شہزادی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
شہزادی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار, دسمبر 09, 2012

شہزادی کے لیے جعلی ٹیلی فون کال، نرس کی خود کشی

لندن — شہزادی کیتھرین کے حاملہ ہونے کی خبر جہاں ساری دنیا نے بہت خوشی سے سنی وہیں جمعہ کو لندن کے کنگ ایڈورڈ ہسپتال کی ایک نرس جاکینتا سیلڈانہ کی خود کشی کی خبر نے ساری دینا کو اداس کر کے رکھ دیا۔ شہزادی کیٹ ان دنوں حاملہ ہیں اور انھیں شدید کمزوری کے باعث گزشتہ پیر کی دوپہر اس ہسپتال میں لایا گیا تھا جہاں وہ چند دن زیر علاج رہنے کے بعد جمعرات کو ہسپتال سے رخصت ہو کرسینٹ جیمس پیلس منتقل ہوچکی ہیں۔ ہسپتال ذرائع نے اس خبر کی تصدیق کی ہے کہ مرنے والی مسز سیلڈانہ ہی وہ نرس تھی جس نے سڈنی ریڈیو کے میزبانوں کی جھوٹی فون کال کو شہزادی کے کمرے میں منتقل کیا تھا۔ سیلڈانہ دو بچوں کی ماں تھی۔ جمعہ کی صبح ساڑھے نو بجے وسطی لندن کی رہائش گاہ سے اس کی لاش برآمد ہوئی۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے مطابق فی الحال اس کیس کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔

برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کی خبر کے مطابق جھوٹی فون کال منگل کے روز سڈنی آسٹریلیا کے مشہور ’ٹو ڈے ایف ایم ریڈیو‘ کے دو میزبانوں میل جریگ اور مائیکل کرسٹین نے اس ہسپتال میں کی اور انھوں نے برطانوی لب و لہجہ میں خود کو ملکہ برطانیہ اور شہزادہ چارلس ظاہر کرتے ہوئے شہزادی کیٹ کی خیریت دریافت کی۔ اس مذاق کا شکار بننے والی نرس جاکینتا سیلڈانہ نےاس کال کو ملکہ برطانیہ کی کال سمجھتے ہوئے شہزادی کی تیمارداری میں مصروف نرس کو ٹرانسفر کر دیا اس طرح دونوں میزبان شہزادی کی صحت سے متعلق تازہ ترین صورت جاننے میں کامیاب ہو گئے۔

سینٹ جیمز پیلس کے ترجمان کے مطابق شہزادی کیتھرین اور شہزادہ ولیم کو نرس کی موت سے گہرا دکھ پہنچا ہے اور وہ مصیبت کی اس گھڑی میں مسز سیلڈانہ کے خاندان اور ہسپتال انتظامیہ کے ساتھ ہیں۔ ذرائع نے مزید کہا کہ شہزادی کیٹ اور شہزادہ ولیم کی جانب سے اس جھوٹی فون کال پر ہسپتال انتظامیہ سے شکایت درج نہیں کرائی گئی تھی۔ ادھر کنگ ایڈورڈ ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 46 سالہ سیلڈانہ کو اس واقعہ کے بعد ملازمت سے بر طرف نہیں کیا گیا تھا اور انتظامیہ اس موقع پر اس کے ساتھ کھڑی تھی۔

سڈنی ریڈیو پر دونوں میزبانوں نے اپنے شو میں ہسپتال کوجھوٹی فون کال کرنے کا سارا واقعہ من و عن پیش کیا، دنیا بھر کے میڈیا کی طرف سے بھی اس خبر کو شہ سرخیوں میں جگہ ملی۔ شو کے اختتام پر ریڈیو انتطامیہ نے اس مذاق پر شاہی خاندان سے معذرت بھی کی تھی۔ سیلڈانہ کی خود کشی کی خبر پر دنیا بھر کے لوگوں کی جانب سے سڈنی ریڈیو کو تنقید کا سامنا ہے جبکہ ریڈیو انتظامیہ نے دونوں میزبانوں کو فی الحال شو کرنے سے روک دیا ہے۔ 

جمعہ, نومبر 09, 2012

ٹیپو سلطان کی جاسوس پڑپوتی

دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے والی ٹیپو سلطان کی پڑپوتی نور عنایت خان کے مجسمے کی نقاب کشائی لندن کے معروف گورڈن سکوائر میں ہونے والی ہے۔ میسور کے سابق حکمراں ٹیپو سلطان کی پڑ پوتی نور عنایت خان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ انہوں نے زبردست بہادری اور جرات مندی کا ثبوت دیا جس پر ان کی سوانح نگار شربانی باسو نے انہیں ’جاسوس شہزادی‘ کا خطاب دیا ہے۔ نور عنایت روس میں پیدا ہوئیں لیکن ان کی تربیت برطانیہ اور فرانس میں ہوئی۔ ان کا تعلق بھارت کے بہت ہی مشہور شاہی خاندان سے تھا۔ نور خان کو فرنچ زبان میں بھی عبور تھا اور سنہ 1942 میں انہیں برطانیہ کے ’سپیشل آپریشنز ایگزیکیٹیو‘ ( ایس او ای) نے پیرس میں کام کرنے کے لیے بطور ریڈیو آپریٹر بھرتی کیا تھا۔

برطانوی آثار قدیمہ کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ وائر لیس آپریٹ کرنے والے پہلی خاتون تھیں اور دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں نے فرانس کے جس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا وہاں انہیں کام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ نور خان کو لکھنے کا بھی شوق تھا اور انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں۔ انہیں موسیقی میں بھی دلچسپی تھی لیکن میدان جنگ میں وہ ایک شیرنی تھیں۔ جاسوس کی حیثیت سے وہ تین ماہ تک تو قید سے بچتی رہیں لیکن پھر وہ قید ہوئیں اور ان پر تشدد کیاگیا ۔ 1944 میں جرمن فوجیوں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ آخری لمحات میں جب جرمن فوجیوں نے ان پر بندوق تانی تو شہزادی نور خان نے’ آزادی‘ کا نعرہ لگایا تھا۔

ان کی سوانخ نگار شربینا باسو کا کہنا ہے کہ آزادی ان کے لیے بہت اہم تھی جس سے انہیں زندگي بھر لگاؤ رہا۔ اسی بہادری کے سبب انہیں ’جارج کراس‘ کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ فرانس میں انہیں ’ کروسکس ڈی گوئرا‘ کا اعزاز بخشا گیا۔ بعد میں ان کی برسی کے یاد میں بھی دو یادگاریں قائم کی گئیں اور ایک سالانہ تقریب کا اہتمام بھی کیا گيا۔ کہتے ہیں کہ جنگ میں اس طرح کی شجاعت کا مظاہرہ اس لیے نہیں کیا کہ انہیں برطانیہ سے بہت پیار تھا بلکہ اس لیے کہ انہیں فسطائیت اور آمریت سے سخت نفرت تھی۔ ان کے والد ایک موسیقی کار اور صوفی موسیقی کے استاد تھے۔ نور خان کو زندگی کے بہترین آداب سکھائے گئے۔ سبرینا باسو کہتی ہیں کہ ’ وہ کسی ملک پر دوسرے کا قبضہ برداشت نہیں کر پاتی تھیں اور یہ ایک ایسا خیال تھا جو انہیں خاندانی طور پر ورثے میں ملا تھا۔

ان کے پڑدادا ٹیپو سلطان، جو اس وقت کی بھارتی ریاست میسور کے حکمراں تھے، انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے انگریزوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا اور ان کے ساتھ لڑتے ہوئے سنہ 1799 میں جنگ میں مارے گئے۔ نور خان یکم جنوری 1914میں روس میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بھارتی اور ماں امریکی نژاد تھیں۔ ان کی دوشیزگی کا وقت لندن میں گزرا تھا۔ لیکن بچپن میں ان کا خاندان چونکہ فرانس منتقل ہوگیا تھا اس لیے بچپن وہیں گزرا جہاں انہوں دوران تعلیم فرینچ زبان سیکھی۔ انہوں نے طب اور موسیقی دونوں کی تعلیم لی تھی۔ 1939 میں بچوں کے لیے کہانیوں پر مبنی ان کی ایک کتاب ’ ٹوئنٹی چٹکا ٹیلز‘ شائع ہوئی تھی۔ جب سنہ انتالیس میں عالمی جنگ شروع ہوئی تو نور عنایت خان نے فرینچ ریڈ کراس کے ساتھ بطور نرس تربیت پائی۔ نومبر سنہ چالیس میں جرمن فوجیوں کے سامنے حکومت کے ہتھیار ڈالنے سے پہلے ہی وہ ملک چھوڑ کر ایک کشتی میں سوار ہوکر اپنی ماں اور بہن کے ساتھ لندن پہنچ گئیں۔ برطانیہ آنے کے فوراً بعد انہوں نے ’وومنز آکزیلری ایئر فورس‘ میں وائر لیس آپریٹر کے طور پر شمولیت اختیار کر لی۔ تبھی ان پر ایس او ای کی نظر پڑی۔ اس وقت وہ نورا بیکر کے نام سے معروف ہوئی اور انہوں نے سنہ 1942 میں برطانوی خفیہ سروس جوائن کیا۔ اسی خفیہ سروس کے تحت بعد میں انہیں فرانس میں تعینات کیا گیا لیکن ایک رپورٹ کے بعد انہیں واپس بھیجنے کو بھی کہا گیا۔ اس بات کا شک ہوا کہ شاید نیٹ ورک میں جرمن نے دراندازی کر لی ہے اور انہیں جرمن گرفتار کرسکتے ہیں لیکن وہ اس کے باوجود برطانیہ واپس نہیں آئیں۔

محترمہ باسو نے ان کی زندگی پر آٹھ برس ریسرچ کے بعد کتاب لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ نور خان بچوں کی کہانیوں کی نفیس لکھاری اور موسیقی کار تھیں لیکن ان میں تبدیلی آئی۔ وہ میدان جنگ میں ایک شیرنی کی طرح تھیں‘۔ ان کی ٹیم کے بہت سے لوگ جرمنوں کے ہاتوں قید ہوتے رہے لیکن نور عنایت خان جب تک ممکن ہوا ان کے ریڈیو پیغامات کو درمیان میں سن سن کر برطانیہ کو بھیجتی رہیں۔ ان کے کمانڈر انہیں انگلینڈ واپس جانے پو زور دیتے رہے لیکن وہ تن تنہا بھیس اور مقامات بدل بدل کر جاسوسوں کی ایک خفیہ مہم تین ماہ تک چلاتی رہیں۔ کہتے ہیں جرمن فوجیوں نے انہیں دس ماہ تک قید کر کے تشدد کیا لیکن انہوں نے جرمن فوج کو کوئی معلومات فراہم نہیں۔بالآحر انہیں سنہ چوالیس میں تیرہ ستمبر کو قتل کر دیا گیا۔

بھارتی شہزادی نور کی شجاعت مندی پر اعزاز

ہفتہ, ستمبر 15, 2012

کیا برطانیہ کوہ نور آسانی سے لوٹا دے گا؟

بھارت کے جسوندر سنگھ سندھان والیا نے اپنے آپ کو ماہاراجہ دولیپ سنگھ کا وارث قرار دیتے ہوئے برطانیہ کے خلاف دنیا کے سب سے بڑے ھیرے کوہ نور کے سلسلے میں ایک مقدمہ دا ئر کرنے کا فیصلا کیا ہے جو ملکہ برطانیہ کے تاج کو سجا رہا ہے- جسوندر سنگھ کے مطابق ان کے اجداد دولیپ سنگھ بچپن میں ہی سب سے زیادہ قیمتی ہیرے و جواہرات انگریزوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس بارے میں تفصیل ہمارے مبصر گیورگی وانیتسا نے لکھی۔

کوہ نور کے بارے میں بہت سی کہانیاں مشہور ہیں- یہ ہیرا مالوی سرتاجوں کا زیور رہا پھر مغلوں کے پاس رہا- اس کے بعد وہ 1793 میں نادر شاہ کے تاج کی زینت بنا اور حقیقت میں اس کا نام بہی نادر شاہ نے ڈالا- اس کے بعد وہ افغانی امیروں کے قبضہ میں آگیا اور پر مہاراجہ سِکھوں کے- 1848 میں دو سکھ قبیلوں کے درمیان جنگ کی وجہ سے سارے قیمتی جواہرات پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا- 29 مارچ 1849 کے معاہدہ کے بعد جس کو لاہور معاہدہ کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ دولیپ سنگھ اور انگریزی لارڈ دلاہوزی کے درمیان ہوا- اور اسی سال اس کو برطانیہ کی شہزادی کے حوالے کردیا گیا- ابتدا میں یہ ہیرا 186 کیریٹ کا تھا پھر1911 میں شہزادی میری کی تخت نشینی کے وقت اس کو 109 کیریٹ کا کردیا گیا- غرض یہ کہ پچھلے دوروں میں اس ہیرے کے 18 مالک رہ چکے ہیں۔

جسوندر سنگھ کو اس سلسلے میں مقدمہ کرنے کے لئے سب سے پہلے اس ہیرے سے تعلق کو ثابت کرنا ہوگا- اس سلسلے میں وہ 1889 کے خط کا ذکر کررہے ہیں- جسوندر سنگہ کے مطابق ان کا پردادا رشتے کا بھائی تھا اور مہاراجہ کا سوتیلا بیٹا تھا- اس طرح جسوندر سنگھ نے کہا ہے کہ اس سلسلے ميں انڈین کورٹ ان کی مدد کرے گی- اور اگر ان کو یہ واپس مل گیا تو وہ اس کو امرتسر کے گولڈین ٹیمپل کے حوالے کر دیں گے- بھارت میں اس کا بخوشی استقبال کیا جائے گا- واضع رہے کہ کوہ نور کی واپسی کا سوال بھارت میں اکثر اٹھایا جاتا رہا ہے بھارتی پارلیمان میں ایک تحریک بھی شروع کی گئی- لیکن لندن اس کو اور دوسرے قیمتی زیورات واپس کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے- اس بارے میں بھارتی تحقیق کی ماہرہ تاتیانا شاومیان نے کہا کہ بریٹش میوزیم، اور میٹروپولیٹین ایسی اشیا سے بھرے پڑے ہیں جو نوآبدیاتی دور میں مختلف ملکوں سے لے جائے گئے- برطانیہ ان کو شائد ہی واپس کرے گا- بھارت اس کو واپس لے سکے گا، یہ کہنا مشکل ہے- لیکن اگر مصر، یونان، ترکی اور دوسروں کے ساتھ مل کر کوشش کی جائے جن کی نوادرات غائب کی گئی ہیں نوآبادیاتی دور میں اور اگر یہ ممالک ایسی کوئی تحریک شروع کریں گے تب شائد ممکن ہو کہ ان کو اپنی قیمتی نوادرات واپس مل سیکں-

کیا برطانیہ کوہ نور کو آسانی سے لوٹا دے گا؟

ہفتہ, ستمبر 01, 2012

ہر دلعزیز شہزادی ’ڈیانا‘

ہر دلعزیز شہزادی ڈیانا
شہزادی ڈیانا سپنسر 15 برس گزر جانے کے باجود آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ انہیں سلیم الفطرت اور خوبصورتی کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شہزادی ڈیانا کے چہرے پر ہمیشہ ایک خوبصورت اور معصوم مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔

اپنی قدرتی حسن اور دلکشی کے باعث شہزادہ چارلس کی پہلی بیوی شہزادی ڈیانا دنیا بھر میں پسندیدہ شخصیت رہیں۔ شہزادی ڈیانا 1980 کی ایسی معروف ترین خاتون تھیں جن کی سب سے زیادہ تصاویر لی گئیں۔

31 اگست 1997 کی صبح لیڈی ڈیانا ایک کار حادثے میں اس دنیا سے چل بسیں۔ اپنے ساتھی دودی الفائد کے ساتھ وہ پیرس کی ایک سرنگ سے گزر رہی تھیں، جب ان کی تیز رفتار مرسڈيز کار سرنگ کے ایک ستون سے ٹکرا گئی۔ اطلاعات کے مطابق گاڑی کے ڈرائیور نے بہت زیادہ شراب پی رکھی تھی۔

ڈرائیور اور دودی الفائد دونوں موقع پر ہلاک ہوگئے، تاہم شہزادی ڈیانا کی موت چند گھنٹے بعد ہسپتال میں ہوئی۔ اس کے بعد افواہیں گردش کرتی رہیں کہ پاپا رازی فوٹوگرافرز موٹر سائیکلوں پر شہزادی کی گاڑی کا پیچھا کررہے تھے جو اس حادثے کی وجہ بنا۔ تاہم میں ہونے والی انکوائری نے اس کی تردید کردی۔

موت کی طرح شہزادی ڈیانا سپنسر کی زندگی یا کم از کم 1981 میں ان کی شہزادہ چارلس سے شادی بھی ڈرامائی اور حیران کن رہی۔ عوامی زندگی کے دوران کبھی وہ خوشیوں تو کبھی دکھوں کو جھیلتی رہیں۔ اور یہ تمام تر خبریں برطانوی اور عالمی خبروں کی سرخیاں بنتی رہیں۔

معروف شخصیت ہونے کے ناطے ان کی ذاتی زندگی تک کی تفصیلات بھی میڈیا کی زینت بنتی رہیں۔ 1995ء میں اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں انہوں نے اپنی شادہ شدہ زندگی کے بارے میں بات کرکے سب کو حیران کردیا۔ اس انٹرویو میں ان کا کہنا تھا، ’’شادی کے اس رشتے میں ہم تین لوگ تھے جو کچھ زیادہ تھے‘‘۔ اس انٹرویو کو 24 ملین برطانوی لوگوں نے دیکھا۔

شادی کے آغاز میں سب کچھ جیسے سپنوں جیسا تھا۔ برطانوی ولی عہد نے ایک روایتی انگریز خاندان کی 20 سالہ معصوم سی لڑکی سے شادی کی۔ شادی کے دن یعنی 29 جولائی 1981 کو قومی تعطیل کا اعلان کیا گیا۔

دلکش شہزادی بہت حساس شخصیت کی مالک تھیں۔ ان کے لیے میڈیا اور لوگوں کی مسلسل توجہ کا مرکز رہنا ناقابل برداشت تھا۔

خود سے 12 سال بڑے شہزادے سے شادی کے رشتے میں چند برس بعد ہی دراڑیں پڑنے لگیں۔ 1982 اور 1984 میں پیدا ہونے والے شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری بھی شادی کے اس بندھن کو مضبوط نہ کرپائے۔

شہزادہ چارلس کا دل کئی سالوں سے ایک اور خاتون كامیلا پارکر کا اسیر تھا۔ شہزادے کی پارکر سے ملاقات 1970 میں ایک پولو میچ کے دوران ہوئی تھی۔ ان دونوں کی شادی مختلف لوگوں سے شادی کے باوجود عشق کی یہ آگ ٹھنڈی نہ پڑ سکی۔ بالآخر 2005ء میں پرنس آف ویلز نے 56 برس کی عمر میں اپنی دیرینہ محبت سے شادی کرلی۔

1992 میں شہزادہ چارلس اور شہزادی ڈیانا نے باقاعدہ طور پر علیحدگی کا اعلان کردیا۔ 1996 میں باقاعدہ طلاق کے بعد ڈیانا شاہی خاندان کا حصہ نہ رہیں اور شاہی القابات سے بھی محروم ہوگئیں۔ وفات کے ساتھ وہ ایک دولت مند فلم پروڈیوسر اور کاروباری شخصیت دوی الفائد کے ساتھ تعلق میں تھیں۔

کار حادثے میں ڈیانا کی ہلاکت کی خبر نے لوگوں کو شدید دکھی کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ بکنگھم پیلس کے باہر جمع ہوکر اپنی من پسند شہزادی کے لیے دعائیں کرتے رہے، روتے رہے اور انہیں پھولوں کے نذرانے پیش کیے۔ عوام کی طرف سے ملکہ الزبتھ پر تنقید بھی ہوئی کیونکہ انہوں نے عوامی طور پر سوگ کا اعلان نہیں کیا۔

6 ستمبر 1997 کو لیڈی ڈیانا کی تدفین کی گئی۔ تقریباً 20 لاکھ لوگ اس دوران راستے پر تھے۔ ویسٹ منسٹر ایبے میں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں جبکہ ان کی تدفین آلٹروپ میں ہوئی۔

شہزادی ڈیانا آج بھی لوگوں کی یادوں میں زندہ ہیں۔ معروف گلوکار ایلٹن جان نے شہزادی کے لیے خصوصی گیت ’کینڈل ان دی ونڈ‘ گایا جو بے حد مقبول ہوا۔ شہزادی ڈیانا کے پرستار ہر برسی پر ان کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

 بشکریہ ’ڈوئچے ویلے‘