شادی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
شادی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ, دسمبر 15, 2012

ودیا بالن، پیا کی ہو گئیں

ودیا بالن اور سدھارتھ رائے کپور
بالی ووڈ کی ممتاز اداکارہ ودیا بالن نے ممبئی میں اپنے بوائے فرینڈ سدھارتھ رائے کپور سے شادی کر لی ہے۔ شادی تامل اور پنجابی روایات کا اتصال اور ملن تھی اور اس میں دولھا اور دلھن کے عزیزوں نے شرکت کی۔ رائے کپور انڈیا میں فلموں اور ٹیلی وژن پروگراموں کی پروڈکشن کرنے والی ایک بڑی کمپنی یو ٹی وی موشن پکچرز کے سی ای او ہیں۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق شادی کی تقریبات کا آغاز 11 دسمبر کو ایک نجی عشائیے سے ہوا، جس کے بعد 12 دسمبر کو مہندی کی رسم ہوئی۔ جوڑا چنائی میں بھی ایک ضیافت دینے والا ہے۔

34 سالہ بالن نے اب تک متعدد ہندی، بنگالی اور ملیالم فلموں میں مرکزی کردار نبھائے ہیں اور اپنی اداکاری پر متعدد ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔ انھوں نے 2005 میں ’پرینیتا‘ سے فلموں میں اداکاری کی ابتدا کی۔ 

ان کی پہلی سپر ہٹ فلم ’لگے رہو منا بھائی‘ تھی۔ انھوں نے پا 2009، عشقیہ 2010، نو ون کِلڈ جیسیکا2011، دی ڈرٹی پکچر 2011 اور کہانی 2012 میں عمدہ اداکاری پر ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔

ودیا بالن، پیا کی ہو گئیں

ودیا بالن صبح سویرے 4 بج کر 45 منٹ پر ایک مندر میں سدھارتھ رائے کپور کی بیوی بن گئیں

جمعرات, دسمبر 13, 2012

ودیا بالن جمعہ کو پیا گھر سدھار جائیں گی

فلم ڈرٹی پکچر سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی معروف بھارتی اداکارہ ودیا بالن کی شادی 14 دسمبر کو تامل اور پنجابی رسم رواج کے مطابق انجام پائے گی۔

ایک بھارت چینل کے مطابق ودیا تامل ہونے کے ناطے سے چاہتی ہیں کہ ان کی شادی تامل رسم رواج کے مطابق انجام پائے جبکہ دوسری طرف ان کے ہونے والے شوہر سدھارتھ رائے کپور پنجابی ہونے کے باعث چاہتے ہیں کہ یہ شادی تامل کے ساتھ ساتھ پنجابی رسم و رواج کے مطابق ہو۔ ودیا بالن کے اہل خانہ نے تصدیق کی ہے کہ شادی کی مرکزی تقریب جمعے کو شہر چھمبور کے مندر میں ہوگی جبکہ بعد ولیمے کی تقریبات میں بالی وڈ کے تمام بڑے ستاروں کو مدعو کیا جائے گا۔

’رقم نہیں دے سکتیں تو مجھ سے شادی کرنا ہوگی‘

افغانستان کے ایک اعلیٰ جج کی خفیہ ریکارڈنگ سامنے آئی ہے جس میں انہیں طلاق کے مقدمے میں مدد مانگنے والی ایک عورت سے رقم اور شادی کا مطالبہ کرتے ہوئے پایا گیا ہے۔ صوتی ریکارڈنگ میں جج ظہورالدین کو سنا جا سکتا ہے کہ وہ 20 سالہ خاتون دیوا سے نہ صرف دو ہزار ڈالر سے زیادہ کی رقم بلکہ ان کا رشتہ بھی مانگ رہے ہیں۔ ریکارڈنگ سامنے آنے کے بعد جج نے ان الزامات سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ شادی کی تجویز محض ایک مذاق تھا۔

دیوا نے افغانستان کے شہر جلال آباد میں ہونے والی یہ گفتگو خفیہ طور پر ریکارڈ کی اور بی بی سی کو حاصل ہونے والی اس ریکارڈنگ میں ظہورالدین دیوا سے ایک لاکھ بیس ہزار افغانی یا دو ہزار امریکی ڈالر نقد رقم کا مطالبہ کرنے کے بعد ان سے بار بار شادی کا مطالبہ دہراتے ہیں۔

دیوا کا کہنا ہے کہ جب وہ مقدمے کی سماعت کے لیے عدالت پہنچیں تو ظہورالدین نے مقدمے میں مدد دینے کے لیے ان کے گھر آنے کی پیش کش کی اور گھر آنے کے بعد جج نے رقم کا مطالبہ کیا۔ دیوا کے مطابق ’جب بات رشوت دینے پر آئی تو میں نے اپنا ریکارڈر آن کر لیا اور ان کی آواز ریکارڈ کرنا شروع کر دی‘۔ دیوا ایک مقامی ریڈیو سٹیشن سے منسلک صحافی ہیں اور انہوں نے ریکارڈنگ کا سامان اپنے لباس میں چھپا رکھا تھا۔ بی بی سی کو حاصل شدہ ریکارڈنگ میں پینسٹھ سالہ جج کو اپنے لیے بیس ہزار جبکہ مقدمے کا فیصلہ کرنے والے جج کے لیے ایک لاکھ افغانی کا مطالبہ کرتے اور دیوا کی جانب سے اتنی رقم کی ادائیگی سے معذوری ظاہر کرنے پر ان سے شادی کا مطالبہ کرتے سنا جا سکتا ہے۔ ظہورالدین کو یہ کہتے بھی سنا جا سکتا ہے کہ ’میں تمہارے لیے بیس لاکھ دوں گا اور تمہیں سر سے پیر تک سونے سے لاد دوں گا‘۔

جب بی بی سی نے مذکورہ جج سے رابطہ کیا اور انہیں ثبوت دکھائے تو ان کا دعویٰ تھا کہ صحافی خاتون نے ریکارڈنگ میں تحریف کی ہے اور یہ سب ان کی ’ترقی روکنے کے لیے مخالفین کی سازش ہے‘۔ شادی کے مطالبے کے حوالے سے ظہورالدین نے کہا کہ وہ سب مذاق تھا لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس پندرہ منٹ کی ریکارڈنگ میں انہوں نے شادی کا مطالبہ پندرہ مرتبہ دہرایا تھا۔ انہوں نےگفتگو کے دوران یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر دیوا کے شوہر کو دھمکا کر شہر سے باہر بھجوا سکتے ہیں۔ دیوا کے اہلخانہ نے یہ صوتی ٹیپ کابل میں سپریم کورٹ کے حوالے کی ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق یہ واقعہ افغانستان کے عدالتی نظام میں پائی جانے والی بدعنوانی کو نمایاں کرتا ہے۔ افغانستان کی بدعنوانی کے نگران ادارے کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔

’رقم نہیں دے سکتیں تو مجھ سے شادی کرنا ہوگی‘

اتوار, دسمبر 02, 2012

ممبئی: ایک دن میں 30 ہزار شادیوں کا ریکارڈ

بھارتی فلم نگری اور کاروباری مرکز ممبئی میں جمعہ کے دن تیس ہزار شادیاں ہوئیں۔ بھارت میں موسم اچھا ہوتے ہی شادیوں کا سیزن شروع ہو گیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ روز ممبئی میں 30 ہزار جوڑے شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ ہندو عقیدے کے مطابق نومبر کی آخری تاریخوں میں شادی ایک اچھا شگون سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارتی شہر ممبئی میں گذشتہ روز 30 ہزار شادیاں ریکارڈ کی گئیں۔ موسم ٹھنڈا ہونے کے باعث مہمان شادی کی تقریب سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ان دنوں ہالز اور ہوٹلز کی بکنگ بھی کئی گنا مہنگی ہو جاتی ہے جس کے لیے انہیں کم از کم دو ماہ پہلے بکنگ کرانا پڑتی ہے۔

ایک دن میں اتنی زیادہ تعداد میں شادیاں ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ہندو کیلنڈر کے مطابق آئندہ برس 7 فروری سے 29 اپریل تک کا وقت شادی کے لئے مناسب نہیں ہے اور جمعہ کا دن شادی کے لئے مبارک قرار دیا گیا تھا۔ ہندو مذہب کے ماننے والے شادی کے لئے وقت کا بہت خیال رکھتے ہیں۔

جمعرات, نومبر 29, 2012

سعودی باشندے کی پرنسپل، ٹیچر اور طالبہ سے شادی

سعودی عرب کے جنوبی صوبہ جازان میں پچاس سال کے ایک سعودی باشندے نے شعبہ تعلیم سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار انوکھے انداز میں اس طرح کیا کہ اس شعبے سے وابستہ ایک ہی سکول کی پرنسپل سمیت ٹیچر اور ایک طالبہ سے شادی رچا لی جبکہ اس کی چوتھی بیوی ایک اور سکول میں کوآرڈینیٹر کے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ 

سعودی اخبار عکاظ کے مطابق چاروں میں سے تین بیویاں جن میں پرنسپل، ٹیچر اور ایک طالبہ ہیں کا تعلق ایک ہی سیکنڈری سکول سے ہے۔ اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پرنسپل بیوی اپنی دیگر ٹیچر اور طالبہ کے ساتھ وہی رویہ اختیار کرتی ہے جو دیگر ٹیچرز اور طالبات کے ساتھ اپناتی ہے جبکہ ان چاروں بیویوں کے مابین مثالی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔
 

دوسری شادی کی خواہش والوں کی مانگ .....


لڑکے کم پڑ گئے ہیں دوسری شادی کے خواہش مند ہمت کرکے گھر سے باہر نکلیں

اتوار, نومبر 18, 2012

بوڑھے سے شادی سے انکار، والد کا لڑکی پر تشدد

بوڑھے شخص سے زبردستی سے شادی انکار پر لڑکی کو قتل کرنے کی کوشش، لڑکی تھانے پہنچ گئی۔۔۔ تشدد کی وجھ سے نوجوان لڑکی کی حآلت خراب ہو گئی تشویشناک حالت میں ہسپتال منقتل داخل کرا دیا گیا۔

ڈھرکی کے نواحی گاؤں صوبیدار مجید اعوان کی رہائشی روبینھ اعوان کی شادی اس کے والد لالچ میں آکر ایک بوڑھے شخص سے کر رہے تھے۔۔۔ کہ لڑکی کے انکار پر اس گھر میں قید کر کے سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔ لڑکی جان بچا کر ڈھرکی تھانھ پہنچ گئی۔۔۔ جہاں پولیس نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔۔۔ تشدد کے باعث روبینھ اعوان بے ھوش ہو گئی جسے تشویش ناک حآلت میں نجی ہسپتال منقتل کیا گیا۔۔۔۔ ہسپتال میں پولیس تعینات ہے اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں روانہ کردی گئی ہیں۔۔۔ ایس ایچ او ڈھرکی کےمطابق لڑکی کو پیر کے روز عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

جمعہ, نومبر 02, 2012

عورتوں کے شادی کے روایتی رجحان میں تبدیلی

حال ہی میں جاری ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدیوں سے جاری شادی کے روایتی رجحان میں تبدیلی ہونے لگی ہے۔ پہلے خواتین شادی کے لئے اعلیٰ سماجی حیثیت کے حامل شخص کو جیون ساتھی بنانا پسند کرتی تھیں لیکن اب اس کے برعکس ہورہا ہے۔ اب خواتین خود سے کم تعلیم یافتہ اور کم کمانے والے شخص سے شادی کرنے کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ 

سپین میں یونیورسٹی کی سطح پر کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ زیادہ تر پڑھی لکھی خواتین مردوں کی انا کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ لیکن اب اس صورت حال کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ محقق البرٹ ایسٹیو کا کہنا ہے کہ خواتین میں تعلیم کی شرح میں اضافے سے سنگل وومن کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم یافتہ خاتون خود کو خود مختار سمجھتی ہے اور شادی کرکے پابندیوں میں جکڑنا نہیں چاہتی، اس لیے وہ ایسا جیون ساتھی ڈھونڈتی ہے جو اس سے کم تعلیم یافتہ اور کم کمانے والا ہو تاکہ وہ بیوی کی عزت کرے۔ 

فرانس، سلووینیا اور منگولیا جیسے 21 ممالک میں خواتین خود سے اعلیٰ مرتبے کے بجائے کم تعلیم یافتہ اور کم وسائل کے مالک مرد سے شادی کو ترجیح دیتی ہیں۔ 1960 کی دہائی سے جاری 56 ممالک میں کی گئی تحقیق کے بعد کہا گیا کہ اب خواتین میں شادی کے انتخاب میں روایتی جمود ٹوٹ چکا ہے۔

مشرقی عورت کے مغربی مسائل

رابعہ کی شادی اپنے برطانوی نژاد پاکستانی کزن سے ہوئی۔ پاکستان میں اپنے گھر والوں سے بچھڑتے وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا شریکِ سفر پہلے ہی کسی اور لڑکی کی محبت میں گرفتارہے، جس نے شادی ماں باپ کے مجبور کرنے پر محض اُن کی خوشی کی خاطر کی ہے؟ اتنا ہی نہیں۔ سسرال میں اُس کی حیثیت ایک ملازمہ سے زیادہ نہیں؟ پردیس میں اِس حقیقت کا سامنا اُس نے بڑی ہمت سے کیا۔ مگر، اِس قربانی کا صلہ اسے طلاق کی صورت میں ملا۔ آج رابعہ برطانیہ کے علاقے شیفیلڈ میں تنہا دو بچوں کےکونسل کےگھر میں رہتی ہے۔ وہ غیر تعلیم یافتہ ہے اور انگریزی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے روزمرہ کے معاملات کی انجام دہی میں اسےکافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رابعہ نے ’وی او اے‘ سے اپنی کہانی اِس طرح بیان کی: میری شادی سنہ 2004 میں آصف سےمیر پور میں ہوئی۔ شادی کے چار ماہ بعد وہ برطانیہ بریڈ فورڈ آئی۔ اُن کا سسرال ساس، سسر، تین نندوں؛ ایک دیورانی اُس کی تین بچیوں، نند کے شوہر اور ایک بچے پر مشتمل تھا۔ ایک اچھی بہو کا فرض نبھاتے ہوئے سسرال کے ہر کام میں حصہ لیا مگر کچھ ہی دنوں بعد تمام کاموں کی ذمہ داری مجھے دے دی گئی اور گھر والوں کا سلوک بھی بدل سا گیا۔ ساس کا کہنا تھا کہ آصف شادی کے بعد گھر میں خرچے کے پیسے نہیں دے رہا ہے۔ لہذا، اسے سب گھر والوں کے کھانا کھانے کے بعد بچا ہوا کھانا ملے گا۔ کئی دفعہ کھانا نہیں بچتا تھا اور اکثر اسے بھوکا رہنا پڑتا۔ 2005ء میں میری بیٹی پیدا ہوئی، مگر آصف نے باپ بننے کا بھی فرض پورا نہیں کیا۔ اپنی بچی کی ضرورتوں کے لیے بھی محتاج تھی۔ روز روز کی لڑائی اور پھر نوبت مار پیٹائی تک جا پہنچی۔ سسرال والوں نے بھی کبھی اُس کا ساتھ نہیں دیا۔ بلکہ، کہا جاتا کے جتنی ذلت ہم تمہاری کرتے ہیں اگر ایک کتے کی بھی کریں تو وہ گھر سے چلا جائے۔

رابعہ نے آنکھوں سے نمی صاف کرتے ہوئے کہا، میری زندگی دن بدں دشوار ہوتی جا رہی تھی۔ سنہ 2009 میں جب دوسری بار آٹھ ماہ کی حاملہ تھی تو اپنی نند کو ویکیوم کرنے کے لیے کہنے پر ایسی سزا دی گئی کہ پانچ دن اور رات اسے ایک ہی جگہ پر بٹھا کر رکھا گیا، ساس نے طنزیہ کہا آج سےسب گھر والے اس کی خدمت کریں گے۔ اس دوران کھانا اس طرح لا کر دیا جاتا جیسے کسی جانور کے آگے رکھا جاتا ہے، مگرایک ایسی بات بھی ہوئی کہ جو میں بتانا نہیں چاہتی، جس نے مجھے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ صبح جب سب سو رہے تھےتو میں نے گھر چھوڑ دیا اور اپنی بچی کے سکول جا پہنچی۔ سکول والوں نے میری روداد سننے کے بعد مجھے فلاحی ادارے کے سپرد کردیا۔ سسرال سے میری کوئی خبر نہیں لی گئی۔ میں نے بریڈ فورڈ سے کہیں اور منتقل کرنے کی درخواست ادارے کو دی جس پر مجھے شیفیلڈ کے رفیوجی کیمپ میں منتقل کردیا گیا۔ یہں میرا بیٹا پیدا ہوا۔ اس بات کی اطلاع آصف کو دی گئی مگر اس نے سنگدلی کی انتہا کرتے ہوئے فون بند کردیا۔

دو سال کچھ ہمسائیوں کی مدد سے اپنی زندگی کی جنگ لڑی۔ تاہم، اکیلے پن سے گھبرا کر ایک دن آصف کو فون کیا۔ آصف بھی مجھ سے ملاقات کے لیےتیار ہوگیا، جبکہ اس کے دل میں اس ملاقات کے پیچھے کوئی اور ہی مقصد تھا، نا کہ میری اور میرے بچوں کی محبت۔ اُس نے شیفیلڈ کے معزز افراد کے سامنے قرآن پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ وہ میرا اور اپنے بچوں کا خیال رکھے گا۔ اس وعدے کے ساتھ وہ ہمیں گھر واپس لے آیا۔ رابعہ نے بتایا کہ اس نے یہ فیصلہ پاکستان میں اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف کیا تھا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک اس سے ناراض ہیں۔ تاہم، ان کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ آصف کچھ عرصہ ہی اپنی بات نبھا سکا اور پھر اپنی پرانی روش پر آگیا۔ ایک دن اچانک آصف نے بتایا کہ اس کی ایک گرل فرینڈ ہے جو ماں بنے والی ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تا کہ سوسائٹی میں بچے کو اپنا نام دے سکے۔ مجھے ایک بار پھر نئی آزمائش کا سامنا تھا۔ اس کی نظر میری چوڑیوں پر تھی میں نے اسے وہ چوڑیاں اتار کردیں تو وہ میرا شکریہ ادا کرنے لگا۔ شادی کے کچھ عرصے تک آصف حسب وعدہ بچوں سے ملنے آتا اور ان کے لیے کچھ رقم بھی دینے لگا۔ ایک دن آصف نے کہا کہ وہ ایک اچھی گاڑی خریدنا چاہتا ہے اور اس کے پاس تھوڑے ہی پیسے کم ہیں۔ کیا میں اس کی مدد کر سکتی ہوں۔ مجھے اس بار بھی اندازا نہیں ہوا کہ اب اس کی نظر میرے ان پیسوں پر ہے جو میں نے پچھلے دو سالوں میں اکیلے رہتے ہوئے بچائے تھے۔ اس دفعہ میں ایک مرتبہ پھر اس کے لہجے سے دھوکا کھا گئی، اور اپنی آخری جمع پو نجی بھی اس کے حوالے کر بیٹھی۔ مگر اس کی گاڑی میں بیٹھنا ہمارا مقدر نہیں تھا۔ اگلے ہی دن آصف سے جھگڑا ہوا کہ وہ وعدے کے مطابق ہمیں زیادہ وقت نہیں دیتا، جس پر وہ مشتعل ہوگیا۔ پہلے اُس نے مجھے دھکا دیا پھرمارا پیٹا۔ اُسی غصے میں اس نے مجھے تیں طلاقیں دیں۔ اور ہمیشہ کے لیے رشتہ ختم کردیا۔ مجھے اس مقام پر لا کر چھوڑا جہاں نہ تو میرے پاس پیسے تھے اور نہ ہی ٹھکانہ۔ ایک طرح سے میں سڑک پر آگئی تھی۔

ایک بار پھر مجھے سٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ سنہ 2012 میں دوبارہ شیفیلڈ واپس آگئی۔ یہاں سٹی کونسل کی جانب سے گھر دیا گیا ہے اور ماہانہ اخراجات کے لیے رقم بھی دی جاتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ برطانیہ میں عورتوں کے لیے بہت سی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ روشنی نام کی ایسی ہی ایک تنظیم نے اس کی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ وہ اپنے گھر سے خالی ہاتھ آئی تھی، کونسل کے ذریعے سامان کا تقاضا آصف سے کیا تو تنگ کرنے کی غرض سے ٹی وی کا ریموٹ، کمپیوٹر کا چارجر، حتٰی کہ بچے کی گاڑی کے ریموٹ جیسی چیزیں بھی واپس نہیں کیں اور کہا کہ میں تمھیں اتنی ذہنی اذیت دوں گا کہ تم اپنا دماغی توازن کھو دو گی۔ تب میں آسانی سے اپنے بچے حاصل کرلوں گا۔ وہ تحریری طلاق دینے پر بھی آمادہ نہیں اور چاہتا ہے کہ طلاق میری طرف سے دائر کی جائے۔ میرے دونوں بچے، ماہین 7 سال اور بیٹا حسن 3 سال اپنے باپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ طلاق کا کیا مطلب ہے اور ضد کرتے ہیں کے انھیں واپس اپنے گھر جانا ہے۔ مجھے قدم قدم پر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بس کا سفر، سکول، بینک، شاپنگ، بلوں کی ادائیگی غرض باہر کی دنیا کا سامنا کرنا میرے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔ فون پر بات کرنا ہو توکسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں آج کل انگریزی سیکھ رہی ہوں جس میں میری بیٹی میری کافی مدد کررہی ہے۔ اس کے بعد ڈرائیونگ سیکھنا چاہتی ہوں، تاکہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوکرمیں بھی برطانوی معاشرے کے ساتھ چل سکوں۔ اپنے بچوں کا بہتر مستقبل میری اولین ترجیح ہے۔ میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر اور بیٹے کو وکیل بنانا چاہتی ہوں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب مغرب میں بسنے والی ایشیائی اور بالخصوص پاکستانی گھرانے اپنے بچوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان سے داماد ا ور بہو لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اِس کی وجوہات کئی ہیں جن میں اپنے خاندان، ذات اور برادری سے لڑکی یا لڑکا لانا، تاکہ خاندان سے رشتہ جڑا رہے، کبھی کبھی مفت کی ملازمہ کا حصول یا پھر اپنےکسی سگے رشتہ دار کو باہر بلا کر سیٹ کرنا شامل ہے۔ اکثر اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے بھی ایسی شادیاں کی جاتی ہیں۔ اپنے اس فیصلے سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ تو زیادتی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، کسی بے گناہ کی زندگی بھی برباد کردیتے ہیں۔ برطانیہ کے بہت سےپاکستانی گھروں میں بچوں کو جبرٍاًٍ شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

رابعہ کی اِس کہانی میں قصور وار کون ہے؟

آپ خود ہی فیصلہ کریں۔

مشرقی عورت کے مغربی مسائل

جمعرات, نومبر 01, 2012

کراچی لاڑکانہ میں ایڈز کے مریضوں میں اضافہ

کراچی: پاکستان میں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے، خصوصاً صوبہ سندھ کے دو شہروں کراچی اور لاڑکانہ میں ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حکومت سندھ کے ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق اس کی بنیادی وجہ منشیات، مرد و خواتین سیکس ورکرز اور تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کےجون 2012ء تک کے اعداد وشمار کے مطابق کراچی میں ایچ آئی وی پوزیٹو مریضوں کی رجسٹرڈ تعداد سب سے زیادہ رہی جو 3 ہزار 5 سو 69 ہے جبکہ یہاں 57 افراد کو ایڈز کا مرض لاحق ہے۔ دوسرا نمبر لاڑکانہ کا ہے جہاں ایچ آئی وی پوزیٹو مریضوں کی تعداد 238 ہے جبکہ تین افراد ایڈز میں مبتلا ہیں۔ 

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ڈاکٹر سلیمان اووڈھو نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بتایا کہ سن 2010ء تک ایڈز کے سب سے زیادہ مریض لاڑکانہ میں تھے جبکہ دو سال بعد کراچی لاڑکانہ سے آگے نکل گیا ہے۔ ڈاکٹر اووڈھو کے مطابق ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کا سبب نوجوانوں میں بہت تیزی سے بڑھتا ہوا منشیات کا استعمال ہے۔ دوسری اہم وجہ غیر محفوظ جنسی تعلقات یا بے راہ روی ہے۔ مریضوں کی بیشتر تعداد اپنی شریک حیات تک محدود نہیں۔ اسی طرح جسم فروشی کرنے والی خواتین خود بھی ایڈز کا شکار ہوجاتی ہیں اور دوسروں کو بھی اس موذی مرض میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں کراچی میں تیسری جنس کے افراد میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اور جنس کے کاروبار میں ان کے ملوث ہونے کا نتیجہ ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کی صورت میں نکل رہا ہے۔ 

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کا ایڈز اور ایچ آئی وی پوزیٹو کے بارے میں شعور پہلے کے مقابلے میں بہتر ہوا ہے لیکن اب بھی لوگوں کو بڑے پیمانے پر آگاہی کی ضرورت ہے۔
 

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

پاکستانی ملبوسات بھارتی مارکیٹ میں

نئی دہلی — پاکستان کے فیشن ڈیزائنرز اپنے تیار کردہ ملبوسات کی فروخت کے لیے بھارتی صارفین تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ دہلی میں حال ہی میں پہلا پاکستانی سٹور کھل گیا ہے جو حریف ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھانے کی جانب ایک اور قدم ہے۔

بھارت میں شادی بیاہ اور تہواروں کے موسم کی آمد آمد ہے اور ہزاروں خواتین نئے اور منفرد ملبوسات کی تلاش میں ہیں۔ اس سال ان کے لیے دارالحکومت نئی دہلی کے ایک متمول علاقے میں پاکستان فیشن ڈیزائن کونسل کے نام سے ایک نیا سٹور بھی موجود ہے۔ افتتاح کے موقع پر سٹور میں جو ملبوسات پیش کیے گئے ہیں ان میں دلہنوں اور شادی بیاہ کے لیے خوبصورت کشیدہ کاری سے مزین ملبوسات بھی شامل ہیں۔ سٹور میں 18 پاکستانی ڈیزائرز کے تیار کردہ ملبوسات رکھے گئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر شوخ رنگوں کا استعمال کیا گیا ہے جن میں سرخ، پیلا اور آرنج خاص طورپر نمایاں ہیں۔ یہ رنگ بھارتیوں کے لیے اپنے اندر ایک خاص کشش رکھتے ہیں۔ جب کہ دیگر ملبوسات میں پاکستان میں مقبول ہلکے رنگوں کا انتخاب بھی شامل ہے۔

پاکستان فیشن ڈیزائن کونسل، بھارتی شراکت دار منی بندرا کے اشتراک سے ایک فرنچائز کے طور پر کھولا گیا ہے۔ جس کا مقصد دونوں مملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات معمول پر لاناہے۔ بندرا کا کہنا ہے کہ ہمارا رابطہ پاکستان کے 18 فیشن ڈیزائرز سے ہے وہ بہت تعاون کررہے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں دو اور بھارت میں ایک سٹور ہے۔ اکنشا بھالے راؤ کا جنہوں نے سٹور قائم کرنے میں مدد فراہم کی ہے کہنا ہے کہ پاکستانی ڈیزائن کے ملبوسات کو اکثر بھارتی بہت پسند کرتے ہیں۔ پاکستان فیشن ڈیزائن کونسل ممبئی اور چندی گڑھ میں بھی اپنے سٹور کھولنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔
 

جمعہ, اگست 24, 2012

عشق اور مشق چھپائے نہیں چھپتا

پاکستانی معاشرے میں پسند کی شادی اب بھی معیوب سمجھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پسند کی شادیوں کا انجام اکثر خوفناک ہی ثابت ہوتا ہے۔ صوبہٴ پنجاب کےشہر چکوال میں ہونے والی ایک حالیہ شادی کا بھی انجام اس سے کچھ مختلف نہیں ہوا، بلکہ اس شادی سے خوفناکی اس حد تک بڑھی کہ انسانیت کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔

محمد افضل پٹھان چکوال کا رہائشی اور نو عمر تھا جبکہ سلمٰی بھی اسی کے علاقے کی رہنے والی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے مگر درمیان میں والدین کی مرضی آڑے آگئی۔

دونوں میں سے کسی کے والدین بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ شادی ہو۔ پاکستانی نجی الیکٹرانک میڈیا کے مطابق گو کہ ان کے پاس شادی نہ کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی مگر یہی کیا کم وجہ تھی کہ اس میں دونوں گھرانے رضامند نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پسند کی شادی پسندیدہ عمل نہیں ہے، اگر یہ شادی ہوگئی تو وہ معاشرے میں کسی سے نظریں نہیں ملا پائیں گے۔

مگر دوسری طرف افضل اور سلمٰی ایک دوسرے کو بھول جانے پر آمادہ نہیں تھے۔ سو، انہوں نے وہی کیا جو اس عمر میں اکثر نوجوان کرتے ہیں۔ گھر سے فرار اور سب سے چھپ کر شادی۔۔!!

کہتے ہیں کہ عشق اور مشق چھپائے نہیں چھپتا سو والدین کو بھی جلد ہی اس شادی کا علم ہوگیا۔ ایک روز لڑکی کے گھر والوں نے شادی پر رضامندی کا بہانہ کرکے دونوں کو گھر بلا لیا مگر اسی رات وہ لرزہ خیز واقعہ ہوگیا جسے سن کر ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

افضل اور سلمٰی کو نیند کی وادیوں میں گئے ہوئے ابھی کچھ لمحے ہی ہوئے ہوں گے کہ سلمٰی کے بھائی نے کمرے میں گھس کر دونوں پر فائرنگ کردی۔ تاہم، اُس کا غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہ ہوا تو اُس نے دونوں کی لاشیں چکوال کے ایک چوک پر لٹکا دیں۔ اُس نے غیرت کے نام پر دوہرے قتل کی واردات انجام دی۔

قتل کے فوری بعد پولیس نے اپنی کارروائی کرتے ہوئے آلہ قتل موقع واردات سے برآمد کرلیا۔ پولیس نے ملزم کو بھی فرار ہونے کا موقع نہیں دیا اور اسے فوری طور پر گرفتار کرلیا۔

پاکستان میں غیرت کے نام پر لڑکیوں اور خواتین کا قتل وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال دو ہزار گیارہ کے دوران تقریباً 219 ایسے کیسز سامنے آئے جن میں خواتین کو اپنی پسند سے شادی کرنے کے نتیجے میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
 

جمعرات, اگست 09, 2012

گیارہ سالہ نا بالغ بچی کی 54 سالہ شخص سے شادی کی کوشش ناکام

ٹھٹھہ کے علاقے سجاول میں پولیس نے گیارہ سالہ لڑکی کی شادی 54 سالہ شخص سے ناکام بناکر لڑکی، اُ س کی ماں اور بھائی سمیت 54 سالہ دولھا کو گرفتار کرلیا۔

پاکستان کے ایک موقر انگریزی روزنامے’ڈان‘ کی خبر کے مطابق، اطلاع پر پولیس نے ماچھی گوٹھ کے ایک مکان میں چھاپہ مار کر 54 سالہ شخص کو نابالغ لڑکی سے شادی کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا۔ لڑکی کی ماں اور بھائی نے گیارہ سالہ لڑکی کو پینتس ہزار روپے میں بیچا تھا۔

سجاول تھانے کے ایس ایس پی عثمان غنی نے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد لڑکی کی ماں اور اس کے بھائی، نکاح خواں اور گواہوں کے خلاف تفتیش شروع کردی ہے۔ انسانی حقوق سیل کے انچارج رفیق سومرو نے بتایا کہ مزید افراد کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔

پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف موجودہ قانون میں لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر سولہ جبکہ لڑکے کی اٹھارہ سال ہے، تاہم اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بچوں کی کم عمری میں شادی کا رواج موجود ہے۔

گیارہ سالہ نا بالغ بچی کی 54 سالہ شخص سے شادی کی کوشش ناکام

جمعہ, جون 29, 2012

کرینہ کپور سیف سے شادی کے لئے مذہب تبدیل نہیں کریں گی

کرینہ کپور، رواں سال اکتوبر میں سیف علی خان سے شادی ضرور کریں گی لیکن اس شادی کے لئے انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ حالانکہ، پٹودی خاندان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 2 خواتین ایسی ہیں جنہوں نے پٹودی خاندان میں شادی کے لئے اپنا مذہب اور نام دونوں تبدیل کرلئے تھے۔
ان خواتین میں سرفہرست ہیں سیف علی خان کی والدہ شرمیلا ٹیگور جو نواب منصور علی خان پٹودی یعنی سیف علی خان کے والد سے شادی کرنے سے قبل بنگال کے ایک ہندو گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، جبکہ دوسری خاتون سیف علی خان کی پہلی بیوی امریتا سنگھ ہیں جو شادی سے قبل سکھ مت کی پیروکار تھیں۔

لیکن، کرینہ کپور ایسا نہیں کریں گی۔ خود سیف علی خان کا مقامی میڈیا سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ وہ شادی کے لئے مذہب کی تبدیلی ضروری نہیں سمجھتے۔ اس لئے انہیں اس بات سےکوئی دلچسپی نہیں کہ کرینہ شادی سے پہلے اسلام قبول کرتی ہیں یا نہیں۔

سیف کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ کرینہ اپنا مذہب تبدیل کریں۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ اسے’اسپیشل میریج ایکٹ‘ میں ترمیم کرنی چاہئیے جس کے تحت 2 مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو آپس میں شادی کرنے سے پہلے اپنا مذہب تبدیل نا کرنا پڑے۔

 سیف کی والدہ شرمیلا نے 43 سال قبل اسلام قبول کرتے ہوئے اپنا نام عائشہ بیگم رکھ لیا تھا جبکہ امریتا سنگھ بھی سکھ مت چھوڑ کر مسلمان ہوگئی تھیں۔