پیر, اگست 06, 2012

ماں

موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں

فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گُھل جاتی ہے ماں
نوجوان ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں

کب ضرورت ہو مری بچے کو، اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں

پہلے بچوں کو کھلاتی ہے سکون اور چَین سے
بعد میں جو کچھ بچا وہ شوق سے کھاتی ہے ماں

مانگتی ہی کچھ نہیں اپنے لیے اللہ سے
اپنے بچوں کے لیے دامن کو پھیلاتی ہے ماں

پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی اُن بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں

پھیر لیتے ہیں نظر جس وقت بیٹے اور بہو
اجنبی اپنے ہی گھر میں ہائے بن جاتی ہے ماں

ہم نے یہ بھی تو نہیں سوچا الگ ہونے کے بعد
جب دیا ہی کچھ نہیں ہم نے تو کیا کھاتی ہے ماں

ضبط تو دیکھو کہ اتنی بے رخی کے باوجود
بد دعا دیتی ہے ہرگز اور نہ پچھتاتی ہے ماں

سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو
زندگی بھر کا صلہ اک پاتی ہے ماں

اس نے دنیا کو دیے معصوم رہبر اس لیے
عظمتوں میں ثانی قرآن کہلاتی ہے ماں

بعد مر جانے کے پھر بیٹے کی خدمت کے لیے
بھیس بیٹی کا بدل کر گھر میں آ جاتی ہے ماں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔