درویش کی بیٹی

حضرت شاہ شجاع کرمانی رحمة اللہ علیہ کے والد کرمان کے بادشاہ تھے۔ مگر آپ سب ٹھاٹ باٹ چھوڑ کر درویشی کی زندگی اختیار کیے ہوئے تھے۔ آپ کی ایک بیٹی انتہائی خوبصورت تھی۔ ایک دن بادشاہ وقت نے آپ کی بیٹی کا رشتہ مانگا۔ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ مجھے تین دن کی مہلت دیں تاکہ میں اس بارے میں سوچ بچار کرلوں۔

چنانچہ آپ تین دن تک مسجد کے گرد چکر لگاتے رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو آپ نے مسجد میں ایک درویش کو دیکھا جو کہ نماز پڑھنے میں مشغول تھا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو آپ اس کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کیوں بھائی! تم شادی شدہ ہو یا کنوارے؟ وہ کہنے لگا کہ میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔

حضرت شاہ شجاع کرمانی رحمة اللہ علیہ نے پھر اس سے پوچھا کہ کیا تم شادی کرنا چاہتے ہو؟ وہ کہنے لگا کہ مجھ مفلس کو کون اپنی بیٹی دے گا؟ آپ نے فرمایا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک درہم سے خوشبو خریدلو۔ ایک درہم سے کھانا کھا لینا اور ایک درہم سے کوئی میٹھی چیز خرید لو، چنانچہ اس طرح آپ نے اس درویش کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کردیا۔

جب حضرت شاہ شجاع کرمانی رحمة اللہ علیہ کی بیٹی نکاح کے بعد اس درویش کے گھر آئی تو اس نے دیکھا کہ اس درویش کے گھر میں ایک سوکھی روٹی پڑی ہوئی ہے۔ لڑکی نے درویش سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یہ ایک روٹی کل بچ گئی تھی اور میں نے آج کے لیے رکھ چھوڑی تھی۔ وہ لڑکی اسی وقت اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی کہ میں تو اس گھر میں ہرگز نہیں رہ سکتی۔ درویش نے کہا کہ میں تو پہلے ہی جانتا تھا کہ بادشاہ کی بیٹی ایک مفلس اور قلاش درویش کے گھر میں نہیں رہ سکتی۔ لڑکی نے جواب دیا کہ میں تمہاری مفلسی کی وجہ سے نہیں بلکہ تمہارے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے جارہی ہوں۔ تمہیں اللہ تعالٰی پر اتنا بھروسہ نہیں کہ وہ آج رزق دے گا، کل کی بچی ہوئی روٹی آج کے لیے محفوظ کرکے رکھتے ہو۔ میرے والد نے تو مجھے یہ بتایا تھا کہ میں تمہیں ایک متقی اور پرہیز گار کے نکاح میں دے رہا ہوں، لیکن مجھے اس شخص کے حوالے کردیا گیا ہے جس کو اللہ تعالٰی کی ذات پر اتنا بھروسہ بھی نہیں کہ وہ دوسرے دن کی روزی دے گا۔
یہ بات سن کر درویش کو بھی احساس ہوا کہ یہ تو واقعی کمزور ایمان کی نشانی ہے۔ وہ کہنے لگا اے نیک بیوی! میرے اس گناہ کا کوئی کفارہ ہے؟ لڑکی نے جواب دیا، اس گھر میں یا تو میں رہوں گی یا پھر یہ روٹی رہے گی۔ درویش نے اسی وقت روٹی اٹھائی اور باہر نکل کر سائل کو دے دی اور آئندہ کے لیے ساری زندگی اللہ تعالٰی کے توکل پر گزار دی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔