بدھ, اگست 15, 2012

آواز سے چھ گنا تیز رفتار طیارے کا تجربہ

امریکی فوج نے منگل کو بحرالکاہل پر سے پائلٹ کے بغیر چلنے والے ایک انتہائی تیز رفتار طیارہ اڑانے کا تجربہ کیا، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی رفتار آواز کی سے چھ گنا زیادہ تھی۔

امریکی ایئر فورس نے کہاہے کہ تجرباتی طیارہ ویو رائیڈر کو 15000 ہزار میٹر کی بلندی پر بی 52 بمبار طیارے کے بازو سے سے فضا میں چھوڑا گیا۔

جس کے بعد ٹھوس راکٹ بوسٹر اور میزائل کی شکل کے انجن کے استعمال کرنے سے اس کی رفتار 7300 میل فی گھنٹہ بڑھ گئی۔

ویو رائیڈر اپنی پانچ منٹ کی تجرباتی پرواز کے دوران 21000 میٹر کی بلندی پر پہنچ گیا، جس کے بعد وہ غوطہ لگا کر سمندر میں ڈوب گیا۔ فوجی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ان کا طیارے کو سمندر سے نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

اس سےپہلے مئی 2010ء میں ایک اور طیارے کی تجرباتی اڑان میں آواز سے پانچ گنا رفتار کا تجربہ کیا گیا تھا لیکن تکنیکی خرابی پیدا ہوجانے کے سبب اس تجربے کو ادھورا چھوڑنا پڑا تھا۔

امریکہ کے دفاعی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ہائیپرسونک طیارے کے کامیاب تجربوں سے ایک روز امریکی فضائیہ کی قوت کو نمایاں طور پر بڑھانے میں مدد ملے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے کمرشل طیاروںں کی رفتار میں بھی غیرمعمولی اضافہ کیا جاسکتا ہے، جس کے نتیجے میں لندن اور نیویارک کے درمیان پرواز کا دورانیہ سمٹ کر ایک گھنٹے سے بھی کم ہوجائے گا۔

آواز سے چھ گنا تیز رفتار طیارے کا تجربہ

برما: روہنگیا مسلمانوں کے لیے سکول کھولنے پر غور

برما کے صدر تھین سین نے کہا ہے کہ ان کی حکومت اقلتی روہنگیا مسلمانوں میں تعلیم کی شرح بہتر بنانے کے لیے وہاں سکول کھولے گی۔

روہنگیا مسلمان، بودھ اکثریتی ریاست پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ان پر مظالم ڈھا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ کی برمی سروس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں صدر تھین سین نے کہا کہ مختلف کمیونٹیز کے درمیان انسانی حقوق کے احترام اور ہم آہنگی کے فروغ میں مدد کے لیے تعلیم ایک اہم ذریعہ ہے۔

پیر کے روز برما کے دارلحکومت نے پیٹاؤ میں لیے گئے اس انٹرویو میں برما کے صدر نے روہنگیا مسلمانوں کے بنگالی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ان کے علاقوں میں صرف دینی مدرسے ہیں اور بقول ان کے وہاں صحیح تعلیم کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت روہنگیا کے لیے سکول کھولے گی اور انہیں جدید تعلیم فراہم کرنے کے اقدامات کرے گی۔ اور جب وہ تعلیم حاصل کرلیں گے تو وہ اچھے اور برے میں صحیح تمیز کرسکیں گے۔

برما کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو، جن کی تعداد آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے، اپنا شہری تسلیم کرنے اور شہریت دینے سے انکار کرتی ہے۔ اکثر برمی باشندوں کا خیال ہے کہ روہنگیا بنگلہ دیش سے آنے والے غیرقانونی تارکین وطن ہیں۔

مسٹر تھین سین نے یہ بھی کہا کہ وہ برما کے شہریت سے متعلق برما کے 1982 کے قانون کو تبدیل کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جس کے تحت تارکین وطن کی تیسری نسل کو برما کی شہریت حاصل کرنے کا استحقاق حاصل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت حالیہ فسادات کے متاثرین کی مدد کررہی ہے اور انسانی حقوق سے متعلق برما کے آزاد کمشن سے شورش کی تحقیقات کرنے کے لیے کہا ہے۔

مئی میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے نتیجے میں دونوں کمیونیٹز کے 77 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے لیے کسی غیرملکی کمشن کی ضرورت نہیں ہے۔
 

وزیراعظم کے بچنے کا امکان نہیں، اعتزاز احسن

پیپلزپارٹی کے سینیٹر اور عدلیہ بحالی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے والے معروف قانون داں چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ عدلیہ آئینی حدود سے تجاوز کررہی ہے، این آر او عملدرآمد کیس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے بچاؤ کا بھی کوئی امکان نہیں۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ صدرآصف علی زرداری کو فوجداری مقدمات میں آئین نے استثنیٰ دیا ہے۔ ان کے خیال میں اگر وزیراعظم عدالت کے کہنے پر سوئس حکام کو خط لکھتے ہیں تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ عدالت کے پاس آئین تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہے لیکن وہ ایک وزیراعظم کے بعد دوسرے کو گھر بھیج کر کریز سے باہر نکل رہی ہے اور آئینی حدود کے باہر قدم رکھ رہی ہے۔

اعتزاز احسن کے بقول بعض عناصر عدلیہ کو استعمال کررہے ہیں اور سیاسی میدانوں سے معاملات اٹھا کر عدالت میں لے جاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایسے سیاستدان بھی قصور وار ہیں۔
 
ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی درخواست پر عدالت ایک دن میں کمیشن قائم کردیتی ہے، عمران خان کی درخواست کے دوسرے ہفتے بعد وزیراعظم گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن کے دیگر راہنماؤں کی درخواستوں کی فوری سماعت ہوجاتی ہے۔ عدلیہ کو سیاسی مقدمات کے بجائے لوگوں کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ این آر او عملدرآمد کیس میں یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے بعد وہ نہیں سمجھتے کہ عدلیہ اور حکومت کے مابین کوئی درمیانی راستہ نکل سکتا ہے لہذا راجہ پرویز اشرف کے حوالے سے بھی کسی رعایت کا امکان نہیں۔
 
پارلیمنٹ کی مدت مکمل ہونے تک عدلیہ وزیراعظم کو نا اہل قرار دیتی رہے گی جبکہ پارلیما ن نیا وزیراعظم منتخب کرتی رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت پارلیمان کو تحلیل کرسکتی ہے اور نہ ہی فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرسکتی ہے۔
 

خاتون کے کان میں مکڑی

چین میں ایک خاتوں سر کے بائیں جانب کھجلی کی شکایت لے کر چنگشا سینٹرل اسپتا ل آئیں تو ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کے کان کی نالی میں پچھلے پانچ دنوں سے ایک مکڑی رہائش پذیر ہے۔

خبروں کے مطابق ڈاکٹروں نے نمکین پانی کی مدد سے بہا کر اس مکڑی کو کان سے باہر نکالا۔ ڈاکٹروں نے پانی اس لئے استعمال کیا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں مکڑی اور اندر نہ چلی جائے یا خاتون کو کاٹ نہ لے۔

پانی کے ذریعے بہا کر مکڑی کو باہر نکالنے کا طریقہ کامیاب رہا۔ خبروں کے مطابق جب ڈاکٹروں نے خاتون کو بتایا کہ مکڑی ان کے کان سے نکل گئی ہے تو اس کی آنکھیں تشکر کے آنسوؤں سے بھر گئیں۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ یہ مکڑی خاتون کے گھر مرمت کے کام کے دوران داخل ہوئی اور سوتے میں اس کے کان میں گھس گئی۔

سی این این کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں حدت اور خشک سالی کی وجہ سے مکڑیاں اور دوسرے حشرات پورے امریکہ میں بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔

امریکہ میں نیشنل پیسٹ مینجمنٹ میں کام کرنے والے ماہرِ حشرات جم فریڈرکس نے سی این این کو بتایا کہ’’حشرات سرد خون رکھتے ہیں، اس لئے گرمی میں تیزی سے بڑھتے ہیں جس سے اب ان کی زیادہ نسلیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے موسم گرما کی نسبت اس بار زیادہ حشرات نظر آئے ہیں۔‘‘

خاتون کے کان میں مکڑی

روس میں اسلامی ٹی وی چینل کا افتتاح

روس میں پہلے اسلامی ٹی وی چینل کا افتتاح عیدالفطر کے روز انیس اگست کو ہوگا۔ یہ ٹی وی چینل کیبل ٹیلی ویژن کے اس پیکج میں شامل ہوں گی جس میں آرتھوڈکس عیسائیت سے منسوب دو ٹی وی چینل پہلے سے شامل ہیں۔ اسلامی ٹی وی چینل کا نام ”آل آر ٹی وی“ رکھا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اس کے ناظرین کی تعداد کروڑوں میں ہوگی، ٹی وی اور ریڈیو سے متعلق یویشین اکادمی کے صدر اور نئے اسلامی ٹی وی چینل کے مدیر اعلٰی رستم عارف جانوو نے کہا۔ روس میں مسلمانوں اور اسلام میں دلچسپی لینے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مزید برآں اندازہ ہے کہ نئے ٹی وی چینل کی نشریات سی آئی ایس کے دیگر رکن ممالک بالخصوص قزاخستان، آذربائجان اور کرغیزستان میں بھی پیش کی جائیں گی جہاں کی آبادی کو روسی زبان پر عبور حاصل ہے۔ ”آل آر ٹی وی“ چینل کے پروگرام یوکرینی جزیرہ نما کرائیمہ میں بھی دکھائے جائیں گے جہاں مسلمان اقلیت آباد ہے۔

روس میں اسلامی ٹی وی چینل کا افتتاح

گوگل کے’ڈُوڈل‘ فن ہیں یا کاروبار؟

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ گوگل کے ویب صفحے پر کمپنی کے لوگو یا علامتی نشان کی جگہ ہر دن نظر آنے والے ایک نئے ڈیزائن کے پیچھے کس کا دماغ کارفرما ہوتا ہے۔

اس ڈیزائن کو ’ڈوڈل‘ بھی کہا جاتا ہے جسے ہر روز کروڑوں افراد دیکھتے ہیں۔

کبھی ماؤس کے ایک اشارے پر بجنے والا لیس پال گٹار، کبھی رابرٹ موگ کی یاد میں پیك مین گیم تو کبھی اولمپک کھیلوں سے متعلق کارٹون، یہ گوگل کے ہوم پیج پر اب تک کے دکھائی دینے والے کچھ بہترین ’ڈوڈلز‘ میں سے کچھ ہیں۔

جو چیز سنہ انیس سو اٹھانوے میں انگلش میں لکھے گئے گوگل کے لفظ ’او‘ سے بنی ایک شکل ہوا کرتی تھی اب وہ کسی کھیل، مقبول واقعے یا کسی شخصیت سے متعلق ایک فنی شے بن گئی ہے۔

اب تک تقریباً ایک ہزار سے زیادہ ڈوڈلز بن چکے ہیں جو مشہور کے ساتھ ساتھ کم جانی پہچانی شخصیات سے بھی جڑے ہوتے ہیں۔

ان میں سے کچھ تو بہت دلچسپ اور کچھ بےتكے بھی ہوتے ہیں، لیکن انہیں کافی پسند کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ہر روز گوگل کا استعمال کرنے والے کروڑوں لوگوں کی توجہ ان ڈوڈلز کی طرف جاتی ہے۔

لندن میں دو ہزار بارہ کے اولمپکس مقابلے جتنے دن جاری رہے ہر دن کسی ایک کھیل سے منسلک ایک نیا ڈوڈل گوگل کے ہوم پیچ پر نظر آتا رہا۔

کبھی یہاں تیراکی سے متعلق معلومات ہوتی تھیں تو کبھی نشانے بازي سے متعلق، اور ہر نئے ڈوڈل کے ساتھ انٹرنیٹ پر اس سے متعلق ان گنت مضمون پڑھے جاسکتے تھے۔

ہر دن ایک ایسی نئی چیز کے ساتھ لوگوں کو لبھانا کوئی آسان کام نہیں۔ مثلاً چارلي چپلن کے ڈوڈلز دیکھیں تو انہیں دیکھ کر آپ کو اس ٹیم کے بارے میں تھوڑا بہت سمجھ میں آئے گا جو اپنے آپ کو بھی ’ڈوڈلرز‘ کہتے ہیں اور اس کام کو سرانجام دیتے ہیں.

یہ وہ لوگ ہیں جو کیلیفورنیا کے ایک چھوٹے سے آفس میں بیٹھ کر ہر روز ایک نیا ڈوڈل بناتے ہیں۔ ان ڈوڈلز کا بنیادی مقصد دفاتر میں روزمرہ کا کام کررہے لوگوں کی دلچسپی بڑھانا اور انہیں ایک مختلف قسم کا احساس کرانا ہے۔

اس ٹیم کے تخلیقی لیڈر ريان جرمك کے مطابق ان کے دماغ پر کبھی بھی یہ بات حاوی نہیں ہوتی کی ان کے کام کو لاکھوں لوگ دیکھ یا پڑھ رہے ہیں.

جرمك کہتے ہیں، ’انسانی دماغ یہ سمجھ پانے میں ناکام ہے کہ کسی چیز کو لاکھوں لوگ کس طرح سے لیں گے۔ میرے لیے زیادہ معنی یہ رکھتا ہے کہ میں اپنے ساتھیوں اور دوستوں کو کتنا ہنسا سکتا ہوں یا کیسے کوئی نئی ٹیکنالوجی سیکھ سکتا ہوں۔ ہمیں فنکار یا ڈیزائنرز کے زمرے میں مت رکھیں۔ ہم بس یہ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ ہم فن اور ٹیکنالوجی کو سب سے بہتر شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرسکیں‘۔

ان کا ماننا ہے کہ وہ تفریح، فن، ٹیکنالوجی اور گرافک ڈیزائن کے درمیان ایک پل کا کام کرتے ہیں۔

ڈوڈل کا انتخاب اس ٹیم کے لیے روز ایک نیا چیلنج ہوتا ہے۔ گوگل کے صفحے پر کس چیز یا موضوع کو جگہ دینی ہے، اس کا فیصلہ کافی جمہوری طریقے سے کیا جاتا ہے۔

اس میں زیادہ توجہ اس چیز پر دی جاتی ہے کہ جو موضوع منتخب کیا گیا ہے، اس میں حیرت کا عنصر کتنا زیادہ ہے اور اس میں امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک میں واقع گوگل کے دفاتر سے ملنے والی معلومات کی بھی کافی اہمیت ہوتی ہے۔

اس تخلیقی عمل کو دیکھ کر یہ بھی سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا ڈوڈل بنانا ایک فن ہے یا اسے محض کاروباری نظر سے دیکھا جائے؟

فن کے بارے میں جو بات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فن کا کوئی کاروباری پہلو نہیں ہوتا لیکن دیکھا جائے تو ڈوڈل کے معاملے میں تجارتی فن کا ایک عملی پہلو بھی ہے۔

گرافک ڈیزائنر سی سکاٹ کے مطابق ڈوڈلز ایک طرح سے ماڈرن آرٹ کی ہی ایک شکل ہیں لیکن مارکیٹنگ کمپنی سیون براڈز کی چیف ایگزیکٹو آفیسر جیسمن منٹگمري اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔

جیسمن کے مطابق، ’جب آپ کو آپ کی تخلیقی صلاحیت کے لیے پیسے دیے جانے لگتے ہیں تب آپ کا کام فن کے دائرے سے باہر ہوجاتا ہے کیونکہ تب آپ اپنے کاروباری كرتا دھرتا کی بات مانتے ہیں نہ کہ تخلیقی گرو کی‘۔

یہ فن ہے یا کاروبار یا پھر دونوں کا مرکب، اس بات پر بھلے ہی اختلاف ہو لیکن اس بات سے انكار نہیں کیا جاسکتا کہ ڈوڈلز کافی دلچسپ اور دلکش ہوتے ہیں اور جب تک گوگل کا انٹرنیٹ بازار پر تسلط برقرار رہے گا، اس وقت تک اس کے ہوم پیج پر نظر آنے والے ڈوڈلز انٹرنیٹ سرفنگ کا ایک اہم حصہ بنے رہیں گے۔

گوگل کے’ڈُوڈل‘ فن ہیں یا کاروبار؟

قبل از وقت پیدائش کا روزے سے کوئی تعلق نہیں

ایک نئی طبی تحقیق کے مطابق قبل از وقت پیدائش کا روزے سے کوئی تعلق نہیں البتہ روزہ دار حاملہ خواتین کے بچوں کا وزن کچھ کم ہوسکتا ہے۔

لبنانی محققین کی اس تحقیق کی رپورٹ ایک بین الاقوامی طبی جریدے BJOG میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق کے لیے لبنانی دارالحکومت بیروت کی چار سو حاملہ خواتین منتخب کی گئیں تھیں۔ ان میں سے نصف نے رمضان میں روزہ رکھا تھا اور بقیہ نے روزہ نہیں رکھا تھا۔ تحقیق سے ثابت ہوا کہ دونوں گروپس میں 37 ہفتے سے قبل کے بچے کی پیدائش پر روزہ رکھنے یا نا رکھنے سے فرق نہیں پڑا۔

تحقیقی ٹیم کے نگراں پروفیسر انور ناصر کے بقول نتائج نے ایک مرتبہ پھر یہ واضح کردیا ہے کہ روزہ رکھنے سے قبل از وقت بچے کی پیدائش کا کوئی تعلق نہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ روزہ رکھنے والی خواتین کے بچوں کا وزن خاصا کم ہوتا ہے، کیونکہ روزہ رکھنے والی ماؤں کے جسم میں کیلوریز کم پہنچتی ہیں اور ان کا وزن عام دنوں کے مقابلے میں کم بڑھتا ہے۔ اس کا براہ راست اثر بچے پر پڑتا ہے۔ واضح رہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق حاملہ خواتین کے پاس روزہ قضاء رکھنے کی سہولت موجود ہے۔ ناصر کے بقول اس کے باوجود روزہ رکھنے کی خواہشمند حاملہ خواتین ان سے پوچھتی ہیں کہ آیا وہ روزہ رکھ سکتی ہیں؟

روزے کے انسانی صحت پر پڑنے والے مختلف اثرات پر ماضی میں تحقیق ہوچکی ہے مگر حاملہ خواتین پر اس کے اثرات سے متعلق یہ کسی انگریزے جریدے میں چھپنے والی پہلی تحقیقی رپورٹ ہے۔ تحقیق کے مطابق اوسط بنیادوں پر روزہ دار حاملہ خواتین کے بچوں کا وزن تین کلو گرام جبکہ روزہ قضاء کرنے والی خواتین کے بچوں کا وزن تین اعشاریہ دو کلو گرام تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ روزہ رکھنے والی حاملہ خواتین کا وزن کم بڑھتا ہے۔ عمومی طور پر حاملہ خواتین کا وزن دو کلو تین سو گرام تک بڑھتا ہے جبکہ روزہ رکھنے والی حاملہ خواتین کا وزن ایک کلو چھ سو گرام تک بڑھا۔

قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی صحت پر مستقبل میں کیا اثرات پڑتے ہیں اس بارے میں کوئی ٹھوس بات نہیں کہی جاسکتی تاہم پروفیسر ناصر کے بقول یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے بچوں کو بڑے ہوکر عارضہ قلب ہوسکتا ہے۔ پروفیسر ناصر کے بقول حاملہ خواتین اور رمضان کے پہلو پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف موسم اور روزے کا دورانیہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ طبی سائنس کی اصطلاح میں حمل کے 37 ویں ہفتے سے قبل ہونے والی پیدائش کو بچے کی ’پری میچیور برتھ‘ یا قبل از وقت پیدائش کہا جاتا ہے۔

قبل از وقت پیدائش کا روزے سے کوئی تعلق نہیں