ہفتہ, اکتوبر 19, 2013

مظفر نگر فسادات: رنگ برنگے خیموں تلے امید دم توڑ رہی ہے

سہیل حلیم، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی

تشدد میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے
بھاگ کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لی
 پانی پت کے تاریخی میدان جنگ سے صرف تقریباً تیس کلومیٹر دور مغربی اترپردیش کے کچھ دیہی علاقوں میں آپ کو جگہ جگہ رنگ برنگے خیموں کی بستیاں نظر آئیں گی۔

یہ خیمے رنگین ضرور ہیں لیکن ان کے نیچے بقا کی جنگ لڑنے والوں کی زندگی میں کوئی رنگ نہیں۔ ستمبر میں مظفر نگر کے دیہی علاقے جب مذہبی فسادات کی آگ میں جل رہے تھے تو یہ لوگ جان بچانے کے لئے اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگے تھے اور ایک مہینے بعد بھی واپس لوٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

سلمیٰ اور ان کے شوہر بھی ہزاروں مسلمانوں کے اس ہجوم میں شامل ہیں جس نے کیرانا کے قریب ملک پور کے کیمپ میں پناہ لے رکھی ہے۔

’سات ستمبر کی شام مندر سے اعلان کیا گیا کہ گاؤں کے مسلمانوں پر حملہ کرو لیکن کچھ جاٹوں نے ہم سے آ کر کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو کچھ نہیں ہوگا، ہم آپ کی حفاظت کریں گے ۔۔۔ لیکن اگلے دن صبح مار کاٹ شروع ہوگئی۔ ہمارا گھر جلا دیا گیا، ہم جان بچانے کے لئے کھیتوں میں بھاگے ۔۔۔ نفسا نفسی کے اس عالم میں میری چار مہینے کی بچی گھر میں ہی رہ گئی ۔۔۔ اسے زندہ جلا دیا گیا۔‘

مذہبی تشدد میں ایک طرف جاٹ تھے اور دوسری طرف مسلمان۔ اس علاقے میں جاٹوں کی اکثریت ہے اور مسلمان زیادہ تر ان کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ تشدد میں پچاس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے بھاگ کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لی۔ پانچ عورتوں نے اجتماعی ریپ کے مقدمے قائم کرائے ہیں۔

جمیلہ خاتون (اصلی نام نہیں) کی بیٹی ان میں شامل نہیں ہے۔ جب جمیلہ اور ان کے شوہر بچوں کو لے کر بھاگ رہے تھے تو ان کی ایک بیٹی کو حملہ آوروں نے پکڑ لیا۔ اس بچی کی لاش برآمد نہیں کی جاسکی ہے۔

’ہم نے مڑ کر دیکھا تو انہوں نے ہماری بیٹی کو پکڑ رکھا تھا ۔۔۔ ہم واپس نہیں گئے کیونکہ وہ ہمیں بھی مار ڈالتے۔۔۔‘

فسادات کے دوران جنسی زیادتی کے بہت سے الزامات تو سامنے آئے ہیں لیکن سماجی کارکن شبنم ہاشمی کہتی ہیں کہ ان کی صحیح تعداد کا کسی کو اندازہ نہیں کیونکہ دیہی علاقوں میں عورتیں بدنامی کے ڈر سے خاموش ہی رہ جاتی ہیں۔

بنیادی سہولیات سے محروم ان گندے کیمپوں میں اب
امداد کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے
تشدد تو اب ختم ہوگیا ہے لیکن خوف کا ماحول نہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اب ان عارضی کیمپوں میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ زیادہ تر محنت مزدوری کرنے والے غریب لوگ ہیں۔ جس سے بھی بات کریں، زبان پر ایک ہی بات ہے۔

’ہم تو انہیں کی غلامی کرتے تھے، انہوں نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ ہم کسی بھی حالت میں واپس نہیں جائیں گے ۔۔۔ حکومت ہم سے کہہ رہی ہے کہ تمہارے پکے گھر بنوا دیں گے ۔۔۔ لیکن ان لوگوں کا کیا بھروسہ جنہوں نے ہم پر حملہ کیا تھا۔ ہم سڑک پر زندگی گزار لیں گے لیکن واپس نہیں جائیں گا ہماری کوئی مدد کرے یا نہ کرے‘۔

گجرات میں 2002ء کے مذہبی فسادات کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر پہلی مرتبہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ ریاستی حکومت اور ضلع انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ تمام ملزمان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ دو ارکان اسمبلی سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایک رکن پارلیمان کو گرفتار کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے مرنے والوں کے لواحقین کے لئے سرکاری  نوکریوں اور تمام متاثرین کے لئے معاوضہ کا اعلان کیا ہے۔

مقامی لوگ بھی مانتے ہیں کہ متاثرین کے لئے اب اپنے گھروں کو لوٹنا آسان نہیں ہوگا ’کیونکہ دیہی علاقوں میں دشمنی آسانی سے ختم نہیں ہوتی ۔۔۔ سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سب کو معلوم ہوتا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے لوگ کون تھے ۔۔۔ یہ غریب لوگ ہیں یہ حملہ آوروں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔‘

بنیادی سہولیات سے محروم ان گندے کیمپوں میں اب امداد کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے اور پلاسٹک کے ان رنگ برنگے خیموں کے نیچے امید دم توڑ رہی ہے۔ یہاں نئی زندگیوں کا آغاز بھی ہے اور تاریک مستقبل کا خوف بھی۔

ان لوگوں کے گھر تو قریب ہیں لیکن منزل بہت دور۔