بدھ, اگست 15, 2012

گوگل کے’ڈُوڈل‘ فن ہیں یا کاروبار؟

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ گوگل کے ویب صفحے پر کمپنی کے لوگو یا علامتی نشان کی جگہ ہر دن نظر آنے والے ایک نئے ڈیزائن کے پیچھے کس کا دماغ کارفرما ہوتا ہے۔

اس ڈیزائن کو ’ڈوڈل‘ بھی کہا جاتا ہے جسے ہر روز کروڑوں افراد دیکھتے ہیں۔

کبھی ماؤس کے ایک اشارے پر بجنے والا لیس پال گٹار، کبھی رابرٹ موگ کی یاد میں پیك مین گیم تو کبھی اولمپک کھیلوں سے متعلق کارٹون، یہ گوگل کے ہوم پیج پر اب تک کے دکھائی دینے والے کچھ بہترین ’ڈوڈلز‘ میں سے کچھ ہیں۔

جو چیز سنہ انیس سو اٹھانوے میں انگلش میں لکھے گئے گوگل کے لفظ ’او‘ سے بنی ایک شکل ہوا کرتی تھی اب وہ کسی کھیل، مقبول واقعے یا کسی شخصیت سے متعلق ایک فنی شے بن گئی ہے۔

اب تک تقریباً ایک ہزار سے زیادہ ڈوڈلز بن چکے ہیں جو مشہور کے ساتھ ساتھ کم جانی پہچانی شخصیات سے بھی جڑے ہوتے ہیں۔

ان میں سے کچھ تو بہت دلچسپ اور کچھ بےتكے بھی ہوتے ہیں، لیکن انہیں کافی پسند کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ہر روز گوگل کا استعمال کرنے والے کروڑوں لوگوں کی توجہ ان ڈوڈلز کی طرف جاتی ہے۔

لندن میں دو ہزار بارہ کے اولمپکس مقابلے جتنے دن جاری رہے ہر دن کسی ایک کھیل سے منسلک ایک نیا ڈوڈل گوگل کے ہوم پیچ پر نظر آتا رہا۔

کبھی یہاں تیراکی سے متعلق معلومات ہوتی تھیں تو کبھی نشانے بازي سے متعلق، اور ہر نئے ڈوڈل کے ساتھ انٹرنیٹ پر اس سے متعلق ان گنت مضمون پڑھے جاسکتے تھے۔

ہر دن ایک ایسی نئی چیز کے ساتھ لوگوں کو لبھانا کوئی آسان کام نہیں۔ مثلاً چارلي چپلن کے ڈوڈلز دیکھیں تو انہیں دیکھ کر آپ کو اس ٹیم کے بارے میں تھوڑا بہت سمجھ میں آئے گا جو اپنے آپ کو بھی ’ڈوڈلرز‘ کہتے ہیں اور اس کام کو سرانجام دیتے ہیں.

یہ وہ لوگ ہیں جو کیلیفورنیا کے ایک چھوٹے سے آفس میں بیٹھ کر ہر روز ایک نیا ڈوڈل بناتے ہیں۔ ان ڈوڈلز کا بنیادی مقصد دفاتر میں روزمرہ کا کام کررہے لوگوں کی دلچسپی بڑھانا اور انہیں ایک مختلف قسم کا احساس کرانا ہے۔

اس ٹیم کے تخلیقی لیڈر ريان جرمك کے مطابق ان کے دماغ پر کبھی بھی یہ بات حاوی نہیں ہوتی کی ان کے کام کو لاکھوں لوگ دیکھ یا پڑھ رہے ہیں.

جرمك کہتے ہیں، ’انسانی دماغ یہ سمجھ پانے میں ناکام ہے کہ کسی چیز کو لاکھوں لوگ کس طرح سے لیں گے۔ میرے لیے زیادہ معنی یہ رکھتا ہے کہ میں اپنے ساتھیوں اور دوستوں کو کتنا ہنسا سکتا ہوں یا کیسے کوئی نئی ٹیکنالوجی سیکھ سکتا ہوں۔ ہمیں فنکار یا ڈیزائنرز کے زمرے میں مت رکھیں۔ ہم بس یہ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ ہم فن اور ٹیکنالوجی کو سب سے بہتر شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرسکیں‘۔

ان کا ماننا ہے کہ وہ تفریح، فن، ٹیکنالوجی اور گرافک ڈیزائن کے درمیان ایک پل کا کام کرتے ہیں۔

ڈوڈل کا انتخاب اس ٹیم کے لیے روز ایک نیا چیلنج ہوتا ہے۔ گوگل کے صفحے پر کس چیز یا موضوع کو جگہ دینی ہے، اس کا فیصلہ کافی جمہوری طریقے سے کیا جاتا ہے۔

اس میں زیادہ توجہ اس چیز پر دی جاتی ہے کہ جو موضوع منتخب کیا گیا ہے، اس میں حیرت کا عنصر کتنا زیادہ ہے اور اس میں امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک میں واقع گوگل کے دفاتر سے ملنے والی معلومات کی بھی کافی اہمیت ہوتی ہے۔

اس تخلیقی عمل کو دیکھ کر یہ بھی سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا ڈوڈل بنانا ایک فن ہے یا اسے محض کاروباری نظر سے دیکھا جائے؟

فن کے بارے میں جو بات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فن کا کوئی کاروباری پہلو نہیں ہوتا لیکن دیکھا جائے تو ڈوڈل کے معاملے میں تجارتی فن کا ایک عملی پہلو بھی ہے۔

گرافک ڈیزائنر سی سکاٹ کے مطابق ڈوڈلز ایک طرح سے ماڈرن آرٹ کی ہی ایک شکل ہیں لیکن مارکیٹنگ کمپنی سیون براڈز کی چیف ایگزیکٹو آفیسر جیسمن منٹگمري اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔

جیسمن کے مطابق، ’جب آپ کو آپ کی تخلیقی صلاحیت کے لیے پیسے دیے جانے لگتے ہیں تب آپ کا کام فن کے دائرے سے باہر ہوجاتا ہے کیونکہ تب آپ اپنے کاروباری كرتا دھرتا کی بات مانتے ہیں نہ کہ تخلیقی گرو کی‘۔

یہ فن ہے یا کاروبار یا پھر دونوں کا مرکب، اس بات پر بھلے ہی اختلاف ہو لیکن اس بات سے انكار نہیں کیا جاسکتا کہ ڈوڈلز کافی دلچسپ اور دلکش ہوتے ہیں اور جب تک گوگل کا انٹرنیٹ بازار پر تسلط برقرار رہے گا، اس وقت تک اس کے ہوم پیج پر نظر آنے والے ڈوڈلز انٹرنیٹ سرفنگ کا ایک اہم حصہ بنے رہیں گے۔

گوگل کے’ڈُوڈل‘ فن ہیں یا کاروبار؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔