منگل, اگست 14, 2012

اولمپک میں ناکامی، ”سونا بھی کھوٹا اور سنار بھی“

لندن اولمپکس میں پاکستان کے جن اکیس ایتھلیٹس نے شرکت کی ان میں سے کوئی دوسرے راؤنڈ میں بھی قدم نہ رکھ سکا۔ اس طرح پاکستان دنیا کے ان ایک سو بیس بدقسمت ملک میں سے ایک رہا جن کے دستے لندن سے خالی ہاتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔

پاکستان کو لندن کھیلوں میں سب سے زیادہ امیدیں حسب روایت ہاکی سے تھیں جن پر آسٹریلیا کے ہاتھوں گروپ میچ میں سات صفر کی شکست نے پانی پھیر دیا۔

سابق اولمپئنز نے اس سنگین ناکامی پر کھیلوں کے کرتا دھرتاؤں کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔ سابق اولمپئن قمرابراہیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ہاکی ٹیم کی تیاری پر ہاکی فیڈریشن کی انتظامیہ نے ستر کروڑ خرچ کیے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا اور ٹیم گزشتہ اولمپکس کے مقابلے میں صرف ایک درجہ بہتری پا کر ساتویں نمبر پر آئی۔ جس کے بعد ہاکی فیڈریشن کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔

ایک اور اولمپئن ایاز محمود کا کہنا ہے کہ ہاکی فیڈریشن سمیت کھیلوں کی تنظیموں کی باگ ڈور ان لوگوں کے سپرد کرنی چاہیے جنکی کوئی سیاسی وابستگی نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہاکی فیڈریشن کے صدر قاسم ضیاء اور کوچ اختر رسول وغیرہ سب سیاسی وابستگیوں کے سبب کھیل کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے ہاکی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہاکی کے معاملات چلانا ان کے بس میں نہیں اورحکومت کو ان کو گھر بھیج دینا چاہیے۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن نے اولمپکس سے چارماہ پہلے ولندیزی کوچ مشعل وین ڈین کو اچانک برطرف کردیا تھا اور قمر ابراہیم کے مطابق آسٹریلیا اور برطانیہ جیسی ٹیموں کے خلاف دفاعی اور فاروڈ لائن کے جھاگ کی طرح بیٹھنے کا سبب پیشہ ور کوچ کی عدم موجودگی تھی۔ قمر کے بقول مشعل کے کام میں مداخلت ہورہی تھی جس کے بعد وہ دلبرداشتہ ہوکر چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اولمپکس میں ہر پینالٹی کارنر پر صرف ڈائریکٹ گول کرنے کی کوشش کی اور دوسری کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیم کی تیاری نہ ہونے کے برابر تھی۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے لندن اولمپکس میں ٹیم کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیے جانے کو قمر ابراہیم نے شرمناک قرار دیا۔ 

پندرہ سالہ خاتون پیراک انعم بانڈے کو چار سو میٹر انفرادی میڈلے میں چوتھی پو زیشن ملی
لندن اولمپکس میں پاکستانی خاتون ایتھیلٹس رابعہ عاشق کی آٹھ سو میٹر اور لیاقت علی کی سو میٹر کی دوڑ کوالیفائنگ راؤنڈ میں شروع ہوکر وہیں اختتام کو پہنچ گئی۔ دونوں کچھ اس طرح سے پسپا ہوئے کہ اپنے قومی ریکارڈز کو بھی نہ چھوسکے۔

دستے میں شامل پندرہ سالہ خاتون پیراک انعم بانڈے کو چار سو میٹر انفرادی میڈلے میں چوتھی پوزیشن ملی مگر انہی کے ہم وطن اسرار حسین کو سو میٹر فری سٹائل میں آٹھویں اور آخری نمبر پر اکتفا کرنا پڑا۔ جبکہ واحد شُوٹر خرم انعام کے نشانے سڈنی اور ایتھنز کے بعد لندن میں بھی خطا ہوگئے۔

پاکستانی کھلاڑیوں کی اس ناقص کارکردگی کے بارے میں کھیلوں کے معروف تجزیہ کار وحید خان کہتے ہیں کہ ملک میں کرکٹ اور ہاکی کے علاوہ دیگر کھیلوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومت کے علاوہ نجی ادارے بھی کرکٹ کے علاوہ کسی کھیل کو سپانسر نہیں کرتے جس کی وجہ سے کھلاڑی ان کھیلوں میں دلچسپی لینا چھوڑ رہے ہیں۔ وحید خان کے مطابق پاکستانی کھلاڑیوں میں اس شوق اور جنون کا بھی فقدان ہے جو اولمپک کی اصل روح ہے۔

پاکستان نے انیس سو چھپن سے انیس سو بانوے تک ہر اولمپک میں میڈل ضرور جیتا مگر اس کے بعد سے اٹھارہ کروڑ آبادی کے اس ملک کے لیے اولمپک پوڈیم اور طلائی تمغے تک رسائی دیوانے کا خواب بنتی جارہی ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اب سونا بھی کھوٹا ہے اور سنار بھی۔

اولمپک میں ناکامی، ”سونا بھی کھوٹا اور سنار بھی“

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔