منگل, اگست 14, 2012

سعید اجمل کرکٹر آف دی ایئر کے لیے نامزد

سعید اجمل
پاکستانی آف سپنر سعید اجمل کو بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے دو ہزار بارہ کے ایوارڈز میں سال کے بہترین کرکٹر کے اعزاز کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

اس ایوارڈ کے لیے ان کا مقابلہ جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ، آسٹریلیا کے کپتان مائیکل کلارک، سری لنکن بلے باز کمارا سنگاکارا، انگلش اوپنر الیسٹر کک اور ویسٹ انڈیز کی خاتون کرکٹ سٹیفنی ٹیلر سے ہوگا۔

سعید اجمل اس کے علاوہ ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ کے بہترین کھلاڑی کے ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیے گئے ہیں۔

ایک روزہ کرکٹ کے بہترین نامزد کھلاڑیوں کی فہرست میں ایک اور پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی کا نام بھی شامل ہے۔ ان دونوں کے علاوہ پاکستان کے کپتان محمد حفیظ کو ٹی ٹوئنٹی کی بہترین کارکردگی اور سپرٹ آف کرکٹ ایوارڈ کے لیے نامزدگی ملی ہے۔ پاکستان کے نوجوان فاسٹ بولر جنید خان کو سال کے بہترین ابھرتے ہوئے کھلاڑی کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

امپائرنگ کے شعبے میں پاکستان کے دو امپائر علیم ڈار اور اسد رؤف کو آئی سی سی کی فہرست میں جگہ ملی ہے۔ علیم ڈار تین مرتبہ سال کے بہترین امپائر کی ٹرافی جیت چکے ہیں۔

آئی سی سی ایوارڈز دو ہزار بارہ کی تقریب پندرہ ستمبر کو کولمبو میں منعقد ہوگی۔


سعید اجمل کرکٹر آف دی ایئر کے لیے نامزد

اولمپک میں ناکامی، ”سونا بھی کھوٹا اور سنار بھی“

لندن اولمپکس میں پاکستان کے جن اکیس ایتھلیٹس نے شرکت کی ان میں سے کوئی دوسرے راؤنڈ میں بھی قدم نہ رکھ سکا۔ اس طرح پاکستان دنیا کے ان ایک سو بیس بدقسمت ملک میں سے ایک رہا جن کے دستے لندن سے خالی ہاتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔

پاکستان کو لندن کھیلوں میں سب سے زیادہ امیدیں حسب روایت ہاکی سے تھیں جن پر آسٹریلیا کے ہاتھوں گروپ میچ میں سات صفر کی شکست نے پانی پھیر دیا۔

سابق اولمپئنز نے اس سنگین ناکامی پر کھیلوں کے کرتا دھرتاؤں کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔ سابق اولمپئن قمرابراہیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ہاکی ٹیم کی تیاری پر ہاکی فیڈریشن کی انتظامیہ نے ستر کروڑ خرچ کیے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا اور ٹیم گزشتہ اولمپکس کے مقابلے میں صرف ایک درجہ بہتری پا کر ساتویں نمبر پر آئی۔ جس کے بعد ہاکی فیڈریشن کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔

ایک اور اولمپئن ایاز محمود کا کہنا ہے کہ ہاکی فیڈریشن سمیت کھیلوں کی تنظیموں کی باگ ڈور ان لوگوں کے سپرد کرنی چاہیے جنکی کوئی سیاسی وابستگی نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہاکی فیڈریشن کے صدر قاسم ضیاء اور کوچ اختر رسول وغیرہ سب سیاسی وابستگیوں کے سبب کھیل کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے ہاکی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہاکی کے معاملات چلانا ان کے بس میں نہیں اورحکومت کو ان کو گھر بھیج دینا چاہیے۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن نے اولمپکس سے چارماہ پہلے ولندیزی کوچ مشعل وین ڈین کو اچانک برطرف کردیا تھا اور قمر ابراہیم کے مطابق آسٹریلیا اور برطانیہ جیسی ٹیموں کے خلاف دفاعی اور فاروڈ لائن کے جھاگ کی طرح بیٹھنے کا سبب پیشہ ور کوچ کی عدم موجودگی تھی۔ قمر کے بقول مشعل کے کام میں مداخلت ہورہی تھی جس کے بعد وہ دلبرداشتہ ہوکر چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اولمپکس میں ہر پینالٹی کارنر پر صرف ڈائریکٹ گول کرنے کی کوشش کی اور دوسری کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیم کی تیاری نہ ہونے کے برابر تھی۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے لندن اولمپکس میں ٹیم کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیے جانے کو قمر ابراہیم نے شرمناک قرار دیا۔ 

پندرہ سالہ خاتون پیراک انعم بانڈے کو چار سو میٹر انفرادی میڈلے میں چوتھی پو زیشن ملی
لندن اولمپکس میں پاکستانی خاتون ایتھیلٹس رابعہ عاشق کی آٹھ سو میٹر اور لیاقت علی کی سو میٹر کی دوڑ کوالیفائنگ راؤنڈ میں شروع ہوکر وہیں اختتام کو پہنچ گئی۔ دونوں کچھ اس طرح سے پسپا ہوئے کہ اپنے قومی ریکارڈز کو بھی نہ چھوسکے۔

دستے میں شامل پندرہ سالہ خاتون پیراک انعم بانڈے کو چار سو میٹر انفرادی میڈلے میں چوتھی پوزیشن ملی مگر انہی کے ہم وطن اسرار حسین کو سو میٹر فری سٹائل میں آٹھویں اور آخری نمبر پر اکتفا کرنا پڑا۔ جبکہ واحد شُوٹر خرم انعام کے نشانے سڈنی اور ایتھنز کے بعد لندن میں بھی خطا ہوگئے۔

پاکستانی کھلاڑیوں کی اس ناقص کارکردگی کے بارے میں کھیلوں کے معروف تجزیہ کار وحید خان کہتے ہیں کہ ملک میں کرکٹ اور ہاکی کے علاوہ دیگر کھیلوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومت کے علاوہ نجی ادارے بھی کرکٹ کے علاوہ کسی کھیل کو سپانسر نہیں کرتے جس کی وجہ سے کھلاڑی ان کھیلوں میں دلچسپی لینا چھوڑ رہے ہیں۔ وحید خان کے مطابق پاکستانی کھلاڑیوں میں اس شوق اور جنون کا بھی فقدان ہے جو اولمپک کی اصل روح ہے۔

پاکستان نے انیس سو چھپن سے انیس سو بانوے تک ہر اولمپک میں میڈل ضرور جیتا مگر اس کے بعد سے اٹھارہ کروڑ آبادی کے اس ملک کے لیے اولمپک پوڈیم اور طلائی تمغے تک رسائی دیوانے کا خواب بنتی جارہی ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اب سونا بھی کھوٹا ہے اور سنار بھی۔

اولمپک میں ناکامی، ”سونا بھی کھوٹا اور سنار بھی“

مریخ کی پہلی مفصل رنگین تصویر

کیوروسٹی نے ایک اونچے مستول پر نصب وائیڈ اینگل کیمرے کی مدد سے متعدد تصاویر لی تھیں جن میں سے کم ریزولیوشن والی تصاویر کا پینوراما ابتدائی طور پر جاری کیا گیا تھا اور بہتر ریزولیوشن والی تصاویر کے زمین پر پہنچنے کے بعد اب یہ رنگین تصویر سامنے آئی ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس تصویر سے بظاہر مریخ کی سطح امریکہ کے جنوب مغربی علاقے کی سطح سے مشابہ معلوم ہوتی ہے۔

اس تصویر میں گیل نامی اس گڑھے کا ایک حصہ دکھایا گیا ہے جہاں کیوروسٹی اتری تھی۔ اس گڑھے کی دیوار میں وادیوں کا ایک جال دیکھا جا سکتا ہے جو ممکنہ طور پر باہر سے پانی داخل ہونے کے نتیجے میں بنا ہوگا۔

یہ پہلا موقع ہے کہ زمین پر موجود سائنسدان مریخ کی سطح پر کسی دریا یا ندی کے آثار واضح طور پر دیکھ پائے ہیں۔

سائنسدان کیوروسٹی کے اترنے کی جگہ کے جنوبی علاقے کی تصاویر کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں واقع ’ماؤنٹ شارپ‘ کے نام سے معروف پہاڑ کی چوٹی کے دامن تک جا کر اس کی چٹانوں کا مطالعہ اس مشن کا کلیدی مقصد ہے۔

اس چوٹی کا دامن کیوروسٹی کے موجودہ مقام سے ساڑھے چھ کلومیٹر دور ہے اور وہاں پہنچنے میں ایک سال لگ سکتا ہے۔

یہ گاڑی اپنے آلات کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ ماؤنٹ شارپ پر موجود چٹانوں کے بنتے وقت مریخ پر کیا حالات تھے، اور آیا اس سیارے کی تاریخ میں ایسا کوئی دور گزرا ہے جب وہاں کسی قسم کی جراثیمی زندگی موجود ہو۔

کیوروسٹی میں دو کیمرے نصب ہیں جو مل کر سٹیریو یا تھری ڈی تصاویر بنا سکتے ہیں۔ یہ کیمرے مریخ گاڑی کے سائنسی مشن کی منصوبہ بندی اور اس بات کا فیصلہ کرنے میں بے حد اہم ثابت ہوں گے کہ گاڑی کس طرف لے جانی ہے اور کس چٹان پر تحقیق کرنی ہے۔

یہ روبوٹک گاڑی اس علاقے کا معائنہ بھی کرے گی جہاں اس کے اترنے کے عمل کے دوران چلنے والے راکٹ کی وجہ سے کچھ چٹانیں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔

کیوروسٹی مریخ گاڑی کا مشن امریکی شہر پیسا ڈینا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری سے چلایا جارہا ہے اور سائنس دانوں کی ایک بڑی ٹیم گاڑی کے مستقبل میں کیے جانے والے کام کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔

اس ٹیم نے گاڑی کی لینڈنگ سائیٹ کے آس پاس کے علاقے کو ایک اعشاریہ تین ضرب ایک اعشاریہ تین کلومیٹر کے ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے جن کا تفصیلی نقشہ، اور ان کے اندر موجود چٹانوں کے خدوخال مرتب کیے جارہے ہیں۔

سب کو ’یوم‘ ”قیام پاکستان“ مبارک





جیوے جیوے جیوے پاکستان
پاکستان پاکستان جیوے پاکستان

یا اللہ ہمارے پیارے ”پاکستان“ کو شاد آباد اور دشمنوں کی میلی آنکھوں سے محفوظ رکھنا۔  آمین ثم آمین۔ ہماری اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے ملک میں امن، خوشحالی اور استحکام ہو!

راولپنڈی میں اس وقت رات کے تقریباً 11 بجے خوب گھما گھمی ہے، لوگ بچوں اور خواتین کے ساتھ مری روڈ یعنی بے نظیر شہید روڈ پر گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو سجائے اور قومی پرچم لئے لطف اندوز ہورہے ہیں۔