بجلی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بجلی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر, نومبر 19, 2012

بارش سے بجلی

روس کے مغربی صوبہ کالینن گراد سے تعلق رکھنے والے سکول کے طالب علم انور کُربانوو نے بارش کے پانی سے چلنے والے بجلی گھر کا پروجیکٹ تیار کیا ہے۔ ان کے آبائی علاقے میں بارش بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے مقامی ماہرین توانائی نے اس پروجیکٹ مین بہت دلچسپی ظاہر کی ہے۔

انور کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد بارش کو توانائی کے متبادل ذریعہ کے طور پر استعمال کرنے کے امکان کا جائزہ لینا ہے۔ انور نے ایک پرانی سائکل، چند پلاسٹک بوتلیں اور ایک کرسی کے ٹکڑے لے کر اپنی بجلی گھر کا ماڈل بنا لیا ہے۔ یہ کام سرانجام دینے میں ان کو ایک مہینہ لگا۔ یہ ماڈل اس طرح چلتا ہے: پانی کی نلی سے ایک ٹیوب نکال کر اس میں چند چھوٹے چپو لگائے گئے ہیں جن پر گھر کی چھت سے بارش کا پانی گرتا ہے۔ جنریٹر کے ذریعے پانی کی توانائی کو بجلی میں تبدیل کیا جاتا ہے اور کرنٹ وجود میں آتا ہے۔ انور کربانوو کے بنائے گئے اس چھوٹے بجلی گھر کے ذریعے ہر ماہ سترہ کلو واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

انور نے ماہ جولائی میں منعقدہ EXPO-SCIENCES EUROPE کے نام سے نمائش میں اپنی یہ ایجاد متعارف کرائی۔ نمائش میں تیئیس ممالک سے تعلق رکھنے والے چار سو بیس نوجوان موجدوں نے حصہ لیا، شرکاء کی عمر بارہ تا پچیس سال تھی۔ انور کربانوو نے ایک مخزن برق (accumulator) اس نمائش میں پیش کیا جس کو بارش کے پانی سے پیدا کردہ بجلی سے جارج کیا گیا تھا۔ یوں نمائش کے دوران انور نے اس آلے کے ذریعے تین سو سیل فونز کو چارج کیا۔

اس نوجوان روسی موجد کا منصوبہ ہے کہ اپنی اس ایجاد کو بہتر بنائے تاکہ اسے دور دراز علاقوں میں بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یوں اس ایجاد کی بنا پر ایک منافع بخش کمرشل پروجیکٹ شروع کیا جا سکتا ہے۔ شروع میں انور اپنے سکول کے قریب بارش کے پانی سے چلنے والا ایک اصل بجلی گھر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اندازہ لگا چکے ہیں کہ اخراجات پوری کرنے کے لیے بارش والے باون دنوں کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اس بجلی گھر میں مفت بجلی پیدا کرنے لگے گا بلکہ اس سے ماحولیات کو بالکل بھی نقصان نہیں ہوگا۔

دریں اثناء مذکورہ نمائش کے دوران سپین، ناورے اور الجزائر نے انور کی ایجاد میں دلچسپی ظاہر کی۔

بارش سے بجلی

پیر, ستمبر 24, 2012

نابینا خاندان نے محلہ روشن کردیا

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے، پنجاب کے شہر دیپالپور (اوکاڑہ) میں محلہ ڈھکی کے میں ایک نابینا خاندان اندھیروں میں زندگی بسر کررہا ہے۔ لیکن، معذوری کے باوجود، نابینا خاندان خیرات اور صدقات کا طلب گار نہیں، بلکہ خود اپنے زور بازو پر روزگار کمانا جانتا ہے۔

​اِس نابینا خاندان کا سربراہ، عبدالرحمٰن مالش اور مساج کرتا ہے اور اس کا نابینا بھائی عبدالمنان چائے کے ہوٹل پر ملازم ہے۔ بڑی ماں نظیراں بی بی کو الله پاک نے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ بڑے بیٹے عبدالخالق کے علاوہ تین بچے آنکھوں کی دولت سے محروم ہیں۔ شکیلہ بی بی، عبدالرحمٰن اور عبدالمنان نابینا ہیں اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ بچے بچپن سے نابینا نہ تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بینائی سے محروم ہوتے گئے۔

نابینا بھائیوں نے آنکھوں کی معذوری کے باوجود بھکاریوں کا روپ اختیار نہیں کیا، بلکہ اپنی جمع پونجی سے قسطوں پر جنریٹر خریدا اور پورے محلے کو بجلی کا کنکشن دے کر نہ صرف خود روزگار کمایا، بلکہ محلہ کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بچایا۔ اہل محلہ اس نابینا خاندان کا مشکور ہے اور ان کی آنکھوں کے علاج کے لیےدعا گو ہے۔ 

’وائس آ ف امریکہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں نابینا خاندان کے سربراہ عبدالرحمٰن نے کہا کے بچپن میں بس اور ٹرین میں پکوڑے وغیرہ بیچا کرتا تھا، پھر میں نے گھر کے ساتھ ایک چھوٹی سی دکان میں مالش اور مساج کا کام شروع کیا۔ میرا چھوٹا بھائی عبدالمنان چائے کے ہوٹل پر ملازم ہے، اور وہ بھی آنکھوں سے محروم ہے۔

اوکاڑہ کا نابینا خاندان
اُن کے الفاظ میں: ’میری بڑی بہن بھی آنکھوں سے محتاج ہے۔ لیکن پھر بھی، گھر میں جھاڑو پوچا لگاتی ہے، جبکہ میری والدہ 80 سال کی بوڑھی خاتون ہے۔ میری شادی بھی ایک نابینا لڑکی سے ہوئی۔ اب گھر میں یہ حالات ہیں کہ ہانڈی روٹی پکانے والا کوئی نہیں۔ ہم بازار سے کھانا منگوا کر کھاتے ہیں‘۔

عبدالرحمٰن کے چھوٹے بھائی عبدالمنان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’ہمیں لوگ خیرات صدقات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن، ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا، کیوں کہ ہم خود روزگار کمانا جانتے ہیں۔ بس ہماری یہ خواہش ہے کہ کسی طرح ہماری بینائی واپس آ جائے۔

عبدالرحمٰن اور عبدالمنان کی بڑی بہن شکیلہ نےکہا کہ اُن کی شادی نہ ہونے کی وجہ اُن کی آنکھوں کی محتاجی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کا کھانا پکانے کو دل کرتا ہے۔ لیکن، وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔ اُنھیں اپنے دونوں بھائیوں پر فخر ہے کہ وہ آنکھوں کی محتاجی کے باوجود گھر کا خرچ چلا رہے ہیں۔

نابینا خاندان نے پورا محلہ روشن کردیا

اتوار, جولائی 01, 2012

بجلی بچانے کے لیے انوکھی ایجاد

فلپائن میں بجلی بہت مہنگی ہے اور کئی کچی بستیوں کے رہائشی اسے کم سے کم استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اب صرف پانی کی ایک بوتل اور سورج کی روشنی کی مدد سے انہیں اپنے بجلی کے بل کم رکھنے میں بہت آسانی ہوگئی ہے۔

ایک معمولی سی ایجاد فلپائن کے غریب عوام کی زندگیوں میں روشنی بھر رہی ہے۔

کیا آپ نے یا آپ کے آس پاس کسی نے کوئی ایسی انوکھی چیز یا طریقہ ایجاد کیا ہے جو روز مرہ زندگی میں بہت مفید ہو؟

اگر آپ کے آس پاس کسی ایسی انوکھی ایجاد کی مثال موجود ہے تو ہمیں نیچے دیے گئے فورم کے ذریعے اس بارے میں تفصیلی معلومات لکھ بھیجیے۔ اگر آپ کی بھیجی ہوئی معلومات دلچسپ ہوئیں تو ہم آپ سے خود رابطہ کریں گے۔