جمعہ, جولائی 06, 2012

پنکی کے ساتھ رویہ بھارتی سماجی کی عکاسی

پنکی پرمانک کو اس وقت کولکتہ کی جیل میں مردوں کے وارڈ میں رکھا گیا ہے
بھارتی ایتھلیٹ پنکی پرمانک کی گرفتاری کے وقت لی گئی یہ تصویر ساری کہانی بیان کردیتی ہے۔
 
ایشیائي کھیلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والی بھارتی ایتھلیٹ پنکی پرمانک کو عصمت دری کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ خاتون نہیں بلکہ مرد ہیں۔

اس تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مرد پولیس افسر نے پنکی کو کس طرح سے پکڑا ہوا ہے اور وہ بھی سینکڑوں ٹی وی اور فوٹو کمیروں کے سامنے۔ اس تصویر میں پنکی پرمانک پریشان اور حراساں نظر آرہی ہیں۔

پنکی کی گرفتاری کے وقت دور دور تک ایک بھی خاتون پولیس افسر نہیں تھی جو کہ ہونی چاہی تھی کیونکہ پنکی تب تک ایک خاتون ہیں جب تک کہ ان پر مرد ہونے کا الزام ثابت نہیں ہوجاتا ہے۔

پنکی کوئی عام شخص نہیں ہے وہ بھارت کی نامور ایتھلیٹ رہ چکی ہیں۔ انہوں نے دو ہزار چھ کے ایشیائی کھیلوں میں 400 میٹر ریلے ریس میں طلائی تمغہ حاصل کیا تھا وہیں دو ہزار چھ کے میلبرن میں ہونے والے کامن ویلتھ کھیلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔

پنکی تین برس پہلے ایتھلیٹکس کی دنیا کو الوداع کہہ چکی ہیں۔

پنکی پرمانک کو گزشتہ ہفتے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب ان کے ساتھ رہنے والی ان کی قریبی دوست نے ان پر عصمت دری کا الزام لگایا اور یہ الزام بھی لگایا کہ پنکی اصل میں ایک مرد ہے۔

پنکی پرمانک ان الزامات سے انکار کرتی رہی ہیں۔ حالانکہ تفتیش سے یہ واضح ہوجائے گا کہ ان کا اصل جنس کیا ہے؟

فی الحال محترمہ پنکی برے دور سے گزر رہی ہیں۔

انہیں کلکتہ کی جیل میں مردوں کی سیل میں رکھا گیا ہے۔ اس دوران ان کے جنس کا تعین کرنے کےلیے ٹیسٹ کیے گئے اور مرد پولیس افسران ان کو عدالت سے جیل اور جیل سے عدالت لے جانے کا کام کررہے ہیں۔

یہاں تک کہ جب وہ جنس کے تعین کے ٹیسٹ کے لیےگئی تو وہاں موجود کسی شخص نے ان کا موبائل پر ویڈیو بنالیا جو کہ بعد میں انٹرنیٹ پر ڈال دیا گیا جہاں وہ بہت مقبول ہوگیا۔ یہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ گرفتاری کے بعد پنکی کی انڈین ریلوے میں جو نوکری تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔

مقامی میڈیا میں پنکی اور ان کی قریبی دوست کے رشتوں کی تفصیلات شائع کی گئی ہیں۔ وہیں انکے ایتھلیٹ ساتھیوں کے بیانات شائع کیے گئے جس میں انہوں نے پنکی کے بارے میں ’برے رویہ رکھنے‘ کی بات کی ہے۔

ظاہر ہے اس بارے میں جیل میں قید پنکی پرمانک سے بات نہیں کی جاسکتی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں پنکی پرمانک کے ساتھ پولیس اور انتظامیہ کے غیر ذمہ دارانہ رویہ پر ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت نے پنکی پرمانک کو بے عزت کیا ہے۔ ان کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پنکی کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرے۔

واضح رہے کہ پنکی کی پولیس تحویل کی مدت میں مزید توسیع کردی گئی ہے کیونکہ ان کے ابھی اور ٹیسٹ ہونے ہیں۔

انسانی حقوق کی کارکن سوجاتو بھادرا کا کہنا ہے ’پنکی کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیوں کیا جارہا ہے۔‘

پنکی کے ساتھ جو ہوا ا س سے پتہ چلتا ہے کہ ریاستی حکومت اور میڈیا کس طرح سے غریب اور کمزور شخص کی زندگی تباہ کرسکتے ہیں۔

پنکی پرمانک کا تعلق مغربی بنگال کے ایک غریب گاؤں سے جہاں ماؤ نواز باغیوں کا غلبہ ہے۔ ان کے امیر اور طاقتور دوست نہیں ہیں۔ اور اب انکی ’سیکشوالٹی‘ پر بھی سوال اٹھ کھڑے ہیں جو کہ انہیں مزید کمزور بناتا ہے۔

پنکی کے ساتھ رویہ بھارتی سماجی کی عکاسی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔