ہفتہ, نومبر 10, 2012

ڈرائیورکی نیند ختم کرنے والی ڈیوائس

چلتی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اگر آپ کی آنکھ لگ جائے اور ایسے میں گردن دائیں بائیں لڑھکنے لگے تو یہ کسی حادثے کا باعث بھی بن سکتا ہے لیکن اب ایک ایسا آلہ بنا یا گیا ہے جو ڈرائیور کو سونے نہیں دے گا۔

سفر کے دوران نیند بہت خطرناک ہو سکتی ہے، کسی بھی خطرناک صورت حال سے بچنے کے لئے امریکی سائنس دانوں نے ایک ایسی انوکھی ڈیوائس تیار کی ہے جس کی مدد سے دورانِ سفر اگر آپ کو نیند آئے تو یہ ڈیواس آپ کو ایک تیز سگنل بھیجے گی جس سے آپ کی نیند ختم ہو جائے گی۔ بس جب بھی آپ کو نیند آنے لگے تو اسے آن کر لیں اور بے فکر ہو جائیں۔ اس کا وزن بھی بہت ہلکا ہے یعنی صرف 16 گرام اور اسے استعمال کرنا بھی بہت آسان ہے۔ اس ڈیوائس کو پہننے والا شخص اپنے آپ کو انتہائی آرام دہ محسوس کرتا ہے۔

محمد آصف دبئی اوپن سنوکر ٹورنامنٹ کے فائنل میں

پاکستان کے محمد آصف نے دبئی اوپن سنوکر ٹورنامنٹ کے فائنل کے لئے کوالیفائی کر لیا ہے۔

دبئی میں جاری سنوکر ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں محمد آصف نے ہانگ کانگ کے اینڈی لی کے خلاف صفر کے مقابلے میں پانچ فریم سے کامیابی حاصل کی۔ قومی کیوئسٹ نے پہلا سیٹ باون اڑتیس سے جیتا۔ محمد آصف نے شاندار سٹروکس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اگلے چاروں سیٹس میں بھی فتح سمیٹی۔

محمد آصف دبئی اوپن سنوکر ٹورنامنٹ کے فائنل میں

خلائی انٹرنیٹ کا تجربہ کامیاب رہا

بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر موجود ایک خلا باز نے زمین پر ایک روبوٹ کو ہدایات بھیج کر پہلی بار خلائی انٹرنیٹ استعمال کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک تجرباتی ٹیکنالوجی استعمال کی جسے ڈسرپشن ٹولرنٹ نیٹ ورکنگ (ڈی ٹی این) یا ’خلل برداشت کرنے والی نیٹ ورکنگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس پروٹوکول کو مستقبل میں مریخ پر موجود خلا بازوں کے ساتھ رابطے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہو جائے تو زمین اور مریخ گاڑی کے درمیان بھیجے گئِے پیغامات ضائع ہو سکتے ہیں لیکن ڈی ٹی این کی مدد سے زیادہ لمبے فاصلوں تک ڈیٹا بھیجا جا سکتا ہے۔ یورپی خلائی ادارے اور ناسا نے اکتوبر میں مل کر اس نئے نظام کا تجربہ کیا تھا۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر کمانڈر سنیتا ولیمز نے ایک لیپ ٹاپ پر ڈی ٹی این سافٹ ویئر کی مدد سے جرمنی میں ایک روبوٹ گاڑی چلائی۔

ڈی ٹی این زمینی انٹرنیٹ سے ملتا جلتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس کی مدد سے مواصلات میں تاخیر اور خلل کے مسائل سے زیادہ بہتر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ سیاروں، خلائی سٹیشنوں، اور دور دراز سفر کرتے ہوئے خلائی جہازوں میں یہ مسائل عام ہوں گے۔ یہ تاخیر شمسی طوفانوں یا پھر خلائی جہاز کے کسی سیارے کے پیچھے ہونے کی وجہ سے واقع ہوسکتی ہے۔

یورپی خلائی ادارے کے کم نیرگارڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کا مقصد طویل فاصلوں تک مواصلات کو ممکن بنانا ہے، کیوں کہ عام انٹرنیٹ اس بات کی توقع نہیں کرتا کہ کوئی چیز بھیجنے یا وصول کرنے میں کئی منٹ لگیں۔‘ تاخیر کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نظام کے اندر نوڈز، یا کنکنشن پوائنٹس، کا ایک سلسلہ بنایا گیا ہے۔ اگر مواصلات منقطع ہوجاتی ہیں تو ڈیٹا اس وقت تک نوڈ کے اندر سٹور کر لیا جاتا ہے جب تک رابطہ دوبارہ بحال نہ ہو جائے۔ ذخیرہ کرنے اور آگے بھیجنے کے اس نظام کی وجہ سے اس بات کو یقینی بنا لیا جاتا ہے کہ ڈیٹا ضائع نہیں ہو گا اور بتدریج آگے بڑھتا رہے گا۔

نیرگارڈ کہتے ہیں ’زمین پر اگر انٹرنیٹ کا رابطہ منقطع ہو جائِے تو ہر چیز ازسرِنو بھیجنا پڑتی ہے، ورنہ ڈیٹا ضائع ہو جاتا ہے‘۔ ’لیکن ڈی ٹی این کے اندر خلل کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اور یہی اصل فرق ہے۔ یہ جن طویل فاصلوں اور نیٹ ورکس پر کام کرے گا، اسے اتنا ہی مضبوط ہونا چاہیے۔‘ اس وقت مریخ پر موجود روبوٹ گاڑی کیوروسٹی کے ساتھ رابطے کے لیے ناسا اور یورپی ادارہ ’پوائنٹ ٹو پوائنٹ‘ مواصلات کا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ نیرگارڈ کہتے ہیں ’اسے نیٹ ورک کی طرح نہیں بنایا گیا۔ اس وقت مریخ کی سطح پر کئی روبوٹ گاڑیاں موجود ہیں، اور کئی جہاز اس سیارے کے گرد چکر لگا رہے ہیں، لیکن ان سب کو پوائنٹ ٹو پوائنٹ مواصلات سمجھا جاتا ہے‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’خلائی انٹرنیٹ کے پیچھے خیال یہ ہے کہ مستقبل میں مریخ پر بھیجی جانے والی گاڑیاں اور جہازوں کو ایک نیٹ ورک کی طرح برتا جائے گا، اور آپ ان تک ڈیٹا ویسے ہی بھیج سکیں گے جیسے آپ زمین پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے بھیجتے ہیں‘۔

ناسا کے بدری یونیز نے کہا کہ تجربہ کامیاب رہا اور اس کی مدد سے ’مواصلات کے ایک نئے طریقے کے استعمال کی افادیت کا مظاہرہ ہوا ہے جس میں کسی سیارے کی سطح پر موجود روبوٹ تک مدار میں چکر کاٹتے جہاز سے احکام بھیجے جا سکتے ہیں اور روبوٹ سے تصویریں اور ڈیٹا وصول کیا جا سکتا ہے‘۔

خلائی انٹرنیٹ کا تجربہ کامیاب رہا

صدر اوباما رو پڑے

امریکی صدر باراک اوباما دوبارہ منتخب ہونے کے بعد نوجوانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے روپڑے۔ شکاگو میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے باراک اوباما نے نوجوانوں کا اپنی انتخابی مہم میں انتھک محنت کرنے پرشکریہ ادا کیا۔ 

اس موقع پر باراک اوباما کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، انہوں نے کہا کہ انہیں انتخابی مہم کے کارکنوں پرفخر ہے اور خاص طور پر نوجوانوں نے جس محنت، محبت اور خلوص سے انتخابی مہم چلائی وہ میرے لئے قابل فخر ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ نوجوان ہی کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اورمجھے امید ہے ہم سب مل کرامریکا کی تعمیر و ترقی میں اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

صدر اوباما نوجوانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رو پڑے

برسبین ٹیسٹ؛ پروٹیز نے آسٹریلوی پیس بیٹری کا فیوز اڑا دیا

برسبین: وکٹ گنوانے کے بعد پویلین واپس جانے والے جیک کیلس کو 
امپائر اسد رؤف  روک رہے ہیں
نوبال کا علم ہونے پر انھوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا۔ فوٹو: اے ایف پی
برسبین ٹیسٹ کے پہلے روز پروٹیز نے آسٹریلوی پیس بیٹری کا فیوز اڑا دیا، ہاشم آملا ناقابل شکست 90 رنز بنا کر اپنے آخری 4 ٹیسٹ میچز میں تیسری سنچری سے صرف 10 رنز کے فاصلے پر ہیں۔

جیکس کیلس نے بھی میزبان بولرز کا جینا محال بناتے ہوئے 84 رنز ناٹ آئوٹ سکور کیے، دونوں تیسری وکٹ کے لیے سکور میں 136 کا اضافہ کر چکے ہیں، ٹیم نے دن کا اختتام 2 وکٹ پر 255 رنز کے ساتھ کیا، کم روشنی کے سبب کھیل قبل از وقت ختم کرنا پڑا، آملا اور کیلس دونوں کا قسمت نے بھی ساتھ دیا۔ تفصیلات کے مطابق برسبین میں ٹاس ہارنے کے ساتھ ہی آسٹریلیا کی بدقسمتی کا آغاز ہوگیا، میزبان سائیڈ کو توقع تھی کہ جس طرح پیس اٹیک نے گذشتہ برس بھارتی بیٹنگ کو تباہ کیا تھا اس بار بھی ایسا ہی ہوگا، مگر جیمز پیٹنسن، بین ہلفناس اور سڈل کی پروٹیز کے سامنے ایک نہ چل سکی۔ گریم سمتھ (10) کو پیٹنسن نے جلد ہی ایل بی ڈبلیو کر دیا۔

ابتدا میں امپائر بلی بائوڈن نے انھیں ناٹ آئوٹ قرار دیا مگر آسٹریلیا کے ریفرل پر فیصلہ تبدیل ہوگیا، دوسری وکٹ کے لیے میزبان ٹیم کو طویل انتظار کرنا پڑا، الویرو پیٹرسن اور ہاشم آملا نے کینگروز کو سمجھا دیا کہ خفیہ دستاویز افشا ہونے جیسی نفسیاتی جنگ میں الجھانے کا کوئی فائدہ نہیں اصل مقابلہ فیلڈ میں ہوتا ہے، دونوں نے دوسری وکٹ کے لیے 90 رنز جوڑے، پیٹرسن 64 کی اننگز کھیلنے کے بعد لیون کی گیند پر مڈ آن میں ہسی کا کیچ بنے، 51 کے سکور پر وہ ایل بی ڈبلیو ہونے سے بال بال بچے تھے جب ان سوئنگنگ یارکر پر بین ہلفنہاس کی اپیل امپائر کو متاثر نہ کر پائی، آسٹریلوی ریفرل پر ٹی وی امپائر نے فیصلہ آن فیلڈ امپائر پر ہی چھوڑا جس نے کوئی تبدیلی نہ کی۔ بعد میں جیک کیلس کی آمد ہوئی تو میزبان بولرز وکٹ کو ترس گئے، خصوصاً پیٹرسڈل کے پاس سر دھننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

انھوں نے کیلس کو جب 43 کے سکور پر مڈ آف پوزیشن میں لیون کا کیچ بنوایا تو اچانک امپائر اسد رؤف نے واپس جاتے بیٹس مین کو روک کر نوبال چیک کی، ری پلیز سے علم ہوا کہ سڈل کا پائوں لائن پر ہی تھا یوں کیلس بچ نکلے، اسی طرح آملا کا سکور جب 74 تھا تو سڈل نے اپنی ہی گیند پر کیچ ڈراپ کر دیا، آملا نے چائے کے وقفے کے بعد کیریئر کی 24 ویں ففٹی مکمل کر لی، سدا بہار کیلس نے 56 ویں نصف سنچری کیلیے صرف 63 بالز کا استعمال کیا، آسمان پر چھائے سیاہ بادلوں کی وجہ سے 82 اوورز کے بعد کھیل کا اختتام کر دیا گیا، آملا 90 اور کیلس 84 پر ناقابل شکست رہے۔ آسٹریلوی کپتان کلارک نے 6 بولرز آزمائے، ان میں سے پیٹنسن اور لیون کو ہی 1،1 وکٹ ملی۔

برسبین ٹیسٹ؛ پروٹیز نے آسٹریلوی پیس بیٹری کا فیوز اڑا دیا

اورِن بُرگ کی شالیں

سائبریا میں واقع روسی شہر اورِن بُرْگ میں بنائی جانے والی شالیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ تمام ہی روسی خواتین کو یہ شالیں اوڑھنے کا بے حد شوق ہے۔ دیگر ممالک میں لوگ ایسی شالوں سے کوئی دو سو سال پہلے شناسا ہوئے تھے۔ 

ہوا یہ کہ روسی یوُرال کے علاقے کے کچھ باشندوں نے ملکۂ روس کو ایک شال تحفے میں دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ شال بہت بڑی تھی، اس کا طول اور عرض ڈھائی ڈھائی میٹر تھا۔ لیکن یہ شال انگوٹھی کے حلقے میں سے گزاری جا سکتی تھی کیونکہ کپڑا بہت مہین تھا۔ ملکہ یہ شال دیکھ کر بہت حیران ہوئی تھیں۔ جب انہوں نے یہ ہلکی شال اوڑھی تو حاضرین دربار شال کے حسن سے انتہائی متاثر ہوئے تھے۔

یوں یورال کی دستکار خواتین کی بے مثال مہارت کی خبر روس بھر میں پھیل گئی۔ اور جب کاروباری افراد نے ایک صنعتی نمائش میں یہ شالیں پیش کیں تو وہ دوسرے ملکوں میں بھی مشہور ہو گئیں۔ غیرملکیوں کو بھی اورن برگ کی شالیں بہت پسند آئیں۔ ان شالوں کو لندن اور پیرس میں تمغے د‏یئے گئے۔

ایسی شال بننے کے لیے ایک خاص نسل کی بکریوں کی اون ضروری ہوتی ہے۔ اس اون سے بنے کپڑے کو پھاڑنا مشکل ہوتا ہے، پھر بھی کپڑا نرم بھی ہوتا ہے اس لیے اس اون کو بہترین مانا جاتا ہے۔ اس سے صحت کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔ یورال کے علاقے کے باشندے پرانے وقتوں سے زکام، نمونیا اور پشت میں درد کے علاج کے لیے یہ شالیں استعمال کرتے چلے آئے تھے۔

ایسی شالیں بننا آسان کام نہیں۔ اس میں بہت وقت لگتا ہے کیونکہ یہ سارا کام ہاتھوں سے کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اون سے سخت حصے نکالے جاتے ہیں، پھر ایک خاص کنگھی کے ذریعے اون کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس کے بعد بنائی کا کام شروع ہوتا ہے۔ ہر دستکار عورت یہ کام اپنے طریقے سے کرتی ہے۔ شالوں پر مختلف قسم کے نمونے بنائے جاتے ہیں جن میں ایک جیسے دو نمونے نہیں ہوتے۔

پھر شال کو احتیاط سے دھویا جاتا ہے، اس سے پانی نرمی سے نکالا جاتا ہے۔ پھر اسے ایک فریم پر تان دیتے ہیں۔ ایک شال بننے میں ڈیڑھ دو ماہ لگتے ہیں۔

بہر حال آج روس میں بہت کم عورتیں اورن برگ کی شالیں پہنتی ہیں۔ اب ان شالوں کو فرسودہ لباس سمجھا جاتا ہے جو آج کے فیشن کے مطابق نہیں رہا۔ لیکن ان شالوں کو آج بھی دستکاری کے شاہ کار سمجھا جاتا ہے۔ غیرممالک میں اورن برگ کی شالوں کی بہت مانگ برقرار ہے اور روس سے ایسی بہت زیادہ شالیں برآمد کی جاتی ہیں۔