اتوار, دسمبر 16, 2012

پاکستان میں نیوکلیئر ادویات کے استعمال میں اضافہ

پاکستان میں ایٹمی صلاحیت کو بجلی پیدا کرنے، خوراک کی شیلف لائف بڑھانے، فصلوں کی پیداوار بڑھانے، بیماریوں کا سراغ لگانے اور کئی بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں صحت کے شعبے میں نیوکلیئر ادویات سے بھرپور استفادہ کیا جا رہا ہے، اس وقت ملک میں پچاس ایسے طبی مراکز موجود ہیں جہاں نیوکلیئر ادویات استعمال کی جا رہی ہیں، ان میں سے بیس میڈیکل سنٹرز پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیر اہتمام کام کر رہے ہیں جبکہ باقی سرکاری اور نجی شعبے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان سوسائٹی آف نیوکلیئرمیڈیسن کے صدر ڈاکٹر درصبیح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں ہر سال دس لاکھ سے زائد مریض نیوکلیئر ادویات سے استفادہ کرتے ہیں جبکہ نیوکلیئر ادویات کے شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی تعداد ایک سو پچاس کے قریب ہے۔

ڈاکٹر در صبیح (جو کہ ملتان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر میڈیسن اینڈ ریڈیو تھراپی کے ڈائریکٹر بھی ہیں) نے بتایا کہ نیوکلیئر میڈیسن نہ صرف بیماریوں کی تشخیص میں معاون ثابت ہو رہی ہیں بلکہ ان کے ذریعے تھائی روئیڈ، سرطان اور جوڑوں کے درد سمیت متعدد بیماریوں کا علاج بھی کیا جا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صبیح کا کہنا تھا کہ دنیا اب نیوکلیئر میڈیسن سے بھی آگے یعنی مالیکولر ٹریٹمنٹ کی طرف جا رہی ہے،اس کی وجہ سے اب بیماری کے شکارانسان کے خلیے کا انفرادی تجزیہ کر کے اس کے مرض کی حقیقی وجہ معلوم کرکے مریض کے لیے انفرادی دوا تجویز کرنا بہت آسان ہو گیا ہے، اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل بعض ڈاکٹر کھانسی کے مریضوں کومختلف آپشنز استعمال کرتے ہوئے اپنے اندازے سے دوا تجویزکر دیا کرتے تھے اسی لیے ہر مریض پراس دوا کا مختلف اثر ہوتا تھا، کچھ ٹھیک ہوجاتے تھے اور کچھ کو آفاقہ نہیں ہوتا تھا۔ اب مالیکولرٹریٹمنٹ کے ذریعے ٹیلرڈ ٹریٹمنٹ ممکن ہو گیا ہے۔

نیوکلیئر ادویات سے علاج عام طور پر بہت مہنگا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں اس علاج پر اٹھنے والی لاگت پر حکومت کی طرف سے بھاری سبسڈی دی جاتی ہے، اس لیے یہ علاج ابھی تک عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔ایک اندازے کے مطابق تقریبا پچاس فی صد پاکستانیوں کو نیوکلیئر ادویات کی سہولت بغیر کسی معاوضے یا پھر انتہائی قلیل معاوضے پر دستیاب ہے۔

برطانوی خاندان میں 103 سال بعد لڑکی کی پیدائش

آوِن گوینیتھ جنکنز اپنے والد ایمیر اور بڑے بھائی میکہ کے ساتھ
برطانیہ کے علاقے ویلز کے جنوب مغرب میں رہائش پذیر ایک خاندان 103 سال بعد پہلی لڑکی کی پیدائش کی خوشی منا رہا ہے۔ آوِن گوینیتھ جنکنز 1909 کے بعد کارمنتھنشائر میں رہائش پذیر جنکنز خاندان میں پیدا ہونے والی پہلی لڑکی ہیں۔ آوِن کے دادا ہوول جنکنز کا کہنا ہے کہ ’سارہ کے بعد میرے والد اور ان کے بھائیوں کے ہاں صرف لڑکے پیدا ہوئے پھر ہمارے ہاں بھی لڑکے ہی پیدا ہوئے اور اب جا کے میرے بیٹے کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔‘

یہ خاندان جو کہ امانفورڈ کے قصبے ٹائکروس میں رہتے ہیں کا کہنا ہے کہ انہیں بھی یہ اندازہ نہیں تھا مگر جب انہوں نے اپنے خاندان کی تاریخ کھنگالی تو اندازہ ہوا کہ یہ کتنی انوکھی پیدائش ہے۔ آوِن کے والد ایمیر نے اعتراف کیا کہا کہ پہلے تو ان کے لیے یہ ایک دھچکہ تھا پھر بعد میں انہوں نے کہا کہ جب آوِن پیدا ہوئی تو انہوں نے اس بارے میں سوچنا اور بات کرنا شروع کیا۔ انہوں نے کہا اس کے بعد ہم نے اپنے خاندان کی تاریخ چھاننا شروع کی اور ہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ یہ ہمارے خاندان میں ایک سو تین سال بعد پہلی لڑکی کی پیدائش ہے۔ 

سارہ اولون جنکنز (1909ء) خاندان میں پیدا ہونے والی آخری لڑکی تھیں
آوِن کی پیدائش سوانزی کے سنگلٹن ہسپتال میں ایک ہفتہ قبل ہوئی اور پیدائش کے وقت ان کا وزن آٹھ پاؤنڈز تھا۔ آوِن کی پیدائش سے پہلے سارہ اولون جنکنز اس خاندان میں پیدا ہونے والی آخری لڑکی تھیں جن کی پیدائش اکتوبر 1909 میں ہوئی تھی۔ آوِن کے والد کہا کہنا ہے کہ آوِن ’بہت خوبصورت بچی ہے جو تنگ نہیں کرتی اور رات بھر سوتی ہیں اور ان کی نشونما ان کے بھائی کی نسبت بہتر ہو رہی ہے۔‘

آوِن کے دادا ہوول جنکنز نے بتایا کہ انہیں معلوم تھا کہ آوِن سے پہلے سارہ اولوِن جنکنز خاندان میں پیدا ہونے والی آخری لڑکی تھیں۔ ہوول کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کی بیوی دونوں بہت ہی خوش ہیں اور یہ ایک بہت ہی پیاری بچی ہے جس کی پیدائش پر سب خوشی منا رہے ہیں۔

ایک صدی بعد پہلی لڑکی کی پیدائش