اتوار, ستمبر 22, 2013

تم پھر بھی مسکراتے رہتے ہو؟

’’بیٹا تمہارے دونوں بازو نہیں ہیں تمہیں اس کا دکھ، اس کا گلہ نہیں؟ تم پھر بھی مسکراتے رہتے ہو؟‘‘

جنید کا جواب تھا ’’سر! اللہ نے مجھے دیکھنے کے لئے آنکھیں دی ہیں، سونگھنے کے لئے ناک، بولنے کے لئے زبان، سننے کے لئے کان، چلنے کے لئے پائوں اور میرا باقی مکمل وجود، بس یہی سوچ سوچ کر مسکراتا رہتا ہوں کہ اللہ کا شکر کیسے ادا کروں؟ اور اگر مسکرائوں گا نہیں اداس رہوں گا تو کہیں اللہ مجھ سے خفا نہ ہو جائے، میرے تو صرف دونوں بازو نہیں ہیں بہت سے لوگوں کے پاس تو دنیا میں آنکھیں، کان، بازو، ٹانگیں بھی نہیں ہوتیں، تو جب میں ایسے لاکھوں لوگوں سے بہتر ہوں تو کیوں نہ مسکرائوں۔ آپ خود بتائیں سر میرا مسکرانا اور اپنے رب کا شکر ادا کرنا بنتا ہے ناں…؟؟

جمعہ, ستمبر 13, 2013

سونے میں بے قاعدگی بچوں کی ذہانت متاثر کر سکتی ہے

جن بچوں کے بیڈ ٹائم میں تین برس کی عمر سےبے قاعدگی موجود تھی، انھوں نے حساب اور انگریزی کے مضمون میں بہت کم نمبر حاصل کئے جبکہ ان کا آئی کیو ٹیسٹ کا اسکور بھی بہت کم رہا: رپورٹ

ماہرین کا کہنا ہے کہ سونے کی عادت بچوں کی ذہانت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ایسے بچے جن کے بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی پائی جاتی ہے وہ آگے چل کر سکول کی پڑھائی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت کے اثرات سے لڑکیاں زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور وہ لڑکوں کی نسبت زیادہ نیند کی کمی کا شکار نظر آتی ہیں جس کا اثر ان کی زندگی بھر کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔ 

'یونیورسٹی کالج لندن' میں ہونے والی تحقیق کے نتیجہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن بچوں کے بیڈ ٹائم میں 3 برس کی عمر سے بے قاعدگی موجود تھی انھوں نے حساب اور انگریزی کے مضمون میں بہت کم نمبر حاصل کئے جبکہ ان کا آئی کیو ٹیسٹ کا سکور بھی بہت کم رہا۔ 'جرنل آف ایپی ڈیمیو لوجی اینڈ کمیونٹی ہیلتھ' میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنسدانوں نے سونے کی عادت میں بے قاعدگی اور بچوں کی ذہانت کے درمیان تعلق جاننے کی کوشش کی ہے۔

تحقیق کی سربراہ پروفیسر 'ایوان کیلی' کے مطابق بچوں کی ابتدائی ذہنی نشو و نما کا بچے کے مستقبل کی صحت اور خوشحالی سے گہرا تعلق ہوتا ہے لیکن چھوٹے بچوں میں بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت ان کی ذہنی صلاحیتوں کو محدود کرسکتی ہے جس کا اثر بچے کے مستقبل کی کامیابیوں پر پڑ سکتا ہے۔

تحقیق میں 7 برس کے 11,200 بچوں کے حساب، انگریزی اور آئی کیو ٹیسٹ میں حاصل کردہ نمبروں کا موازنہ کیا گیا اور نتائج کو والدین کی جانب سے فراہم کردہ بچوں کی سونے کی عادت سے متعلق معلومات کے ساتھ ملا کر دیکھا گیا۔

اس سے قبل ماہرین نے والدین سے ایک سوالنامہ بھروایا تھا جس میں ان سے بچے کی تین برس، پانچ برس اور سات برس کی عمر میں سونے کی عادت کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی تھیں اور یہ بھی دیکھا گیا کہ اس تمام عرصے میں بچوں کی سونے کی عادت میں کتنا فرق آیا یا پھر وہ مختلف اوقات میں سونے کی عادت پر قائم رہے۔ تحقیق کے نتیجے میں یہ بات صاف نظر آئی کہ سب سے زیادہ تین برس کے بچوں بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت سے متاثر تھے اور انھوں نے سات برس کی عمر میں سب سے خراب تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ انہوں نے آئی کیو ٹیسٹ میں بھی بہت کم نمبر حاصل کئے تاہم سات برس کی عمر تک بچوں کی نصف تعداد میں مقررہ بیڈ ٹائم پر سونے کی عادت پیدا ہو چکی تھی۔

ماہرین کے مطابق تین برس کی عمر سے بچوں کے رات میں سونے کے اوقات مقرر ہونا چاہیئے کیونکہ یہ بچے کی ذہنی نشو و نما کا وقت ہوتا ہے جب دماغ دن بھر کی معلومات کو محفوظ کرتا ہے اور نئی نئی صلاحیتوں کو یاد کرتا ہے لہذا نیند میں خلل یا بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت بچے کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ تحقیق سے منسلک امینڈا ساکر کہتی ہیں کہ 'ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تین برس کی عمر میں سونے کی عادت بچوں پر زیادہ گہرا اثر چھوڑتی ہے اور یہی بات باعث تشویش ہے'۔
​​
پروفیسر کیلی کے نزدیک بیڈ ٹائم میں بے قاعدگی کی عادت کے کئی اسباب ہیں جن میں بچوں کا اضافی ہوم ورک، ٹیلی وژن یا کمپیوٹر گیمز سے کہیں زیادہ اہم ایک خاندان کے سونے کی روٹین ہے جو بچے کی سونے کی عادت کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارا نتیجہ یہ بتاتا ہے کہ بچوں میں بیڈ ٹائم کی عادت کا ہونا ضروری ہے چاہے گھریلو معاملات کسی بھی نوعیت کے ہوں''۔

گذشتہ تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ برطانوی سکولوں کے بچوں میں ایک گھنٹہ کم نیند لینے کی عادت پائی جاتی ہے جبکہ ماہرین 
کے نزدیک نیند کی کمی کا شکار بچے تقریباً دو سال کے برابر سیکھنے کے عمل سے محروم ہو جاتے ہیں۔

جمعرات, ستمبر 12, 2013

میری پسند

روشن چہرہ، بھیگی زلفیں
کس کو کس پر ترجیح دوں

اک قصیدہ دھوپ کا لکھوں
ایک غزل برسات کے نام

===+===+===
ہم سے کب منسوب ہے رونق تمہاری بزم کی
ہم نہ ہوں گے تب بھی ہوگی
صبح تیری، شام تیری، رات تیری

===+===+===
یوں بھی تو راز کُھل ہی جائے گا اک دن ہماری محبت کا
محفل میں جو ہم کو چھوڑ کر سب کو سلام کرتے ہو

===+===+===
تم بھی ہو بیتے وقت کی مانند ہو بہو
تم نے بھی صرف یاد آنا ہے، آنا تو نہیں

===+===+===
چلو عہد محبت کی کی ذرا تجدید کرتے ہیں
چلو تم چاند بن جائو ہم پھر سے عید کرتے ہیں

===+===+===
اب ذرا گردش حالات نے آ گھیرا ہے
تم بہر حال میرے ہو، بس تمہیں یہی یاد نہیں

===+===+===
خاموش سی یہ بستی اور گفتگو کی حسرت
ہم کس سے کریں بات؟ کوئی بولتا ہی نہیں

===+===+===
بات ٹھری جو عدل پر واعظ
پھر یہ منت یہ التجا کیا ہے؟
چاند سا جب کہا
تو کہنے لگے
چاند کہئے نا
چاند سا کیا ہے؟

===+===+===
اس نے بُھلا دیا تو شکوہ نہ کر اے دل
دل میں بسنے والوں کو بڑے اختیار ہوتے ہیں

===+===+===
ابھی تو چند لفظوں میں سمیٹا ہے تجھے میں نے
ابھی میری کتابوں میں تیری تفسیر باقی ہے

===+===+===
نہیں معلوم مجھے تجھ سے محبت ہے کہ چاہت
دن بہ دن تیری یاد میں ٹوٹتا بکھرتا جا رہا ہوں

===+===+===
غضب آیا ستم ٹوٹا قیامت ہوگئی برپا
فقط اتنا ہی پوچھا تھا کہاں مصروف رہتے ہو

===+===+===
نہ پرواہ اسے میری
نہ میر اس کو ضرورت میری
میں گلی کا ایک مجنوں
وہ پردے دار لوگ

===+===+===
تیرا خیال درست کہ وہ خوب صورت ہیں
میر
مجھے حُسن یار سے نہیں
اپنے یار سے محبت ہے

===+===+===
میری تکمیل میں حصہ ہے تمہارا بھی بہت
میں اگر تم سے نہ ملتا تو ادھورا رہتا

===+===+===
اک وہ کہ جنہیں یاد نہیں قصہ ماضی
اک ہم کہ ابھی پہلی ملاقات نہیں بھولے

===+===+===
نہ کمزور پڑا میرا تم سے تعلق
اور نہ کہیں اور ہوئے سلسلے مضبوط
یہ وقت کی سازش ہے
کبھی تم مصروف تو کبھی ہم مصروف

===+===+===
سامنے منزل تھی اور پیچھے اس کی آواز
رکتا تو سفر جاتا چلتا تو بچھڑ جاتا

===+===+===
تیری نگاہ ناز میں میرا وجود بے وجود
میری نگاہ شوق میں تیرے سوا کوئی نہیں

===+===+===
کاش میں پلٹ جائوں بچپن کی وادی میں
نہ کوئی ضرورت تھی نہ کوئی ضروری تھا

===+===+===
تیری آنکھوں کو دیکھنے والے
سنا ہے اور کوئی نشہ نہیں کرتے

===+===+===
تم یاد کرو یا بھول جائو تمہاری مرضی
تم یاد تھے، تم یاد ہو، تم رہو گے
یہ یاد رکھنا
===+===+===

پیر, ستمبر 09, 2013

شیخ مجیب الرحمٰن کے حوالے سے خصوصی انکشافات


شیخ مجیب الرحمٰن کے حوالے سے خصوصی انکشافات

پاکستان کی تاریخ کا پہلا اہم واقعہ ”تصور پاکستان“ تھا جس کے خالق شاعر مشرق علامہ اقبالؒ تھے۔ گو تصور پاکستان کو عملی جامہ پہنانے والے دوسرے لوگ تھے لیکن اگر تصور ہی نہ ہوتا تو عملی جامہ کس کو پہنایا جاتا اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ علامہ محمد اقبالؒ کے جد امجد کشمیری پنڈت تھے۔ علامہ صاحب کے غالباًدادا سہاج رام سپرو کشمیری برہمن تھے اور علامہ صاحب کے والد محترم شیخ نور محمد ”شیخ“ تھے ۔یہ ہماری تاریخ کے پہلے ”شیخ “تھے۔ پاکستان کی تاریخ کا دوسرا اہم واقعہ جو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی شروع ہوا وہ تھا مسئلہ کشمیر اور اسکا ذمہ دار تھا ”شیخ “محمد عبد اللہ تھاجسے کسی زمانے میں” شیر کشمیر “بھی کہا جاتا تھا۔ اسکی تفصیل بعد میں۔ تیسرا اہم سانحہ سقوط مشرقی پاکستان تھا اور اسکا ذمہ دار” شیخ“ مجیب الرحمن تھا۔ ”شیخ “ صاحب نے جو کچھ کیا وہ تو ہم جانتے ہیں لیکن انکا ذاتی پس منظر وہ نہیں جو عام طور پر کتابوں میں لکھا گیا ہے۔ 1972میں ایک مضمون غالباً کسی بھارتی رسالے کے توسط سے سامنے آیا تھا وہ بڑا حیران کن تھا۔

واقعہ اس طرح ہے کہ بیسیویں صدی کی ابتداءمیں کلکتہ کورٹ میںچاندی داس نامی ایک مشہور وکیل تھا۔ ایک نوجوان بنگالی شیخ لطف الرحمن اسکا منشی تھا۔ چاندی داس کی گوری بالا داس نام کی ایک بیٹی تھی۔ یہ لڑکی اپنے والد کے ایک انڈر ٹریننگ نوجوان وکیل ارون کمار چکروتی کے عشق میں گرفتار ہوئی اور ناجائز تعلقات کی وجہ سے 1920میں اسکے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جسکا نام دیوداس چکروتی رکھا گیا لیکن ارون کمار چکروتی نے گوری بالا سے شادی کرنے اور بچے کو اپنانے سے انکار کر دیا کیونکہ اسکا تعلق اونچی ذات سے تھا۔ چاندی داس نے مجبور ہوکر اپنی بیٹی کی شادی شیخ لطف الرحمن اپنے بنگالی منشی سے کر دی اور اسے کورٹ میں سرکاری ملازمت دلادی۔ گوری بالا داس مسلمان ہو گئی اور اسکا نیا نام ساحرہ بیگم رکھا گیا۔ دیوداس چکروتی کا نام تبدیل کرکے شیخ مجیب الرحمن رکھ دیا گیا۔


اس حقیقت کا انکشاف بیان حلفی نمبر118 مورخہ 10-11-1923 رو برو عدالت سٹی مجسٹریٹ کلکتہ روبرو داروغہ کورٹ عبد الرحمن شفاعت پولیس سٹیشن ونداریہ ضلع باریسال اور انیل کمار داروغہ کورٹ ضلع باریسال کے ذریعے سے ہوا۔ بعد میں میرے دوست کرنل (ر) مکرم خان نے جب اس موضوع پر ریسرچ کی تو ان کی ”فائنڈنگ“ بھی یہی تھی۔ تاریخ دان اس موضوع پر مزید روشنی ڈال سکتے ہیں۔
(سکندر بلوچ کے گزشتہ روز (3 جولائی 2013ء) کے کالم ہماری تاریخ کے ”شیخ صاحبان“ کا اقتباس)