جمعہ, نومبر 30, 2012

کار 600 ڈالر کی، جرمانہ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ

شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن یہ سچ ہے کہ امریکی شہر شکاگو میں ایک کار پر پارکنگ قواعد کی خلاف ورزی کے الزمات میں ایک لاکھ پانچ ہزار سات سو اکسٹھ ڈالر اور 80 سینٹ جرمانہ کیا گیا ہے اور عدم ادائیگی کی صورت میں سخت قانونی کارروائی کا نوٹس دیا گیا ہے۔ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ جرمانے کا اعزاز حاصل کرنے والی کار کی مالیت اب تو شاید صفر ہو گی کیونکہ 2008 میں اس کے موجودہ مالک نے اسے صرف 600 ڈالر میں خریدا تھا۔

کرسچین پوسٹ اور سی بی این نیوز کی رپورٹس کے مطابق کار پر جب جرمانے کے ٹکٹ لگنے شروع ہوئے تو وہ شکاگو ایئرپورٹ کے اس حصے میں کھڑی تھی جو ہوائی اڈے کے کارکنوں کے لیے مختص ہے اور وہاں کسی عام شخص کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ قواعد کے مطابق اس جگہ زیادہ سے زیادہ 30 دن تک گاڑی کھڑی کی جاسکتی ہے۔ جس کے بعد روزانہ کی بنیاد پر جرمانہ عائد ہونے لگتا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کے مطابق مذکورہ کار کو آخری بار 17 نومبر 2009 کو پارکنگ لاٹ میں کھڑا کیے جانے کے بعد وہاں سے ہٹایا نہیں گیا۔ اس عرصے کے دوران کار پر 678 بار جرمانہ عائد کیا گیا، مگر کوئی اسے ہٹانے کے لیے نہیں آیا۔ کار کی مالکہ کا نام جینیفر فٹز گیرلڈ ہے۔ اس کی عمر 31 سال ہے اور وہ ایک بچے کی ماں ہے۔ جب کہ بچے کا باپ تین سال پہلے ان دونوں کو چھوڑ کر جا چکا ہے۔ جینیفر کا کہنا ہے کہ یہ کار اس کے بوائے فرینڈ پریویو نے 2008 میں 600 ڈالر کی خریدی تھی، لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ کار اس کے نام پر کیسے رجسٹر ہوئی۔ پریویو نے اسے کار کی رجسٹریشن کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا۔ جینیفر کے مطابق کار پریویو ہی کے استعمال میں رہی۔ وہ ایئرپورٹ پر ملازم تھا اور کام پر آنے جانے کے لیے یہی کار استعمال کرتا تھا۔ 2009 میں دونوں میں علیحدگی ہوگئی اور پریویو جاتے ہوئے کار اپنے ساتھ لے گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا، جینیفر کو کچھ معلوم نہیں۔ اسے اپنے نام کار کے رجسٹر ہونے کا پتا اس وقت چلا، جب اس کے ایڈریس پر جرمانے کے نوٹس آنے شروع ہوئے۔

جینیفر نے گاڑیوں کی رجسٹریشن کے دفتر میں جاکر انہیں بتایا کہ اس کا کار سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسے سابقہ بوائے فرینڈ پریویو کے نام پر ٹرانسفر کیا جائے۔ مگر دفتر نے انکار کردیا کیونکہ وہ مستند دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہی تھی۔ جینیفر نے جرمانے کی خط و کتابت سے چھٹکارہ پانے کے لیے متعلقہ دفتر سے رابطہ کرکے انہیں بتایا کہ وہ ایئرپورٹ کی پارکنگ سے کار باہر نہیں نکال سکتی کیونکہ اس حصے میں ایئرلائنز کے کارکنوں کے سوا کسی بھی شخص کا داخلہ ممنوع ہے اور دوسرا یہ کہ اس کے پاس گاڑی کی چابی نہیں ہے۔ لیکن دفتر نے یہ کہتے ہوئے رعایت دینے سے انکار کر دیا کہ سرکاری دستاویزات میں کار کی مالکہ وہی ہے اور اسے وہاں سے ہٹانا اور جرمانے ادا کرنا اس کی قانونی ذمہ داری ہے۔ جینیفر نے اس مشکل سے نکلنے کے لیے مختلف محکموں کے عہدے داروں اور وکیلوں سے رابطے شروع کیے، مگر لاحاصل۔ دن گذرتے رہے اور جرمانہ بڑھتا رہا۔

کار پر جرمانے کا آخری ٹکٹ 30 اپریل 2012 کو لگا، جس کے بعد محکمے نے اسے لاوارث گاڑیوں کے شعبے میں منتقل کر کے جینیفر کو نوٹس بھیجا کہ وہ 105761 ڈالر اور 80 سینٹ دے کر اپنی گاڑی لے جائے، یا پھر عدالت کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔ کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ جینیفر کا سابقہ بوائے فرینڈ پریویو پارکنگ لاٹ میں کار چھوڑنے کے بعد کہاں چلا گیا، اگر پتا چل بھی جائے تو بھی اس کہانی میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے، کیونکہ ملکیت کی دستاویزات میں کہیں بھی اس کا نام نہیں، اور گاڑی کی تمام تر ذمہ داری جینیفر پر عائد ہوتی ہے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ شکاگو کا پارکنگ جرمانوں کا شعبہ جینیفر کے خلاف قانونی کارروائی کر رہا ہے جب کہ جینیفر نے اس کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے جس کی سماعت مئی 2013 میں متوقع ہے۔ چھ سو ڈالر میں خریدی جانے والی گاڑی کے ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ جرمانے کا مستقبل کیا ہوگا؟ کسی کو معلوم نہیں۔
 

سرینا ولیمز سال کی بہترین کھلاڑی

سرینا ولیمز
کراچی — ’ویمن ٹینس ایسوسی ایشن‘ (ڈبلیو ٹی اے) نے امریکہ کی سرینا ولیمز کو 2012ء کی بہترین ٹینس پلیئر قرار دیا ہے۔ اس اعزاز کے لیے 31 سالہ سرینا ولیمز کا انتخاب اس سیزن میں ان کی بہترین کارکردگی کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ رواں سیزن میں سرینا نے ’ومبلڈن‘ اور ’یو ایس اوپن‘ جیت کر نہ صرف اپنے 15 ’گرینڈ سلیم‘ ٹائٹل مکمل کیے بلکہ لندن اولمپکس میں سنگل اور ڈبل مقابلوں میں گولڈ میڈل بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔

ماہِ اپریل سے اکتوبر کے دوران میں سرینا ویمن ٹینس مقابلوں پر چھائی رہیں اور انہوں نے اس عرصے کے دوران کھیلے جانے والے 50 میں سے 48 میچوں میں کامیابی حاصل کی۔

یہ چوتھا موقع ہے کہ سرینا ولیمز ’ڈبلیو ٹی اے‘ کی جانب سے ’پلیئر آف دی ایئر‘ قرار پائی ہیں۔ اس سے قبل اس اعزاز کے لیے 2002ء، 2008ء اور 2009ء میں بھی ان کا انتخاب ہوچکا ہے۔

رکی پونٹنگ انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائر

رکی پونٹنگ
آسٹریلوی کھلاڑی رکی پونٹنگ نے اعلان کیا ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میچ کے بعد وہ انٹرنیشنل کرکٹ کو خیر باد کہہ دیں گے۔ انہوں نے یہ اعلان جمعرات کو پرتھ میں پریس کانفرنس میں کیا۔ انہوں نے کہا ’چند گھنٹے قبل ہی میں اپنے ساتھیوں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا ہے کہ یہ میرا آخری ٹیسٹ میچ ہو گا۔ اس بارے میں میں نے بہت سوچا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا۔‘ سترہ سال کے کیریئر کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہنے پر انہوں نے مزید کہا ’اس فیصلے پر میں موجودہ سیریز میں اپنی پرفارمنس کو دیکھ کر پہنچا ہوں کیونکہ میری پرفارمنس وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے تھی۔‘

رکی پونٹنگ نے 167 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں اور 13366 رنز سکور کیے۔ اس سے قبل فروری میں انہوں نے ایک روزہ میچز سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ جنوبی افریقہ کے خلاف جاری سیریز میں رکی پونٹنگ نے تین اننگز میں صفر، چار اور سولہ رنز سکور کیے ہیں۔

پونٹنگ نے کہا ’میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ میں اس وقت تک کھیلوں گا جب تک میں ٹیم کی جیت کا حصہ بن سکوں لیکن پچھلے چند ہفتوں میں جو میری کارکردگی رہی ہے وہ اطمینان بخش نہیں تھی۔‘


اکتالیس سنچریاں
ٹیسٹ: 167
رنز: 13366
سب سے زیادہ سکور: 257
اوسط: 52.21
سنچریاں: 41
سٹرائیک ریٹ: 58.74

انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ کو پرتھ میں ہونے والے میچ میں ہرانا ضروری ہے کیونکہ اس سے آسٹریلیا دوبارہ ٹیسٹ میچ کی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر آجائے گی۔

پونٹنگ نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز سترہ سال قبل سری لنکا کے خلاف کیا۔ انہوں نے اپنی پہلی اننگ میں 96 رنز بنائے تھے۔ آسٹریلیا کے کپتان مائیکل کلارک نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پونٹنگ نے جب یہ اعلان کیا تو ٹیم کے لیے ایک دھچکا تھا۔ اپنے جذبات پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کلارک نے کہا ’آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔‘

رکی پونٹنگ کا انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد

فلسطین اقوام متحدہ کا غیر مبصر رکن بن گیا

اقوام متحدہ نے فلسطینی کو غیر رکن مبصر ملک کا درجہ دے دیا ہے۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی اتھارٹی کا درجہ بڑھائے جانے کی تجویز پر ہونی والی ووٹنگ میں 193 ممالک میں سے 138 ممالک نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا۔ اسرايل، امریکہ اور کینیڈا سمیت نو ممالک نے اس تجویز کے خلاف ووٹ ڈالا جب کہ 41 ممالک نے اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا۔

ووٹنگ سے پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب میں فلسطینی رہنما محمود عباس نے کہا، ’آج اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ فلسطین کے پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کرے۔‘ انہوں نے مزید کہا ’پیسنٹھ سال پہلے آج ہی کے دن اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی نے قرارداد 181 کو منظوری دے کر فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا اور اسرائيل کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ دے دیا تھا۔‘


اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہونے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر جشن کا ماحول تھا۔ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر نغمے گائے، آتش بازی کی اور گاڑیوں کے ہارن بجا كر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اسرائيل کے سفیر نے ووٹنگ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’اس تجویز سے امن کو کوئی فروغ نہیں ملے گا بلکہ اس سے امن کو دھچكا ہی لگے گا اسرائيلي لوگوں کا اسرائيل سے چار ہزار سال پرانا تعلق اقوام متحدہ کے کسی فیصلے سے ٹوٹنے والا نہیں ہے۔‘ امریکہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اسرائيل کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنی چاہیے اور اس طرح اقوام متحدہ میں یک طرفہ اقدامات کے ذریعے ریاست کا درجہ حاصل نہیں کرنا چاہیے۔ برطانیہ اور جرمنی نے اس تجویز کے لیے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، لیکن دونوں ملک فلسطینیوں کی اس تجویز کے لائے جانے سے خوش نہیں تھے۔ لیکن اقوام متحدہ میں اس تجویز کو بھارت سمیت فرانس، روس، چین اور جنوبی افریقہ جیسے کئی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ گزشتہ سال فلسطینی اتھارٹی نے مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں درخواست دی تھی لیکن سلامتی کونسل میں امریکہ نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا تھا اور فلسطینیوں کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے رکن ممالک سے کہا کہ وہ فلسطینی انتظامیہ کی کامیابیوں کو تسلیم کریں۔


غیر مبصر رکن کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد اب فلسطین کو اقوامِ متحدہ کے اداروں میں شمولیت حاصل ہو جائے گی جن میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف بھی شامل ہے۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی بیت المقدس کے علاقوں کو فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے جن علاقوں پر اسرائیل نے سنہ 1967 میں قبضہ کر لیا تھا۔

فلسطین اقوام متحدہ کا غیر مبصر رکن بن گیا

بالی وڈ کی جڑیں اور پشاور

شاہ رخ خان اپنی کزن نورجہاں کے ساتھ
کون ہے جس نے دلیپ کمار اور شاہ رخ خان کا نام نہیں سنا۔ لیکن بہت سے لوگ شاید یہ نہیں جانتے کہ بالی وڈ کے ان سپر سٹارز کی جڑیں اسی شہر میں تلاش کی جا سکتی ہیں آج جس کی پہچان عسکریت پسندی اور قدامت پرستی بن کر رہ گئی ہیں۔ پشاور میں ایک جگہ ڈھکی کہلاتی ہے۔ تنگ و پرپیچ گلیوں پر مشتمل یہ علاقہ پشاور کے قدیم ترین اور مشہور ترین بازار قصہ خوانی کے پہلو میں واقع ایک پہاڑی پر قائم ہے (پشاور کی زبان ہندکو میں ڈھکی کا مطلب ہی پہاڑی ہے)۔ اس علاقے میں چار سو میٹر کے دائرے کے اندر اندر بالی وڈ کے تین عظیم ترین ستاروں کے گھر پائے جاتے ہیں: دلیپ کمار، راج کپور اور شاہ رخ خان۔

ڈھکی کے اندر پہنچنے کے لیے میں قصہ خوانی بازار کے بائیں طرف ایک تاریک گلی میں داخل ہو گیا جس نے مجھے دوسری طرف ایک چھوٹے سے کھلے میدان میں پہنچا دیا۔ دائیں طرف کی بھول بھلیاں گلیوں نے مجھے پہاڑی کے اوپر راج کپور کے گھر تک پہنچا دیا جو 1950 کے عشرے میں بالی وڈ کے میگا سٹار تھے۔

راج کپور کے والد پرتھوی راج (جنھوں نے ’مغلِ اعظم‘ میں اکبر کا کردار ادا کیا تھا) اپنے آپ کو پہلا ہندو پٹھان کہتے تھے۔ وہ بالی وڈ میں اداکاروں کے پہلے خاندان کے بانی تھے جو اب چار نسلوں پر محیط ہے۔

پشاور: فنکاروں، ہنرمندوں کا شہر
تصویر محل سینما شاہ رخ خان کے گھر سے بہت قریب ہے۔ طالبان نے 2009 کے بعد سے اس سینما کو دوبار بم سے اڑایا ہے، جو فلموں کو فحش اور غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ ایک فلم بین نے بتایا کہ فلم دیکھتے وقت ہم سکرین سے زیادہ گیٹ کو دیکھتے رہتے ہیں جس سی فلم کا مزا کرکرہ ہو جاتا ہے۔ اس ماحول میں بالی وڈ کے ورثے کو محفوظ رکھنے کی خواہش بے تکی سی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن پشاور میں موسیقی، شاعری اور تھیئٹر کی روایت بہت توانا رہی ہیں۔ 1936 میں پشاور کا شمار برصغیر کے ان گنے چنے شہروں میں ہونے لگا تھا جہاں ریڈیو سٹیشن قائم تھے۔ یہاں کئی تھیٹر گروپ تھے جن میں پیشہ ور اور غیر پیشہ ور افراد حصہ لیتے تھے۔ یہ سلسلہ 1980 کی دہائی تک جاری و ساری رہا۔ دلیپ کمار کی طرح بعض اداکاروں کے خاندان اس لیے بھارت منتقل ہو گئے کہ ان کے خاندانوں کا وہاں کاروبار تھا۔ ہندو، خاص طور کپور خاندان، تقسیم کے بعد بھارت ہجرت کر گئے۔ شاہ رخ خان کے والد کی طرح کے لوگ بھارت ہی میں رہے کیوں کہ وہ تقسیم کے خلاف تھے۔

ان کی تین منزلہ حویلی کے سامنے کا حصہ محرابی کھڑکیوں اور باہر کو نکلی ہوئی بالکونیوں پر مشتمل ہے، لیکن اب یہ عمارت یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہاں اب کوئی نہیں رہتا لیکن کپور خاندان کی یادیں اب بھی زندہ ہیں۔ 



گلی ڈنڈا کپور
ڈھکی کے ایک نوے سالہ باسی محمد یعقوب ہیں جو راج کپور کو اب بھی یاد کرتے ہیں۔ ’وہ 1920 کے عشرے میں میرا دوست تھا۔ وہ مجھ سے ایک سال چھوٹا تھا۔ ہم گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ ہم ایک ہی سکول جایا کرتے تھے۔‘ راج کپور کا خاندان 1930 کے عشرے میں ممبئی منتقل ہو گیا، البتہ وہ کبھی کبھی پشاور آتے جاتے رہے۔ محمد یعقوب کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ بھی 1947 میں ملک کی تقسیم کے بعد ٹھپ ہو گیا۔ کپور خاندان کی حویلی سے تین منٹ کے راستے پر ایک تنگ گلی سے گزر کر بالی وڈ کے ایک اور بڑے کا شکست و ریـخت کا شکار گھر ہے۔

دلیپ کمار کو ہندوستانی سینما کا شہنشاہِ جذبات کہا جاتا ہے۔ ان کے اعزازات کی فہرست بہت طویل ہے، اور اس میں آٹھ فلم فیئر ایوارڈ بھی شامل ہیں جو بھارت کے آسکر ایوارڈ سمجھے جا سکتے ہیں۔ ان کا آبائی گھر لرزتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کہ اب گرا کہ تب گرا۔ کھڑکیوں اور دروازوں پرلکڑی کا عمدہ کام ہوا ہے لیکن سب کچھ چٹخ گیا ہے اور جگہ جگہ مکڑی کے جالے پھیلے ہوئے ہیں۔ گھر کے اندر پشاوری طرز کا لکڑی کا نفیس کام پایا جاتا ہے لیکن یہ بھی بوسیدہ ہو چلا ہے۔ چھت سے پلاسٹر اکھڑ گیا ہے۔ یہ مکان اب کپڑوں کے گودام کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

اس عمارت میں میری ملاقات مالیار سے ہوئی جنھوں نے مجھے اس مکان کے بارے میں بتایا: ’یہ ان کے فخر کی بات ہے جنھوں نے اس چھوٹی سے جگہ سے اٹھ کر ساری دنیا میں نام کمایا، لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے لیے یہ ایک تاریخی مکان ہے، جو اب گودام ہے، اور میں یہاں کام کرتا ہوں۔‘

دلیپ کمار اور راج کپور تو ماضی کے درخشاں ستارے تھے، بالی وڈ کے چند حالیہ چوٹی کے اداکاروں کا شجرہ تقسیم کے 66 برس بعد بھی پشاور سے جا ملتا ہے۔

مدھوبالا
شاہ رخ پشاور میں
تین منٹ اور آگے چلیں تو بالی وڈ کے سب سے بڑے اور سب سے مہنگے سپر سٹار کا آبائی گھر آتا ہے۔ شاہ رخ خان کے والد تاج محمد خان اس مکان میں پیدا ہوئِے اور پلے بڑھے۔ خود شاہ رخ نے اپنے لڑکپن میں یہاں کئی دن گزارے ہیں جب وہ دہلی سے اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے یہاں آئے تھے۔ ان کی کزن نورجہان اس مکان میں رہتی ہیں۔ وہ دو بار ممبئی جا کر شاہ رخ سے مل چکی ہیں۔ انھوں نے 1978 اور 1979 میں شاہ رخ کے یہاں گزارے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ اسی کمرے میں سوئے تھے جس میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔ ’وہ یہاں پہ بہت خوش تھے کیوں کہ وہ پہلی بار اپنے ددھیال سے ملے تھے۔ بھارت میں ان کا صرف ننھیال ہے۔‘ نورجہاں کے 12 سالہ بیٹے کا نام بھی شاہ رخ ہے، اور وہ اپنے آپ کو شاہ رخ خان ثانی کہتا ہے۔ ’انکل نے وعدہ کیا ہے کہ اگر میں کرکٹ کا اچھا کھلاڑی بن گیا تو وہ مجھے اپنی ٹیم میں شامل کریں گے۔‘ شاہ رخ خان انڈین پریمیئر لیگ میں کھیلنے والی کولکتہ نائٹ رائیڈرز ٹیم کے ملک ہیں۔

یہی نہیں بلکہ پشاور بالی وڈ کے کئی اور مشہور و معروف ستاروں کا گھر بھی ہے۔ ان میں مدھوبالا بھی شامل ہیں جنھیں بالی وڈ کی تاریخ کی حسین ترین ہیرؤین کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ 1975 کی ریکارڈ توڑ فلم شعلے کے مشہور ویلن امجد خان کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ 1970 کی دہائی میں بالی وڈ کے سب سے مقبول ترین اداکاروں میں سے ایک ونود کھنہ ہیں۔ وہ بھی پشاور ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ انیل کپور کے والد سریندر کپور بھی یہیں کے رہنے والے تھے۔ وہ اپنے دور کے معروف فلم پروڈیوسر تھے۔

شکست و ریخت
آخر پشاور اتنے مشہور اداکاروں سے مالامال کیوں ہے؟ پشاور میں اتنے مشاہیر کے مکانات کو محفوظ رکھنے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔ دلیپ کمار کے ایک رشتے دار فواد اسحٰق کہتے ہیں، ’دلیپ کمار کے گھر کو محفوظ بنانا چاہیے، تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ ہم پشاوری کیا کچھ کر سکتے ہیں۔‘ لیکن خیبر پختون خوا حکومت کی طرف سے ان کے گھر کو سرکاری تحویل میں لینے کی ایک حالیہ کوشش مکان کی ملکیت کے تنازعے کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔ اسی طرح راج کپور کے گھر کو بھی سرکاری تحویل میں نہیں لیا جا سکا۔ بحالی کے کاموں کی ماہر اور صوبائی حکومت کی مشیر فریال علی گوہر نے اس کی وجوہات ’فنڈز کی کمی، اور اس مکان تک رسائی اور سیکیورٹی کے مسائل‘ بتائیں۔


پشاوری پیداوار ممبئی میں
پرتھوی راج کپور
(1906 - 1972)
اداکار اور فلم ساز اور کپور خاندان کے بانی

دلیپ کمار
(1922 -)
نامور اداکار جنھوں نے عشروں تک بالی وڈ پر راج کیا

راج کپور
(1924-1988)
اداکار، ہدایت کار، فلم ساز، شومین، پرتھوی راج کے صاحب زادے

مدھوبالا
(1933-1969)
بالی وڈ کی ملکۂ حسن، جن کا مغلِ اعظم میں انارکلی کا کردار اب بھی دلوں پر نقش ہے

پریم ناتھ
(1926-1992)
مشہور اداکار جن کا خاندان تقسیم کے بعد بھارت منتقل ہو گیا

ونود کھنہ
(1946-)
ستر اور اسی کی دہائیوں کی انتہائی مقبول ہیرو۔ ان کے دو بیٹے بھی فلم انڈسٹری میں ہیں۔