اتوار, اگست 26, 2012

میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‫میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں وہاں ایک مولوی صاحب ہیں- اب جو مولوی صاحب ہوتے ہیں ان کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے- انھیں سمجھنے کے لیے کسی اور طرح سے دیکھنا پڑتا ہے اور جب آپ ان کی سوچ سمجھ جائیں تو پھر آپ کو ان سے علم ملنے لگتا ہے-

وہ نماز سے پہلے تمام صفوں کے درمیان ایک چار کونوں والا کپڑا پھراتے ہیں جس میں لوگ حسب توفیق یا حسب تمنا کچھ پیسے ڈال دیتے ہیں- اس مرتبہ بڑی عید سے پہلے جو جمعہ تھا، اس میں بھی وہ چو خانوں والا کپڑا پھرایا گیا اور جو اعلان کیا وہ سن کر میں حیران رہ گیا-

وہ اس طرح سے تھا ’’اس مرتبہ دوحا قطر سے کوئی صاحب آئے تھے انھوں نے مجھے پانچ ہزار روپے دیے ہیں- میں نے وہ پیسے دو تین دن رکھے اور پھر ان پیسوں کو 100، 50 کے نوٹوں میں تبدیل کروایا، جنھیں اب میں یہاں لے آیا ہوں جو اس چو خانوں والے کپڑے میں ہیں-
عید قریب ہے ہم سارے کے سارے لوگ صاحب حیثیت نہیں ہیں اور جس بھائی کو بھی ضرورت ہو وہ اس کپڑے میں سے اپنی مرضی کے مطابق نکال لے“-

مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ہم پڑھتے ہیں ’’دس دنیا ستر آخرت‘‘

آخر دینے سے کچھ فائدہ ہی ہوتا ہے نا! شاید وہ یہ ٹیسٹ کرنا چاہتا تھا کہ یہ بات جو لکھی ہوئے ہے واقعی درست ہے یا ایسے ہی چلتی چلی آ رہی ہے-

میں نے دیکھا کہ اس کپڑے میں سے کچھ لوگوں نے روپے لیے، ایک نے پچاس کا نوٹ لیا- ایک اور شخص نے سو کا نوٹ لیا- کچھ ڈالنے والوں نے اپنی طرف سے بھی اس کپڑے میں نوٹ ڈالے-

اگلے دن میں مولوی صاحب سے ملا اور ان سے کہا گزشتہ روز آپ کا عجیب و غریب تجربہ تھا- ہم نے تو آج تک ایسا دیکھا نہ سنا-

تو وہ کہنے لگے کہ جناب جب میں نے آخر میں اس رومال یا کپڑے کو کھول کر دیکھا اور گنا تو پونے چھہ ہزار روپے تھے-

اب یہ بات میرے جیسے ’’پڑھے لکھے آدمی‘‘ کے ذہن میں یا ’’دانش مند‘‘ آدمی کے ذہن میں نہیں آئی-

ایک ان پڑھ کبھی کبھی ایسے ماحول یا تجربے سے گزرتا ہے اور پھر ایک ایسا نتیجہ اخذ کرتا ہے جو مجھ کتاب والے کو بھی نہیں ملا-

(از اشفاق احمد زاویہ 2 ان پڑہ سقراط صفحہ 237)

مہک تیری دل میں بسا کر چلے

مہک تیری دل میں بسا کر چلے
ترا نام لب پر سجا کر چلے

مرے پاس اب کچھ بچا ہی نہیں
دل و جان سب کچھ لٹا کر چلے

وہ دولت جو بخشی تھی تو نے ہمیں
اسے اپنے دل میں چھپا کر چلے

کیا تھا جو تم سے کبھی قول عشق
پھر اک بار اس کو نبھا کر چلے

وہی ضد ہماری رہی عمر بھر
کبھی سر نہ اپنا جھکا کر چلے

جئے ہم تو سر کو اُٹھا کے جئے
چلے بھی تو گردن کٹا کر چلے

جہالت کے ظلمت کدے میں نصر
چراغِ محبت جلا کر چلے
محمد ذیشان نصر

خاموش چاہتوں کی مہک اُس طرف بھی ہے

خاموش چاہتوں کی مہک اُس طرف بھی ہے
جو میرے دل میں ہے وہ کسک اُس طرف بھی ہے

کربِ شبانِ ہجر سے ہم بھی ہیں آشنا
آنکھوں میں رت جگوں کی جھلک اُس طرف بھی ہے

ہیں اِس طرف بھی تیز بہت، دل کی دھڑکنیں
بیتاب چوڑیوں کی کھنک اُس طرف بھی ہے

شامِ فراق اشک اِدھر بھی ہیں ضوفشاں
پلکوں پہ جگنوؤں کی دمک اُس طرف بھی ہے

سامان سب ہے اپنے تڑپنے کے واسطے
ہے زخمِ دل ادھر تو نمک اس طرف بھی ہے

باقی ہم اہلِ دل سے یہ دنیا بھی خوش نہیں
جائیں کہاں کہ سر پہ فلک اس طرف بھی ہے

تو رُل گیا تے تاں کی ہویا

ہیرے سستے تُلدے ویکھے
لال تکڑی وِچ تُلدے ویکھے

پُھل پَیراں وِچ رُلدے ویکھے
سیانے گَلّاں تو پُلدے ویکھے

کوئی کسے نال پیار نئی کردا
دل دنیا وچ کُھلدے ویکھے

رنگ برنگی دنیا ویکھی
کئی کئی رنگ اِک پُھل دے ویکھے

بس کر دِلا چھڈ دے کھیڑا
چھڈ دے رام کہانی ساری

تو رُل گیا تے تاں کی ہویا
شاہ وی گلیاں وچ رُلدے ویکھے

شاور سے غسل، صحت کے لیے نقصان دہ

امریکی سائنسدانوں کے مطابق شاور کے ذریعے نہانا صحت کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ شاور کے گندے سرے سے خطرناک بکٹیریا خارج ہوسکتا ہے۔

ایک تحقیق کے دوران ٹیسٹ کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ ایک تہائی شاورز کے سرے بکٹیریا کا ٹھکانہ ہوتے ہیں جو انسانی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ٹیسٹ کے نتائج کے مطابق گھروں میں پانی سپلائی کرنے والی پائپ لائنوں کے برعکس شاور کے سروں میں مائکو بکٹیریا کی مقدار سو فیصد زیادہ ہوتی ہے۔

نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق شاور کے سرے میں ایم ۔ اے وئیم نامی بکٹیریا ایک بائیو فلم یا تہہ بناتے ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق تحقیق سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے ان میں زیادہ تر زیادہ تر وہ شامل تھے جو شاور کے ذریعے غسل کو ترجیح دیتے ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق شاور کے سرے سے خارج ہونے والے پانی میں بکٹیریا شامل ہوجاتا ہے جو بعد میں پانی کے بخارات میں تبدیل ہوکر سانس کے ذریعے آسانی کے ساتھ پھیپڑوں کے تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ سائنسدانوں کی تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر نومین پیس کے مطابق شاور کھولنے کے بعد آپ کے چہرے پر گرنے والے پانی میں مائکو بکٹیریا کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے جو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

اگرچہ بہت صحت مند لوگوں کو شاور سے نہانے سے زیادہ خطرہ نہیں ہوسکتا لیکن وہ افراد جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے ان کی صحت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور ان میں بڑی عمر کے افراد اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔

شاور کے ذریعے خارج ہونے والے بکٹیریا سے پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ سے تھکاوٹ، خشک کھانسی، سانس کی بیماری کی وجہ سے کمزوری اور روزمرہ زندگی میں صحت مند محسوس نہ کرنے جیسی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

تحقیق کے دوران امریکہ کے سات شہروں میں پچاس کے قریب شاورز کا معائنہ کیا گیا اور ان میں سے تیس فیصد کو خطرہ قرار دیا ہے۔ پروفیسر نومین پیس کے مطابق پلاسٹک کے شاورز میں بکٹیریا سے بھری بائیو فلمز زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس کے برعکس دھات کے بنے ہوئے شاور ایک بہتر متبادل ہوسکتے ہیں۔

ہیلتھ پروٹیکشن ایجنسی کے مطابق گرم پانی کے ٹب اور پولز بھی سے اسی قسم کی بیمایاں پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

تم نے بارشوں کو محض برستے دیکھا ہے

تم نے بارشوں کو محض برستے دیکھا ہے
میں نے اکثر بارشوں کو کچھ کہتے دیکھا ہے

تم دیکھتے ہو بارشوں کی جل تھل ہر سال
میں نے برسات کو بارہا پلکوں پے مچلتے دیکھا ہے

کیسے مانگوں پھر برستا ساون اپنے رب سے
کہ ان آنکھوں نے دلوں کو ساون میں‌ اجڑتے دیکھا ہے

سیکھ گئے ہم بارشوں کو اپنے اندر اتارنے کا فن
اور پھر سب نے ہمیں ہر پل ہر دم ہنستے دیکھا ہے

محبت روگ ہے جاناں

محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
یہ کیسا روگ ہے جاناں
بڑے بوڑھے بتاتے تھے
کئی قصے سناتے تھے
مگر ہم مانتے کب تھے
یہ سب کچھ جانتے کب تھے
بہت پختہ ارادے کس طرح ٹوٹ جاتے ہیں
ہمیں ادراک ہی کب تھا
ہمیں کامل بھروسہ تھا
ہمارے ساتھ کسی صورت بھی ایسا ہو نہیں سکتا
یہ دل کبھی قابو سے بے قابو ہو نہیں سکتا
مگر
پھر یوں ہوا جاناں
نہ جانے کیوں ہوا جاناں
جگر کا خوں ہوا جاناں
ترے ابرو کی اک جنبش پر
ترے قدموں کی آہٹ پر
گلابی مسکراہٹ پر
ترے سر کے اشارے پر
صدائے دلربانہ پر
چہرۂ مصومانہ پر
نگاۂ قاتلانہ پر
ادائے کافرانہ پر
گھائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بے باک پھرتے تھے
مائل ہوگئے ہم بھی
سخاوت کرنے آئے تھے
اور
سائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بوڑھوں کے ان باتوں کے
قائل ہوگئے ہم بھی
کہ
محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
یہ کیسا روگ ہے جاناں...!!

کہاں شفٹ ہوں۔۔۔۔۔۔۔ امریکہ یا کینیڈا


چاند پر پہلا قدم، پھر مکمل خامشی

چاند پر پہلا قدم رکھنے والے خلا باز نیل آرمسٹرانگ لاکھوں لوگوں کے ہیرو ہیں لیکن انہوں نے شہرت ترک کرتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ آخر ایسا کیوں ہوا، آرمسٹرانگ ہیرو سے ایک پہیلی کیوں بن گئے؟ مصنف اینڈریو سمتھ جنہوں نے چاند پر جانے والے خلابازوں کی زندگی پر کتاب لکھی یہی جاننے کے لیے طویل سفر طے کرکے آرمسٹرانگ کے قریبی لوگوں سے ملاقات کے لیے گئے۔

آرمسٹرانگ نے اپنے دیگر رفقاء کے بر عکس اپنی شہرت سے فائدہ اٹھانے سے انکار کردیا بلکہ انہوں نے بظاہر اس کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔

اینڈریو سمتھ کا خیال ہے کہ اٹھہتر سالہ آرمسٹرانگ کے خیال میں وہ شہرت اور توجہ کے حقدار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چاند پر انسان کو اتارنے کے مِشن پر چار لاکھ لوگوں نے مختلف حیثیتوں میں کام کیا اور صرف خلا میں جانے کی وجہ سے ان کا زیادہ حق نہیں بنتا۔

چاند پر اترنے کے بعد آرمسٹرانگ راتوں رات مشہور ہوگئے تھے۔ ان کا مشن چاند پر ایسے دور میں گیا جب دنیا خلابازی کے سحر میں گرفتار تھی۔ چاند پر انسان کے اترنے کا منظر دنیا بھر لوگوں نے ٹی وی پر دیکھا۔ خلابازوں کو واپسی پر ناسا نے عالمی دورے پر بھیج دیا۔

آرمسٹرانگ اس دورے میں شامل ہوتے ہوئے بھی تقریبات سے الگ تھلگ نظر آئے۔ انہوں نے ہر جگہ اپنے جذبات کی بجائے حقائق بیان کیے۔ انہوں نے تقریر کرنے سے اور انٹرویو دینے سے انکار کردیا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے آٹوگراف دینا اور غیرنجی محافل میں تصویر کھنچوانا بھی بند کردیا۔

اینڈریو سمتھ کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق گزشتہ چالیس سالوں میں نیل آرمسٹرانگ نے صرف دو انٹرویو دیے ہیں اور انہوں نے کبھی اپنے جذبات بیان نہیں کیے۔ ’وہ صرف حقائق بتاتے ہیں اور بس۔‘

سمتھ نے کہا کہ آرمسٹرونگ اپنی شہرت سے مالی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے تھے حالانکہ چاند پر جانے والے دوسرے خلابازوں نے ایسا کیا۔ سمتھ نے کہا کہ نیلامیاں کروانے والی ایک کمپنی نے بتایا کہ آرمسٹرانگ کو صرف ایک شام آٹوگراف دینے کے دس لاکھ ڈالر مل سکتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔

آرمسٹرانگ نے چاند کے سفر کے دو سال کے بعد اگست انہیس سو اکہتر میں سنسناٹی یونیورسٹی میں ایرو سپیس انجنیئرنگ کا مضمون پڑھانا شروع کردیا۔ لیکن اگر وہ سمجھتے تھے کہ اس کام میں وہ دنیا کی پہنچ سے بچ جائیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی تھی۔ یونیورسٹی میں ان کے ایک سینیئر نے بتایا کہ آرمسٹرانگ پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہر روز دو گھنٹے دیگر اساتذہ کی طرف سے دی گئی کاپیوں پر آٹوگرف دیتے ہوئے گزارتے تھے۔

لوگ ان کے دفتر کی کھڑکی کے باہر ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہوکر اپنے آپ کو اونچا کرتے اور ان کی ایک جھلک دیکھنے کی خواہش پوری کرتے۔ وہ یونیورسٹی کے کیمپس میں آزادانہ گھومنے پھرنے سے قاصر ہوگئے تھے۔ تنہائی کی تلاش میں انہوں نے اپنا بہت سا وقت اکیلے جہاز اڑاتے گزارنا شروع کردیا۔

آرمسٹرانگ کا یہ رویہ ان کے ساتھی خلابازوں سے مختلف تھا جو ان کے ساتھ چاند پر گئے تھے۔ بز آلڈرن مسلسل ذرائع ابلاغ پر رہتے اور مختلف پروگراموں میں حصہ لیتے۔ انسان کے چاند پر اترنے کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر ریپ فنکار سنوپ ڈاگ اور پروڈیوسر کوئنسی جونز کے ساتھ مل کر ’راکٹ ایکسپیریئنس‘ کے عنوان سے ایک وڈیو بنوا رہے ہیں۔

چاند پر پہلا قدم، پھر مکمل خامشی

معروف امریکی خلا باز نیل آرم سٹرونگ انتقال کر گئے

چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان امریکی خلا باز نیل آرم سٹرونگ بیاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ اسی ماہ کے آغاز میں ان کا دل کا آپریشن ہوا تھا۔

جولائی انیس سو انہتر میں اپولو مشن کے کمانڈر نے چاند پر قدم رکھتے ہوئے یہ یاد گار الفاظ کہے تھے ’ایک شخص کے لیے ایک چھوٹا سا قدم، پوری انسیانیت کے لیے ایک بڑی چھلانگ۔‘

گزشتہ سال نومبر میں انہیں تین اور خلابازوں سمیت امریکہ کا اعلیٰ ترین سولین ایوارڈ کانگریشنل طلائی تمغہ دیا گیا تھا۔

وہ اپولو گیارہ خلائی جہاز کے کمانڈر تھے۔ انہوں نے ساتھی خلا باز ایڈون آلڈرن کے ساتھ تقریباً تین گھنٹے چاند کی سطح پر گزارے۔

باز نیل آرم سٹرونگ
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق آرمسٹرونگ کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی وفات دل کے آپریشن کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگی کی وجہ سے ہوئی۔

نیل آرمسٹرونگ نے پہلی بار پرواز اپنے والد کے ساتھ چھ سال کی عمر میں کی اور یہ ان کا عمر بھر کا شوق بن گیا۔

پچاس کی دہائی میں انہوں نے کوریائی جنگ میں امریکی بحریہ کے پائلٹ کے طور پر شرکت کی۔ انیس سو باسٹھ میں وہ امریکی خلائی پروگرام میں شامل ہوگئے۔

نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آرمسٹرونگ کا رویہ ہمیشہ عاجزانہ تھا اور وہ خلائی پروگرام کی چمک دمک کا حصہ نہیں بنے۔

آرمسٹرونگ کم ہی منظرِ عام پر آتے تھے۔ فروری دو ہزار میں انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ سفید جرابوں اور جیب میں بہت سے قلم رکھنے والا ’پڑھاکو سا، انجینیئر رہوں گا‘۔

معروف امریکی خلا باز نیل آرم سٹرونگ انتقال کر گئے