دریافت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
دریافت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر, نومبر 12, 2012

نمونیہ کے خلاف نیا ٹیکا۔۔۔ پاکستانی بچوں پر تجربہ شروع

ہر سال پاکستان میں کم سے کم ایک لاکھ 35 ہزار بچے نمونیہ کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔ اس موضی مرض کا علاج اتنا مشکل نہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے نہ ہونے کی وجہ سے اتنی جانیں ہر سال ضایع ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین بھی اسی شش و پنج میں ہیں کہ کیسے اس مرض کی روک تھام کی جاسکے۔ لیکن اب بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک نئی دوا ایجاد ہوئی ہے جس پر ان کا بھروسہ زیادہ ہے۔

شاید اسی وجہ سے پاکستانی حکومت نے اس سے پہلے کہ بھارت یا خطے کا کوئی دوسرا ملک اس دوا کو اپنے ہاں استعمال کرے، پہلے خود استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پچھلے دنوں سندھ حکومت نے اسی فیصلے کہ مطابق سندھ کے تمام اضلاع میں اس نئی دوا کو متعارف کروایا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ابھی تک یہ دوا جنوبی ایشیا کے کسی دوسرے شہر میں متعرف نہیں ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں صرف تقریباََ 20 ایسے ممالک ہیں جو اس دوا کو استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔ سینے کے امراض کے ماہر ڈکٹر جاوید خان کا کہنا ہے کہ اس دوا کا استعمال پاکستان میں بر وقت ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر سال اتنے سارے بچوں کی موت کے باوجود پاکستان میں اس مرض کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں۔ جس طرح دوسری خطرناک بیماریوں کے بارے میں تشہیر کی جاتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ نمونیہ کے بارے میں اس کے مقابلے میں کچھ نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا ہے کہ نمونیہ کی احتیاطی ویکسین کی ایجاد سے اس بیماری سے لڑنے میں بہت مدد ملے گی۔ اب تک بچوں کی ویکسین صرف پولیو وغیرہ تک محدود تھی لیکن نمونیہ کی اس دوا کے میسر ہونے سے بہت سے بچوں کی زندگیاں بچائی جاسکیں گی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک ہی کیوں ایسی ادویات کے لئے تجربے گاہ بنتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نمونیہ کا تعلق گندگی سے ہے اور مغربی ممالک نے اس لعنت سے بڑی حد تک چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ پاکستان میں چونکہ حفظان صحت ابھی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لہذا یہیں ایسے امراض بھی جنم لیتے ہیں۔ اسی لیے ان بیماریوں کی ادویات بھی یہیں استعمال میں لائی جاتی ہیں۔

انہوں نے حکومتِ پاکستان کی تعریف کی کہ ویکسین کے حوالے سے اٹھایا جانے والا یہ قدم اس موضی مرض سے بچنے میں بہت اہم کردار ادا کرے گا کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں یہ بیماری بہت عام ہے۔ خاص طور پر ان ممالک میں جہاں غربت ، کثیر الاولادی، اور صفائی کا نہ ہونا بڑے مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ممالک میں اگر کسی کو نمونیہ ہوجائے تو دیہی علاقوں میں تو علاج بیس بیس میل تک نہیں ملتا۔

بدھ, ستمبر 19, 2012

تخلیقِ کائنات کا تجربہ دہرانے کی کوشش

واشنگٹن — تخلیقِ کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانا ایک مدت سے سائنس دانوں کی آرزو رہی ہے۔ سائنسی اندازوں کے مطابق تخلیقِ کائنات کا واقعہ لگ بھگ 14 ارب سال پہلے پیش آیا تھا۔ اب اتنے پرانے واقعے کی کھوج لگانا کچھ آسان کام تو ہے نہیں، اسی لیے ماہرینِ فلکیات اور سائنس دان ایک مصنوعی (ورچوئل) کائنات تخلیق دے کر ’بِگ بینگ‘ کا تجربہ دہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔

امریکی محکمہ توانائی کی ’ارگون نیشنل لیبارٹری‘ سے منسلک ماہرینِ طبیعات دنیا کے تیسرے تیز ترین کمپیوٹر کی مدد سے ’بِگ بینگ‘ کے اس تجربے کو دوبارہ دہرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس سے انہیں امید ہے کہ کائنات کی ابتدا کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

ایک مدت تک سائنس دان اور ماہرینِ فلکیات ٹیلی سکوپوں کے ذریعے اندھیرے آسمانوں کا مطالعہ کرتے آئے ہیں اور اس مشق کے ذریعے انہوں نے کائنات کے نقشے تیار کیے ہیں۔ فلکیات کے میدان میں ہونے والی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے مدد سے کائنات اور کہکشاؤں کے ان نقشوں کو حقیقت سے مزید ہم آہنگ کرنے میں مدد ملی ہے۔

اب انہی آسمانی نقشوں کی مدد سےماہرین نے ’ارگون میرا سپر کمپیوٹر‘ پر ایک مصنوعی کہکشاں تخلیق کی ہے جس پر وہ اب تک کا سب سے ہائی ریزولوشن والا ’بِگ بینگ‘ تجربہ کریں گے اور کائنات میں مادے کی تقسیم کی حقیقت کا کھوج لگائیں گے۔

سلمان حبیب اس منصوبے کے قائدین میں سے ایک ہیں جن کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں نے اس بڑے پیمانے پر کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا جواز فراہم کیا ہے۔ سلمان حبیب کے بقول کائنات کی تخلیق کا راز سمجھ میں آجانے سے پوری سائنس سمجھی جاسکتی ہے۔

اس منصوبے کے ایک اور قائد کیٹرن ہیٹمین کے مطابق تجربے کے دوران میں مختلف اوقات میں کائنات کی مختلف ہیئتوں کی تصویروں اور موویز سے مدد لی جائے گی۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس تجربے سے ’ڈارک میٹر‘ یا ’تاریک مادے‘ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے میں مدد ملے گی۔ ’ڈارک میٹر‘ مادے کی ایک خیالی قسم ہے جس کے بارے میں ماہرین کا گمان ہے کہ کائنات کا بیش تر حصہ اسی پر مشتمل ہے۔

سلمان حبیب کہتے ہیں خلا کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ یا تو رکی ہوئی ہے یا ایک مخصوص شکل میں موجود ہے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی خلائیں تخلیق پارہی ہیں۔

سلمان کہتے ہیں کہ کائنات میں توسیع کا فلسفہ آئین سٹائین کی 'تھیوری آف ریلیٹویٹی' سے بھی تقویت پاتا ہے لیکن اس نظریے کے مطابق اس توسیعی عمل کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سست پڑجانا چاہیے تھا۔

لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور 2011ء میں طبعیات کا 'نوبیل انعام' حاصل کرنے والی تحقیق اور دیگر مشاہدوں سے یہ پتا چلا ہے کہ کائنات کی توسیع کے عمل میں تیزی آگئی ہے۔

سلمان حبیب کے مطابق اس راز پر تاحال پردہ پڑا ہوا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے لیکن کئی سائنس دانوں نے اس گمان کا اظہار کیا ہے کہ کائنات کی اس توسیعی عمل کے پیچھے درحقیقت 'تاریک توانائی' یا 'ڈارک انرجی' کی قوت موجود ہے۔

'ڈارک میٹر' کی طرح 'ڈارک انرجی' بھی توانائی کی ایسی قسم ہے جس کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 70 فی صد کائنات اس توانائی پر مشتمل ہے اور امید ہے کہ یہ تجربہ 'ڈارک انرجی' کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرے گا۔

تخلیقِ کائنات کا تجربہ دہرانے کی کوشش

جمعہ, جولائی 06, 2012

گاڈ پارٹیکل کی کہانی

چار جولائی کو جب جنیوا میں سائنس دانوں نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں گاڈ پارٹیکل کی دریافت کا اعلان کیا تو اس موقع پر سب سے پہلے بڑی ٹیلی ویژن سکرین پر اس نظریے کے خالق پروفیسرہگز بوسن کا چہرہ دکھایا گیا۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور وہ مسرت سے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہہ رہےتھے کہ میری سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ میں نے اپنے نظریے کی سچائی اپنی زندگی میں ہی ثابت ہوتے ہوئے دیکھ لی ہے۔

گاڈ پارٹیکل کی دریافت کو اس صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافت قرار دیا جارہا ہے۔ اس مضمون میں گاڈ پارٹیکل سے متعلق ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے آسان فہم انداز میں جواب دیے گئے ہیں۔

گاڈ پارٹیکل کیا ہے؟

ایٹم کے اندر پایا جانے والا ایک بہت ہی مختصر ذرہ ہے جس کا وزن اندازاً ہائیڈروجن گیس کے ایٹم سے، جو دنیا کا سب سے ہلکا ایٹم ہے، 130 گنا کم ہے۔

گاڈ پارٹیکل کیا کرتا ہے؟

کسی بھی چیز کا ایٹم الیکٹران، نیوٹران اور پروٹان سے مل کربنتا ہے۔ لیکن انہیں ایک مرکز پر اس طرح اکٹھا کرنے کا کام کہ وہ ایک ایٹم کی شکل اختیار کرلیں، گاڈ پارٹیکل کرتا ہے۔ جوہری اجزا انتہائی تیز رفتار ہوتے ہیں، جنہیں گاڈ پارٹیکل اپنی جانب کھینچ کر ان کی رفتار کم کردیتا ہے اور وہ ایک اٹیم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔

کائنات میں مادے کی عام اشکال ٹھوس مائع اور گیس ہیں۔ اگر گاڈ پارٹیکل نہ ہوتا تو اس کائنات میں ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں اور ان پر آباد دنیاؤں کی بجائے صرف توانائی کی لہریں ہی ہوتیں۔

گاڈ پارٹیکل کس طرح کام کرتا ہے؟

پراسرار جوہری ذرے کے نظریے کے خالق پروفیسر ہگز بوسن نے اسے ایک آسان مثال سے واضح کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پراسرار ذرہ کسی اہم پرکشش فلمی، سماجی یا سیاسی شخصیت کی مانند ہوتا ہے۔ جسے دیکھتے ہی لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کی جانب کھچے چلے جاتے ہیں۔ کوئی اس کی تصویر اتارنا چاہتا ہے، کوئی اس سے آٹوگراف لینے کا خواہش مند ہوتا ہے تو ہاتھ ملانے کی آرزو میں آگے بڑھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ہجوم کا نام ایٹم ہے۔ جوہری ذرات کے ہجوم کی نوعیت اور تعداد کے لحاظ سے مختلف نوعیت کے ایٹم وجود میں آتے ہیں۔ اورپھر وہ کائنات بناتے ہیں۔

گاڈ پارٹیکل نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟

اگر ہگزبوسن یا گاڈ پارٹیکل نہ ہوتا تو پھر کائنات میں سوائے توانائی کے کچھ بھی نہ ہوتا۔ کہکشائیں، سورج، چاند ستارے، زمینیں اور ان کے رنگ اور رعنائیاں اور زندگی کی مختلف اشکال بھی دکھائی نہ دیتیں۔ ماہرین طبعیات کا کہنا ہے کہ کائنات برقی مقناطیسی لہروں اور جوہری قوتوں سے بھری ہوئی ہے اور اس وسیع و عریض کائنات میں انہیں کسی مادے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کائنات میں بے شمار مادی اجسام تیر رہے ہیں۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ توانائی اور مادہ ایک دوسرے کا بدل ہیں اور مادہ توانائی ہی کی ایک شکل ہے۔ پھر سوال یہ تھا کہ آخر توانائی کا کچھ حصہ مادے میں تبدیل کیوں ہوا۔ اس الجھن کو حل کیا پروفیسر ہگز بوسن نے۔

ایڈن برگ میں واقع برطانیہ کی سکاٹ لینڈ یونیوسٹی کے سائنس دان ہگز بوسن نے 1964ء میں ایک پراسرار جوہری ذرے کا نظریہ پیش کیا۔ تخلیق کائنات کے ماڈل کی جدید عمارت ان کےنظریے پر کھڑی ہے۔ تصوراتی پراسرار ذرے کا نام ان کے اپنے نام پر ہگز بوسن رکھا گیا۔ بعدازاں اس موضوع پر گاڈ پارٹیکل کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی، جس کے بعد پراسرار ذرہ عمومی طور پر گاڈ پارٹیکل کے نام سے مشہور ہوگیا۔

گاڈ پارٹیکل کب وجود میں آیا؟

سائنس دان اس نظریے پر متفق ہیں کہ کائنات ایک بہت بڑے دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ جسے بگ بینگ کہاجاتا ہے۔ بگ بینگ سے قبل ایک بہت بڑا گولا موجود تھا جو اپنی بے پناہ اندرونی قوت کے باعث پھٹ کر بکھر گیا۔ گولہ پھٹنے سے لامحدود مقدار میں توانائی بہہ نکلی اور تیزی سے پھیلنے لگی۔

بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے میں گاڈ پارٹیکل وجود میں آگیا اور اس نے توانائی کے بے کراں سیلاب کو اپنی جانب کھینچنا شروع کیا۔

بنیادی طور پر توانائی کی دو اقسام کی ہے، ایک وہ جو گاڈ پارٹیکل کی کشش قبول کرتی ہے اور دوسری وہ جس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح جسے بہت سے لوگ اہم شخصیات کی جانب پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے۔ ماہرین کا کہنا ہے اس وقت کائنات میں بکھری ہوئی توانائی کا زیادہ تر حصہ وہی ہے جسے گاڈ پارٹیکل اپنی جانب کھینچ نہیں سکا۔

گاڈ پارٹیکل کیسے دریافت ہوا؟

کوئی بھی سائنسی نظریہ وجود میں آنے کے بعد لیبارٹری میں اس کی سچائی کی تصدیق کی جاتی ہے۔ ہگز بوسن کے نظریے کی تصدیق کا کام اگرچہ پچھلی صدی کے آخر میں شروع ہوگیا تھا لیکن بڑے پیمانے پر اس تحقیق کا آغاز پارٹیکل فزکس کی دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ لارج ہیڈرن کولائیڈر کے قیام کے بعد ہوا۔ اربوں ڈالر مالیت کی اس تجربہ گاہ میں حلقے کی شکل میں 17 میل لمبی زیر زمین سرنگ بنائی گئی۔ جس کے دونوں سروں پر نصب طاقت ور آلات کے ذریعے جوہری ذرات کی لہریں اس انداز میں بھیجی گئیں کہ وہ اتنی قوت سے ایک دوسرے سے ٹکرائیں ان کے جوہری ذرات ٹوٹ کر بکھر جائیں اور وہی شکل اختیار کرلیں جو اربوں سال پہلے بگ بینگ کے وقت تھی۔

جوہری ذروں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ڈیٹا کو ہزاروں کمپیوٹروں کے ذریعے پراسس کیا گیا۔ سائنس دانوں کی دو الگ الگ بڑی ٹیموں نے علیحدہ علیحدہ تجربات کیے اوران کے نتائج کو باربار پرکھا۔

4 جولائی کو اس صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافت کا اعلان کرتے ہوئے سائنس دانوں کہا کہ انہیں اپنے نتائج کی صداقت پر پانچ سیگما تک یقین ہے۔ سائنسی اصطلاح میں سیگما سے مراد ایک ارب واں حصہ ہے۔ یعنی اس دریافت میں غلطی کا امکان ایک ارب میں صرف پانچ ہے۔

گاڈ پارٹیکل کی کہانی

جمعرات, جولائی 05, 2012

کائنات کی تخلیق کی وجہ، اہم ذرّے کی تلاش کا دعوٰی

سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ منصوبے سے وابستہ سائنسدانوں نے ہگس بوسون یا ’گاڈ پارٹیكل‘ جیسے ذرے کی دریافت کا دعویٰ کیا ہے۔

ہگس بوسون وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ’سب اٹامک‘ ذرہ ہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔

سائنسدان گزشتہ پینتالیس برس سے ایسے ذرے کی تلاش میں تھے جس نے یہ واضح ہوسکے کہ مادہ اپنی کمیت کیسے حاصل کرتا ہے اور اس دریافت کا اعلان جنیوا میں ایل ایچ سی سے وابستہ سائنسدانوں کی ٹیم نے کیا۔

گزشتہ دو برس سے سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی ایک ستائیس کلومیٹر طویل سرنگ میں سائنسدان انتہائی باریک ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس لطیف عنصر کی تلاش کررہے تھے جسے ہگس بوسون یا خدائی عنصر کہا جاتا ہے۔

ایل ایچ سی میں ہگس بوسون کی تلاش کے لیے کیے گئے دونوں تجربات میں اتنی یقینی صورتحال سامنے آئی کہ اسے’دریافت‘ کا درجہ دیا جاسکے۔ تاہم ابھی اس سلسلے میں کام کرنا باقی ہے کہ آیا سائنسدانوں نے جس کا مشاہدہ کیا وہی ہگس بوسون ہے یا نہیں۔

ہگس بوسون کی تھیوری کے خالق پروفیسر پیٹر ہگس ہیں جنہوں نے ساٹھ کے عشرے میں سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔ جنیوا میں پریس کانفرنس کے دوران پروفیسر پیٹر ہگس نے کہا کہ ’میں اس دریافت پر ہر اس فرد کو مبارکباد دینا چاہوں گا جو اس کارنامے کا حصہ ہے‘۔ 

پروفیسر پیٹر ہگس
انہوں نے کہا کہ ’مجھے حیرت ہے کہ سائنسدانوں نے میری زندگی میں یہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ چالیس سال پہلے تو لوگوں کو یہ معلوم تک نہیں تھا کہ وہ کیا تلاش کررہے ہیں۔ یہ حیرت انگیز پیش رفت ہے‘۔

اس موقع پر ’سرن‘ کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر رالف دائتر ہیوئر کا کہنا تھا کہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے تو میں کہوں گا کہ ’ہم کامیاب ہوگئے ہیں، لیکن ایک سائنسدان کی حیثیت سے مجھے پوچھنا پڑے گا کہ ہم نے کیا تلاش کیا ہے؟ ہمیں ایک ذرہ ملا ہے جسے ہم بوسون کہتے ہیں لیکن ہمیں پتہ لگانا ہے کہ یہ کس قسم کا بوسون ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک تاریخی سنگِ میل ہے لیکن تو ابھی آغاز ہے‘۔

سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے ڈیٹا میں ایک ’اٹھان‘ دیکھی جو کہ ایسا ذرہ تھا جس کا وزن ایک سو پچیس اعشاریہ تین گیگا الیکٹرون وولٹس تھا۔ یہ ذرہ ہر ایٹم کے مرکز میں موجود پروٹون سے ایک سو تینتیس گنا بھاری ہے۔

ان کے مطابق حاصل شدہ ڈیٹا کو جمع کرنے پر فائیو سگما یا پینتیس لاکھ میں سے ایک کی امکانی شرح پر انہیں یہ یقین ہوا کہ جو سگنل انہوں نے دیکھا ہے وہ ظاہر ہوگا۔ تاہم مکمل ڈیٹا ملانے پر یہ امکانی شرح بیس لاکھ میں سے ایک پر آگئی۔

سائنسدانوں کے ترجمان پروفیسر جو انکنڈیلا کے مطابق ’یہ ابتدائی نتائج ہیں لیکن ہم جو ایک سو پچیس گیگا الیکٹرون وولٹس پر فائیو سگما سگنل دیکھ رہے ہیں وہ ڈرامائی ہے۔ یہ درحقیقت ایک نیا ذرہ ہے‘۔ 

ہگس بوسون کو کائنات کا بنیادی تخلیقی جزو سمجھا جاتا ہے اور یہ پارٹیکل فزکس کے اس سٹینڈرڈ ماڈل یا ہدایتی کتابچے کا لاپتہ حصہ ہے۔ یہ سٹینڈرڈ ماڈل کائنات میں عناصر اور قوت کے باہمی رابطے کو بیان کرتا ہے۔

تحقیق سے وابستہ پروفیسر کالر ہیگن کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے فزکس کی ایک بنیادی تھیوری کی تصدیق ہوگی۔ ’یہ تحقیق لمبے عرصے سے جاری تھی، یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی جس سے بہت بڑی حد تک سٹینڈرڈ ماڈل کے سائنسی تصور کی تصدیق ہوجائے گی۔ ہمیں اس ذرے کی تلاش تھی اور ہمارے لیے یہ بےانتہا خوشی کی بات ہے کہ ہم ایک بڑی دریافت کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں‘۔

اگر یہ تصدیق ہوتی ہے کہ نیا دریافت شدہ ذرہ ہگس بوسون ہی ہے تو یہ اس صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافتوں میں سے ایک ہوگی۔ ماہرینِ طبعیات اس ذرے کو سنہ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں پہلی مرتبہ انسان کے چاند پر قدم رکھنے کے برابر قرار دیتے ہیں۔

کائنات کی تخلیق کی وجہ، اہم ذرّے کی تلاش کا دعویٰ