایک نہایت مضبوط رسی خریدی۔ سیڑھی پر چڑھ کر چھت کے ایک گارڈر سے رسی کو باندھا۔ پھر میں نے رسی کے ایک سرے سے پھندا بنایا، اگلا مرحلہ یہ تھا کہ کرسی کو اپنے قریب کر کے مجھے اس پر پائوں رکھنا تھا اور گلے میں پھندا ڈال کر کرسی کو ٹھوکر مار دینی تھی۔ اس طرح پھندہ میرے گلے میں اٹک جاتا اور میری زندگی کا خاتمہ ہو جاتا۔ جوں ہی میں نے گلے میں رسی ڈالی، نیچے سے گھنٹی بجنے کی آواز آئی۔ پہلے تو میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، مگر گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ میں نے سوچا میرا ملنے والا کون ہو سکتا ہے؟ مدتیں گزر گئی ہیں مجھے کوئی ملنے کے لیے کبھی نہیں آیا۔
میں نے فیصلہ کیا کہ میں گھنٹی کو نظر انداز کر دوں اور خود کشی کر لوں۔ ادھر گھنٹی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ کوئی غیر مرئی طاقت مجھ سے کہہ رہی تھی کہ دیکھو دروازے پر کون ہے؟

لیکن ایک سوال بار بار میرے ذہن میں آ رہا تھا اس دنیا میں تو میرا کوئی بھی نہیں پھر یہ گھنٹی دینے والا کون ہو سکتا ہے؟
اسی دوران کسی نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ میں نے سوچا چلو کوئی بات نہیں، میں خود کشی کے پروگرام کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کر دیتی ہوں چنانچہ میں نے رسی کو گردن سے اتارا، کرسی کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی اور آہستہ آہستہ نچلی منزل کی طرف چل دی۔

میں نے دروازہ کھولا تو ایک بہت پیارے اور خوبصورت بچے کو دیکھا جو مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، مجھے دیکھ کر اسے یوں لگ رہا تھا کہ اسے کوئی بڑی نعمت مل گئی ہو۔ میں نے آج تک اس عمر کے بچے کے چہرے پر اتنی خوبصورت مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ میں بتا نہیں سکتی کہ وہ بچہ مجھے کتنا پیارا لگا۔

اس کے منہ سے نکلنے والے کلمات نہایت پیارے اور دل کش تھے۔ جس انداز سے اس نے میرے ساتھ گفتگو کی وہ ناقابل فراموش تھی۔ اس نے مجھ سے کہا: اے معزز اور محترم خاتون! میں آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کو بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے حقیقی محبت کرتے ہیں اور آپ کا ہر لحاظ سے خیال رکھتے ہیں۔ اس نے ’’جنت میں جانے کا راستہ‘‘ نامی کتاب میرے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا: اسے اطمینان سے ضرور پڑھیے۔

وہ خوبصورت اور روشن چہرے والا بچہ جدھر سے آیا تھا ادھر ہی واپس چلا گیا مگر میرے دل میں شدید ہلچل پیدا کر گیا۔ میں نے دروازہ بند کیا اور نچلی منزل پر ہی بیٹھ کر اس کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھنے لگی۔ میں کتاب پڑھتی چلی گئی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ کتاب میرے لیے اور صرف میرے لیے لکھی گئی ہے۔ میں نے جیسے ہی کتاب ختم کی میرے ذہن میں انقلاب آچکا تھا۔ مجھے روشنی مل گئی تھی۔ میں اوپر والی منزل میں گئی۔ چھت سے رسی کھولی اور کرسی کو پیچھے ہٹا دیا۔ اب مجھے ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہ رہی تھی۔

معزز حاضرین! اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا; میں نہایت سعادت مند اور خوش بخت ہوں کہ میں نے اپنے حقیقی رب کو پہچان لیا ہے۔ میں نے فطرت کو پا لیا ہے۔ میں اب الحمد للہ! مسلمان ہو چکی ہوں۔ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت سے نوازا۔ کتاب کے آخری صفحہ پر اس مرکز کا ایڈریس دیا ہوا تھا میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کر سکوں، خصوصاً اس ننھے سے داعی کا جو میرے پاس نہایت ہی مناسب وقت پر آیا۔ بس یہ چند لمحوں کی با ت تھی اگر وہ نہ آتا تو میں جہنم کا ایندھن بننے ہی والی تھی۔

لوگ حیران و ششدر ہو کر بڑھیا کی بات سن رہے تھے، جب اس کی بات ختم ہوئی تو مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں شاید ہی کوئی آنکھ ہو جس میں آنسو نہ چھلک رہے ہوں۔ مسجد میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ امام مسجد منبر سے نیچے اترے، سامنے والی صف میں ان کا ننھا داعی بیٹا بیٹھا ہوا تھا۔

انہوں نے روتے ہوئے اسے اپنے بازوئوں میں لیا اور سینے سے لگا لیا۔ وہ کہہ رہے تھے: بیٹے! مجھے تم پر فخر ہے۔ تم صحیح معنوں میں ننھے داعی اور مجاہد ہو۔ مسجد میں شاید ہی کوئی شخص ہو جس کی یہ تمنا نہ ہو کہ کاش اس کا بیٹا بھی اس قسم کا داعی ہوتا!!!

مسٹر بین نے اسلام قبول نہیں کیا

گزشتہ کئی دنوں سے سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر ’’مسٹر بین‘‘ کے اسلام قبول کرنے کی جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں، لیکن مسلم ویلیج ڈاٹ کام ویب سائٹ نے اسرائیلی ویب سائٹ میں شائع ہونے والی مسٹر بین کے ایجنٹ کی اس حوالے سے تردید شائع کی ہے۔ جو اس طرح ہے؛

The “Mr. Bean” conversion hoax

by MuslimVillage
Source: MuslimVillage

Filed under: Featured,Lifestyle,People |
0
Rowan+Atkinson+7lgfVeKcZydm
By: MuslimVillage
Source: MuslimVillage
The website alrasub.com was just one among many to try to debunk a viral hoax about the supposed conversion of “Mr. Bean”, Rowan Atkinson.
It appears that the website Israellycool, the source of the “prank”, intended the article in question to be a joke of sorts and it was said that the article itself refuted the “ridiculous” claim. Nevertheless the prank was taken seriously by many.
At any rate the Israellycool website has now, apparently in earnest, published a statement from Mr. Atkinson’s agent denying knowledge of any conversion. The agent reportedly said the following:
“Thanks for your e-mail. I’m afraid that, as far as I’m aware, Rowan has not converted to Islam.”
Whether that is definitive or not is an open question. What is certain, up to this point, is that Mr. Atkinson himself has made no official statement.
Another thing that seems quite obvious is that people, and not just Muslims as Isreallycool seems to think, don’t read and verify these things as they should. Yet for Muslims, who are under some criticism for spreading a false report that identified itself as such, this is cause for reflection – why are we so easily fooled by these foolish things?
Perhaps we would do well to heed the words of Allah, Most High:
“O you who believe, if a profligate brings you a report, verify its correctness, lest you should harm a people out of ignorance, and then become remorseful for what you did.” Quran 49:6
ذیل میں اسرائیلی ویب سائٹ کی پوسٹ کا عکس دیا جا رہا ہے؛
 

منگل, اکتوبر 08, 2013

اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے



اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
مسلمان بھائیو اور بہنو یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات ہم تک بہت صحیح حالت میں پہنچی ہیں، قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین مبارک نہایت ذمہ داری سے بیان کئے گئے ہیں۔ اس لئے ہم پر دین کی تعلیمات پر عمل کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔ وہ ایسے کہ چونکہ ہم تک دین بہت اچھی حالت میں پہنچا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے علماء سے رجوع کرنا بہت آسان ہے، دین سیکھنے کے لئے جتنے ذرائع اس وقت ہمیں میسر ہیں چند سال پہلے اس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ٹیلی فون، انٹرنیٹ، ٹی وی، ریڈیو الغرض بے شمار ذرائع سے ہم دین کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور اس پر عمل کر سکتے ہیں اور اس پر کچھ زیادہ خرچ بھی نہیں ہوتا۔

کیبل کے لئے ہر مہیہ 3 سے 5 سو روپے تک اپنی رضا سے دے دیتے ہیں تو دین کا علم حاصل کرنے کے لئے اگر اس سے دو گنا بھی دینا پڑیں تو یہ ہمارے فائدہ کے لئے ہی ہے۔

قیامت کے روز ہمارے پاس یہ عذر نہیں ہوگا کہ قرآن، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور دین کی تعلیمات سے نا آشنا رہ گئے تھے۔ شاید اس وقت اس قسم کا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اللہ کا دین سیکھیں اور اللہ کے احکامات پر عمل کریں۔ جب تک ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل نہیں کریں یہ معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے سہولیات ہونے کے باوجود دین سیکھا نہ ہی کوشش کی۔ اللہ کے نزدیک دنیا کی کوئی حیثیت نہیں، اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہوگی، جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔ لیکن ہم نے اس چند سال کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے اور روز و شب میں ایسے مصروف رہتے ہیں ابدی زندگی کا ہمیں احساس ہے نہ ہی اللہ سے ملاقات کی تیاری کی فکر ہے۔ ہم اپنے اصل راستے سے غافل ہو گئے ہیں۔ اللہ نے تو ہمیں دنیا میں اپنی عبادت کے لئے بھیجا ہے لیکن ہم کام کرتے ہوئے نماز بھی ادا نہیں کرتے۔ حالاں کہ رمضان میں ہم یہی کام چھوڑ کر نماز انتہائی آسانی سے ادا کر لیتے ہیں اور ہمیں کام کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، کبھی کام کا حرج نہیں ہوا لیکن رمضان گزرتے ہی ہم نماز کی ادائیگی جان بوجھ کر ترک کر دیتے ہیں۔ جس طرح ہم اپنی روز مرہ زندگی میں دیگر کاموں کو پورا پورا وقت دیتے ہیں اس نسبت ہم اپنی اخروی فلاح کے لئے بالکل وقت نہیں نکالتے اور غفلت کا شکار ہیں۔ شاید ہم جن کاموں کو آج زیادہ وقت دے رہے یہں انہی کی وجہ سے آخرت میں ہم سے سوال جواب ہوگا اور ہماری پکڑ ہوگی اور حساب کتاب میں زیادہ وقت لگے گا۔ اپنی مصروفیات کم کرنے کی کوشش کریں اور قرآن کی تلاوت کے لئے وقت نکالیں اور دین کی کتابوں میں وقت صرف کریں اور اللہ کی طرف گھر والوں کو بلائیں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔

أَشْهَدُ أَنْ لّا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
اللہ معاف کرنے والا ہے، اللہ سے ڈریں اور اپنے گناہوں کی توبہ کریں اور اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں، نماز ادا کریں، حلال رزق کمانے کی کوشش کریں، حرام کمائی اور حرام کاموں سے بچیں، دوسروں کے حقوق کا تحفظ کریں۔ قرآن میں اللہ نے واضح فرمایا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے روز ذرہ برابر نیکی اور ذرہ برابر بدی کا حساب ہوگا۔ اس سے اندازہ کریں وہ وقت کتنا سخت ہوگا اور ہم سے تو شاید زیادہ سختی سے حساب کتاب ہوگا کیوں کہ ہمارے پاس اللہ کی تعلیمات بہت صحیح حالت میں پہنچی ہیں اور دین کی تعلیمات سیکھنے اور جاننے کے لئے ہر قسم کے ذرائع بھی ہمیں بہت آسانی سے میسر ہیں۔ اس کے باوجود اگر ہم اللہ کی نافرمانی کریں گے تو یقیناً معاملہ آسان نہیں ہوگا۔

آیئے اللہ سے دعا کرتے ہیں؛
اے اللہ ہماری مدد فرما کہ ہم نیک بنیں اور تیری رضا کے کام کریں، اے اللہ ہم شیطان مردود سے تیری پناہ مانگتے ہیں اور ہر برائی سے تیری پناہ مانگتے ہیں، اے اللہ ہماری مدد فرما ہم پر رحم فرما، اے اللہ ہم پر رحم فرما، اے اللہ ہم پر رحم فرما. اے اللہ قیامت کے دن ہم پر سختی نہ کرنا ہم کمزور ہیں، ہمیں بخش دے اور ہماری لغزشیں معاف فرما، ہمارے کبیرہ اور صغیرہ گناہ معاف فرما۔ آمین ثم آمین۔

جمعرات, اکتوبر 03, 2013

جرمن اتحاد سے متعلق حقائق

جرمنی میں ہر سال 3 اکتوبر کو یوم اتحاد منایا جاتا ہے۔ سابقہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے بعد دونوں حصوں میں ترقیاتی فرق کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ رفتار سست ہے۔

سن 1989ء کے موسم خزاں میں ہزاروں افراد کا سابقہ مشرقی جرمن ریاست کے شہر لائپزگ میں احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم ایک قوم ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سوشلسٹ نظام مزید نہیں چاہتے۔ نومبر میں دیوار برلن کو گرا دیا گیا اور آخر کار 3؍اکتوبر 1990ء کو وفاقی جمہوریہ جرمنی کی متحدہ ریاست وجود میں آئی۔ اس دن دونوں جرمن ریاستیں فیڈرل ریپبلک آف جرمنی اور جرمن ڈیموکریٹک ریبپلک ایک دوسرے میں ضم ہو گئیں۔ اتحاد کے بعد جرمن سیاستدانوں کے سامنے ایک ہی مقصد تھا کہ متحدہ جرمنی کے مشرقی اور مغربی علاقوں کو ایک ہی ترقیاتی سطح پر لایا جائے۔ اتحاد کے بعد 23 برسوں میں کیا کچھ ہوا، اس بارے میں ایک موازنہ پیش ہے۔

سرمایہ کاری؛
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سن 1990ء سے 2010ء تک سابق مشرقی جرمنی کی تعمیر و ترقی کے لیے 1.6 ٹریلین یورو کی خطیر رقم خرچ کی جا چکی ہے۔ اس رقم کا تقریباً 70 فیصد حصہ سماجی کاموں پر خرچ کیا گیا۔ ایک ٹریلین اس وقت بنتا ہے، جب 1 کے ہندسے کے ساتھ 12 مرتبہ صفر لکھا جائے۔ 1.000.000.000.000 دوسرے لفظوں میں ایک ٹریلین ایک ہزار بلین یا دس لاکھ مرتبہ ایک ملین یورو کے برابر بنتا ہے۔

انفراسٹرکچر؛
وفاقی حکومت کی طرف سے 40 ارب یورو مشرقی حصے میں نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے پر خرچ کیے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر 17 نئے ریلوے ٹریک، متعدد سڑکیں اور کئی نئے پل بنائے گئے ہیں۔

تعلیم و تربیت؛
جرمنی کے مشرقی حصے میں 30 یونیورسٹیاں اور 55 ٹیکنیکل کالج ہیں۔ موجودہ جرمنی کے مشرق میں واقع ڈریسڈن یونیورسٹی کا شمار جرمنی کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ مشرقی حصے کی یونیورسٹیوں کا معیار سابقہ مغربی جرمنی کی یونیورسٹیوں کے برابر ہے۔ مجموعی طور پر متحدہ جرمنی میں 370 یونیورسٹیاں اور تقریباً 200 ٹیکنیکل کالج ہیں۔ متحدہ جرمنی کے نئے وفاقی صوبوں میں مجموعی قومی پیداوار کا 2.4 فیصد تعلیم و تحقیق پر خرچ کیا جاتا ہے جب کہ پرانے وفاقی صوبوں میں یہ تناسب 2.9 فیصد بنتا ہے۔

برآمدات؛
سن 2011ء میں متحدہ جرمنی کے مشرقی حصے سے 77 ارب یورو مالیت کا سامان برآمد کیا گیا اور یہ شرح متحدہ جرمنی کی مجموعی برآمدات کے صرف نو فیصد کے برابر تھی۔ مغربی حصے کی برآمدات اس سے دس گنا سے بھی زائد رہی تھیں اور ان کی مجموعی مالیت 787 ارب یورو رہی تھی۔

ملازمتیں اور بےروزگاری؛
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سن 1992ء تک جرمنی کے مشرقی حصے میں ہر تیسرا فرد بےروزگار تھا۔ تاہم سن 2005ء کے بعد سے حالات میں کافی بہتری آئی ہے۔ لیکن اب بھی موجودہ جرمنی کے مشرقی صوبوں میں بےروزگاری کی شرح 10 فیصد بنتی ہے، جو کہ مغربی حصے کی وفاقی ریاستوں میں بے روزگاری کی شرح کے مقابلے میں قریب دگنی ہے۔

آمدنی؛
سابق مغربی جرمنی کے مقابلے میں ماضی کی مشرقی جرمن ریاست میں تنخواہوں کا تناسب اب 50 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ مشرقی صوبوں میں رہنے والا ایک کار مکینک ماہانہ اوسطاً قریب 1600 یورو کماتا ہے جب کہ مغربی حصے میں رہنے والے ایسے ہی ایک کار مکینک کی ماہانہ آمدنی ابھی بھی تقریباً دو ہزار یورو بنتی ہے۔ ملک کے مشرق میں نئے وفاقی صوبوں میں اوسط فی کس سالانہ آمدنی اس وقت 33 ہزار 427 یورو ہے جب کہ مغربی صوبوں میں یہی ماہانہ اوسط 46 ہزار 680 یورو بنتی ہے۔