قتل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
قتل لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ, دسمبر 08, 2012

ڈاکٹر عمران قتل: لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ

ڈاکٹر عمران فاروق
لندن میں میٹروپولیٹن پولیس نے ایم کیو ایم کے ایک کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں ایجویئر کے علاقے میں واقع ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ مارنے اور تلاشی لینے کی تصدیق کی ہے۔ میٹروپولیٹن (میٹ) پولیس کے پریس آفس نے جمعہ کی شب بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بزنس ایڈریس پر تلاشی کا کام دو دن سے جاری تھا۔ میٹ پولیس کے ایک اہلکار جوناتھن نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ چھاپہ جمعرات کو مارا گیا تھا جس کے بعد مفصل تلاشی کا کام شروع ہوا جو جمعہ کی شام کو مکمل کر لیا گیا۔ میٹ آفس کے اہلکار نے ایم کیو ایم کے دفتر سے قبضے میں لیے گئے شواہد کی تفصیل نہیں بتائی۔ پولیس کے مطابق ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے سلسلے میں تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ پولیس نے یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور نہ ہی کسی شخص کو تفتیش کے لیے روکا گیا ہے۔
لندن میں ایم کیو ایم کے ترجمان مصطفٰی عزیز آبادی سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بارے میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بزنس ایڈریس پر پولیس نے چھاپہ مارا ہے انہوں نے کہا کہ ’ایسی کوئی بات نہیں۔‘ مصطفٰی عزیز آبادی نے کہا کہ کل سے اخبار والے یہ خبر اڑاتے پھر رہے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

 گزشتہ ستمبر میٹروپولیٹن پولیس سروس کی انسدادِ دہشت گردی کی ٹیم نے کہا تھا کہ ڈاکٹر فاروق قتل سے چند ماہ پہلے اپنا ایک آزاد سیاسی ’پروفائل‘ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے ڈاکٹر فاروق اپنا سیاسی کیریئر از سر نو شروع کرنے کے متعلق سوچ رہے ہوں۔ اس وجہ سے پولیس ہر اس شخص سے بات کرنا چاہتی ہے جو ڈاکٹر فاروق سے سیاسی حوالے سے رابطے میں تھا۔ پولیس کے علم میں ہے کہ ڈاکٹر فاروق نے جولائی 2010 میں ایک نیا فیس بک پروفائل بنایا تھا اور سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر بہت سے نئے روابط قائم کیے تھے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کی ہلاکت کی دوسری برسی کے موقع پر پولیس نے ایک مرتبہ پھر لوگوں سے اپیل کی کہ اگر ان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو وہ سامنے لائیں۔

پچاس سالہ ڈاکٹر عمران فاروق کو جو سنہ 1999 میں لندن آئے تھے، 16 ستمبر 2010 کو ایجویئر کے علاقے میں واقع گرین لین میں چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اکتوبر میں پولیس کو حملے میں استعمال ہونے والی چھری اور اینٹ بھی ملی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے اور لگتا ہے کہ اس کے لیے دوسرے افراد کی مدد بھی حاصل کی گئی تھی جنہوں نے ہو سکتا ہے جان بوجھ کر یا انجانے میں قتل میں معاونت کی ہو۔

ڈاکٹر عمران قتل: لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ

جمعرات, نومبر 22, 2012

اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی

بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق ممبئی حملوں میں ملوث زندہ بچ جانے والے واحد مجرم اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ اجمل قصاب نے بھارتی صدر سے رحم کی اپیل کر رکھی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ بھارتی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے ایس دھتوالی K. S. Dhatwali کے مطابق اجمل قصاب کو بھارتی شہر پونے کی Yerawada جیل میں مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے پھانسی دی گئی۔ اجمل قصاب کو پھانسی بھارتی صدر پرنب مکھرجی کی طرف سے رحم کی اپیل مسترد کیے جانے کے بعد دی گئی ہے۔ صدر کی جانب سے یہ اپیل 6 نومبر کو مسترد کی گئی تھی۔

اجمل قصاب کو موت کی سزا دینے کی تصدیق وزیر داخلہ سوشیل کمار شینڈے نے بھی کی ہے۔ سوشیل کمار شینڈے کے مطابق 8 نومبر کو قصاب کو پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اجمل قصاب کا ڈیتھ وارنٹ بھی 8 نومبر کو جاری کیا گیا تھا۔ پھانسی دینے کے لیے اجمل قصاب کو ممبئی کی آرتھر روڈ جیل سے پونے کی یراواڈا جیل منتقل کیا گیا تھا۔

رواں برس اگست میں بھارتی سپریم کورٹ نے قصاب کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ قبل ازیں سن 2010ء میں ممبئی حملوں کے اس مرکزی مجرم کو سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ بھارت کی ایک عدالت نے اجمل قصاب کو یہ سزا اس پرعائد کل 86 میں سے چار بڑے الزامات کی بنیاد پر سنائی تھی۔ 22 سالہ قصاب پر عائد الزامات میں بھارت پر جنگ مسلط کرنا، قتل، اقدام قتل، سازش اور دہشت گردی کے الزامات بھی شامل تھے۔

نومبر2008ء میں ممبئی کے مختلف مقامات پر دہشت گردانہ حملوں میں کم از کم 166 افراد ہلاک اور تین سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ان دہشت گردانہ حملوں میں اجمل واحد حملہ آور تھا، جسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت کے مطابق پاکستانی شہری اجمل قصاب کا تعلق عسکری گروپ لشکر طیبہ سے تھا۔

26 نومبر سن 2008 کو ممبئی میں مختلف مقامات پر دس حملہ آوروں نے اچانک حملہ کر دیا تھا۔ بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں سے کوئی ساٹھ گھنٹے تک جاری رہنے والے مقابلے میں 9 حملہ آور ہلاک کر دئے گئے تھے۔

بھارت میں حکومتی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد اجمل قصاب کو سزائے موت سنائے جانے کے حق میں تھی۔ بھارت میں سزائے موت دی جانے کی شرح بہت ہی کم ہے۔ آخری مرتبہ سزائے موت پر عمل سن 2004 میں کیا گیا تھا۔ جبکہ اس سے قبل سن 1998 میں دو مجرمان کو پھانسی دی گئی تھی۔ ممبئی حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے رشتہ داروں نے بھی مطالبہ کر رکھا تھا کہ مجرم کو موت کی سزا دی جائے۔

اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی، بھارتی وزارت داخلہ

جمعرات, ستمبر 06, 2012

فیس بُک پر توہین آمیز پیغامات بھیجنے پر ٹین ایجر لڑکی قتل

پیر کو ہالینڈ کی ایک عدالت نے ایک ٹین ایجر لڑکے کو قتل کے جرم میں جیل بھیج دیا ہے۔ اس نے فیس بُک پر ایک دوسری ٹین ایجر لڑکی کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی اور توہین آمیز پیغامات پوسٹ کیے تھے۔

ولندیزی عدالت نے Jing Hua K کو ایک سال کی قید کی سزا سنائی ہے اور اُسے 2 سال کے لیے نفسیاتی کلینک میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ Jing Hua K نے 14 جنوری کو ہالینڈ کے مشرقی شہر Arnheim میں یہ واردات کی تھی۔ ہالینڈ میں کسی نو عمر کو دی جانے والی یہ سب سے طویل سزائے قید ہے۔ عدالت کا ماننا ہے کہ اس ٹین ایجر لڑکے نے یہ قتل جان بوجھ کر کیا ہے۔ ججوں نے آن لائن پوسٹ کیے گئے فیصلے میں کہا ہے کہ Jing Hua K نے 15 سالہ Joyce Hau، جو اپنی دوستوں میں Winsie کے نام سے مشہور تھی، کا قتل کیا اور اُس کے والد کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی۔

استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ اس نو عمر لڑکی کا قتل دراصل اُس وقت ہوا جب Joyce Hau کی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک پر ایک 16 سالہ دوست جس کا نام Polly w کے ساتھ لڑائی ہوئی۔ استغاثہ کے مطابق Polly w کے بوائے فرینڈ 17 سالہ Wesley C نے تب مبینہ طور پر Jing Hua K کو فون کیا اور اس سے فیس بک پر بھی بات کی اور Joyce Hau کی پوری فیملی کو قتل کرنے کا بندوبست کرنے کو کہا۔

Jing Hua K تب Wesley C کے اکسانے پر Joyce Hau کے گھر پہنچا اور کہا کہ وہ اُسے کچھ دینے آیا ہے۔ جب وہ دروازے پر آئی تو Jing Hua K نے اُس پر خنجر سے متعدد وار کیے اور پھر اس کے والد پر حملہ کیا اور اُسے جان سے مار دینے کی دھمکی دی اور ڈرایا دھمکایا۔ Joyce Hau خون سے لت پت پڑی رہی اور بعد میں اسے ہسپتال پہنچایا گیا جہاں اُس نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے پانچ روز بعد دم توڑ دیا۔

عدالتی ترجمان ژاپ اوؤٹن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس واقعے میں فیس بک کے ذریعے ان نوجوانوں کے درمیان ہونے والی بات چیت اوربحث کی تفصیلات بتانے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ کہتے ہوئے عدالت نے Polly w اور اُس کے بوائے فرینڈ Wesley C کے مقدمات کو التوا میں ڈال دیا ہے اور اس کی اگلی پیشی کے لیے کوئی تاریخ بھی مختص نہیں کی گئی ہے۔

فیس بُک پر توہین آمیز پیغامات بھیجنے پر ایک ٹین ایجر لڑکی کا قتل