پیر, اگست 06, 2012

ماں

موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں

فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گُھل جاتی ہے ماں
نوجوان ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں

کب ضرورت ہو مری بچے کو، اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں

پہلے بچوں کو کھلاتی ہے سکون اور چَین سے
بعد میں جو کچھ بچا وہ شوق سے کھاتی ہے ماں

مانگتی ہی کچھ نہیں اپنے لیے اللہ سے
اپنے بچوں کے لیے دامن کو پھیلاتی ہے ماں

پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی اُن بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں

پھیر لیتے ہیں نظر جس وقت بیٹے اور بہو
اجنبی اپنے ہی گھر میں ہائے بن جاتی ہے ماں

ہم نے یہ بھی تو نہیں سوچا الگ ہونے کے بعد
جب دیا ہی کچھ نہیں ہم نے تو کیا کھاتی ہے ماں

ضبط تو دیکھو کہ اتنی بے رخی کے باوجود
بد دعا دیتی ہے ہرگز اور نہ پچھتاتی ہے ماں

سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو
زندگی بھر کا صلہ اک پاتی ہے ماں

اس نے دنیا کو دیے معصوم رہبر اس لیے
عظمتوں میں ثانی قرآن کہلاتی ہے ماں

بعد مر جانے کے پھر بیٹے کی خدمت کے لیے
بھیس بیٹی کا بدل کر گھر میں آ جاتی ہے ماں

استاد کی عظمت

فاتح عالم سکندر ایک مرتبہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہا تھا۔ راستے میں ایک بہت بڑا برساتی نالہ آگیا۔ نالہ بارش کی وجہ سے طغیانی پر آیا ہوا تھا۔ استاد اور شاگرد کے درمیان بحث ہونے لگی کہ خطرناک نالہ پہلے کون پار کرے گا۔ سکندر بضد تھا کہ پہلے وہ جائے۔ آخر ارسطو نے اس کی بات مان لی۔ پہلے سکندر نے نالہ پار کیا، ارسطو نے نالہ عبور کرکے سکندر سے پوچھا ”کیا تم نے پہلے نالہ عبور کرکے میری بے عزتی نہیں کی“؟

سکندر نے جواب دیا، ”استاد مکرم! میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے، ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہوسکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کرسکتا“۔

آئن سٹائن کے باپ کو بھی نہیں سوجھی

ممتاز دانشور ڈاکٹر عبداللہ چغتائی، علامہ اقبال کے بڑے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ علامہ اقبال گپ شپ لگانے کے لئے ان کے منتظر رہتے تھے۔ اک دن وہ تشریف لائے تو علامہ اقبال نے فوراً پوچھا ”عبداللہ اتنے دنوں سے کہاں تھے“؟

چغتائی صاحب نے جواب دیا، ”کیا عرض کروں۔ آج کل اس قدر مصروفیت ہوتی ہے کہ فرصت ہی نہیں ملتی اور فرصت ملتی ہے تو وقت نہیں ملتا“۔

علامہ اقبال کو ان کی اس بات پر بے اختیار ہنسی آگئی۔ وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولے ”عبداللہ! تم نے آج وہ بات کہی ہے جو آئن سٹائن کے باپ کو بھی نہیں سوجھی ہوگی“۔

جیل جارہا ہوں

امیر شہر کو شاعری کا شوق چرایا، غزل لکھی اور ملک الشعراء بہار ایرانی کو دربار میں بلایا اسے غزل دی اور رائے طلب کی۔ ملک الشعراء نے دیکھی اور کہا ”بے کار اور فضول“۔

امیر نے انہیں ایک مہینے کے لئے جیل میں‌ ڈال دیا۔ کچھ عرصے کے بعد امیر نے پھر غزل لکھی اور سمجھا کہ ملک الشعراء کا دماغ صحیح ہوگیا ہوگا۔ دربار میں طلب کیا اور غزل دکھائی۔ انہوں نے غزل پڑھی اور وہیں رکھ کر چل پڑے۔

امیر نے پوچھا کہاں جارہے ہو؟

کہا ”جیل جارہا ہوں“۔