پیر, اکتوبر 22, 2012

قربانی کے احکام اور مسائل

پھل اور سبزیاں بینائی کے لئے مفید

خوش رنگ، مزیدار اور تر و تازہ پھل اور سبزیاں قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ وٹامنز سے بھرپور پھلوں اور سبزیوں کے استعمال سے بینائی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 

امریکہ میں کی گئی تحقیق کے مطابق جو لوگ اپنی خوراک میں ہری بھری سبزیاں اور رس بھرے پھل استعمال کرتے ہیں انہیں آنکھوں کی بیماریوں کا کم سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے استعمال سے بڑھتی عمر میں بینائی متاثر ہونے یا بے حد کم ہونے کے امکانات بھی کم سے کم ہوجاتے ہیں۔

انڈا دودھ کے بعد انتہائی مفید غذا

کھا کر تو دیکھو! مزہ نہ آیا تو پیسے واپس
غذائی اہمیت کے اعتبار سے دودھ کے بعد انڈا انتہائی مفید غذا ہے۔ ماہرین کے مطابق انڈا ہر موسم اور ہر عمر میں استعمال کرنا چاہئے جو مقوی ہونے کے ساتھ ساتھ دماغ اور آنکھوں کے لئے بھی انتہائی مفید ہے اور انہیں تقویت دیتا ہے۔ بیماری سے ہونے والی نقاہت ختم کرنے میں بھی انڈا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ 

لوگ انڈے کو موسم سرما کی غذا تصور کرتے ہیں جبکہ یہ گرمیوں میں بھی مفید ہے۔ انڈے میں پروٹینز، فاسفورس اور کیلشیم کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے جو انسانی صحت اور جسم کے لئے انتہائی ضروری اجزاء ہیں۔ انڈے غذا کا لازمی حصہ بنانے سے صحت اور جسم پر انتہائی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

چاچا پاکستانی انتقال کرگئے

لاہور: چاچا پاکستانی جو ہر روز لاہور میں واہگہ بارڈر پر پاکستانی پرچم کشائی کی تقریب دیکھنے پہنچتے تھے 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کے گھر والوں کے مطابق وہ کچھ دنوں سے بخار میں مبتلا تھے اور ان کے گھر والوں کے پاس ان کا ہسپتال میں علاج کرانے کے لئے پیسے بھی نہیں تھے۔

چاچا پاکستانی کا اصل نام مہر دین تھا اور وہ 1922 میں پیدا ہوئے تھے، ان کے تمام بھائی ہندوستان کی تقسیم کے وقت پاکستان آگئے مگر وہ خود قیام پاکستان کے بعد آئے۔ ان کا پاکستان میں کوئی گھر نہیں اس لئے وہ اپنے بھتیجوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کے بھتیجے نے بتایا کہ ہماری پیدائش سے کر اب تک ہم نے انہیں باقائدگی سے واہگہ بارڈر جاتے دیکھا ہے۔ 

چاچا پاکستانی کوفوجی حکومت پسند تھی جبکہ وہ جمہوریت کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے انہیں عمرہ پر بھی بھیجا تھا۔ چاچا پاکستانی کے بھتیجے نے مزید بتایا کہ چاچا کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا اور وہ واہگہ بارڈر پر آنے والے لوگوں سے ملنے والی رقم سے اپنی گزر بسر کیا کرتے تھے۔ چاچا پاکستانی کو رینجرز اور واہگہ بارڈر پر آنے والے مختلف حکام کی جانب سے کئی ایوارڈز اور سرٹیفیکیٹس سے بھی نوازا گیا۔
 
چاچا پاکستانی کو ان کے پسندیدہ سفید اور ہرے پاکستانی جھنڈے میں لپیٹ کر ان کے گاؤں چنداری میں دفن کیا جائے گا۔

یمن: خاتون کو عزت بچانے پر سزائے موت

 یمن کی ایک عدالت نے خاتون شہری رجا حکیمی کو سزائے موت سنائی دی، رجا پر الزام تھا کہ اس نے مبینہ طور پراپنی عصمت دری کی نیت سے گھر میں داخل ہونے والے ایک شخص کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا, رجا حکیمی کو جنوبی صوبے ایب کی ضلعی عدالت نے پہلے دو سال قید کی سزا سنائی جس کے خلاف اپیل کرنے کے نتیجے میں سزا کو بڑھا کر سزائے موت کر دیا گیا، خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے عدالتی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔

1960ء میں بنایا گیا پرانا کمپیوٹر دوبارہ فعال

برطانیہ میں دو انجینئروں راجر ہومز اور راڈ براو ¿ن نے گزشتہ صدی میں 1960ء کی دہائی میں تخلیق کیا گیا کمپیوٹر دوبارہ فعال کردیا ہے۔ 6 میٹر لمبے اور ساڑھے 6 میٹر چوڑے کمپیوٹر کی مرمت میں 9 سال لگے۔ 

یونیورسٹی آف لندن نے 1962ء میں یہ کمپیوٹر ڈھائی لاکھ پاؤنڈ میں خریدا تھا۔ یہ کمپیوٹر امتحانات کے کاغذات کی جانچ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور اس کمپیوٹر کے ذریعے سندیں جاری کی جاتی تھیں۔ اب اس پرانے کمپیوٹر کو انہی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مرمت کے لیے کمپیوٹر کے غائب ہونے والے پرزے دوبارہ بنائے گئے ہیں۔ انجنیر مرمت کردہ کمپیوٹر کسی علمی ادارے یا عجائب گھر کے حوالے کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔

پنجاب یوتھ فیسٹیول: پاکستانیوں کے عجیب و غریب ریکارڈ

اگرچہ پاکستان رواں سال اولمپکس مقابلوں میں تو کوئی میڈل نہیں جیت پایا لیکن اب یہ ملک چپاتی بنانے پلگ کی وائرنگ اور اور شطرنج کی بساط بچھانے کے مقابلوں میں عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا دعویدار ہوچکا ہے۔

پنجاب یوتھ فیسٹیول کے تحت لاہور میں عجیب و غریب ریکارڈز بنانے کا سلسلہ گزشتہ ہفتے ہفتہ کی رات اس وقت شروع ہوا جب 42 ہزار 813 افراد نے قومی ہاکی سٹیڈیم میں مل کر قومی ترانہ پڑھا۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے 15 ہزار 243 افراد کی جانب سے پڑھا جانے والا قومی ترانے کا ریکارڈ توڑ دیا۔ 

اتوار کو محمد منشا نے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ چپاتی بنانے کا ریکارڈ توڑا۔ انہوں نے تین چپاتیاں بنانے کے لئے آٹا گوندھنے سے پکانے تک تین منٹ 14 سیکینڈ کا وقت لگایا۔

12 برس کی مہک گل نے ایک ہاتھ سے شطرنج کی بساط بچھانے میں صرف 45 سیکنڈ لگائے۔ واضح رہے کہ ایسے ریکارڈز پہلے کبھی گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کے حکام کی زیر نگرانی نہیں بنائے گئے۔

احمد امین بودلہ نے تین منٹ میں پنچ بیگ پر 616 لاتیں مار کر نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے پہلے 612 لاتوں کا ریکارڈ بھی ایک پاکستانی کی جانب سے قائم کیا گیا تھا۔


شدت پسندوں کے خلاف آپریشن ممکن نہیں: صدر زرداری

پاکستان کےصدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے پہلے ملک گیر اتفاق رائے پیدا کرنا انتہائی ضرروری ہوتا ہے جو اب ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخاب کے قریب سیاسی جماعتیں دائیں بازو کے ووٹوں کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں اس لیے کسی آپریشن کے لیے مطلوبہ اتفاق رائے ممکن نہیں۔

اتوار کو ایوان صدر میں صحافیوں کی تنظیم سیفما کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں سوات اور جنوبی وزیرستان میں کامیاب آپریشن اسی وجہ سے ہو پائے تھے کہ ان کی حکومت نے ملک میں اتفاق رائے حاصل کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بغیر اتفاق رائے کے کسی آپریشن کا شروع کرنا خطرات سے خالی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو آپریشن شروع کرنے کا مشورہ دے رے ہیں انہیں یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ ملک میں کتنے مدرسے ہیں اور انہیں متحد ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔

ملالہ پر طالبان کے حملے کے حوالے سے صدر زرداری نے کہا کہ حکومت نے ملالہ یوسفزئی کو سکیورٹی کی پیشکش کی تھی لیکن ان کے والد نے سکیورٹی لینے سے انکار کردیا تھا۔ صدر نے کہا کہ اگر ملالہ کے والد سکیورٹی کی پیشکش کو قبول بھی کر لیتے تو بھی ملالہ کی حفاظت کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا سکیورٹی لینے کی صورت میں شدت پسند بڑا حملہ کرتے جس میں ان کی جان بھی جا سکتی تھی۔

انہوں نے کہا جب ایک پولیس اہلکار نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ہلاک کردیا تو اس مقدمے کو چلانے کے لیے حکومت کے لیے وکیل تلاش کرنا مشکل ہوگیا جبکہ دوسری جانب ایک سابق چیف جسٹس نے خود کو قادری کی پیروی کے لیے پیش کردیا۔

انہوں نے کہا کہ چین کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ وہ مرحومہ بینظر بھٹو کے ساتھ تھے جب جمہوری طاقتوں نے پاکستان کو امداد کی یقین دہانیاں کرائیں لیکن جب وقت آیا تو ایسی شرطیں عائد کیں جن کو پورا کرنا شاید پاکستان کے بس میں ہی نہیں ہے۔

شدت پسندوں کے خلاف آپریشن ممکن نہیں: صدر زرداری

افسردگی دور کرنے والی ادویات سے دماغی عارضے کا خدشہ

افسردگی دور کرنے والی ادویات antidepressants کی ایک مخصوص قسم استعمال کرنے والے افراد میں دماغ کے اندر خون رسنے کی بیماری کے شکار ہونے کے خدشات زیادہ ہیں۔

یہ بات کینیڈا کے طبی محققین نے قریب 5 لاکھ افراد پر کی گئی تحقیق کے بعد کہی ہے تاہم بعض طبی ماہرین اب بھی ان ادویات کو محفوظ قرار دیتے ہیں۔ ان ادویات کو SSRIs یعنی Selective Serotonin Reuptake Inhibiors کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی چند مثالیں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی مانع افسردگی ادویات جیسےfluoxetine ،sertraline ، citalopram اور paroxetine ہیں۔ ان ادویات کے سبب معدے سے خون کے رساؤ کی شکایات تو پہلے ہی کی جاتی تھیں تاہم یہ بعد اب سے پہلے تک یہ بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی تھی کہ آیا SSRIs دماغ میں خون کے رساؤ یعنی hemorrhagic سٹروکس کا بھی باعث بنتی ہے!

اس تحقیق کے لیے کینیڈین طبی محقیقن نے ایسے سولہ سابقہ تحقیقوں کی جانچ کی، جن میں ایسے 5 لاکھ افراد کا جائزہ لیا گیا جن میں سے بعض SSRIs استعمال کررہے تھے اور بعض نہیں۔ مانع افسردگی ادویات کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ ان کا استعمال کرنے والے چالیس تا پچاس فیصد مریضوں میں دماغ کے اندر یا اطراف میں خون کے رساؤ کا خطرہ موجود رہتا ہے۔

اس تحقیقی دستے میں شامل پروفیسر ڈینیئل ہیکم البتہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ اعداد و شمار کافی زیادہ دکھائی دیتے ہیں تاہم کسی ایک مریض کے لیے خطرہ ’بہت ہی کم‘ ہے۔ اس تحقیق میں شامل کیے گئے افراد کی تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ایک سال سے زائد عرصے تک SSRI استعمال کرنے والے والے دس ہزار مریضوں میں سے محض ایک کو hemorrhagic سٹروکس کا سامنا ہو سکتا ہے۔

پروفیسر ڈینیئل نے ایک اور نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال یہ ثابت نہیں ہوا کہ مانع افسردگی ادویات براہ راست دماغ میں خون کے رساؤ کا سبب بنتی ہیں، ’’یہ ممکن ہے کہ یہ ادویات استعمال کرنے والے افراد دیگر کے مقابلے میں ویسے ہی زیادہ علیل ہوں اور ہوسکتا ہے کہ ان کی ایسی عادات ہوں جو دماغ کے عارضے کا سبب بنتی ہوں۔‘‘ کینیڈین محقیقن نے ان امور پر بھی توجہ مرکوز رکھی مگر ان کے زیر مطالعہ بعض سٹڈیز میں زیر مشاہدہ افراد کی تمباکو نوشی، شراب نوشی یا ذبابیطیس سے متعلق معلومات موجود نہیں تھیں۔ اس بنیاد پر پروفیسر ڈینیئل کہتے ہیں کہ مانع افسردگی ادویات کو محفوظ تصور کیا جاسکتا ہے۔

افسردگی دور کرنے والی ادویات سے دماغی عارضے کا خدشہ

انٹرنیشنل الیون دوسرا میچ بھی ہارگئی

انٹرنیشنل الیون کو اتوار کے روز پاکستان آل اسٹار الیون کے خلاف دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں چھ وکٹوں سے شکست ہوگئی۔ دوسرے میچ میں شاہد آفریدی، ناصر جمشید، سرفراز احمد، وہاب ریاض، انور علی، اور فواد عالم نہیں کھیلے ان کی جگہ سہیل خان، میر حمزہ، فراز احمد، ذوالقرنین حیدر، فیصل اقبال اوراسد شفیق کو میزبان ٹیم میں شامل کیا گیا۔ پاکستان آل اسٹار الیون کی قیادت کرنے والے شعیب ملک نے ٹاس جیت کر انٹرنیشنل الیون کو بیٹنگ دی جس نے نو وکٹوں پر 142 رنز بنائے۔

گیارہویں نمبر پر بیٹنگ کرنے والے نینتی ہیورڈ نے صرف سولہ گیندوں پر چار چھکوں اور تین چوکوں کی مدد سے بیالیس رنز ناٹ آؤٹ کی عمدہ اننگز کھیلی۔ انہوں نے ایڈم سینفرڈ کے ساتھ آخری وکٹ کی شراکت میں ستاون رنز کا اضافہ کیا۔ سنتھ جے سوریا دوسرے میچ میں بھی ناکام رہے اور دوسری ہی گیند پر بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوگئے۔ فراز احمد نے بیس رنز کے عوض تین وکٹیں حاصل کیں۔ پہلے میچ میں ہیٹ ٹرک کرنے والے تابش خان نے دو کھلاڑی آؤٹ کئے۔

پاکستان آل اسٹار الیون نے مطلوبہ سکور چار وکٹوں کے نقصان پر سترہویں اوور میں پورا کرلیا۔ عمران نذیر نے 53 رنز سکور کئے جس میں پانچ چھکے اور چار چوکے شامل تھے۔ عمران نذیر اور شاہ زیب حسن نے پہلی وکٹ کی شراکت میں ننانوے رنز کا اضافہ کیا۔ شاہ زیب حسن نے اتنالیس رنز بنائے اسد شفیق تیئس رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔ سٹیون ٹیلر نے تین وکٹیں حاصل کیں۔

انٹرنیشنل الیون دوسرا میچ بھی ہارگئی

پاکستان شاید بالغ ہوگیا!

وہ بھی کیا دن تھے جب شیروانی، وردی اور ٹائی سوٹ والے کالے صاحب گورے حکمرانوں کی استعمال شدہ کرسیوں کا دائرہ بنا کر آپس میں ہی میوزیکل چیئر کھیلتے تھے اور عوام صرف تالیاں پیٹنے یا اپنا ہی خون پینے کا کام کرتے تھے۔ آئین تو تھا نہیں لہذا سارا کام اکڑ بکڑ بمبے بو کے فارمولے پر چلتا تھا۔ کیا زمانہ تھا وہ بھی جب نئی نئی مملکت کے تیسرے گورنر جنرل ( غلام محمد ) کی اتنی دہشت تھی کہ ٹوٹی ہوئی اسمبلی کے سپیکر (مولوی تمیز الدین) کو صرف ایک آئینی پیٹیشن داخل کروانے کے لیے عدالت پہنچنے کی خاطر برقعہ اوڑھ کر سفر کرنا پڑا۔

اور کیسی تھی وہ عدالت بھی جو آئینی اہمیت کا کوئی بھی فیصلہ ’انصاف بعد میں نوکری پہلے‘ کے اصول کے تحت صاحبِ اقتدار کے چہرے کے رنگوں کی روشنی میں کرنے کی عادی تھی۔ مگر جیسے ہی حاکمِ وقت بے اقتدار ہوتا جج شیر ہوجاتے۔ پھر یہی عدالت معزول کو غاصب (یحییٰ خان) قرار دے کر اپنی ہی پیٹھ تھپتھپاتی تھی۔

اور کیا تھی وہ صحافت جو ایک قابض (سکندر مرزا) کی کنپٹی پر پستول رکھ کر اقتدار چھیننے والے دوسرے قابض (ایوب خان) کی حرکت کو انقلاب کہنے پر اور دوسرے قابض سے اختیار لینے والے تیسرے قابض (یحییٰ خان) کے غصب کو انتقالِ اقتدار لکھنے پر مجبور ہوتی تھی۔

اور کیسے تھے وہ سیاستداں جو سیٹی بجتے ہی شراکتِ اقتدار کی خیراتی قطار میں لگنے کی خاطر کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کرنے اور ایک ٹانگ پر کھڑے چلہ کاٹنے پر غیر مشروط آمادہ رہتے تھے۔ اور کیا تھیں عوامی اعتماد سے سرشار وہ منتخب اسمبلیاں جو جرنیلوں اور ان کی مہم جویانہ حکمتِ عملیوں اور ان کے بجٹ کے بارے میں ایک لفظ بھی منہ سے نکالنا ایسے معیوب سمجھتی تھیں جیسے پرانی وضع کی بیوی اپنے شوہر کا نام لینے سے کترائے ۔

زمانہ واقعی آگے بڑھ رہا ہے۔ آج آپ کسی بیکری کے معمولی ملازم کو پیٹ ڈالیں، یا کسی کو غائب کریں، یا لوگوں کو خریدنے بیچنے کا کاروبار کریں، یا کسی بے گناہ بچی پر گولی چلائیں۔ کوئی نا کوئی دیوانہ کہیں نا کہیں سے آپ کو ضرور تاک رہا ہے۔ وہ اگر آپ کے منہ پر نا بھی تھوک پایا تو آپ کے سامنے زمین پر ضرور تھوک دے گا۔ یہ بھی نا کرسکا تو یاد ضرور رکھے گا۔

اور پھر ایک دن ایک شاعر (حبیب جالب) نے کہا میں نہیں مانتا۔ دوسرے دن ایک سیاستدان ( بھٹو) نے کہا میں بھی نہیں مانتا۔ تیسرے دن چند پاگل صحافیوں نے ٹکٹکی پر بندھے ہوئے کہا ہم نہیں مانتے۔چوتھے دن ایک ریٹائرڈ جرنیل ( اصغر خان ) نے کہا میں نہیں مانتا۔ پانچویں دن ایک جج ( افتخار چوہدری ) نے کہا میں نہیں مانتا۔ چھٹے دن ہر ہما شما کہنے لگا میں نہیں مانتا اور ساتویں دن یہ راز ہر جانب آشکار ہوگیا کہ بادشاہ کے کپڑے نہیں ہیں۔ بادشاہ بھی ننگا ہوسکتا ہے۔۔۔ وہ ننگا ہے۔۔۔ ننگا ہے۔۔۔۔

اور پھر یوں ہوا کہ میڈیا پہلے آزاد اور پھر بدتمیز ہوگیا۔ پھر عدلیہ نے بھی دل پکڑا اور حاضر جناب کا طوق لوہار کی طرف اچھال دیا۔ اس کے بعد سیاست دانوں نے بھی دائیں بائیں دیکھا اور پھر ایک دوسرے کا کچا چٹھا کھولنا شروع کیا اور پھر ہر ایرے غیرے کو بھی معززینِ گذشتہ و حالیہ کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت ہوگئی۔ آج طویلے میں کوئی گائے ایسی نہیں جو مقدس ہو۔ ہر وہ سانڈ جو ہر راستے پر بگٹٹ دوڑنے کا عادی ہے۔ وہ بھی جان گیا کہ اس کے نوکیلے سینگوں پر کسی کا بھی ہاتھ کبھی بھی پڑ سکتا ہے۔

گزرے جمعہ کو پاکستان میں ماضی کو کٹہرے میں کھڑا کرکے قابلِ سزا قرار دینے کی روایت بھی پڑ گئی تاکہ حال اور مستقبل کو بھی کان ہوجائیں۔ یوں پاکستان بلا آخر 65 برس بعد ہی سہی قانونی بلوغت کے دور میں داخل ہوگیا۔

پاکستان شاید بالغ ہوگیا!

بھارت میں عورتوں کی عصمت دری

ہریانہ میں گذشتہ سال عصمت دری کے 733 واقعات درج ہوئے لیکن بہت سے واقعات درج ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ بھارت کے دارالحکومت دلی سے متصل ریاست ہریانہ کا ایک روایتی گاؤں ڈبرا ہے جس کی گلیاں تنگ ہیں اور کھلی نالیاں ہیں وہاں کے مکانات اینٹ اور گارے کے بنے ہوئے ہیں۔ بچے دھول میں کھیلتے ہیں اور مرد کنارے بیٹھے بیڑی اور حقہ پیتے رہتے ہیں۔ حالانکہ اس غریب کسان قصبے میں زیادہ لوگ باہر سے نہیں آتے ہیں لیکن ایک مکان کے باہر دو پولیس والے پہرے پر کھڑے ہیں اور اندر ایک سولہ سالہ لڑکی بیٹھی ہے۔ اس کے گرد کئی دوسری خواتین موجود ہیں۔ اس لڑکی کے لیے ہی وہاں پولیس کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ چھہ ہفتے قبل وہ گلیوں سے گزرتی ہوئی کام پر جا رہی تھی جب کچھ لوگوں نے اس کو اغواء کر لیا تھا۔

اس نے کسی قسم کے احساسات کا اظہار کیے بغیر سپاٹ لہجے میں کہا کہ ’وہ لوگ مجھے گھسیٹ کر کار میں لے گئے اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی او مجھے ندی کے کنار ے لے گئے اور سات لوگوں نے باری باری میری عصمت دری کی اور باقی دیکھتے رہے۔‘ اس کی مصیبت وہیں ختم نہیں ہوئی۔ ان لوگوں نے اس واقعے کو اپنے موبائل فون پر ویڈیو کی صورت میں ریکارڈ کیا اور اس سخت گیر سماج میں اسے پھیلا دیا۔ لڑکی کے چچازاد بھائی نے کہاکہ’ان کے والد نے شرم کے مارے زہر کھا لیا۔ ہم لوگ انہیں ہسپتال لے گئے لیکن اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی اور ہم انہیں نہی بچا سکے۔‘ اب تک نو مبینہ حملہ آور اور اغوا کرنے والے گرفتار ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی کچھ لوگ فرار ہیں۔
خواتین کے خلاف پورے بھارت میں عصمت دری اور جنسی استحصال کے واقعات ہوتے ہیں لیکن ہریانہ ان میں الگ اس لیے ہے کہ وہاں سماج کا رویہ اس کے تئیں مختلف ہے۔ بھارت کے دارالحکومت دلی کے قریب اس علاقے میں ابھی بھی مردوں کی اجارہ داری ہے۔ دیہی ضلع جند میں ایک گاؤں کی ایک پنچایت جاری ہے۔ ایک بڑے سے ہال میں معمر حضرات چارپائی پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں اور ان میں کوئی بھی خاتون نہیں ہے۔ جیسا کہ صدیوں سے ہوتا آیا ہے وہ لوگ سماجی امور، خواتین اور حالیہ عصمت دری پر فیصلہ دیں گے۔ 

گاؤں کے ایک بزرگ سریش کوتھ نے کہاکہ’میں آپ کو عصمت دری کی اصل وجہ بتاتا ہوں۔ آپ دیکھیں اخباروں اور ٹیلی ویژن پر کیا دکھایا جا رہا ہے۔ نصف عریاں خواتین۔ یہ چیزیں ہیں جو ہمارے بچوں کو خراب کر رہی ہیں۔ آخر کار یہ بھارت ہے کوئی یورپ تو نہیں۔‘

ایسی تنقید بھی ہو رہی تھیں جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کھاپ برادری پنچایت ہے جس میں سارے مرد ہیں اور یہ سماجی اور سیاسی طور کافی مضبوط ہیں۔ 

عصمت دری کا شکار ڈبرا کی لڑکی نے کہا کہ لڑکیوں نے اس واقعے کے بعد ڈر سے سکول جانا چھوڑ دیا ہے اور وہ بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔



بھارت میں عصمت دری عام کیوں؟