جمعہ, جولائی 06, 2012

گاڈ پارٹیکل کی کہانی

چار جولائی کو جب جنیوا میں سائنس دانوں نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں گاڈ پارٹیکل کی دریافت کا اعلان کیا تو اس موقع پر سب سے پہلے بڑی ٹیلی ویژن سکرین پر اس نظریے کے خالق پروفیسرہگز بوسن کا چہرہ دکھایا گیا۔ ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور وہ مسرت سے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہہ رہےتھے کہ میری سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ میں نے اپنے نظریے کی سچائی اپنی زندگی میں ہی ثابت ہوتے ہوئے دیکھ لی ہے۔

گاڈ پارٹیکل کی دریافت کو اس صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافت قرار دیا جارہا ہے۔ اس مضمون میں گاڈ پارٹیکل سے متعلق ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے آسان فہم انداز میں جواب دیے گئے ہیں۔

گاڈ پارٹیکل کیا ہے؟

ایٹم کے اندر پایا جانے والا ایک بہت ہی مختصر ذرہ ہے جس کا وزن اندازاً ہائیڈروجن گیس کے ایٹم سے، جو دنیا کا سب سے ہلکا ایٹم ہے، 130 گنا کم ہے۔

گاڈ پارٹیکل کیا کرتا ہے؟

کسی بھی چیز کا ایٹم الیکٹران، نیوٹران اور پروٹان سے مل کربنتا ہے۔ لیکن انہیں ایک مرکز پر اس طرح اکٹھا کرنے کا کام کہ وہ ایک ایٹم کی شکل اختیار کرلیں، گاڈ پارٹیکل کرتا ہے۔ جوہری اجزا انتہائی تیز رفتار ہوتے ہیں، جنہیں گاڈ پارٹیکل اپنی جانب کھینچ کر ان کی رفتار کم کردیتا ہے اور وہ ایک اٹیم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔

کائنات میں مادے کی عام اشکال ٹھوس مائع اور گیس ہیں۔ اگر گاڈ پارٹیکل نہ ہوتا تو اس کائنات میں ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں اور ان پر آباد دنیاؤں کی بجائے صرف توانائی کی لہریں ہی ہوتیں۔

گاڈ پارٹیکل کس طرح کام کرتا ہے؟

پراسرار جوہری ذرے کے نظریے کے خالق پروفیسر ہگز بوسن نے اسے ایک آسان مثال سے واضح کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پراسرار ذرہ کسی اہم پرکشش فلمی، سماجی یا سیاسی شخصیت کی مانند ہوتا ہے۔ جسے دیکھتے ہی لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کی جانب کھچے چلے جاتے ہیں۔ کوئی اس کی تصویر اتارنا چاہتا ہے، کوئی اس سے آٹوگراف لینے کا خواہش مند ہوتا ہے تو ہاتھ ملانے کی آرزو میں آگے بڑھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ہجوم کا نام ایٹم ہے۔ جوہری ذرات کے ہجوم کی نوعیت اور تعداد کے لحاظ سے مختلف نوعیت کے ایٹم وجود میں آتے ہیں۔ اورپھر وہ کائنات بناتے ہیں۔

گاڈ پارٹیکل نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟

اگر ہگزبوسن یا گاڈ پارٹیکل نہ ہوتا تو پھر کائنات میں سوائے توانائی کے کچھ بھی نہ ہوتا۔ کہکشائیں، سورج، چاند ستارے، زمینیں اور ان کے رنگ اور رعنائیاں اور زندگی کی مختلف اشکال بھی دکھائی نہ دیتیں۔ ماہرین طبعیات کا کہنا ہے کہ کائنات برقی مقناطیسی لہروں اور جوہری قوتوں سے بھری ہوئی ہے اور اس وسیع و عریض کائنات میں انہیں کسی مادے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کائنات میں بے شمار مادی اجسام تیر رہے ہیں۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ توانائی اور مادہ ایک دوسرے کا بدل ہیں اور مادہ توانائی ہی کی ایک شکل ہے۔ پھر سوال یہ تھا کہ آخر توانائی کا کچھ حصہ مادے میں تبدیل کیوں ہوا۔ اس الجھن کو حل کیا پروفیسر ہگز بوسن نے۔

ایڈن برگ میں واقع برطانیہ کی سکاٹ لینڈ یونیوسٹی کے سائنس دان ہگز بوسن نے 1964ء میں ایک پراسرار جوہری ذرے کا نظریہ پیش کیا۔ تخلیق کائنات کے ماڈل کی جدید عمارت ان کےنظریے پر کھڑی ہے۔ تصوراتی پراسرار ذرے کا نام ان کے اپنے نام پر ہگز بوسن رکھا گیا۔ بعدازاں اس موضوع پر گاڈ پارٹیکل کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی، جس کے بعد پراسرار ذرہ عمومی طور پر گاڈ پارٹیکل کے نام سے مشہور ہوگیا۔

گاڈ پارٹیکل کب وجود میں آیا؟

سائنس دان اس نظریے پر متفق ہیں کہ کائنات ایک بہت بڑے دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ جسے بگ بینگ کہاجاتا ہے۔ بگ بینگ سے قبل ایک بہت بڑا گولا موجود تھا جو اپنی بے پناہ اندرونی قوت کے باعث پھٹ کر بکھر گیا۔ گولہ پھٹنے سے لامحدود مقدار میں توانائی بہہ نکلی اور تیزی سے پھیلنے لگی۔

بگ بینگ کے بعد ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے میں گاڈ پارٹیکل وجود میں آگیا اور اس نے توانائی کے بے کراں سیلاب کو اپنی جانب کھینچنا شروع کیا۔

بنیادی طور پر توانائی کی دو اقسام کی ہے، ایک وہ جو گاڈ پارٹیکل کی کشش قبول کرتی ہے اور دوسری وہ جس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح جسے بہت سے لوگ اہم شخصیات کی جانب پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے۔ ماہرین کا کہنا ہے اس وقت کائنات میں بکھری ہوئی توانائی کا زیادہ تر حصہ وہی ہے جسے گاڈ پارٹیکل اپنی جانب کھینچ نہیں سکا۔

گاڈ پارٹیکل کیسے دریافت ہوا؟

کوئی بھی سائنسی نظریہ وجود میں آنے کے بعد لیبارٹری میں اس کی سچائی کی تصدیق کی جاتی ہے۔ ہگز بوسن کے نظریے کی تصدیق کا کام اگرچہ پچھلی صدی کے آخر میں شروع ہوگیا تھا لیکن بڑے پیمانے پر اس تحقیق کا آغاز پارٹیکل فزکس کی دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ لارج ہیڈرن کولائیڈر کے قیام کے بعد ہوا۔ اربوں ڈالر مالیت کی اس تجربہ گاہ میں حلقے کی شکل میں 17 میل لمبی زیر زمین سرنگ بنائی گئی۔ جس کے دونوں سروں پر نصب طاقت ور آلات کے ذریعے جوہری ذرات کی لہریں اس انداز میں بھیجی گئیں کہ وہ اتنی قوت سے ایک دوسرے سے ٹکرائیں ان کے جوہری ذرات ٹوٹ کر بکھر جائیں اور وہی شکل اختیار کرلیں جو اربوں سال پہلے بگ بینگ کے وقت تھی۔

جوہری ذروں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ڈیٹا کو ہزاروں کمپیوٹروں کے ذریعے پراسس کیا گیا۔ سائنس دانوں کی دو الگ الگ بڑی ٹیموں نے علیحدہ علیحدہ تجربات کیے اوران کے نتائج کو باربار پرکھا۔

4 جولائی کو اس صدی کی سب سے بڑی سائنسی دریافت کا اعلان کرتے ہوئے سائنس دانوں کہا کہ انہیں اپنے نتائج کی صداقت پر پانچ سیگما تک یقین ہے۔ سائنسی اصطلاح میں سیگما سے مراد ایک ارب واں حصہ ہے۔ یعنی اس دریافت میں غلطی کا امکان ایک ارب میں صرف پانچ ہے۔

گاڈ پارٹیکل کی کہانی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔