چائے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
چائے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر, نومبر 12, 2012

چائے، روسیوں کا پسندیدہ مشروب

سائبریا کے شہر کراسنویارسک میں چائے پینے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔ یہاں ایک ہزار افراد کو بیک وقت ایک ہی میز پر بٹھا کر چائے پلائی گئی ہے۔ اس قسم کا پچھلا ریکارڈ برطانیہ میں قائم کیا گیا تھا جہاں چار سو افراد نے ساتھ مل کر چائے پی تھی۔

روس کا سفر کرنے والے غیرملکی لوگ جانتے ہیں کہ روسیوں کو چائے پینے کا انتہائی شوق ہے۔ تاہم چائے روس کے لیے ایک غیرملکی مشروب ہے۔ روس میں ایک عرصے تک خیال کیا جاتا تھا کہ اٹھارہویں صدی میں بادشاہ پیٹر اول یورپ کے سفر سے چائے لے کر آئے تھے۔ لیکن درحقیقت روس میں چائے سولہویں صدی میں چینی تاجروں کے توسط سے پہنچی تھی۔ یہ مشروب روسی لوگوں کو بہت پسند آیا تھا اور اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھ گئی تھی۔

چین سے روس میں چائے کی برآمد میں اضافہ ہوتا رہا۔ چائے کے عوض روس چین کو کپڑے، چمڑا، سمور اور دھاتیں فراہم کرتا تھا۔ چائے کی فروخت کرنے والے تاجروں کو روس اور چین کے درمیان گیارہ ہزار کلومیٹر کا راستہ طۓ کرنے میں چھہ ماہ لگتے تھے۔ شروع میں چائے بہت مہنگی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت میں کمی ہونے لگی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع میں روس کو کالی اور سبز چائے فراہم کی جاتی تھی لیکن سبز چائے روسیوں کو اچھی نہيں لگی تھی اس لیے چین سے سبز چائے کی برآمد بند کر دی گئی تھی۔

انیسویں صدی کے شروع تک چائے بڑے شہروں میں بہت مقبول ہو چکی تھی۔ ساٹھ فی صد چائے کے شوقین دارالحکومت میں رہتے تھے۔ بعد میں چائے پینے کی روایت ملک بھر میں پھیل گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق جن علاقوں میں چائے کا استعمال بڑھ جاتا تھا وہاں شراب کے استعمال میں کمی ریکارڈ کی جاتی تھی۔

بیسویں صدی کے اوائل میں روس چائے کے استعمال کے حوالے سے دنیا میں پہلے مقام پر تھا۔ روس میں چائے کے ہزاروں ہوٹل اور چائے کی فروخت کرنے والی متعدد دوکانیں موجود تھیں۔ تاہم روس کی سرزمین پر چائے اگانے کی کوششیں ناکام رہی تھیں اس لیے چین سے چائے کی درآمد جاری رہی۔

روس میں چائے پینے کی کچھ روایات وجود میں آئی تھیں۔ کچھ لوگوں میں لیمون، جڑی بوٹیوں یا شہد کے ساتھ چائے پینے کا شوق پیدا ہوا۔ چائے کے لیے خصوصی برتن بنانے والی صنعت قائم ہو گئی۔ چائے بنانے کے لیے استعمال کئے جانے والا برتن سماوار اس قدر مشہور و معروف ہو گیا تھا کہ سماوار روس کا ایک قومی نشان سمجھا جانے لگا۔ سماوار لوہے سے بنا برتن ہوتا ہے جس کے اندر خلا ہوتا ہے۔ اس خلا میں ایندھن رکھ کر پانی ابالا جاتا ہے۔ سماوار مختلف سائز اور اشکال کے ہوتے ہیں، ان کو مختلف طریقوں سے سجایا جاتا ہے۔ تاہم اب روسی لوگ سماوار کے ذریعے چائے بنانے کی عادت فراموش کر چکے ہیں۔

1917 میں پیش آئے اشتراکی انقلاب کے بعد ملک کے نئے حکام نے چین سے چائے کی درآمد پر روس کے انحصار کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یوں سوویت یونین میں چائے کی صنعت کو ترقی دی جانے لگی تھی۔ بیس اور تیس کے عشرے میں سوویت یونین میں اپنی چائے اگائی گئی۔ چائے کے بڑے بڑے کھیت بنائے گئے۔ چائے کی صنعت میں اولین مقام جارجیا اور آذربائجان کو حاصل تھا۔ یوں سوویت یونین چین سے درآمد کردہ چائے پر انحصار کو کم کرنے کے علاوہ اپنی چائے مختلف ممالک میں برآمد کرنے لگا۔

سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد چائے کے کھیت نئے خودمختار ممالک میں رہ گئے اس لیے روس کو چائے کی درآمد دوبارہ شروع کرنی پڑی۔ آج روس چین، ہندوستان، سری لنکا اور کینیا سے چائے خریدتا ہے۔ روس میں بیاسی فی صد لوگ ہر روز کالی چائے پیتے ہیں اور دو اعشاریہ دو فی صد افراد سبز چائے۔ روس میں چائے کا فی کس روزانہ استعمال آدھا لیٹر ہے۔

مختصر یہ کہ روس میں چائے اگرچہ نہیں اگائی جاتی لیکن ملک میں چائے پینے کی صدیوں پرانی روایت موجود ہے۔

چائے، روسیوں کا پسندیدہ مشروب

جمعرات, نومبر 08, 2012

سبز چائے کینسر کے خطرات کم کرنے میں مفید

کینیڈا میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سبز چائے پینے والی خواتین میں کینسر کے مرض کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق بڑھتی عمر کے ساتھ جو خواتین باقاعدگی سے سبز چائے کا استعمال کرتی ہیں وہ معدے، بڑی آنت اور گلے کے کینسر سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ 

باقاعدگی سے سبز چائے استعمال کرنے والی ستر ہزار چینی خواتین پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج کے مطابق دیگر خواتین کی نسبت ان میں معدے کے کینسر کا خطرہ چودہ فیصد کم پایا گیا۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کینسر سے محفوظ رہنے کے لیے مناسب غذا کا استعمال اور صحت مند طرز زندگی اپنانا بھی بے حد ضروری ہے۔

سبز چائے پینے سے کینسر کے خطرات کم ہو جاتے ہیں: تحقیق

بدھ, اگست 29, 2012

سرطان کی روک تھام کے لیے پاکستانی چائے

برطانیہ کے شہر برمنگھم میں آسٹن یونیورسٹی کے ماہرین اور شہر ڈاڈلی کے رسلز ہال ہسپتال کے ڈاکٹروں نے معلوم کیا ہے کہ پاکستان میں پائے جانے والے پودے Fagonia cretica چھاتی کے سرطان کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں اسی مقصد کے لیے یہ پودا استعمال کیا جاتا ہے لیکن مغربی ڈاکٹروں کی نظریں پہلی بار اس پودے پر پڑی ہیں اگرچہ سرطان کی مریض خواتین نے کہا تھا کہ اس پودے سے کام لیتے ہوئے انہیں مضر اثرات سے دو چار نہیں ہونا پڑا جو سرطان کے علاج کے لیے لی جانے والی ادویات کے ساتھ ہمیشہ ہوتا ہے۔ برطانوی ماہرین لیبارٹری میں تجربات کرکے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ پودا سرطان میں مبتلا خیلیوں کو ختم کرنے کے قابل ہے جبکہ صحت مند خلیوں کو اس سے نقصان نہیں پہنچتا۔ اب ماہرین یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ پودے کا کونسا حصہ سرطان کی روک تھام میں مددگار ہوتا ہے اور یہ کہ مریضوں کی طرف سے اس پودے پر مبنی ادویہ کے استعمال سے اتنا اثر ہوگا یا نہیں ہو جیساکہ لیبارٹری میں ہوا ہے۔

سرطان کی روک تھام کے لیے پاکستانی چائے


 اسی بارے میں مزید

چائے خون کا بہاؤ بہتر بناتی ہے

بدھ, جولائی 11, 2012

چائے بھارت کا قومی مشروب

اب بھارت میں لوگ چائے کی چسکی لے کر راحت ہی نہیں فخر بھی محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ چائے جلد ہی قومی مشروب بننے والی ہے۔

بھارتی منصوبہ بندی کمیشن کے نائب صدر مونٹیک سنگھ آہلووالیہ نے کہا کہ چائے کو اگلے سال اپریل میں قومی مشروب کا درجہ دے دیا جائے گا۔

بھارت کی شمالی مشرقی ریاست آسام کے جورہاٹ میں آسام ٹی پلانٹرس ایسوسی ایشن کے 75 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ایک تقریب میں مونٹیک سنگھ آہلووالیہ نے کہا کہ ’آئندہ برس سترہ اپریل کو چائے کو قومی مشروب کے طور پر اعلان کردیا جائے گا۔‘ سترہ اپریل آسام میں چائے اگانے والے پہلے بھارتی اور 1857 کے بغاوت کے ہیرو منيرام دیوان کا یوم پیدائش بھی ہے۔

منیرام دیوان سال 1806 میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک دن کلکتہ میں گھوم رہے تھے کا انہوں نے کچھ انگریز تاجروں کو چائے کے کاروبار سے ہونے والے فائدے کے بارے میں بات کرتے سنا۔

منیرام دیوان نے ان تاجروں کو بتایا کہ آسام، اروناچل پردیش کی سرحد پر قبائلی کچھ اسی طرح کے پودے اگاتے ہیں۔ دیوان کی بات سن کر آسام میں جاکر سب سے پہلے چائے اگانے والے آدمی تھے رابرٹ بروس۔

دیوان نے سال 1845 میں اپنا خود چائے کے باغات لگائے۔ بعد میں انہوں نے انگریزوں کے خلاف 1857 کے غدر میں بھی حصہ لیا جس کی وجہ سے انگریزوں نے انہیں پھانسی پر چڑھا دیا۔

بھارت میں چائے کی اہمیت کے بارے میں بتاتے ہوئے مونٹیک سنگھ اہلووالیہ نے کہا ’چائے کے اہمیت کے پیچھے دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والی ملازمین میں نصف خواتین ہیں اور چائے کی صنعت منظم سیکٹر میں سب سے زیادہ ملازمتیں دینے والی صنعت ہے۔‘

بھارت دنیا میں کالی چائے کی سب سے زیادہ پیداوار کرنے والا ملک ہے اور پوری دنیا میں کالی چائے سب سے زیادہ بھارت میں ہی پی جاتی ہے ۔ ایک سروے کے مطابق بھارت میں 83 فیصد گھروں میں چائے کا استعمال ہوتا ہے۔

ہفتہ, جون 30, 2012

چائے خون کا بہاؤ بہتر بناتی ہے

چائے دل کی طرف خون کے بہاؤ کو بہتر بناتی ہے۔ جاپان کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ کالی چائے پینے سے خون کا بہاؤ دل کی جانب بہتر ہوجاتا ہے اور دل کے امراض کے خطرات کم ہوسکتے ہیں۔ اوساکا سٹی یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کالی چائے کولیسٹرول کی سطح کو نارمل رکھنے، خون میں لوتھٹرے کم کرنے اور خون کی نالیوں کو تنگ ہونے سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

طبی ماہرین نے اس تحقیق کو مکمل کرنے کیلئے ۱۰صحت مند افراد کوچائے پلانے کے بعد ان کی خون کے بہاؤ کو نوٹ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے خون کی گردش پہلے سے زیادہ بہتر ہوگئی ہے۔ جاپانی طبی ماہرین نے اس تجربے کو بنیاد بناکر جب مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کالی چائے نہ صرف دل کی شریانوں کوتنگ ہونے سے روکتی ہے بلکہ انہیں لچکدار اور بہتر بہاؤ کے قابل بھی بناتی ہے۔ اس مقصد کے طبی ماہرین نے الٹرا ساونڈ کی ایک خصوصی تکنیک کو استعمال کیا تھا، جس کو ”سی ایف وی آر“ کہا جاتا ہے۔ طبی ماہرین نے چائے کے ساتھ کیفین ملے دوسرے مشروبات پربھی تجربات کیے تھے مگر چائے کو سب سے مجرب پایا۔


اسی بارے میں مزید

سرطان کی روک تھام کے لیے پاکستانی چائے