ہفتہ, ستمبر 08, 2012

نیل آرم اسٹرانگ کو سمندر برد کیا جائے گا

شکاگو (اے ایف پی) چاند پر قدم رکھنے والے پہلے شخص نیل آرم اسٹرانگ کو سمندر برد کیا جائے گا۔ یہ بات ان کے خاندان کے ترجمان رک ملر نے بتائی۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ یہ ایک پرائیویٹ سروس ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مزید تفصیلات ابھی فوری طور پر دستیاب نہیں۔ 

نیل آرم اسٹرانگ کو سمندر برد 13 ستمبر کو واشنگٹن میں ایک پبلک میموریل کے بعد کیا جائیگا۔ اسٹرانگ کا انتقال گزشتہ دنوں دل کی سرجری میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کے باعث ہوگیا تھا۔ اسٹرانگ کے آخری رسومات میں ناسا کے سربراہ چارلیس بولڈن، موجودہ اور سابقہ خلانورد اور دیگر اہم شخصیات کی شرکت متوقع ہے۔

پاکستانی ماہرین کی 10 سالہ تحقیق: تھیلیسمیا کا علاج دریافت کرلیا گیا


پاکستانی ماہرین نے دوا کے ذریعے تھیلے سیمیا کا علاج دریافت کرلیا۔ یہ کامیابی پاکستانی ڈاکٹروں نے 10 سالہ تحقیق کے بعد حاصل کی ہے۔ معروف امراض خون ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی اور ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری کے مطابق Hydronyurea دوا کے استعمال کروانے سے (جو کہ کسی دوسرے مرض میں استعمال کروائی جاتی ہے) تھیلے سیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں میں خون چڑھانے کا انحصار کم یا بالکل ختم دیکھا گیا۔ تحقیق میں پاکستان میں تھیلے سیمیا کا باعث بننے والی جنیاتی خرابیوں میں سے 5 کی موجودگی میں د وا کے حوصلہ افزاءنتائج نظر آئے۔ پاکستان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز (این آئی بی ڈی) میں تھیلے سیمیا کے 152 مریضوںمیں سے 41 فیصد کو خون چڑھانے سے نجات مل گئی جبکہ 39 فیصد مریضوں میں انتقال خون کی ضرورت نصف رہ گئی جبکہ باقی 20 فیصد مریضوں میں اس دوا کی وجہ سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ یہ تحقیق امریکا سے شائع ہونے والے طبی جریدے ”جنرل آف پیڈیاٹرک ہیماٹولوجی آن کالوجی“ میں 2011ء میں شائع ہوچکی ہے۔ ماہر امراض خون برائے اطفال ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے اس تحقیق کا آغاز اپریل 2003ء میں 23 مریضورں میں اس دوا کے استعمال سے کیا جبکہ انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی اسی تحقیق پر کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دوا خون کی بیماری SICK-E-CELL-DISEASES کے لئے گزشتہ 20 سالوں سے امریکی ادارے (ایف ڈی اے) سے منظور شدہ ہے اس دوا کے استعمال سے این آئی بی ڈی میں تھیلے سیمیا کے 152 مریض بچوں میں سے 41 فیصد کو خون چڑھانے سے نجات مل گئی جبکہ 39 مریضوں میں انتقال خون کی ضرورت نصف رہ گئی تاہم 20 فیصد مریضوں میں اس دوا کی وجہ سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔ اس دوا کے استعمال کے بعد خون نہ لگنے کی و جہ سے کسی بھی مریض کی تلی (Spleen) یا جگر کے حجم میں اضافہ نہیں دیکھا گیا جبکہ چہرے کی بناوٹ میں بہتری، کھیل کود میں بچوں کی دلچسپی، بھوک اور وزن میں بھی اضافہ ہوا۔ مزید تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں الفا تھیلے سیمیا اور بی ٹا تھیلے سیمیا (خلیوں کے اندر موجود پروٹین کا نام) کے امراض کی ایک ہی شخص میں موجودگی 37 فیصد سامنے آئی ہے۔ الفا تھیلے سیمیا کے اعداد و شمار اس سے قبل پاکستان میں دستیاب نہیں تھے۔ اس تحقیق کے بعد تھیلے سیمیا کے مریض کی جنیاتی تشخیص لازمی قرار دی جانی چاہئے۔ اگر جنیاتی طور پر بی ٹا تھیلے سیمیا کی جنین میں تبدیلی یا الفا تھیلے سیمیا کی موجودگی پائی جائے تو اس دوا کے استعمال سے انتقال خون کے عمل کو بند یا کم کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ہر سال پانچ سے 8 ہزار تک بی ٹا تھیلے سیمیا کے مریض پیدا ہوتے ہیں جبکہ 9.8 ملین (carrier) جو خود تو صحت مند ہوتے ہیں مگر ان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے آنے و الے بچوں میں یہ شدید بیماری منتقل کرسکتے ہیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ دوا بین الاقوامی اداروں سے منظوری حاصل نہیں کرلیتی ہے اس دوا کا استعمال صرف اور صرف تحقیق کے لئے خون کے امراض کے ماہر ڈاکٹرز کی نگرانی میں ہونا چاہئے۔ 

ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی کے مطابق تھیلے سیمیا کے مریضوں میں جین میں پائی جانے و الی خرابی کا مطالعہ کرکے ہی تھیلے سیمیا کے مریضوں کا بہتر علاج ممکن ہوسکتا ہے۔ ہیموگلوبین ایف کے اضافے کے بعد روزمرہ کی زندگی کو بہتر، انتقال خون کی ضرورت میں کمی اور جسم میں فولاد میں کمی واقع ہوسکتی ہے اس موضوع پر مزید تحقیقی عمل جاری ہے۔ ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے تھیلے سیمیا کے متعلق بتایا کہ خون کے سرخ خلیوں میں ہیموگلوبین کے بننے کی صلاحیت متاثر ہونے سے 6 ماہ کی عمر تک خون کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے چنانچہ ان بچوں کو زندہ رہنے کے لئے مستقل خون چڑھانا پڑتا ہے۔ یہ عمل ساری ز ندگی جاری رہتا ہے۔ مستقل خون چڑھنے یا چڑھانے کی وجہ سے ان بچوں کے خون میں فولاد کی زیادتی، ہیپاٹائٹس بی، سی اور ایچ آئی وی / ایڈز جیسے مرض ہوسکتے ہیں چنانچہ اگر خون لگانے کی بجائے تھیلے سیمیا یعنی سرخ خلیوںمیں ہیموگلوبین بننے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے دوا دی جائے تو متاثرہ بچے درج بالا پیچیدگیوں (جو خون چڑھانے سے پیدا ہوتی ہیں) سے بچ سکتا ہے اور وہ نسبتاً صحت مند لمبی عمر حاصل کرسکتا ہے۔

یو ایس اوپن: وکٹوریا آزارینکا اور سرینا ولیمز فائنل میں

میچ کے بعد آزارینکا شیراپووا سے مصافحہ کر رہی ہیں
بیلا رس کی ورلڈ نمبر ایک اور موجودہ آسٹریلین چیمپیئن 23 سالہ وکٹوریا آزارینکا روس کی ماریا شاراپووا کو یو ایس اوپن کے سیمی فائنل شکست دے کر فائنل میں پہنچ گئی ہیں۔ آزارینکا نے میچ میں 3-6، 6-2 اور 6-4 سے فتح حاصل کی۔

دوسرا سیمی فائنل سرینا ولیمز نے جیت لیا۔ سرینا کا فائنل میں وکٹوریا آزارینکا سے مقابلہ ہوگا، فائنل میچ ہفتے کو کھیلا جائے گا۔

سرینا ولیمز نے دوسرے سیمی فائنل میں سارہ ایرانی کو 6-1 اور 6-2 سے شکست دی۔ سرینا ولیمز تین مرتبہ یو ایس اوپن ٹائٹل جیت چکی ہیں۔

پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف ٹی 20 سیریز جیت لی

واشنگٹن — تین ٹی 20 میچز کی سیریز کے دوسرے میچ میں پاکستان نے آسٹریلیا کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد شکست دے کر سیریز 0-2 سے جیت لی ہے۔

دبئی میں جمعے کو کھیلے گئے میچ میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر 151 رنز بنائے تھے۔ جواباً آسٹریلیا کی ٹیم بھی مقررہ 20 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 151 رنز بنا سکی۔

میچ ٹائی ہو جانے کے بعد اس کا فیصلہ سپر اوور کے ذریعے ہوا جس میں آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ایک وکٹ کے نقصان پر 11 رنز بنائے۔ جواباً پاکستان کے عمر اکمل اور عبدالرزاق نے چھ گیندوں پر 12 رنز کا ہدف حاصل کرکے پاکستان کو فتح دلا دی۔

اس سے قبل پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے آسٹریلیا کو جیت کے لیے 152 رنز کا ہدف دیا۔ کپتان محمد حفیظ اور ناصر جمشید 45، 45 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جب کہ کامران اکمل نے 43 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی۔

جواباً آسٹریلیا کی بیٹنگ لائن کو پاکستانی بالرز کے سامنے جم کر کھیلنے میں واضح مشکلات درپیش رہیں اور وقفے وقفے سے کینگروز کی وکٹیں گرنے کا سلسلہ جاری رہا۔

پاکستان کی جانب سے عبدالرزاق اور سعید اجمل نے 2، 2 جب کہ سہیل تنویر اور عمر گل نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

اس سے قبل سیریز کے پہلے میچ میں پاکستان نے 7 وکٹوں سے فتح حاصل کی تھی۔ سیریز کا تیسرا اور آخری میچ پیر کو کھیلا جائے گا۔

پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف ٹی 20 سیریز جیت لی