انٹرنیٹ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
انٹرنیٹ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ, جنوری 19, 2013

گوگل کی نئی عینک

گوگل نے ایک ایسی عینک تیار کی ہے جو انٹرنیٹ سے منسلک ہوسکے گی اور اس کے ذریعے تمام درکار معلومات کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا جا سکے گا۔ لیکن ابتدائی طور پر یہ چشمہ صرف سافٹ ویئر تیار کرنے والوں کے لیے ہے اور عام لوگ اس سے استفادہ نہیں کر سکیں گے۔

کمپنی نیویارک اور سان فرانسسکو میں تقریبات منعقد کررہی ہے جہاں سافٹ ویئر ڈویلپ کرنے والوں کو اس عینک کا ابتدائی تعارف پیش کیا جائے گا، تاہم اس کی افادیت کے بارے میں مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ گوگل کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ ابتداء میں سافٹ وئیر ڈیولپرز کو یہ چشمہ 1500 ڈالر میں فروخت کیا جائے گا۔

گوگل کی نئی عینک

جمعہ, جنوری 04, 2013

انٹرنیٹ کی تیسویں سالگرہ

دنیا کا انقلابی اور سستا مواصلاتی رابطہ انٹر نیٹ جس نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں، پورے تیس برس کا ہو چکا ہے۔ اس بات پر یقین کرنا بھی اب مشکل لگتا ہے کہ انٹرنیٹ کو وجود میں آئے صرف تیس برس ہوئے ہیں جس نے یکم جنوری 1983ء کو باقاعدہ طور پر کام کرنا شروع کیا تھا۔

اس حوالے سے پہلی جنوری کو 'فلیگ ڈے' کا نام بھی دیا گیا، جب امریکی محکمہ دفاع نےمواصلاتی رابطہ کو 'انٹرنیٹ پروٹوکل کمیونکیشن سسٹم' میں تبدیل کر دیا تھا۔ برطانوی روزنامے 'میٹرو' کے مطابق انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی میگزین کے نمائندے کرس ایڈورڈ کہتے ہیں، "مجھے اس بات کا یقین ہے کہ انٹرنیٹ کو اس روز پہلی بار آن کرنے والے شخص کو اس بات کا احساس نہیں ہو گا کہ وہ ایک انقلابی قدم اٹھانے جا رہا ہے"۔ انٹرنیٹ اپنے اندر پوری دنیا سموئے ہوئے ہےاور یہ کسی بھی شخص تک رسائی کا آسان اور سستا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ویلش سائنسدان ڈونلڈ ڈیوس نے مواصلاتی رابطہ 'آرپینٹ' کو 1960ء میں ڈیزائن کیا تھا جسے صرف امریکی محکمہ دفاع کے ذمہ دار باہمی رابطوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس رابطےکو مزید فعال بنانے کے لیے امریکہ کی یونیورسٹی اور ریسرچ کے اداروں میں کام کیا گیا۔ خاص طور پر 'یونیورسٹی آف کیلیفورنیا' اور 'اسٹین فورڈ ریسرچ انسٹیوٹ' نے اس نیٹ ورک کو جدید اور فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 1973 میں 'انٹرنیٹ پروٹوکول کمیونکیشن سسٹم' کو سہل اور طاقتور بنانے کے لیےمزید کام ہوا جس کے بعد اس مواصلاتی رابطے نے کمیونکیشن کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ انٹر نیٹ کا نظام پہلے سے موجود رابطے کے نظام کی کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے بنایا گیا تھا لہذا اس نے جلد ہی دقیانوسی نیٹ ورک کی جگہ حاصل کرلی کیونکہ گزشتہ نظاموں کے برعکس انٹرنیٹ کا کسی مقام پر فیل ہونے کا خطرہ موجود نہیں تھا۔ برطانوی سائنس دان ٹم برنر لی نےچھ سال بعد اسی رابطے کو استعمال کرتے ہوئے 1989ء میں 'انٹر لنک ہائپر ٹیکسٹ ڈاکومنٹس' ایجاد کی جسے بعد میں 'ورلڈ وائڈ ویب' کا نام دیا گیا۔

انٹرنیٹ کو تیسویں سالگرہ مبارک

جمعہ, نومبر 23, 2012

گوگل ميپ کے ايک جزيرے کا کوئی وجود نہيں

آسٹريلوی سائنسدانوں کی ايک ٹيم نے يہ پتہ چلايا ہے کہ گوگل ميپس اور بعض دوسرے مشہور نقشوں ميں بھی ايک ايسا جزيرہ دکھايا گيا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہيں ہے۔ ايک طبقات الارضی مہم کے دوران آسٹريليا کے سائنسدانوں نے يہ پتہ چلايا ہے کہ جنوبی بحرالکاہل کا ايک جزيرہ جسے گوگل ميپس کے عالمی نقشوں ميں دکھايا جاتا ہے، کوئی وجود ہی نہيں رکھتا۔ آسٹريلوی سائنسدانوں نے اس پراسرار جزيرے کا سراغ لگانے کی بہت کوشش کی ليکن وہ ناکام رہے۔

گوگل ارتھ اور ورلڈ ميپ ميں يہ جزيرہ سينڈی آئی لينڈ کے نام سے آسٹريليا اور فرانس کے زير حکومت نيو کيليڈونيا کے درميان دکھايا گيا ہے۔ TIMES کے ورلڈ ايٹلس ميں اس جزيرے کو سيبل آئی لينڈ کا نام ديا گيا ہے۔ ايک آسٹريلوی بحری تحقيی جہاز کے موسمياتی نقشوں ميں بھی اس جزيرے کو دکھايا گيا ہے ليکن جب اس جہاز نے جزيرے کو ديکھنے کے ليے سفر کيا تو اُسے بھی يہ جزيرہ کہيں بھی نہيں ملا۔ سڈنی يونيورسٹی کی ڈاکٹر ماريا سيٹون نے جہاز کے 25 روزہ سفر کے بعد خبر ايجنسی اے ايف پی کو بتايا: ’’يہ جزيرہ گوگل ارتھ اور دوسرے نقشوں پر دکھايا گيا ہے اور اس ليے ہم اس کی تصديق کرنا چاہتے تھے ليکن ہميں يہ جزيرہ کہيں نہيں ملا۔ ہم حيران ہيں۔ آخر نقشوں ميں يہ کيوں دکھايا گيا ہے؟‘‘

اس نظر نہ آنے والے جزيرے پر سوشل ميڈيا ميں بھی بحث شروع ہو گئی ہے۔ اس ميں چارلس لائڈ نے لکھا کہ يہ جزيرہ، ’سينڈی آئی لينڈ‘ ياہو ميپس اور بنگ ميپس ميں بھی دکھايا گيا ہے۔ ايک اور شخص نے لکھا کہ اُس نے فرانس کے ہائڈرو گرافک آفس سے يہ معلوم کرليا ہے حقيقتاً اس جزيرے کا کوئی وجود نہيں ہے اور اسے 1979 منں چارٹس سے مٹا ديا گيا تھا۔

گوگل نے اس بارے ميں کہا کہ وہ اپنے نقشوں کے بارے ميں آراء کو خوش آمديد کہتا ہے اور وہ لوگوں اور مستند ساتھيوں سے ملنے والی معلومات کو گوگل ميپس ميں جگہ دينے کی مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے۔ گوگل کے ايک ترجمان نے خبر ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ وہ قابل اعتماد پبلک اور تجارتی ڈيٹا کی مدد سے اپنے استعمال کرنے والوں کو نقشوں کے بارے ميں تازہ ترين اور بھرپور معلومات فراہم کرتے ہيں۔ ترجمان نے يہ بھی کہا کہ نقشوں اور جغرافيے کے بارے ميں ايک دلچسپ بات يہ ہے کہ دنيا مسلسل تبديل ہو رہی ہے۔

گوگل ميپ کے ايک جزيرے کا کوئی وجود نہيں

جمعرات, نومبر 15, 2012

یوٹیوب چند روز میں کھولے جانے کا امکان

اسلام آباد: ملک بھر میں یوٹیوب کو آئندہ چند روز میں کھولے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کو اس سلسلے میں ضروری اقدامات کی ہدایت کی ہے، پی ٹی اے اس سلسلے میں ایک ایسا فلٹر سسٹم لگائے گا جس سے یوٹیوب پر کسی بھی گستاخانہ مواد کو روکا جاسکے گا۔ واضح رہے کہ وزیر داخلہ رحمان ملک نے چند روز قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت یوٹیوب پر سے تمام گستاخانہ مواد کو ہٹا کر اسے کھولنے پر غور کررہی ہے۔

حکومت نے گزشتہ ماہ یوٹیوب پر اس وقت پابندی لگادی تھی جب امریکا میں بنائی جانے والی گستاخانہ فلم کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کے دوران امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ یوٹیوب پر گستاخانہ مواد کے باعث نہ صرف پاکستان بلکہ متعدد اسلامی ممالک میں بھی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران لیبیا میں مشتعل افراد نے دارالحکومت طرابلس میں امریکی سفارتخانے میں گھس کر امریکی سفیر سمیت 3 سفارتکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔

بدھ, نومبر 14, 2012

سماجی رابطوں کے پر خطر اثرات

دو نومبر کو بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں انیس سو اسی کی دہائی کے ایک نمایاں کنزرویٹو سیاستدان پر ایک شخص سے جنسی بدسلوکی کے غلط الزامات عائد کیےگئے۔ اس پروگرام کے نشر ہونے کے فوری بعد اندازوں اور قیافوں کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ یہ سیاستدان کون ہوسکتا ہے۔

اس میں سے کچھ بحث ٹوئٹر پر ہو رہی تھی جس پر بعض افراد لارڈ میک الپائن کو نیوز نائٹ کے اس پروگرام سے جوڑ رہے تھے۔ اس ساری بحث کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ لارڈ میک الپائن کا نام ٹوئٹر پر نمایاں ٹرینڈز میں شامل ہو گیا۔ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے کے مطلب ہے کہ اس خطے یا پوری دنیا میں بڑی تعداد میں لوگ اسی موضوع پر بیک وقت بات کر رہے ہوتے ہیں۔ میڈیا میں آنے والی رپورٹوں میں سے بعض یہ بتاتی ہیں کہ لارڈ میک الپائن ان ہزاروں افراد میں سے چند افراد کے خلاف ہتک عزت کا دعوی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اس بارے میں قانون واضع ہے جو یہ کہتا ہے کہ ایک فرد واحد جب کوئی مواد انٹرنیٹ پر آن لائن شائع یا پوسٹ کرتا ہے، چاہے وہ فیس بک ہو یا ٹوئٹر یا پھر نیوز ویب سائٹس کے کمنسٹس والے حصے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتا ہے تو وہ اپنے لکھے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس قانون سے لاعلمی موثر دفاع نہیں ہے۔

جب ایک فردِ واحد انٹرنیٹ پر مواد شائع کرتا ہے یا لکھتا ہے وہ ایک پبلشر یا ناشر کے طور پر عمل کر رہا ہوتا ہے اور ان کی مطبوعہ یا شائع شدہ مواد یا تبصرے اسی طرح قانون کی زد میں آتے ہیں جیسے ایک کاروباری ناشر آتا ہے یا ایک اخبار۔ اس میں ٹویٹ کے ذریعے اشاعت بھی شامل ہے اور ایک ری ٹویٹ اس کی مزید اشاعت کے زمرے میں آتی ہے۔ ری ٹویٹ کا مطلب ہے کسی کی لکھی ہوئی ٹویٹ کو آگے اپنے ساتھیوں یا فالوور کے ساتھ شئیر کرنا۔ جو کسی کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ یا آگے بڑھاتا ہے تو وہ بھی ٹویٹ میں موجود مواد کا ذمہ دار بنتا ہے۔ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ جس شخص نے اصل ٹویٹ کی ہو وہ ان تمام ری ٹویٹ کرنے والوں کے عمل کا بھی ذمہ دار ٹہرایا جا سکتا ہے۔ اب یہ اصل ٹویٹ کرنے والے شخص کے اختیار میں نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی ٹویٹ کو ری ٹویٹ ہونے سے روک سکے مگر پھر بھی وہ ذمہ دار بن سکتا ہے۔ اس کا دفاع یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ فرد واحد یہ دعویٰ کرے کہ وہ تو صرف کسی کی کہی ہوئی بات یا ٹویٹ کو ری ٹویٹ کر رہا تھا۔ اس کا دفاع یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ کسی نے ایک بات کی تو اسے دہرانا ٹھیک ہے۔ عدالت ہر ٹویٹ کو ہتک عزت کے عمل کے طور پر دیکھے گی اور جتنا وہ ٹویٹ دہرائی جائے گی اتنا ہی اس کا نقصان زیادہ پہنچنے کا امکان ہے اور اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ اس کے نتیجے میں لوگ ہتک عزت کے دعوے کرنے پر مائل ہوں۔ اسی طرح یہ بات اہم ہے کہ جب آپ کو الزام ثابت کرنا پڑتا ہے تو اس میں یہ کافی نہیں ہوگا کہ کسی کی بات صحیح طریقے سے نہیں کی گئی بلکہ شائع کرنے والے ناشر کو اس الزام میں موجود حقیقت کو بھی ثابت کرنا پڑتا ہے۔

اس کی مثال یو ں ہے کہ فرض کریں کہ اگر میں ایک فرد واحد اپنے افسر پر ایک الزام عائد کرتا ہوں جسے میرے ایک دوست نے ری ٹویٹ کیا ہے۔ میرے اس دوست کو اس الزام کو ثابت کرنے کے قابل ہونا چاہیے اور صرف یہ کہنا کافی نہیں ہوگا کہ میں نے یہ بات کی ہے جس کی بنا پر اس نے ری ٹویٹ کیا۔ اگرچہ عدالتوں نے ماضی میں دیے گئے فیصلوں میں یہ واضع کیا ہے کہ وہ ایک ملزم سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے دفاع کو کامیاب کرنے کے لیے یہ ثابت کر سکیں کہ وہ ذمہ دارانہ صحافت کے اصولوں کے مطابق کام کرتے رہے ہیں۔ اس میں کہانی کی حقیقت کا پتہ کرنا اور تصدیق کرنا اور اس کے موضوع کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دینا شامل ہیں۔ ٹوئٹر پر موجود ایک ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنے کے بعد معذرت بھی درست نہیں سمجھی جائے گی۔

ان مقدمات میں لوگ کثیر رقوم ہتک عزت کے دعوؤں کی صورت میں مانگ سکتے ہیں۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ شائع ہونے والا مواد کیسا ہے اور اس کے اثرات کس قسم کے ہو سکتے ہیں جن میں ایک فوری معذرت بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اگر لارڈ میک الپائن ان حالیہ ٹویٹس کے نتیجے میں مقدمہ کرتے ہیں تو یہ مقدمہ ان کثیر تعداد میں کیےگئے مقدمات میں شامل ہو گا جو کہ فرد واحد کے سوشل میڈیا کے استعمال کے نتیجے میں سامنے آر ہے ہیں۔

برطانیہ میں سوشل میڈیا کے نتیجے میں ہتک عزت کے دعوے کا سب سے پہلا مقدمہ نیوزی لینڈ کے کرکٹر کرس کینز نے کیا جس کے نتیجے میں انہیں ہرجانے کے طور پر نوے ہزار پاؤنڈ ادا کرنے کا حکم دیا۔ ہندوستانی پریمئر لیگ کے سابق سربراہ لیلت مودی نے ٹوئٹر پر کرس کینز کے خلاف میچ فکسنگ کا غلط الزام عائد کیا تھا۔ اس مقدمے کا فیصلے دیتے ہوئے لارڈ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی اور مواصلاتی ذرائع کے نیتجے میں اب پہلے کی نسبت یہ زیادہ ممکن ہے کہ ایک بات یا خبر زیادہ دور تک اور تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے نیتجے میں پیدا ہونے والے اثرات پہلے کی نسبت بہت زیادہ دور رس اور لامحدود ہو گئے ہیں۔ جو پیغام ہمیں عدالتوں سے واضع اور زور شور سے مل رہا ہے وہ یہ ہے کہ اب آپ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ٹوئٹر اور فیس بک پر لکھی گئی باتوں کو ایک مجلس میں کی گئی عام گپ شپ کے طور پر نہیں لے سکتے۔

سماجی رابطوں کے پر خطر اثرات

پیر, نومبر 12, 2012

جذبات سے عمل تک

”دنیا کو کہو سلام!“ یہ وہ افتتاحیہ ہے جسے روس اور سی آئی ایس میں مسلمانوں کے سوشل نیٹ ورک ”سلام ورلڈ“ کی قیادت نے ایک مقابلے میں منتخب کیا ہے۔

اس افتتاحیہ نعرے کے خالق کزاخستان کے عبد راسل ابیلدینوو ہیں۔ ری پبلک کازان کے الشاط سعیتوو کو اس مقابلے میں دوسرا مقام حاصل ہوا ہے۔ ان کا لکھا نعرہ تھا، ”عقیدے میں یگانگت، انٹر نیٹ پہ یگانگت!“۔

”سلام ورلڈ“ کے صدر عبدالواحد نیازوو نے ریڈیو ”صدائے روس“ کی نامہ نگارہ کو بتایا۔، ”میں نعرہ منتخب کرنے والی کمیٹی میں شریک رہا۔ یہ مقابلہ تین ماہ تک جاری رہا۔ انگریزی میں لکھا نعرہ ”سے سلام ٹو دی ورلڈ“ کو چنا گیا ہے۔ یہ نعرہ مجھے اچھا لگا ویسے ہی جیسے دوسرے اور تیسرے مقام پر آنے والے نعرے اچھے لگے۔ ایسے بہت سے اور بھی اچھے نعرے تھے، جنہیں تخلیق کرنے والوں نے ہمارے نیٹ ورک کے نظریے اور مقصد کو سمجھا ہے“۔

اس مقابلے میں روس کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں کی جانب سے بھیجے گئے دوہزار سے زیادہ نعروں پر غور کیا گیا، عبدالواحد نیازوو بتا رہے ہیں، ”30 % نعرے روس کے جنوب کی شمالی قفقاز کی ریپلکوں انگوشیتیا، چیچنیا اور داغستان کے مسلمانوں کی جانب سے وصول ہوئے تھے۔ ان ریاستوں کے مسلمانوں نے بہت زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کیا لیکن جیت کازان اور الماآتا کے حصے میں آئی۔ ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ روس اور آزاد برادری کے دیگر ملکوں کے نوجوان لوگ ان سرگرمیوں میں شریک ہوں جو ہمارے اس منصوبے کے توسط سے رونما ہونگی۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سے ہمارا منصوبہ بحیثیت مجموعی متاثر ہوگا“۔

یاد دلادیں کے ماہ رمضان کے ایام میں ”سلام ورلڈ“ کا آزمائشی مرحلہ شروع کیا گیا تھا۔

اس وقت مذکورہ نیٹ ورک کے استنبول میں واقع صدر دفتر میں تیرہ ملکوں کے نمائندے مصروف کار ہیں جو اس نیٹ ورک کو پوری استعداد کے ساتھ شروع کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جیسا کہ عبدالواحد نیازوو نے بتایا ہے کہ اس نیٹ ورک کو اگلے برس کے ماہ اپریل میں روس کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا۔

فی الحال دنیا بھر میں مقابلہ کرنے کی خاطر سلام ورلڈ نے اشتہار ”جذبات سے عمل تک“ کے نام سے بہترین بل بورڈ تیار کرنے کے بین الاقوامی مقابلے کا اعلان کیا ہے۔ نیازوو کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں مسلسل اسلام مخالف اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے، جیسے کہ خاص طور پر غم و غصہ کی لہر دوڑا دینے والی فلم ”مسلمانوں کی معصومیت“۔ عبدالواحد نیازوو کہتے ہیں: ”جی ہاں، مسلمانوں نے اپنے غیض کا درست اظہار کیا لیکن ہوا کیا؟ بس مسلمانوں نے امریکی جھنڈا نذر آتش کردیا یا اسے پاؤں تلے روند ڈالا، یا پھر مغربی ملکوں کے سفارتخانوں پہ پتھر برسائے۔ آج زیادہ سے زیادہ لوگ سمجھ چکے ہیں کہ گوگل اور یو ٹیوب پہ مغرب والے دہرے معیارات کا استعمال کرکے ان کی جتنی بھی دل آزاری کرتے رہیں، جب تک مسلمانوں کا اپنا اطلاعاتی انفراسٹرکچر بشمول انٹرنیٹ سرور کے نہیں ہوگا، ہم اسی طرح ذلت اور ندامت کا نشانہ بنائے جاتے رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ مہینوں میں ہمارے منصوبے میں لوگوں کی دلچسپی کئی گنا بڑھی ہے“۔

”جذبات سے عمل تک“ نام کے بین الاقوامی مقابلے کے شرکاء کو چاہیے کہ وہ بہترین ڈیزائن اور بہترین نعرہ تیار کرکے بھجوائیں۔ اہم یہ ہونا چاہیے کہ اس میں اس نظریے کا اظہار ہو کہ موجودہ عہد میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور آزادی اظہار کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

جیتنے والے کے تیار کردہ بل بورڈ کے ڈیزائن اور نعرے کو دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں نمایاں طور پر لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔ عبدالواحد نیازوو نے مزید کہا، ”روس سے پہلا نعرہ اور تین ڈیزائن وصول ہو چکے ہیں۔ نعرہ یوں ہے، ”ہمیں حضرت عیسیٰ بھی پیارے ہیں اور محمد بھی“۔ سادہ سی بات ہے لیکن اس میں بہت بڑی سوچ مضمر ہے۔ ہمارے مقابلے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو اور سب سے پہلے غیر مسلموں پہ واضح کیا جائے کہ یاد رکھو ہمارے مذہب کا سارا حسن اس میں ہے کہ کسی بھی انسان کے مذہبی جذبات اور کسی بھی مذہب کے عقائد کی تعظیم کی جانی چاہیے“۔

”جذبات سے عمل تک“ نام کا بل بورڈ تیار کیے جانے کا بین الاقوامی مقابلہ اسلامی تنظیم تعاون کی اعانت سے ہو رہا ہے اور اس میں کوئی بھی شخس حصہ لے سکتا ہے۔

جذبات سے عمل تک

ہفتہ, نومبر 10, 2012

خلائی انٹرنیٹ کا تجربہ کامیاب رہا

بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر موجود ایک خلا باز نے زمین پر ایک روبوٹ کو ہدایات بھیج کر پہلی بار خلائی انٹرنیٹ استعمال کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک تجرباتی ٹیکنالوجی استعمال کی جسے ڈسرپشن ٹولرنٹ نیٹ ورکنگ (ڈی ٹی این) یا ’خلل برداشت کرنے والی نیٹ ورکنگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس پروٹوکول کو مستقبل میں مریخ پر موجود خلا بازوں کے ساتھ رابطے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہو جائے تو زمین اور مریخ گاڑی کے درمیان بھیجے گئِے پیغامات ضائع ہو سکتے ہیں لیکن ڈی ٹی این کی مدد سے زیادہ لمبے فاصلوں تک ڈیٹا بھیجا جا سکتا ہے۔ یورپی خلائی ادارے اور ناسا نے اکتوبر میں مل کر اس نئے نظام کا تجربہ کیا تھا۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر کمانڈر سنیتا ولیمز نے ایک لیپ ٹاپ پر ڈی ٹی این سافٹ ویئر کی مدد سے جرمنی میں ایک روبوٹ گاڑی چلائی۔

ڈی ٹی این زمینی انٹرنیٹ سے ملتا جلتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس کی مدد سے مواصلات میں تاخیر اور خلل کے مسائل سے زیادہ بہتر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ سیاروں، خلائی سٹیشنوں، اور دور دراز سفر کرتے ہوئے خلائی جہازوں میں یہ مسائل عام ہوں گے۔ یہ تاخیر شمسی طوفانوں یا پھر خلائی جہاز کے کسی سیارے کے پیچھے ہونے کی وجہ سے واقع ہوسکتی ہے۔

یورپی خلائی ادارے کے کم نیرگارڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کا مقصد طویل فاصلوں تک مواصلات کو ممکن بنانا ہے، کیوں کہ عام انٹرنیٹ اس بات کی توقع نہیں کرتا کہ کوئی چیز بھیجنے یا وصول کرنے میں کئی منٹ لگیں۔‘ تاخیر کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نظام کے اندر نوڈز، یا کنکنشن پوائنٹس، کا ایک سلسلہ بنایا گیا ہے۔ اگر مواصلات منقطع ہوجاتی ہیں تو ڈیٹا اس وقت تک نوڈ کے اندر سٹور کر لیا جاتا ہے جب تک رابطہ دوبارہ بحال نہ ہو جائے۔ ذخیرہ کرنے اور آگے بھیجنے کے اس نظام کی وجہ سے اس بات کو یقینی بنا لیا جاتا ہے کہ ڈیٹا ضائع نہیں ہو گا اور بتدریج آگے بڑھتا رہے گا۔

نیرگارڈ کہتے ہیں ’زمین پر اگر انٹرنیٹ کا رابطہ منقطع ہو جائِے تو ہر چیز ازسرِنو بھیجنا پڑتی ہے، ورنہ ڈیٹا ضائع ہو جاتا ہے‘۔ ’لیکن ڈی ٹی این کے اندر خلل کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اور یہی اصل فرق ہے۔ یہ جن طویل فاصلوں اور نیٹ ورکس پر کام کرے گا، اسے اتنا ہی مضبوط ہونا چاہیے۔‘ اس وقت مریخ پر موجود روبوٹ گاڑی کیوروسٹی کے ساتھ رابطے کے لیے ناسا اور یورپی ادارہ ’پوائنٹ ٹو پوائنٹ‘ مواصلات کا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ نیرگارڈ کہتے ہیں ’اسے نیٹ ورک کی طرح نہیں بنایا گیا۔ اس وقت مریخ کی سطح پر کئی روبوٹ گاڑیاں موجود ہیں، اور کئی جہاز اس سیارے کے گرد چکر لگا رہے ہیں، لیکن ان سب کو پوائنٹ ٹو پوائنٹ مواصلات سمجھا جاتا ہے‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’خلائی انٹرنیٹ کے پیچھے خیال یہ ہے کہ مستقبل میں مریخ پر بھیجی جانے والی گاڑیاں اور جہازوں کو ایک نیٹ ورک کی طرح برتا جائے گا، اور آپ ان تک ڈیٹا ویسے ہی بھیج سکیں گے جیسے آپ زمین پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے بھیجتے ہیں‘۔

ناسا کے بدری یونیز نے کہا کہ تجربہ کامیاب رہا اور اس کی مدد سے ’مواصلات کے ایک نئے طریقے کے استعمال کی افادیت کا مظاہرہ ہوا ہے جس میں کسی سیارے کی سطح پر موجود روبوٹ تک مدار میں چکر کاٹتے جہاز سے احکام بھیجے جا سکتے ہیں اور روبوٹ سے تصویریں اور ڈیٹا وصول کیا جا سکتا ہے‘۔

خلائی انٹرنیٹ کا تجربہ کامیاب رہا

جمعرات, نومبر 01, 2012

گوگل ہتکِ عزت کا مقدمہ ہار گیا

آسٹریلیا میں گوگل کے خلاف ہتکِ عزت کے ایک مقدمے میں جیوری نے ایک شکایت کے بعد اسے ہرجانے کا موجب قرار دیا ہے۔ شکایت میں کہا گیا تھا کہ اس کے سرچ کے نتائج میں ایک مقامی شخص کو جرائم کی دنیا سے وابستہ دکھایا گیا ہے۔ ملوراڈ ٹرکلجا نامی شخص نے الزام لگایا تھا کہ امریکی کمپنی کی وجہ سے اس کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے۔ باسٹھ سالہ شخص کا کہنا تھا کہ جب سرچ انجن کو اسے ہٹانے کے لیے کہا گیا تو اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے پہلے وہ یاہو کے خلاف بھی مقدمہ جیت چکے ہیں۔ گوگل نے ابھی اس فیصلے پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے۔ اگلے دو ہفتوں میں جج یہ طے کریں گے کہ ہرجانہ کتنا ہونا چاہیے۔

ملوراڈ ٹرکلجا 1970 کے اوئل میں یوگوسلاویہ چھوڑ کر آسٹریلیا آ بسے تھے۔ اس کے بعد وہ تارکینِ وطن کی برادری کے اہم رکن بن گئے اور 1990 کے دہائی میں یوگوسلاو موضوعات پر ’مکی فولکفیسٹ‘ نامی ٹی وی شو بھی چلاتے رہے۔ سنہ 2004 میں ایک ریستوران میں بالاکلاوا (ایک خاص قسم کا کنٹوپ) پہنے ایک شخص نے ان کی کمر پر گولی مار دی تھی۔ یہ کیس کبھی بھی حل نہیں ہوا لیکن بعد میں ہیرالڈ سن اخبار نے اس کی یہ خبر لگائی کہ پولیس کے مطابق میلبورن زیرِ زمین مافیا کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں جب بھی ملوراڈ ٹرکلجا کا نام گوگل تصاویر میں ڈالا جاتا تو کئی افراد کی تصاویر ان کے نام کے ساتھ آ جاتیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ مبینہ طور پر قاتل ہیں اور ایک منشیات فروش بھی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں سے کئی ایک تصاویر کے نیچے ’میلبورن کرائم‘ بھی لکھا آتا ہے جس میں سے ایک ٹرکلجا کی بھی ہے، جس کے متعلق وہ الزام لگاتے ہیں کہ دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ وہ بھی جرائم پیشہ ہیں۔.

گوگل کو جرمنی کے سابق صدر کی اہلیہ بیٹینا وولف کی جانب سے بھی شکایت کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی ان کا نام لکھ کر سرچ کیا جاتا ہے تو ’وحشیا‘ اور ’بازارِ حسن‘.جیسی مجوزہ سرچ کے نتائج آتے ہیں۔

گوگل ہتکِ عزت کا مقدمہ ہار گیا

منگل, اکتوبر 23, 2012

’ڈیجیٹل خانہ بدوش‘

مہم جُو نوجوانوں کے ایک گروپ نے سائیکل پر سفر کرتے ہوئے جرمنی سے بھارت جانے کا منصوبہ بنایا۔ اس دوران اہم بات یہ تھی کہ یہ گروپ جہاں بھی گیا، اسے بغیر کسی مشکل کے انٹرنیٹ کی سہولت حاصل رہی۔

برلن سے نئی دہلی تک کا سفر اور وہ بھی سائیکل پر۔ تھوماس جیکل اپنے دیگر تین ساتھوں کے ساتھ برلن سے نئی دہلی تک کا 8 ہزار سات سو کلومیٹر طویل سفر کرنے کے لیے نکلے۔ دیگر اشیاء کے علاوہ زاد راہ کے طور پر ان کے پاس لیپ ٹاپ یو ایس بی سٹکس اور سمارٹ فونز تھے۔ ان تینوں نے اس دوران راتیں خیموں میں بسر کیں اور دن میں سفر کے دوران وقفہ کرنے کے لیے کسی ایسے کیفے یا ہوٹل کا انتخاب کیا، جہاں انٹرنیٹ کی سہولت یعنی ہاٹ سپاٹ موجود تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں یہ سہولت ایسے علاقوں میں بھی میسر آئی، جن کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ باہر کی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ رات کو یہ لوگ سفر کی داستان اور ای میلز لکھتے تھے اور دن میں اسے اپ لوڈ کرتے رہے۔ 26 سالہ تھوماس کہتے ہیں، ’میں بھوک اور پیاس تو برداشت کر سکتا ہوں لیکن انٹرنیٹ مجھے ہر حال میں چاہیے‘۔

ان کا یہ سفر چھ ماہ پر محیط تھا۔ مہم جو نوجوانوں کا یہ گروپ چیک ریپبلک، آسٹریا، سلوواکیہ، ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، ترکی، ایران اور پھر پاکستان سے ہوتے ہوئے بھارت پہنچا۔ اس دوران انہوں نے آسانی یا مشکل سے کسی نہ کسی طرح انٹرنیٹ سہولت کو تلاش کر ہی لیا۔ جیکل بتاتے ہیں، ’ایران میں، میں نے موبائل کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کیا۔ بغیر عنوان والی ایک ای میل کو بھیجنے کے لیے تقریباً ایک گھنٹہ لگا‘۔ 27 سالہ ایرک فیئرمان بتاتے ہیں، ’راستے میں جہاں بھی انٹرنیٹ کنکشن موجود تھا، ہم نے وہاں وقفہ کیا۔ لیپ ٹاپ چارج کیے اور انٹرنیٹ کا پاس ورڈ پتا چلانے میں بھی کوئی خاص مشکل پیش نہ آئی‘۔ ان نوجوانوں کے مطابق انٹرنیٹ سے رابطہ ہونے کی صورت میں انہوں نے صرف اہم چیزوں پر ہی توجہ دی اور سکائپ اور فیس بک پر اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ اس ٹیم نے اپنے سفر کے دوران یہ ثابت کیا کہ انسان اگر چاہے تو وہ سنسان اور ویران مقامات سے بھی رابطے میں رہ سکتا ہے۔

اس سفر کا ایک مقصد بھارت میں بیت الخلاء کی تعمیر کے لیے ان کے ’’ٹائلٹ پروجیکٹ‘‘ کے لیے چندہ جمع کرنا بھی تھا۔ اس دوران ان کے پاس ساڑھے گیارہ ہزار یورو اکھٹے ہوئے۔ اس رقم سے یہ نوجوان ممبئی کے قریب 25 حاجت خانے بنوائیں گے۔ ممبئی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو ٹائلٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ اس ٹیم کے چار ارکان نے سائیکل پر بھارت کا سفر طے کیا جبکہ ان کے بقیہ ساتھی اپنے اس منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے بھارت پہنچے۔

’ڈیجیٹل خانہ بدوش‘

جمعرات, اکتوبر 18, 2012

پی ٹی سی ایل ایوو ٹیبلیٹ؛ قیمت صرف 12000 روپے

لیجئے جناب آخر کار پی ٹی سی ایل کو بھی عقل آہی گئی، کمپنی کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی خصوصی عید آفر میں صارفین کو پی ٹی سی ایل ایوو ٹیب اب 30 ہزار روپے کی بجائے صرف 12 ہزار روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔ جس کے ساتھ صارفین کو 3 ماہ تک لامحدود انٹرنیٹ بھی مفت فراہم کیا جائے گا۔

پی ٹی سی ایل ایوو ٹیبلیٹ کی نمایاں خصوصیات کچھ یوں ہیں:
3G سمارٹ فون ٹیبلیٹ جس میں ایوو وائرلیس براڈ بینڈ کی سہولت بھی موجود ہے۔
7 انچ لمبی ٹی ایف ٹی ٹچ سکرین۔
800MHz پراسیسر اور 512MB ریم۔
گوگل اینڈرائیڈ فرویو 2.2 آپریٹنگ سسٹم۔
5 میگا پکزل آٹو فوکس کیمرہ اور سامنے کی جانب ویڈیو کالنگ کے لیے دوسرا کیمرہ۔
جی ایس ایم اور CDMA سم کی سہولت جس میں آپ کالز اور ایس ایم دونوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
32GB تک میموری کارڈکی سہولت اور ساتھ میں 2GB کارڈ مفت۔

شرائط و ضوابط:
یہ آفر صرف ایوو ٹیب خریدنے والے صارفین کے لیے دستیاب ہے۔
آفر پی ٹی سی ایل ون سٹاپ شاپس اور مجاز ڈسٹری بیوٹرز کے ذریعے ہی دستیاب ہے۔
تین ماہ کے بعد صارفین کو Non-PSTN پیکج پر منتقل کردیا جائے گا جس کے چارجز 2100 روپے ماہانہ ہونگے۔ صارفین اپنا پیکج تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔
پی ٹی سی ایل کی یہ نئی آفر ہے تو بہت اچھی لیکن بہت دیر کردی مہربان آتے آتے، اگر پی ٹی سی ایل کی جانب سے یہ آفر ایوو ٹیب متعارف کرواتے وقت پیش کی جاتی تو یقیناً صارفین کی بڑی اکثریت یہ ٹیبلیٹ ضرور خریدتی، لیکن اب 800MHz پراسیسر اور اینڈرائیڈ 2.2 کا زمانہ پرانا ہوچکا ہے، دوسری طرف بہت سے صارفین ایوو سروس کی ناقص کوالٹی اور کم سپیڈز سے بھی نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا اگر آپ یہ ٹیبلیٹ خریدنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو ذرا مزید سوچ لیجئےکہیں گھاٹے کا سودا ثابت نہ ہو۔

اتوار, اکتوبر 14, 2012

فیس بک ہیک؟ انتظامیہ کا انکار

گذشتہ رات گوڈیڈی کو ہیک کرنے والے ہیکر Anonymous Own3r کی جانب سے دعوٰی کیا گیا کہ اس نے سماجی روابط کی مشہور ویب سائٹ فیس بک پر DDoS حملہ کرکے اسے ہیک کرلیا ہے جس کی وجہ سے یورپی ممالک کے اکثر صارفین کے پاس فیس بک کی رسائی ختم ہوگئی۔

جرمنی، فرانس، اٹلی، ترکی، سویڈن، سپین، ناروے، یونان اور دیگر یورپی ممالک سے صارفین کی بڑی اکثریت نے ٹوئٹر پیغامات کے ذریعے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو فیس بک کے اس تعطل سے آگاہ کیا۔ بعد ازاں ہیکر کی جانب سے ٹوئٹر پر پیغام دیا گیا کہ اس نے اب ویب سائٹ پر DDoS حملہ بند کردیا ہے لہذا ویب سائٹ تمام صارفین کے لیے دوبارہ دستیاب ہوگی۔
 
لیکن کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟ فیس بک انتظامیہ نے ہیکر کے تمام تر دعووں کو غلط قرار دیا ہے اور ویب سائٹ سروس معطل ہونے کی اصل وجہ بیان کی ہے۔ انتظامیہ کے مطابق یورپی ممالک میں فیس بک سروس کو مزید بہتر بنانے کے DNS میں تبدیلی کی گئی تھی، لیکن اس میں ایک جگہ خرابی پیدا ہوگئی جسے فوری طور ختم کردیا گیا لیکن چونکہ نئے DNS تمام صارفین کے لیے دستیاب ہونے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے اس لیے ویب سائٹ چند گھنٹے ڈاؤن رہی۔ اس میں ہیکر کا کوئی کمال نہیں۔

جمعہ, ستمبر 28, 2012

یو ٹیوب کا بائیکاٹ؛ گوگل رینکنگ میں تیسرے نمبر پر

کمپنی کو ناقابل تلافی نقصان، روزانہ 30 لاکھ صارفین کی کمی کا سامنا ہے

دنیا بھر میں یو ٹیوب کے بائیکاٹ کی وجہ سے گوگل کو نا قابل تلافی نقصان کا سامنا ہے، کمپنی رینکنگ پہلے نمبر سے تیسرے نمبر پر آ گئی ہے اور اسے روزانہ 30 لاکھ صارفین کی کمی کا سامنا ہے۔

انٹرنیٹ کی ٹریفک رینکنگ پر نظر رکھنے والے پورٹل ’الیکسا‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے مسلمان ملکوں میں معروف سرچ انجن گوگل اور اس کی ملکیتی یو ٹیوب کے بائیکاٹ نے کمپنی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یو ٹیوب سے گستاخانہ فلم نہ ہٹانے پر گوگل کے بائیکاٹ کی وجہ سے کمپنی رینکنگ میں پہلے نمبر سے تیسرے پر آ گئی ہے۔ سائبر سپیس پر حکمرانی کرنے والی گوگل کمپنی یومیہ 30 لاکھ وزیٹرز سے محروم ہو رہی ہے۔ الیکسا کے مطابق گوگل پچھلے آٹھ برسوں سے انٹرنیٹ سرچ انجن کی دنیا میں پہلے نمبر پر رہا ہے، لیکن صارفین کے حالیہ بائیکاٹ سے کمپنی پہلے، دوسرے اور اب تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔ 

اردن سے شائع ہونے والے ”الدستور“ اخبار نے گوگل کی گرتی ساکھ سے متعلق اپنی رپورٹ میں مغربی میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ ’متنازع مواد‘ بلاک نہ کرنے کے باعث انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں نے گوگل سرچ انجن کا متبادل تلاش کرنا شروع کردیا ہے۔ گوگل کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کا فائدہ کمپنی سے کاروباری مسابقت رکھنے والے سرچ انجن اٹھا رہے ہیں۔


جمعہ, ستمبر 14, 2012

آسٹریا میں نئے انٹرنیٹ نیٹ ورک کا تجربہ

واشنگٹن — آسٹریا سے تعلق رکھنے والے کمپیوٹر پروگرامرز اور ہیکرز کے ایک گروپ نے مختلف آبادیوں میں انٹرنیٹ کے استعمال کو فروغ دینے کا ایک سستا متبادل تیار کرلیا ہے۔

ان پروگرامرز نے اپنے اس نئے نیٹ ورک کو ’فنک فیوور‘ کا نام دیا ہے جس کا جرمن زبان میں مطلب ہے ’نیٹ ورک فائر‘۔ اس وائرلیس نیٹ ورک کی تخلیق میں روزمرہ کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جس کے ذریعے کمپنیوں یا حکومت کی مداخلت کے بعد ایک فرد سے دوسرے کو ڈیٹا منتقل کیا جاسکتا ہے۔

بیشتر صارفین کے لیے انٹرنیٹ بھی فون سروس یا بجلی کی طرح کی ایک ’یوٹیلٹی‘ ہے۔ صارف انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے اپنی فون سروس یا ٹی وی کیبل کمپنی کو رقم ادا کرتے ہیں۔ لیکن ویانا کی چھتوں پہ نصب ’فنک فیوور‘ کے آلات اس معمول کی نظام سے ذرا مختلف ہیں۔

یہ نیٹ ورک ’وائی فائی‘ کی طرح کا ’اوپن ریڈیو سپیکٹرم‘ استعمال کرتے ہوئے وائرلیس انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ لیکن گھروں اور دفاتر میں استعمال ہونے والے روایتی چھوٹے ’وائی فائی‘ نیٹ ورکس کے برخلاف ’فنک فیوور‘ زیادہ وسیع علاقے تک کارآمد ہوتا ہے۔

اس نیٹ ورک کی وسعت کا انحصار اس کے استعمال کرنے والوں پر ہوتا ہے جو ہر دوسرے صارف کے لیے رائوٹر اور اینٹینے کا کام دیتے ہیں۔ اگر کوئی ایک بھی صارف انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہے تو ’فنک فیوور‘ سے جڑے تمام صارفین اس کےذریعے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

کئی لوگ اس ٹیکنالوجی کو حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی نگرانی اور قدغنوں کے ایک اچھے توڑ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

نیٹ ورک کے خالق ایرون کیپلن کہتے ہیں کہ اس نیٹ ورک کو شٹ ڈائون کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ آپ کو اس کے ایک ایک صارف تک جا کر اس کی انٹرنیٹ تک رسائی منقطع کرنی ہوگی۔

 ان کے بقول، ”اس لیے یہ ایک آسان کام نہیں۔ ماضی کی طرح اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی ایک ’آئی ایس پی‘ (انٹرنیٹ سروس پرووائڈر) کے پاس جائیں اور اسے کہیں کہ سسٹم بند کردے۔ اس نیٹ ورک میں ایسا کچھ نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ عدم مرکزیت کا حامل ہے جہاں ہر چیز ایک دوسرے سے جدا آزادانہ حیثیت میں کام کر رہی ہے“۔

اس نیٹ ورک کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اسے ایک شہر ہی نہیں بلکہ پورے پورے ملکوں تک توسیع دے سکتے ہیں اور گو کہ یہ کام آسان نہیں، لیکن ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔

آسٹریا میں نئے انٹرنیٹ نیٹ ورک کا تجربہ

بدھ, اگست 15, 2012

گوگل کے’ڈُوڈل‘ فن ہیں یا کاروبار؟

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ گوگل کے ویب صفحے پر کمپنی کے لوگو یا علامتی نشان کی جگہ ہر دن نظر آنے والے ایک نئے ڈیزائن کے پیچھے کس کا دماغ کارفرما ہوتا ہے۔

اس ڈیزائن کو ’ڈوڈل‘ بھی کہا جاتا ہے جسے ہر روز کروڑوں افراد دیکھتے ہیں۔

کبھی ماؤس کے ایک اشارے پر بجنے والا لیس پال گٹار، کبھی رابرٹ موگ کی یاد میں پیك مین گیم تو کبھی اولمپک کھیلوں سے متعلق کارٹون، یہ گوگل کے ہوم پیج پر اب تک کے دکھائی دینے والے کچھ بہترین ’ڈوڈلز‘ میں سے کچھ ہیں۔

جو چیز سنہ انیس سو اٹھانوے میں انگلش میں لکھے گئے گوگل کے لفظ ’او‘ سے بنی ایک شکل ہوا کرتی تھی اب وہ کسی کھیل، مقبول واقعے یا کسی شخصیت سے متعلق ایک فنی شے بن گئی ہے۔

اب تک تقریباً ایک ہزار سے زیادہ ڈوڈلز بن چکے ہیں جو مشہور کے ساتھ ساتھ کم جانی پہچانی شخصیات سے بھی جڑے ہوتے ہیں۔

ان میں سے کچھ تو بہت دلچسپ اور کچھ بےتكے بھی ہوتے ہیں، لیکن انہیں کافی پسند کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے ہر روز گوگل کا استعمال کرنے والے کروڑوں لوگوں کی توجہ ان ڈوڈلز کی طرف جاتی ہے۔

لندن میں دو ہزار بارہ کے اولمپکس مقابلے جتنے دن جاری رہے ہر دن کسی ایک کھیل سے منسلک ایک نیا ڈوڈل گوگل کے ہوم پیچ پر نظر آتا رہا۔

کبھی یہاں تیراکی سے متعلق معلومات ہوتی تھیں تو کبھی نشانے بازي سے متعلق، اور ہر نئے ڈوڈل کے ساتھ انٹرنیٹ پر اس سے متعلق ان گنت مضمون پڑھے جاسکتے تھے۔

ہر دن ایک ایسی نئی چیز کے ساتھ لوگوں کو لبھانا کوئی آسان کام نہیں۔ مثلاً چارلي چپلن کے ڈوڈلز دیکھیں تو انہیں دیکھ کر آپ کو اس ٹیم کے بارے میں تھوڑا بہت سمجھ میں آئے گا جو اپنے آپ کو بھی ’ڈوڈلرز‘ کہتے ہیں اور اس کام کو سرانجام دیتے ہیں.

یہ وہ لوگ ہیں جو کیلیفورنیا کے ایک چھوٹے سے آفس میں بیٹھ کر ہر روز ایک نیا ڈوڈل بناتے ہیں۔ ان ڈوڈلز کا بنیادی مقصد دفاتر میں روزمرہ کا کام کررہے لوگوں کی دلچسپی بڑھانا اور انہیں ایک مختلف قسم کا احساس کرانا ہے۔

اس ٹیم کے تخلیقی لیڈر ريان جرمك کے مطابق ان کے دماغ پر کبھی بھی یہ بات حاوی نہیں ہوتی کی ان کے کام کو لاکھوں لوگ دیکھ یا پڑھ رہے ہیں.

جرمك کہتے ہیں، ’انسانی دماغ یہ سمجھ پانے میں ناکام ہے کہ کسی چیز کو لاکھوں لوگ کس طرح سے لیں گے۔ میرے لیے زیادہ معنی یہ رکھتا ہے کہ میں اپنے ساتھیوں اور دوستوں کو کتنا ہنسا سکتا ہوں یا کیسے کوئی نئی ٹیکنالوجی سیکھ سکتا ہوں۔ ہمیں فنکار یا ڈیزائنرز کے زمرے میں مت رکھیں۔ ہم بس یہ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ ہم فن اور ٹیکنالوجی کو سب سے بہتر شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرسکیں‘۔

ان کا ماننا ہے کہ وہ تفریح، فن، ٹیکنالوجی اور گرافک ڈیزائن کے درمیان ایک پل کا کام کرتے ہیں۔

ڈوڈل کا انتخاب اس ٹیم کے لیے روز ایک نیا چیلنج ہوتا ہے۔ گوگل کے صفحے پر کس چیز یا موضوع کو جگہ دینی ہے، اس کا فیصلہ کافی جمہوری طریقے سے کیا جاتا ہے۔

اس میں زیادہ توجہ اس چیز پر دی جاتی ہے کہ جو موضوع منتخب کیا گیا ہے، اس میں حیرت کا عنصر کتنا زیادہ ہے اور اس میں امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک میں واقع گوگل کے دفاتر سے ملنے والی معلومات کی بھی کافی اہمیت ہوتی ہے۔

اس تخلیقی عمل کو دیکھ کر یہ بھی سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا ڈوڈل بنانا ایک فن ہے یا اسے محض کاروباری نظر سے دیکھا جائے؟

فن کے بارے میں جو بات کہی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فن کا کوئی کاروباری پہلو نہیں ہوتا لیکن دیکھا جائے تو ڈوڈل کے معاملے میں تجارتی فن کا ایک عملی پہلو بھی ہے۔

گرافک ڈیزائنر سی سکاٹ کے مطابق ڈوڈلز ایک طرح سے ماڈرن آرٹ کی ہی ایک شکل ہیں لیکن مارکیٹنگ کمپنی سیون براڈز کی چیف ایگزیکٹو آفیسر جیسمن منٹگمري اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔

جیسمن کے مطابق، ’جب آپ کو آپ کی تخلیقی صلاحیت کے لیے پیسے دیے جانے لگتے ہیں تب آپ کا کام فن کے دائرے سے باہر ہوجاتا ہے کیونکہ تب آپ اپنے کاروباری كرتا دھرتا کی بات مانتے ہیں نہ کہ تخلیقی گرو کی‘۔

یہ فن ہے یا کاروبار یا پھر دونوں کا مرکب، اس بات پر بھلے ہی اختلاف ہو لیکن اس بات سے انكار نہیں کیا جاسکتا کہ ڈوڈلز کافی دلچسپ اور دلکش ہوتے ہیں اور جب تک گوگل کا انٹرنیٹ بازار پر تسلط برقرار رہے گا، اس وقت تک اس کے ہوم پیج پر نظر آنے والے ڈوڈلز انٹرنیٹ سرفنگ کا ایک اہم حصہ بنے رہیں گے۔

گوگل کے’ڈُوڈل‘ فن ہیں یا کاروبار؟

جمعہ, جولائی 20, 2012

بعد از مرگ آن لائن املاک کا وارث کون؟

انٹرنیٹ کے فروغ سے دنیا بھر میں بے شمار آن لائن اکاؤنٹ کھولے گئے ہیں۔ اکثر لوگ ای میل، سوشل میڈیا مثلاً فیس بک اور ٹوئٹر اور دوسرے آن لائن اکاؤنٹ میں ذاتی نوعیت کا بہت سا ڈیجیٹل مواد ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

مگر ہمارے مرنے کے بعد اس ذاتی ڈیجیٹل مواد کا کیا ہوتا ہے؟ کون ہماری آن لائن وراثت کو کنٹرول کرتا ہے؟ بہت سے لوگوں اس وقت بہت مایوسی ہوتی ہے جب وہ اپنے پیاروں کےمرنے کے بعد ان کی آن لائن زندگیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔

فیس بک پر تمام مواد اس کی ملکیت
جب اکیس سالہ بنجمن سٹیسن نے خودکشی کی تو وہ ایک بہت بے فکرا اور اپنے کالج کی زندگی میں مگن انسان نظر آتا تھا۔ اس کی موت کے بعد سے اس کے والدین یہ کھوج لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔

اس کے والدہ ایلس نے کہا،’’ہمیں بنجمن کی موت سے بہت دھچکا لگا ہے‘‘۔

اس کےوالد جے سٹیسن نے کہا کہ ’’ہم نے اس کے سوشل میڈیا اور ای میل اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ جان سکیں کہ اس کی زندگی میں ایسا کیا ہورہا تھا‘‘۔

وہ خاص طور پر اس کے فیس بک اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے پرائیوٹ پیغام پڑھ سکیں۔ مگر سب لوگوں کی طرح بنجمن سٹاسن نے بھی فیس بک اکاؤنٹ بناتے وقت شاید بغیر پڑھے ایک ایگری منٹ سائن کیا تھا جس کے مطابق اس کے اکاؤنٹ پر موجود تمام مواد کمپنی کی ملکیت ہے۔

اس کے والد کا کہنا ہے کہ مرنے والے کے والد کی حیثیت سے اس کے اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنا تو دور کی بات ہے، کمپنی سے رابطہ کرنا ہی ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔

لہٰذا انہوں نے عدالت سے ایک حکمنامہ حاصل کیا ہے جس میں فیس بک کمپنی کو کہا گیا ہے کہ وہ ان کو اپنے بیٹے کے اکاؤنٹ تک رسائی دے۔ تاہم ابھی تک فیس بک نے اس حکمنامے پر عمل نہیں کیا۔

آن لائن وراثت
کچھ ایسا ہی میک ٹونیز کے خاندان اور دوستوں کے ساتھ بھی ہوا جو 2009ء میں نیند کی حالت میں انتقال کر گئےتھے۔ وہ ایک مقبول بلاگ لکھتے تھے اور ان کے بہت سے آن لائن دوست اور مداح تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے خاندان نے گوگل کمپنی سے اس بلاگ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بلاگ کے تبصروں کے سیکشن میں بہت سے اشتہار جمع ہوگئے ہیں جو وہ عموماً ڈیلیٹ کردیا کرتے تھے۔

کچھ کمپنیاں اس مسئلے کےایک نیا حل پیش کررہی ہیں تاکہ لوگ اپنی آن لائن وراثت پر کچھ کنٹرول حاصل کرسکیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے تمام آن لائن اکاؤنٹس کے نام اور پاس ورڈ ایک ڈیجیٹل خانے میں اپ لوڈ کردیں اور ساتھ ہی کمپنی کو یہ ہدایت دے دیں کہ آپ کے مرنے کے بعد آپ کے اکاؤنٹ کی کون سے فائلیں ختم کرنی ہیں اور کون سی متعین کردہ افراد کو پہنچانی ہیں۔

مگر میک ٹونیز کے ویب ڈیویلپر دوست مارک پلاٹنر نے ایک اور حل نکالا ہے۔ انہوں نے ان کے بلاگ کا تمام مواد سائٹ سکر نامی ایک پروگرام کے ذریعے ڈاؤن لوڈ کرکے اسےبالکل ویسے ہی ایک نئے بلاگ پر اپ لوڈ کیا ہے۔ مگر اب اس کا کنٹرول ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ وہ اپنے دوست کی آن لائن وراثت کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
 
ان کا یہ مشورہ آجکل کے ڈیجیٹل دور میں ہر کسی کو اپنی آن لائن وراثت کے بارے میں سوچنا چاہٍئے اور پہلے سے ہی اس کے متعلق اقدامات کرلینے چاہئیں۔

بعد از مرگ آن لائن املاک کا وارث کون؟

بدھ, جولائی 18, 2012

انٹرنیٹ فراڈ میں تین گنا اضافہ

انٹرنیٹ پر جرائم میں ملوث افراد نے اس سال جنوری سے اپریل تک کے عرصے میں عام لوگوں کے بارے میں ایک اعشاریہ دو کروڑ مختلف معلومات کی خرید و فروخت کی۔

یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلہ میں تین گنا زیادہ ہے۔

اس تحقیق کو شائع کرنے والی کمپنی ایکسپیریئن کا کہنا تھا کہ اس اضافے کی جزوی وجہ لوگوں کے انٹرنیٹ کے استعمال اور اکاؤنٹس کی تعداد میں اضافہ بھی ہے۔

صارفین کے اوسطاً انٹرنیٹ پر چھبیس اکاؤنٹس ہیں مگر وہ عموماً صرف پانچ پاس ورڈ استعمال کرتے ہیں۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں کو اپنی شناخت کے بارے میں معلومات کی چوری کا تب تک نہیں پتا چلتا جب تک ان کا کریڈٹ کارڈ چلنا رک نہ جائے یا ان کو نیا موبائل فون لینے میں دقت ہو۔

صارفین کو تجویز دی جاتی ہے کہ وہ اپنے پاس ورڈ اکثر تبدیل کیا کریں اور انہیں مشکل بنائیں تاکہ فراڈ کرنے والے ان کو آسانی سے نہ جانچ سکیں۔

تحقیق کے مطابق دو تہائی صارفین کے ایسے اکاؤنٹس ہیں جو وہ استعمال نہیں کرتے مگر انہوں نے ان کو بند نہیں کیا۔

گزشتہ ہفتے معروف انٹرنیٹ کمپنی ’یاہو‘ کے نیٹ ورک سے ساڑھے چار لاکھ پاس ورڈ چوری کر لیے گئے تھے جو کہ بہت سے ایسے اکاؤنٹس کے تھے جو اب استعمال میں نہیں۔

اس کے علاوہ گزشتہ ہفتے ہی ’انڈروڈ‘ کمپنی کے فورم سے دس لاکھ اور گرافکس کے آلات بنانے والی کمپنی ’این وڈیا‘ کے فورم سے چار لاکھ پاس ورڈ چوری کیے گئے۔

اسی پس منظر میں مائیکروسافٹ نے انکشاف کیا ہے کہ دوسری کمپنیوں پر کیے گئے حملوں کے باعث ان کے بیس فیصد اکاؤنٹ لوگ ان چوری شدہ معلومات میں شامل ہیں۔

انٹرنیٹ فراڈ میں تین گنا اضافہ