موت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
موت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار, دسمبر 30, 2012

زیادتی کا نشانہ بننے والی بھارتی طالبہ چل بسی

سنگاپور کے ماؤنٹ الزبتھ ہسپتال کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر کیلون لوح کی جانب سے ایک اعلان میں بتایا گیا کہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی 23 سالہ بھارتی طالبہ سنگاپور میں ہفتے کے روز صبح کے وقت چل بسی۔ 

جمعرات کو اسے بہتر علاج کےلئے سنگاپور کے ماؤنٹ الزبتھ اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ آج صبح دل کا دورہ پڑنے اور جسم کے کئی اعضا کے کام چھوڑنے کے باعث چل  بسی، ماؤنٹ الزبتھ اسپتال کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ لڑکی کے جسم کو پہنچنے والے زخم بہت شدید تھے، 8 سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی ٹیم نے اس کا علاج کیا لیکن اس کی حالت بگڑتی چلی گئی۔

میڈیکل کالج کی طالبہ کو 16 دسمبر کی رات نئی دہلی میں ایک چارٹرڈ بس میں سوار ہونے کے بعد چھ افراد نے لوہے کی سلاخوں سے بری طرح مارا پیٹا اور جنسی زیادتی کرنے کے بعد اسے چلتی بس سے نیچے دھکا دے دیا تھا۔ پولیس نے اس واقعہ میں ملوث تمام چھ افراد کو گرفتار کرکے ان پر اقدام قتل اور اجتماعی جنسی زیادتی کے الزامات عائد کیے ہیں۔



اتوار, دسمبر 09, 2012

شہزادی کے لیے جعلی ٹیلی فون کال، نرس کی خود کشی

لندن — شہزادی کیتھرین کے حاملہ ہونے کی خبر جہاں ساری دنیا نے بہت خوشی سے سنی وہیں جمعہ کو لندن کے کنگ ایڈورڈ ہسپتال کی ایک نرس جاکینتا سیلڈانہ کی خود کشی کی خبر نے ساری دینا کو اداس کر کے رکھ دیا۔ شہزادی کیٹ ان دنوں حاملہ ہیں اور انھیں شدید کمزوری کے باعث گزشتہ پیر کی دوپہر اس ہسپتال میں لایا گیا تھا جہاں وہ چند دن زیر علاج رہنے کے بعد جمعرات کو ہسپتال سے رخصت ہو کرسینٹ جیمس پیلس منتقل ہوچکی ہیں۔ ہسپتال ذرائع نے اس خبر کی تصدیق کی ہے کہ مرنے والی مسز سیلڈانہ ہی وہ نرس تھی جس نے سڈنی ریڈیو کے میزبانوں کی جھوٹی فون کال کو شہزادی کے کمرے میں منتقل کیا تھا۔ سیلڈانہ دو بچوں کی ماں تھی۔ جمعہ کی صبح ساڑھے نو بجے وسطی لندن کی رہائش گاہ سے اس کی لاش برآمد ہوئی۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے مطابق فی الحال اس کیس کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔

برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کی خبر کے مطابق جھوٹی فون کال منگل کے روز سڈنی آسٹریلیا کے مشہور ’ٹو ڈے ایف ایم ریڈیو‘ کے دو میزبانوں میل جریگ اور مائیکل کرسٹین نے اس ہسپتال میں کی اور انھوں نے برطانوی لب و لہجہ میں خود کو ملکہ برطانیہ اور شہزادہ چارلس ظاہر کرتے ہوئے شہزادی کیٹ کی خیریت دریافت کی۔ اس مذاق کا شکار بننے والی نرس جاکینتا سیلڈانہ نےاس کال کو ملکہ برطانیہ کی کال سمجھتے ہوئے شہزادی کی تیمارداری میں مصروف نرس کو ٹرانسفر کر دیا اس طرح دونوں میزبان شہزادی کی صحت سے متعلق تازہ ترین صورت جاننے میں کامیاب ہو گئے۔

سینٹ جیمز پیلس کے ترجمان کے مطابق شہزادی کیتھرین اور شہزادہ ولیم کو نرس کی موت سے گہرا دکھ پہنچا ہے اور وہ مصیبت کی اس گھڑی میں مسز سیلڈانہ کے خاندان اور ہسپتال انتظامیہ کے ساتھ ہیں۔ ذرائع نے مزید کہا کہ شہزادی کیٹ اور شہزادہ ولیم کی جانب سے اس جھوٹی فون کال پر ہسپتال انتظامیہ سے شکایت درج نہیں کرائی گئی تھی۔ ادھر کنگ ایڈورڈ ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 46 سالہ سیلڈانہ کو اس واقعہ کے بعد ملازمت سے بر طرف نہیں کیا گیا تھا اور انتظامیہ اس موقع پر اس کے ساتھ کھڑی تھی۔

سڈنی ریڈیو پر دونوں میزبانوں نے اپنے شو میں ہسپتال کوجھوٹی فون کال کرنے کا سارا واقعہ من و عن پیش کیا، دنیا بھر کے میڈیا کی طرف سے بھی اس خبر کو شہ سرخیوں میں جگہ ملی۔ شو کے اختتام پر ریڈیو انتطامیہ نے اس مذاق پر شاہی خاندان سے معذرت بھی کی تھی۔ سیلڈانہ کی خود کشی کی خبر پر دنیا بھر کے لوگوں کی جانب سے سڈنی ریڈیو کو تنقید کا سامنا ہے جبکہ ریڈیو انتظامیہ نے دونوں میزبانوں کو فی الحال شو کرنے سے روک دیا ہے۔ 

ہفتہ, دسمبر 08, 2012

ڈاکٹر عمران قتل: لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ

ڈاکٹر عمران فاروق
لندن میں میٹروپولیٹن پولیس نے ایم کیو ایم کے ایک کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں ایجویئر کے علاقے میں واقع ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ مارنے اور تلاشی لینے کی تصدیق کی ہے۔ میٹروپولیٹن (میٹ) پولیس کے پریس آفس نے جمعہ کی شب بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بزنس ایڈریس پر تلاشی کا کام دو دن سے جاری تھا۔ میٹ پولیس کے ایک اہلکار جوناتھن نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ چھاپہ جمعرات کو مارا گیا تھا جس کے بعد مفصل تلاشی کا کام شروع ہوا جو جمعہ کی شام کو مکمل کر لیا گیا۔ میٹ آفس کے اہلکار نے ایم کیو ایم کے دفتر سے قبضے میں لیے گئے شواہد کی تفصیل نہیں بتائی۔ پولیس کے مطابق ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے سلسلے میں تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ پولیس نے یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور نہ ہی کسی شخص کو تفتیش کے لیے روکا گیا ہے۔
لندن میں ایم کیو ایم کے ترجمان مصطفٰی عزیز آبادی سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بارے میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بزنس ایڈریس پر پولیس نے چھاپہ مارا ہے انہوں نے کہا کہ ’ایسی کوئی بات نہیں۔‘ مصطفٰی عزیز آبادی نے کہا کہ کل سے اخبار والے یہ خبر اڑاتے پھر رہے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

 گزشتہ ستمبر میٹروپولیٹن پولیس سروس کی انسدادِ دہشت گردی کی ٹیم نے کہا تھا کہ ڈاکٹر فاروق قتل سے چند ماہ پہلے اپنا ایک آزاد سیاسی ’پروفائل‘ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے ڈاکٹر فاروق اپنا سیاسی کیریئر از سر نو شروع کرنے کے متعلق سوچ رہے ہوں۔ اس وجہ سے پولیس ہر اس شخص سے بات کرنا چاہتی ہے جو ڈاکٹر فاروق سے سیاسی حوالے سے رابطے میں تھا۔ پولیس کے علم میں ہے کہ ڈاکٹر فاروق نے جولائی 2010 میں ایک نیا فیس بک پروفائل بنایا تھا اور سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر بہت سے نئے روابط قائم کیے تھے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کی ہلاکت کی دوسری برسی کے موقع پر پولیس نے ایک مرتبہ پھر لوگوں سے اپیل کی کہ اگر ان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو وہ سامنے لائیں۔

پچاس سالہ ڈاکٹر عمران فاروق کو جو سنہ 1999 میں لندن آئے تھے، 16 ستمبر 2010 کو ایجویئر کے علاقے میں واقع گرین لین میں چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اکتوبر میں پولیس کو حملے میں استعمال ہونے والی چھری اور اینٹ بھی ملی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے اور لگتا ہے کہ اس کے لیے دوسرے افراد کی مدد بھی حاصل کی گئی تھی جنہوں نے ہو سکتا ہے جان بوجھ کر یا انجانے میں قتل میں معاونت کی ہو۔

ڈاکٹر عمران قتل: لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ

جمعرات, نومبر 29, 2012

سنگاپور میں ’ابدی آرام کی کوئی جگہ نہیں‘

سنگاپور میں آئندہ برس کے آغاز سے آٹھ لین کی ایک مرکزی ہائی وے کی تعمیر کا کام شروع ہو جائے گا، جو اس چھوٹی سی ریاست کے قدیم ترین قبرستانوں میں سے ایک سے ہو کر گزرے گی۔ وہاں سے قبریں ہٹا دی جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ماحول سے محبت کرنے اور ثقافتی ورثے کی چاہ رکھنے والے اس منصوبے پر اعتراض کر رہے ہیں۔ تاہم اس مخالفت کے باوجود مزدور بھاری مشینری لیے آئندہ برس کے آغاز پر سنگاپور کے اس قدیم ترین قبرستان سے مرکزی سڑک کا راستہ نکالیں گے۔

سنگاپور کی آبادی 53 لاکھ ہے اور اس کا رقبہ برطانوی دارالحکومت لندن کے نصف سے بھی کم ہے۔ یہ ایشیائی ریاست اپنے حریف کاروباری مرکز ہانگ کانگ کے مقابلے میں پہلے ہی زیادہ گنجان آباد ہے اور وہاں ’ابدی آرام‘ کی مستقل جگہ کا حصول ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

نئے منصوبے کے نتیجے میں بوکٹ براؤن قبرستان متاثر ہو گا، جہاں ایک لاکھ سے زائد افراد دفن ہیں۔ ان میں سنگاپور کے معروف تاجر اور پرانے قبیلوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔ وہاں دفن کم از کم 30 افراد ایسے بھی ہیں، جن کے ناموں پر سڑکوں کے نام بھی رکھے جا چکے ہیں۔ بعض خاندانوں نے اپنے بزرگوں کے باقیات دوسری جگہوں پر منتقلی کے لیے وہاں سے ہٹانی شروع کر دی ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حکام نے بقیہ قبروں کو آئندہ برس جنوری میں ختم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بوکٹ براؤن کمیونٹی نامی ایک تنظیم لوگوں کو اس علاقے کے ہفتہ وار دورے کروا رہی ہے، جن کا مقصد علاقے سے جڑی ماضی کی اہم یادوں کے بارے میں آگہی پیدا کرنا ہے۔

اس کمیونٹی کے بانی ارکان میں سے ایک ریمنڈ گوہ کہتے ہیں: ’’بوکٹ براؤن جیسا کوئی اور قبرستان نہیں ہے۔ وہاں سے ملنے والی تاریخی اور چینی ثقافتی ورثے کے بارے میں معلومات منفرد ہیں۔‘‘ سنگاپور کی آبادی میں چینیوں کا تناسب 75 فیصد بنتا ہے۔ سنگاپور کی حکومت نے 1998ء میں تدفین کے دورانیے کو 15 برس تک محدود کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 

جمعرات, نومبر 22, 2012

اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی

بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق ممبئی حملوں میں ملوث زندہ بچ جانے والے واحد مجرم اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ اجمل قصاب نے بھارتی صدر سے رحم کی اپیل کر رکھی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ بھارتی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے ایس دھتوالی K. S. Dhatwali کے مطابق اجمل قصاب کو بھارتی شہر پونے کی Yerawada جیل میں مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے پھانسی دی گئی۔ اجمل قصاب کو پھانسی بھارتی صدر پرنب مکھرجی کی طرف سے رحم کی اپیل مسترد کیے جانے کے بعد دی گئی ہے۔ صدر کی جانب سے یہ اپیل 6 نومبر کو مسترد کی گئی تھی۔

اجمل قصاب کو موت کی سزا دینے کی تصدیق وزیر داخلہ سوشیل کمار شینڈے نے بھی کی ہے۔ سوشیل کمار شینڈے کے مطابق 8 نومبر کو قصاب کو پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اجمل قصاب کا ڈیتھ وارنٹ بھی 8 نومبر کو جاری کیا گیا تھا۔ پھانسی دینے کے لیے اجمل قصاب کو ممبئی کی آرتھر روڈ جیل سے پونے کی یراواڈا جیل منتقل کیا گیا تھا۔

رواں برس اگست میں بھارتی سپریم کورٹ نے قصاب کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ قبل ازیں سن 2010ء میں ممبئی حملوں کے اس مرکزی مجرم کو سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ بھارت کی ایک عدالت نے اجمل قصاب کو یہ سزا اس پرعائد کل 86 میں سے چار بڑے الزامات کی بنیاد پر سنائی تھی۔ 22 سالہ قصاب پر عائد الزامات میں بھارت پر جنگ مسلط کرنا، قتل، اقدام قتل، سازش اور دہشت گردی کے الزامات بھی شامل تھے۔

نومبر2008ء میں ممبئی کے مختلف مقامات پر دہشت گردانہ حملوں میں کم از کم 166 افراد ہلاک اور تین سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ان دہشت گردانہ حملوں میں اجمل واحد حملہ آور تھا، جسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت کے مطابق پاکستانی شہری اجمل قصاب کا تعلق عسکری گروپ لشکر طیبہ سے تھا۔

26 نومبر سن 2008 کو ممبئی میں مختلف مقامات پر دس حملہ آوروں نے اچانک حملہ کر دیا تھا۔ بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں سے کوئی ساٹھ گھنٹے تک جاری رہنے والے مقابلے میں 9 حملہ آور ہلاک کر دئے گئے تھے۔

بھارت میں حکومتی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد اجمل قصاب کو سزائے موت سنائے جانے کے حق میں تھی۔ بھارت میں سزائے موت دی جانے کی شرح بہت ہی کم ہے۔ آخری مرتبہ سزائے موت پر عمل سن 2004 میں کیا گیا تھا۔ جبکہ اس سے قبل سن 1998 میں دو مجرمان کو پھانسی دی گئی تھی۔ ممبئی حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے رشتہ داروں نے بھی مطالبہ کر رکھا تھا کہ مجرم کو موت کی سزا دی جائے۔

اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی، بھارتی وزارت داخلہ

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

اسامہ ایبٹ آباد میں رہائش پذیر تھے، کمیشن کی رپورٹ

ایبٹ آ باد کمیشن کی تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں اور تحقیقاتی رپورٹ جلد حکومت کو پیش کردی جائے گی۔ اسامہ بن لادن کے اہل خانہ، انٹیلی جنس چیفس ائرچیف، متعلقہ حکام اور عینی شاہدین سمیت دو سو افراد کے بیانات قلمبند کرنے، ایبٹ آ باد اور پاکستانی فضائی حدود کے جائزے اور اسامہ کمپاؤنڈ کا جائزہ لینے کے بعد کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسامہ بن لادن اسی کمپاؤنڈ میں رہائش پذیر تھے۔

کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسامہ بن لادن نو گیارہ کے حملوں کے بعد قندھارسے روپوش ہوکر اکتوبر یا نومبر دو ہزار ایک میں کراچی پہنچا۔ اس کے ہمراہ ابراہم آکا اور ابو احمد الکویتی بھی تھے۔ اسامہ بن لادن کے اہل خانہ سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق دو ہزار دو میں اسامہ بن لادن اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پشاور آئے جہاں وہ چند دن قیام کے بعد سوات روانہ ہوگئے۔ سوات میں قیام کے دوران خالد شیخ محمد نے اسامہ بن لادن سے ملاقات کی اور دو ہفتے اسامہ کے ہمراہ قیام کے بعد روالپنڈی روانہ ہوگیا۔ ایک ماہ بعد خالد شیخ محمود کو راولپنڈی سے گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد اسامہ بن لادن ہری پور منتقل ہوگیا۔

اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کے خون کے نمونے حاصل کرنے کے لیے سی آئی اے نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی خدمات حاصل کیں۔ شکیل آفریدی اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کے خون کے نمونے حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ امریکی جاسوسی نیٹ ورک ابو احمد الکویتی کے ذریعے اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔

آپریشن ٹائم لائن۔ امریکی فورسز کی جلال آباد سے روانگی۔ 2300 - 2310 پاکستانی فضائی حدود میں داخلہ۔ 2320 دو بلیک ہاکس ایبٹ آباد پہنچ گئے۔ 0030 ایک بلیک ہاک ناکارہ ہوا۔ 0031 متبادل شینوک ہیلی کاپٹر کی آمد۔ 0040 آپریشن کا دورانیہ۔ 0030 سے 0106 امریکی ہیلی کاپٹروں کی واپسی۔ 0106 ناکارہ بلیک ہاک تباہ کیا گیا۔ 0106 رسپانس فورسز اور پولیس کی جائے وقوعہ پر آمد۔ 0115 سے 0130 آرمی چیف کی ائر چیف سے گفتگو۔ 0207 پہلے شینوک کا پاکستانی حدود سے اخراج۔ 0216 دوسرے شینوک اور بلیک ہاک کا پاکستانی حدود سے اخراج۔ 0226 پاکستانی ایف سولہ طیاروں کی مصحف ائربیس سے پرواز۔ 0250 آرمی چیف کا وزیراعظم کو ٹیلی فون۔ 0300 ایف سولہ طیاروں کی ایبٹ آباد آمد۔ 0315 آرمی چیف کا ایڈمرل مائیک مولن کو فون۔ 0500 آرمی چیف نے صدر کو آگاہ کیا۔ 0645 آپریشن میں شریک امریکی سیل نے پشتو میں مقامی افراد کو گھروں میں رہنے کو کہا۔

ابرار اور اس کی بیوی کو امریکی فورسز نے گراؤنڈ فلور پر قتل کردیا تاہم ان کے بچے محفوظ رہے۔ آپریشن شروع ہوتے ہی اسامہ کا بیٹا ابراہیم ، بیٹی سمیعہ، مریم اور ان کے بچے اپنے والد کے پاس تیسری منزل پر پہنچ گئے۔ انہوں نے حملہ کردیا ہے۔ ہر کوئی پرسکون رہے اور کلمہ پڑھے۔ اسامہ بن لادن کی بچوں کو ہدایت اسامہ کا بیٹا خالد بچوں کی مدد کے لیے نچلی منزل پر جاتے ہوئے امریکی سیلز کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ اسامہ بن لادن نے اپنے اہل خانہ کو ہدایت کی وہ ان سے دور رہیں کیونکہ آنے والوں کا نشانہ ان کی ذات ہے، اسامہ نے غیرمعمولی حالات کے پیش نظر اپنا پستول نکال لیا اور شیلف میں گرینیڈ کی تلاش شروع کردی۔ قدموں کی آواز سن کر اسامہ بن لادن پلٹا لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ امریکی سیل کی گولی اس کی ماتھے کو چیر کر عقبہ دیوار میں پیوست ہوگئی۔ باپ کو گولی لگتے ہی سمیعہ اور اسامہ کی بیوی امل امریکی کمانڈوز پر جھپٹ پڑیں۔ کمانڈوز کی گولی سے امل کا گھٹنہ زخمی ہوا جبکہ سمیعہ پر تشدد ہوا۔ سمیعہ اور مریم نے امریکی سیلز کواپنے بیان میں تصدیق کی کہ مرنے والا شخص اسامہ بن لادن ہے۔

امریکی کمانڈوز اپنے ہمراہ اسامہ بن لادن کے زیر استعمال بعض اہم اشیا، چھ کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈرائیوز اور دیگر اشیا ساتھ لے گئے۔ شینوک ہیلی کاپٹر اسامہ کا جسد خاکی لے کر سیدھا افغانستان جبکہ بلیک ہاک پاکستانی حدود میں ری فیولنگ کے بعد قندھار پہنچا۔ آپریشن کے دوران پاکستان ائرفورس کی جانب سے کسی ردعمل سے نمٹنے کے لیے افغانستان کی فضائی حدود میں اواکس طیارے محو پرواز رہے۔

اسامہ ایبٹ آباد میں رہائش پذیر تھے، کمیشن کی رپورٹ

سانحہ بلدیہ ٹاؤن، جرمن کمپنی زرتلافی دے گی

جرمنی کے ایک بڑے کاروباری ادارے نے کراچی کے کارخانے میں آگ لگنے سے جل کر ہلاک ہونے والے 264 مزدوروں کے لواحقین کو رقم کی ادائیگی کا عندیہ دیا ہے۔ بی بی سی کی تحقیق کے مطابق جرمن کاروباری ادارے ’کک‘ کا کہنا ہے کہ وہ بطور ہرجانہ ایک ملین یورو (تقریباً پاکستانی بارہ کروڑ روپے) ادا کرے گی اور وہ جلد ہی ہرجانے کی رقم ادا کردے گا۔ 

لیکن پاکستان میں لواحقین اور مزدور تنظیموں (ٹریڈ یونینز) نے اس رقم کو انتہائی کم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس قلیل رقم کو قبول نہیں کریں گے بلکہ جرمن ادارے کے خلاف عالمی سطح پر انصاف کے لیے آواز اٹھائیں گے۔

کراچی پولیس کے سربراہ اقبال محمود نے ہلاکتوں کی کل تعداد اس وقت دو سو چونسٹھ بتائی تھی۔ بعد ازاں مختلف ذرائع نے یہ تعداد دو سو اناسی جبکہ لواحقین اور مزدور تنظیوں کا اب دعویٰ ہے کہ قریباً تین سو اٹھارہ لوگ ہلاک، سو کے قریب زخمی اور بہت سے بیروزگار بھی ہوئے تھے۔

پاکستان میں مزدور تنظیموں کے اتحاد نیشنل ٹریڈ یونینز فیڈریشنز کے سربراہ ناصر محمود کے مطابق عالمی تخمینہ یہ ہے کہ ایک محنت کش ماہوار ایک سو اسّی امریکی ڈالر کے مساوی رقم کماتا ہے۔ جو لوگ ہلاک ہوئے وہ پچییس تیس برس سے زیادہ عمر کے نہیں تھے۔ اس لحاظ سے وہ ابھی پچیس برس اور کام کر سکتے تھے۔ اب ان کا معاوضہ کتنا ہونا چاہیے آپ خود اندازہ لگا لیں۔

بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری کے یہ مزدور جرمن ادارے کک کی ’او کے‘ برینڈ کی جینز بناتے تھے اور مزدور رہنماؤں کے مطابق نوے فیصد پیداوار علی انٹر پرائزز میں ہوتی تھی۔ جبکہ جرمن ذرائع کے مطابق کک کے انتظامی سربراہ مائیکل اریٹز نے تسلیم کیا ہے کہ ادارے کی پچھہتّر فیصد پیداوار یہاں ہوتی تھی۔

مزدور رہنما ناصر محمود کے مطابق اب جرمن ادارہ ایک ملیئن یورو پانچ پانچ لاکھ کرکے دو قسطوں میں امداد کے طور پر ادا کرنا چاہتا ہے جبکہ امداد تو سرکاری یا غیر سرکاری ادارے دیں گے، مالکان اور انتظامیہ کو تو ازالے یا ہرجانے کی بروقت ادائیگی کرنی چاہیے۔ ناصر محمود نے بتایا کہ انہوں نے ایمسٹرڈم میں قائم عالمی ادارے کلین کلوتھ کیمپین (سی سی سی) کے ساتھ ملک کر حساب لگایا ہے اور ابھی ابتدائی طور پر اندازہ یہی ہے کہ یہ رقم تقریباً بیس لاکھ یورو بنتی ہے۔ اس واقعے میں ہماری تحقیقات کے مطابق تین سو اٹھارہ افراد ہلاک ہوئے، اکسٹھ لاشیں لواحقین کو نہیں ملیں، دو سو پچیس ہلاک شدگان کی فہرست نام پتوں کے ساتھ ہمارے پاس ہے، اٹھائیس لاشیں اب بھی سرد خانوں میں ہیں ڈی این اے ٹیسٹ ابھی ہوئے نہیں ہیں۔

سانحہ بلدیہ ٹاؤن، جرمن کمپنی زرتلافی دے گی

پیر, اکتوبر 22, 2012

چاچا پاکستانی انتقال کرگئے

لاہور: چاچا پاکستانی جو ہر روز لاہور میں واہگہ بارڈر پر پاکستانی پرچم کشائی کی تقریب دیکھنے پہنچتے تھے 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کے گھر والوں کے مطابق وہ کچھ دنوں سے بخار میں مبتلا تھے اور ان کے گھر والوں کے پاس ان کا ہسپتال میں علاج کرانے کے لئے پیسے بھی نہیں تھے۔

چاچا پاکستانی کا اصل نام مہر دین تھا اور وہ 1922 میں پیدا ہوئے تھے، ان کے تمام بھائی ہندوستان کی تقسیم کے وقت پاکستان آگئے مگر وہ خود قیام پاکستان کے بعد آئے۔ ان کا پاکستان میں کوئی گھر نہیں اس لئے وہ اپنے بھتیجوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کے بھتیجے نے بتایا کہ ہماری پیدائش سے کر اب تک ہم نے انہیں باقائدگی سے واہگہ بارڈر جاتے دیکھا ہے۔ 

چاچا پاکستانی کوفوجی حکومت پسند تھی جبکہ وہ جمہوریت کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے انہیں عمرہ پر بھی بھیجا تھا۔ چاچا پاکستانی کے بھتیجے نے مزید بتایا کہ چاچا کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا اور وہ واہگہ بارڈر پر آنے والے لوگوں سے ملنے والی رقم سے اپنی گزر بسر کیا کرتے تھے۔ چاچا پاکستانی کو رینجرز اور واہگہ بارڈر پر آنے والے مختلف حکام کی جانب سے کئی ایوارڈز اور سرٹیفیکیٹس سے بھی نوازا گیا۔
 
چاچا پاکستانی کو ان کے پسندیدہ سفید اور ہرے پاکستانی جھنڈے میں لپیٹ کر ان کے گاؤں چنداری میں دفن کیا جائے گا۔

یمن: خاتون کو عزت بچانے پر سزائے موت

 یمن کی ایک عدالت نے خاتون شہری رجا حکیمی کو سزائے موت سنائی دی، رجا پر الزام تھا کہ اس نے مبینہ طور پراپنی عصمت دری کی نیت سے گھر میں داخل ہونے والے ایک شخص کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا, رجا حکیمی کو جنوبی صوبے ایب کی ضلعی عدالت نے پہلے دو سال قید کی سزا سنائی جس کے خلاف اپیل کرنے کے نتیجے میں سزا کو بڑھا کر سزائے موت کر دیا گیا، خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے عدالتی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔

پیر, اکتوبر 01, 2012

سچی توبہ

اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ تمام آفاقی کتابوں میں اپنے رب کو ایک ماننے کی تعلیم دی گئی ہے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی بار بار توبہ کرنے کا ذکر آیا ہے۔ اسی طرح احادیث نبوی یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات و فرامین میں بھی اکثر مقامات پر اپنے رب سے اپنی تمام اگلی اور پچھلی غلطیوں، لغزشوں اور گناہوں پر توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم نے ارشاد فرمایا: ’’میں دن میں ستر بار سے بھی زیادہ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں۔‘‘
(بخاری شریف)

اہل ایمان کے لیے حکم ہے کہ وہ توبہ کریں، بار بار کریں اور اس انداز سے کریں جس سے نصیحت و راہ نمائی بھی ملے اور یہ دوسروں کے لیے بھی تقلید کا سبب بنے۔

رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے: ’’اے لوگو! اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش مانگو، میں دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (مسلم شریف)

پروردگار عالم اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف صاحبان ایمان ہی توبہ کرتے ہیں، کیوں کہ وہ توبہ کی اہمیت بھی جانتے ہیں اور اس کے فوائد سے بھی آگاہ ہیں۔

کائنات کا خالق اس وقت بڑی خوشی کا اظہار فرماتا ہے جب اس کے ایمان والے بندے توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتے ہیں اور فرماں برداروں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس وقت باری تعالیٰ اپنے ان بندوں کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور پھر وہ لوگ اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہوجاتے ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ مومن توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، پسندیدہ باتوں کی تلقین کرنے والے، ناپسندیدہ باتوں سے منع کرنے والے اور اﷲ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (اور اے نبی) آپ ان مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے۔‘‘
(سورۃ التوبہ آیت112)

اس آیۂ مبارکہ میں اﷲ رب العزت نے مومن یعنی اہل ایمان انہی لوگوں کو قرار دیا ہے جو اﷲ رب العزت کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاتے ہیں۔

جب وہ اﷲ رب العزت کو اپنا خالق تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر ان پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اسی پالنے والے کی عبادت کریں، اسی کے آگے اپنا سر جھکائیں، اسی سے فریاد کریں اور اسی کے سامنے دست طلب دراز کریں۔ اہل ایمان جب دل سے ایمان والے ہوجاتے ہیں تو پھر انھیں کچھ حدود اور پابندیوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔

مثال کے طور پر ایمان لانے کے بعد ان کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ تمام اچھی اور پسندیدہ باتوں کو عوام الناس میں پھیلائیں اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی ہدایت کریں۔ اس کے ساتھ ان پر یہ فرض بھی عائد ہوجاتا ہے کہ وہ خود بھی ناپسندیدہ باتوں سے بچیں اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی نصیحت کریں، بلکہ عملی طور پر انھیں ناپسندیدہ باتوں سے بچائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایمان والوں کی ایک اور نشانی یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ اﷲ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان صرف اس حد تک جاتے ہیں جہاں تک جانے کی اجازت ان کے پروردگار نے دی ہے اور اس حد کو عبور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ جس کام کی اجازت ان کا رب دے رہا ہے، وہ کام یہ لوگ خوشی سے کرتے ہیں اور جس کام سے رکنے کا حکم دے رہا ہے، اس سے رک جاتے ہیں۔

چناں چہ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پیغمبر حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے:’’(اور اے نبی) آپ ان مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے۔‘‘

خوش خبری کس بات کی؟ اس بات کی کہ انہوں نے جس طرح اﷲ رب العزت کے احکام کی تعمیل کی اور اس کی فرماں برداری کی، اس سے خوش ہوکر اﷲ ان سے راضی ہوگیا اور اب انہیں اخروی کام یابی عطا ہوگی۔ یہ خوش خبری بھی ہمارا مالک اپنے رسول، ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے دے رہا ہے۔ اہل ایمان کے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوگی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص مغرب کی طرف سے طلوع آفتاب سے پہلے پہلے توبہ کرلے، اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔‘‘ (مسلم شریف)

یہاں مغرب کی طرف سے سورج طلوع ہونے کا جو حوالہ دیا گیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ یہ منظر صرف روز قیامت ہی طلوع ہوگا، اور اس قیامت کے بعد نہ کسی کی توبہ قبول ہوگی اور نہ ہی اس کا وقت ہی باقی رہے گا، اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کو مذکورہ بالا حدیث کے ذریعے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ وہ توبہ کا وقت گزرنے سے پہلے توبہ کرلیں تاکہ بعد کے پچھتاوے سے بچ سکیں۔

کتاب مبین میں ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:’’کچھ شک نہیں کہ اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ222)

یہاں بھی وہی بات دہرائی گئی ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرتے ہیں، اس کے آگے سر جھکاتے ہیں اور اس کے حکم کے مطابق خود کو پاک اور صاف رکھتے ہیں، گندگی اور غلاظت سے بچتے ہیں، ایسے لوگوں کا شمار اﷲ کے پسندیدہ لوگوں میں ہوتا ہے اور ایسے لوگ اﷲ کے دوست ہیں۔

بے شک وہ ایسے ہی دوستوں سے خوش ہوتا ہے اور انھیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے جنت کی بشارت دیتا ہے۔

سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب دعوت حق کا سلسلہ شروع ہوا تو عرب معاشرے کے ایسے ایسے لوگوں نے صدق دل سے اسلام قبول کیا جن کا ماضی اچھا نہیں تھا۔ وہ لوگ ہر طرح کی معاشرتی برائیوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ مگر جب وہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے تو ان کی دنیا ہی بدل گئی۔

انھوں نے خلوص دل سے اپنے داغ دار ماضی کے لیے اﷲ رب العزت سے توبہ کی اور آئندہ کے لیے راہ راست پر رہنے کا عہد کیا۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی اور پھر ان کے درجات ایسے بلند ہوئے کہ وہ صحابۂ کرام کے منصب پر فائز ہوئے یعنی رسول کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی کہلائے۔

ہمارے بزرگ اور دوست ذرا اس بات پر غور فرمائیں کہ اس پالن ہار نے کس طرح ان عربوں کی کایا پلٹی جس کے نتیجے میں یہ معاملہ بنا کہ اﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اﷲ سے راضی ہوگئے۔ اﷲ جن سے راضی ہوجائے، پھر وہ اسی کے ہوجاتے ہیں، اس کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ وہی ان کا محافظ ہوتا ہے اور وہی ان کا مددگار! ان کا پروردگار انہیں ہر طرح کی پریشانیوں سے بچالیتا ہے اور انہیں سکینہ کی کیفیت کا بے مثال تحفہ عطا فرمادیتا ہے۔

سکینہ کیا ہے؟ سکینہ ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کو تمام مشکلات اور پریشانیوں سے نجات دلا دیتی ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہونے والے خوش قسمت افراد کے اندر کی بے چینی اور اضطراب مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ وہ قلبی سکون اور سلامتی کے احساس سے سرشار ہوجاتے ہیں۔

پھر وہ مرحلہ آجاتا ہے کہ سکینہ سے فیض یاب ہونے والوں کو اپنے پالن ہار کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ صرف اﷲ کی یاد میں مگن ہوجاتے ہیں اور دنیاوی دکھوں و پریشانیوں کے حصار سے نکل جاتے ہیں۔ اس وقت انھیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ دنیا کا کوئی دکھ ہو یا پریشانی، کوئی تکلیف ہو یا آزمائش، اس میں مبتلا کرنے والی بھی اﷲ کی ذات ہے اور اس سے نکالنے والی بھی یہی ذات ہے۔

جب یہ احساس فروغ پاجائے تو پھر انسان اپنے دکھ درد یا پریشانی کا ذمہ دار کسی انسان کو نہیں سمجھتا، بلکہ اسے اپنے رب کا حکم سمجھ کر اس پر راضی ہوجاتا ہے۔ سکینہ کا انعام اﷲ تعالیٰ کی جانب سے صرف پسندیدہ بندوں کو ہی عطا کیا جاتا ہے۔

آج ہمارے معاشرے کا حال بہ حیثیت مجموعی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے پریشان ہے، اس سے ڈر رہا ہے، اس سے خوف کھارہا ہے۔ ہر فرد دوسرے فرد کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔

اسے کسی پر بھی اعتبار نہیں رہا ہے۔ ہر شخص دوسرے شخص کو اپنا استحصالی سمجھ رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ کہیں یہ میرا مال یا میری جائیداد ہڑپ نہ کرلے، کہیں میرا مال و متاع نہ چھین لے، کہیں میرا عہدہ، میری کرسی نہ چھین لے، کہیں میری عزت کے درپے نہ ہوجائے۔

کسی کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اس کے ذہن میں جتنے بھی خیالات آرہے ہیں، جتنے اندیشے، وسوسے اور خدشات اسے پریشان کررہے ہیں، یہ سب پروردگار عالم کی طرف سے اس کے لیے آزمائش ہیں۔ وہ جب چاہے گا، انھیں خود ہی دور کردے گا۔ وہ کسی کے حکم کا پابند نہیں ہے۔

لیکن وہ اپنے محبوب بندوں کی جائز خواہشات اور تمناؤں سے واقف ہے اور اگر انھیں مناسب سمجھتا ہے تو عطا کردیتا ہے ورنہ بعد کے لیے یعنی آخرت کے لیے ذخیرہ کردیتا ہے۔ لیکن وہ اپنے رحم و کرم سے اپنے بندوں کو سکینہ کا تحفہ ضرور عطا کرتا ہے جو بلاشبہہ مقدر والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اﷲ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جب تک حالت نزع نہ طاری ہوجائے۔‘‘ (ترمذی) امام ترمذی نے اسے احسن کہا ہے۔

اس حدیث پاک میں بھی ایک نصیحت اور ایک وارننگ ہے۔ ارشاد ہورہا ہے کہ اﷲ رب العزت اپنے بندے کی توبہ صرف اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اس پر نزع طاری نہ ہوجائے یعنی وہ مرض الموت کی کیفیت میں مبتلا نہ ہوجائے، گویا اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اسی وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک وہ اپنے ہوش و حواس میں رہتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ اس نزاعی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جس کے بعد اسے بہرصورت مرنا ہوتا ہے تو پھر توبہ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔

اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ سبھی مسلمانوں کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ ہر وقت اس سے توبہ کرتے رہیں، نہ جانے کب موت سر پر آن پہنچے اور انہیں توبہ کرنے کی مہلت بھی نہ ملے۔

ہفتہ, ستمبر 15, 2012

بابا میں آنا چاہتی ہوں

23 سالہ زویا اس کے چار کزن اور پھوپی کی لاشیں ایدھی سرد خانے میں موجود ہیں، لیکن ان ناقابل شناخت لاشوں میں سے ایک ہی خاندان کے چھ لوگوں کی لاشیں کون سی ہیں یہ پتہ نہیں چل سکا ہے۔

سول ہسپتال میں قائم ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے جمعرات کو زویا کے والد حشمت علی بھی آئے تھے جہاں ان کے خون کا نمونہ حاصل کیا گیا۔ حشمت علی حیدر آباد کے قریب واقعے کوٹری شہر میں رہتے ہیں۔ انہیں اس واقعے کے بارے میں بدھ کی صبح معلوم ہوا تھا اس وقت وہ فیکٹری میں ملازمت پر تھے جہاں سے وہ گھر پہنچے اور بیوی کو لے کر کراچی پہنچ گئے۔

حشمت علی کے مطابق وہ جب فیکٹری پہنچے تو آگ لگی ہوئی تھی اندر ان کی بیٹی زویا، تین بھتیجیاں، بھتیجا اور بہن موجود تھیں، بھتیجا آگ لگنے کے بعد اپنی بہنوں کو بچانے گیا تھا اور خود بھی موت کے منہ میں چلا گیا۔

حشمت علی کے بھائی تین سال پہلے کوٹری سے بلدیہ ٹاؤن منتقل ہوئے تھے جن کے ساتھ ان کی بیٹی زویا بھی آگئی اس نے اپنے کزن کے ساتھ اس فیکٹری میں ملازمت اختیار کرلی۔ بی اے پاس زویا حشمت علی کی بڑی اولاد تھیں۔ ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوٹی ہیں، مزدور والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے اس نے یہ ملازمت اختیار کی تھی جہاں سے اسے آٹھ ہزار روپے ملا کرتے تھے۔

حشمت علی کے مطابق انہوں نے فیکٹری دیکھی ہے، جو پوری بند تھی گیٹ پر بھی تالا لگا دیا تھا، جس کا کوئی جواز نہ تھا۔ ’اب عورتیں کہاں سے بھاگتیں، اس صورت حال میں مرد ہی نہیں بھاگ سکتے وہ لڑکی کہاں بھاگ سکی ہوگی وہ تو اوپر والی منزل پر تھی۔‘ حشمت علی واقعے کو لاپرواہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر حکام دیوار توڑ دیتے تو کافی زندگیاں بچ سکتی تھیں اور آگ بجھانے والے بھی پہنچ سکتے تھے۔

زویا عید پر اپنے گھر آئیں تھیں جس کے بعد والدین سے ٹیلیفون پر رابطہ رہتا تھا۔ حشمت علی کے مطابق واقعے سے ایک روز پہلے زویا نے ان سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ ’بابا میں تمہارے پاس آنا چاہتی ہوں میں نے کہا کہ آ جاؤ اسی دوران فیکٹری میں کام بڑھ گیا اور اسے چھٹی نہیں مل سکی‘۔

غلام رسول کو اپنے بھانجے 18 سالہ محمد طفیل کی لاش کی تلاش ہے، وہ ہسپتالوں اور مردہ خانوں کا چکر لگا کر تھک چکے ہیں طفیل کو اس کارخانے میں ملازمت پر سات دن ہوئے تھے جہاں انہیں چھ ہزار تنخواہ ملنی تھی۔

طفیل کے ماموں غلام رسول کا کہنا ہے کہ ہسپتال والے کہہ رہے ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ کروالیں تو پھر ہی شناخت ہوسکتی ہے کیوں کہ بہت سی لاشیں مسخ ہوچکی ہیں۔

محمد طفیل کا ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں، والد ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے کام نہیں کرسکتے۔ بڑے بھائی بھی پچھلے دنوں ملازمت سے فارغ کردیے گئے تھے۔ غلام رسول کے مطابق طفیل بے روزگار تھا تو ایک دوست نے کہا کہ میں فیکٹری میں لگا دیتا ہوں۔

بابا میں آنا چاہتی ہوں

جمعہ, ستمبر 14, 2012

پانچ سو روپے کی موت!

بارہ ستمبر کو لاہور اور کراچی کی دو فیکٹریوں میں جل مرنے والے 310 سے زائد محنت کش اگر ان فیکٹریوں میں نا بھی مرتے تو گیٹ سے باہر نکلتے ہی غفلت، بے حسی اور بدعنوانی کی رسیوں سے بٹے موت کے کسی اور جال میں پھنس کر مر جاتے۔

اگر یہ کارکن کسی کوئلہ کان کےمزدور ہوتے تو بغیر حفاظتی آلات کے زیرِ زمین سیاہ دیواروں کا لقمہ بنتے۔ ویسے بھی پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں اوسطاً سالانہ ایک سو افراد کا ہلاک ہونا قطعاً غیر معمولی خبرنہیں۔

گذشتہ برس کی ہی تو بات ہے جب بلوچستان میں کوئلے کی ایک کان میں 45 اور دوسری کان میں 15 مزدور پھنس کے مرگئے۔ شاید ہی کوئی مہینہ ہو جو اپنے ساتھ ایک دو کان مزدور نہ لے جاتا ہو۔ زخمی تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔

اگر یہ مزدور کسی بھی فیکٹری یا کان میں نہ ہوتے اور تلاشِ روزگار میں کسی مسافر ویگن میں جا رہے ہوتے تب بھی زندہ روسٹ ہوجاتے۔ جیسے گذشتہ برس وہاڑی میں ایک مسافر وین کا گیس سلنڈر پھٹنے سے اٹھارہ، خیرپور کے نزدیک سٹھارجہ میں تیرہ، گوجرانوالہ بائی پاس کے قریب چھ، اور شیخوپورہ میں اب سے تین ماہ پہلے سکول وین کا سلنڈر پھٹنے سے پانچ خواتین ٹیچرز اور ایک بچہ زندہ جل گیا۔

اور کسی ایک سال کے دوران گنجان رہائشی علاقوں میں قائم سینکٹروں غیرقانونی دوکانوں میں بکنے والے مائع گیس اور سی این جی سلنڈر پھٹنے کے حادثات سے ہونے والے املاکی و جانی نقصان کا تذکرہ اگر لے بیٹھوں تو یہ مضمون فہرست کی تپش سے ہی جل جائے گا۔

ایسے واقعات پر نگاہ رکھنے والی ایک این جی او سول سوسائٹی فرنٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال 2011 میں صرف گیس سلنڈر پھٹنے سے پاکستان میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد گذشتہ برس ڈرون حملوں سے مرنے والوں کے مقابلے میں چار گنا زائد ہے۔

مگر ڈرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ آپ اگر سی این جی سے چلنے والی بسوں اور ویگنوں میں سفر نہ بھی کریں یا گنجان آبادی میں مائع گیس یا آتش بازی کا سامان فروخت کرنے والی موت کی دوکانوں سے بچ کر بھی گذر جائیں تب بھی شاید جہان سے گذر جائیں۔ زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ سڑک بھی پار نہ کریں، موٹر سائیکل بھی نہ چلائیں اور کار سے بھی اتر جائیں۔ اگر کسی بدمست مسافر ویگن، بس یا مال بردار ٹرک نے کچل دیا یا کسی ٹرالر کا کنٹینر آپ پر پھسل گیا تو قاتل ڈرائیور پر زیادہ سے زیادہ غفلت کا مقدمہ قائم ہوجائے گا۔ آپ نے ایسے کتنے ڈرائیوروں پر 302 کا کیس بنتے دیکھا یا سنا ہے؟ آخر پاکستان کی سڑکوں پر ہر سال آٹھ سے دس ہزار آپ جیسے یونہی تو نہیں مرجاتے۔

لیکن آپ سڑک بھی پار نہ کریں، کسی سی این جی والی وین میں بھی نہ بیٹھیں اور صرف ایک عام سی بس میں سفر کریں تو بچنے کا کوئی امکان ہے؟ یاد کریں گذشتہ برس ستمبر میں کلر کہار موٹر وے پر فیصل آباد کے سکولی بچوں کو پکنک سے واپس لانے والی بس کے ساتھ کیا ہوا۔ کیا 70 مسافروں کی گنجائش والے اس گردشی تابوت میں 110 بچے اور اساتذہ نہیں ٹھونسے گئے تھے؟ اور جب فٹنس سرٹیفکیٹ یافتہ اس تیس برس پرانی بس کے بریک جواب دے گئے اور وہ کھائی میں گر گئی تو اس کھائی سے 37 لاشیں اور 70 زخمی کیسے نکالے گئے؟ اس واقعے کو ایک برس ہوگیا۔ اس دوران اگر کسی کو سزا ملی ہو یا مقدمے میں کوئی پیش رفت ہوئی ہو تو مطلع فرما کے شکریے کا موقع دیں۔

اب آئیے نجی و سرکاری عمارات میں آتش زدگی سے بچاؤ کی سہولتوں کی طرف۔ پاکستان کے اقتصادی و افرادی انجن یعنی کراچی میں اس وقت جتنی بھی قانونی و غیرقانونی کمرشل یا رہائشی عمارات کھڑی ہیں، ان میں سے 65 فیصد عمارات میں نہ باہر نکلنے کے ہنگامی دروازے ہیں، نہ ہی آگ بجھانے کے آلات۔ جن عمارات میں آگ بجھانے کے سرخ سلنڈر نمائشی انداز میں لٹکے ہوئے ہیں، ان عمارات کے بھی سو میں سے ننانوے مکین نہیں بتا سکتے کہ بوقتِ ضرورت یہ آلات کیسے استعمال کیے جاتے ہیں یا ان آلات کو استعمال کرنے کے ذمہ دار کون کون ہیں یا فائر ڈرل کس جانور کا نام ہے۔ ذرا سوچئے اگر کراچی ایسا ہے تو باقی کیسا ہوگا؟

رہی بات صنعتی سیکٹر کی تو پاکستان میں اس وقت کم ازکم 70 لاکھ مزدور کارخانوں، ورکشاپوں اور اینٹوں کے بھٹوں میں ملازم ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ 20 فیصد مزدور ہی ایسے ہوں گے جنہیں نافذ صنعتی قوانین کے تحت بنیادی مراعات اور حادثات سے تحفظ کے ازالے کی سہولت حاصل ہے۔ باقی بندگانِ محنت پھوٹی قسمت کے رحم و کرم پر ہیں۔

بظاہر جس صنعتی یونٹ میں بھی دس سے زائد ورکر ہوں اس یونٹ کا محکمہ لیبر میں رجسٹریشن لازمی ہے تاکہ یہ صنعتی یونٹ مروجہ حفاظتی و مراعاتی قوانین پر عمل درآمد کا پابند ہوجائے۔ اس وقت پاکستان میں قائم کتنے صنعتی یونٹ رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ ہیں اس بارے میں جتنے محکمے اتنے اندازے۔ جو یونٹ رجسٹرڈ بھی ہیں ان کے اکثر مالکان اور اکثر لیبر انسپکٹرز کے درمیان بڑا پکا زبانی معاہدہ ہوتا ہے کہ ہم تمہارے اور تم ہمارے۔ 

کراچی میں جو صنعتی یونٹ 300 کے لگ بھگ مزدوروں کا جہنم بن گیا وہ بھی تو ایک رجسٹرڈ یونٹ ہے۔ مگر اس میں ہنگامی طور پر باہر نکلنے کا ایک بھی دروازہ نہ تھا۔ شاید کسی بھی لیبر انسپکٹر کو سیٹھ کے کمرے میں کھلنے والے دروازے کے سوا کوئی اور دروازہ دیکھنے کی کیا پڑی۔ یہی حالت کم و بیش دیگر ہزاروں فیکٹریوں کی ہے۔ مگر وہ تب تک بالکل محفوظ ہیں جب تک آگ نہیں لگ جاتی۔

اور آگ بھی لگ جائے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ وفاقی حکومت کے محنت و افرادی قوت ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق فیکٹریز لاء مجریہ 1934 کے ترمیمی مسودے مجریہ 1997 کے تحت رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں دو ہزار چار سے نو کے درمیان ڈھائی ہزار کے لگ بھگ چھوٹے بڑے صنعتی حادثات ہوئے۔ ان میں 252 کارکن جاں بحق، 570 شدید زخمی اور ڈیڑھ ہزار سے زائد معمولی زخمی ہوئے۔ گویا پاکستان میں رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں ہر سال اوسطاً تقریباً پانچ سو صنعتی حادثات ہوتے ہیں۔ مگر ہزاروں غیر رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں کتنے حادثات ہوتے اور کتنے کارکن مرتے ہیں۔ یہ واقعات و اموات و زخم کس کھاتے میں درج ہوتے ہیں۔ معاوضہ کون، کتنا طے کرتا اور کسے دیتا ہے۔ یہ راز خدا جانے، فیکٹری مالک جانے یا زندہ درگور خاندان جانے۔

کیا روک تھام یا کمی ہوسکتی ہے، کیا لیبر کورٹس کے ذریعے کسی کی حقیقی گرفت کبھی ممکن ہے؟ فیکٹریز ایکٹ کے تحت کارکنوں کے جانی و مالی تحفظ سے غفلت برتنے والے صنعتی یونٹ کے مالکان کے لئے سزا کیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں؟

فی خلاف ورزی پانچ سو سے ساڑھے سات سو روپے جرمانہ ۔۔

پانچ سو روپے کی موت!