ماں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ماں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ, نومبر 24, 2012

لاوارث ٹائیگر بچوں کو نئی ماں مل گئی

روس میں ٹائیگر کے تین بچوں کو نئی ماں مل گئی ہے، مگر وہ شیرنی نہیں بلکہ جرمن نسل کی سفید شیفرڈ کتیا ہے، جس کا نام تالیم ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ بچے روس کے بحیرہ اسود کے ایک تفریحی قصبے سوچی کے چڑیا گھر میں 14 نومبر کو پیدا ہوئے تھے۔ پیدائش کے بعد نر بچوں کے نام اولیمپ اور دار جب کہ مادہ ٹائیگر کا نام تالی رکھا گیا۔ بچوں کی ماں نے، جس کا نام باگیریا ہے، جنم دینے کے بعد انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور وہ لاوارث ہوگئے۔ باگیریا اس سے پہلے بھی دو بچوں کو جنم دینے کے بعد انہیں چھوڑ چکی ہے۔ ماضی کے تجربے کے پیش نظر چڑیا گھر کی انتظامیہ بچوں کی پیدائش سے قبل ہی ان کی نئی ماں کا انتظام کر چکی تھی۔ چنانچہ جیسے ہی شیرنی نے اپنے نوزائیدہ بچوں کو پرے دھکیلا، چڑیا گھر کی انتظامیہ نے انہیں نئی ماں کے حوالے کر دیا۔ بچوں کا باپ بھی اسی چڑیا گھر میں ہے، لیکن بچوں کی دیکھ بھال عموماً ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 

چڑیا گھر کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بچے اپنی ٹائیگر کی جبلت کا اظہار کرتے ہوئے غرانے اور پنچے مارنے سے باز نہیں رہتے، لیکن کتیا کےرویے میں ان کے لیے نرمی اور شفقت ہے۔ چڑیا گھر کی انتظامیہ کو توقع ہے کہ ٹائیگر کے بچے اپنی نئی ماں کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنیں گے۔

پیر, نومبر 19, 2012

امی ملکہ سے تعارف

اِنا کووالینکو کو ”امی ملکہ“ کا خطاب دیا گیا
دنیا کی ایک حسین ماں سائبریا کے شہر Irkutsk میں رہتی ہے۔ اس بارے میں پتہ ماہ اکتوبر کے آخر میں چل گیا جب مالٹا میں بین الاقوامی بیوٹی کانٹیسٹ QUEEN OF THE PLANET 2012 منعقد کیا گیا۔ اس مقابلے میں یورپ اور ایشیا کے انیس ممالک سے تعلق رکھنے والی پچاس شادی شدہ خواتین نے حصہ لیا۔ جیوری ایک ہفتے تک ان کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہی اور ان کی خوبیوں کا جائزہ لیتی رہی۔ آخرکار لتھاوانیہ کی اٹھائیس سالہ حسینہ Aliona Vasilayte کو ”کرہ ارض کی ملکہ“ قرار دیا گیا اور سائبریا کی رہنے والی Inna Kovalenko کو ”امی ملکہ“ کا خطاب دیا گیا۔

اِنا کووالینکو کی عمر 43 سال ہے لیکن وہ کہیں زیادہ جوان لگتی ہیں۔ اس میں ورزش اور موسیقی سے ان کے لگاؤ کا بڑا کردار ہے۔ مزید برآں اِنا کو ہسپانوی لوک رقص فلامینکو کا بھی بہت شوق ہے حتٰی کہ وہ یہ رقص پیش کرنے کے لیے درکار خصوصی جوتے خریدنے کے لیے سپین کے دارالحکومت میڈرڈ گئیں۔ جہاں تک فلامینکو کے لیے پیراہن کا سوال ہے تو اِنا کے پاس ایسے دسیوں پیراہن ہیں۔ اِنا نے بتایا کہ ”میں نے مالٹا میں ہوئے مقابلے میں بھی فلامینکو رقص پیش کیا ہے، میرا خیال ہے کہ یہ رقص دیکھ کر ہی جیوری کے اراکین نے مجھے اعزازی خطاب دینے کا فیصلہ کیا ہوگا“۔ اِنا کا کہنا ہے کہ انہیں بچپن سے تاج پہننے کا شوق ہے لیکن انہیں توقع نہیں تھی کہ کبھی انہیں ایک اصل تاج پہنایا جائے گا۔ اِنا کو حسن برقرار رکھنے کے علاوہ نسوانی صحت کا تحفظ کرنا بھی آتا ہے کیونکہ وہ نسوانی مرضیات کی ڈاکٹر ہیں۔ اِنا نے فخر کے ساتھ کہا کہ ”میرا پیشہ دنیا میں اہم ترین پیشہ ہے کیونکہ میں ماں بننے میں عورتوں کو مدد دیتی ہیں۔ میں بہت چاہتی ہوں کہ تمام عورتوں کو ممتا میں خوشی نصیب ہو، کہ وہ حسین ہوں اور ان کی قدر کی جائے“۔

اِنا کی دو بیٹیاں بین الاقوامی مقابلے میں اپنی ماں کی کامیابی پر بہت خوش ہیں۔ بڑی بیٹی اس وقت سینٹ پیٹرزبرگ کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے اور چھوٹی بیٹی سکول کی طالبہ ہے۔ درحقیقت اِنا بذات خود بھی پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بہت جلد وہ علم طب میں پی ایچ ڈی کے مقالے کی تیاری مکمل کرنے والی ہیں۔

امی ملکہ سے تعارف

جمعہ, نومبر 02, 2012

فلمی دنیا کے ’مسٹر پرفیکٹ‘ حاجی ہوگئے

بالی ووڈ ایکٹر عامر خان کے بارے میں ایک عام رائے یہ ہے کہ وہ جو کام بھی کرتے ہیں لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں۔ فلمی دنیا کے مسٹر پرفیکٹ ان دنوں حج کے ادائیگی کے لئے سعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔۔۔ ابھی وہ وہاں پہنچے بھی نہیں تھے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں ان کے تذکرے زور شور سے شروع ہوگئے۔۔۔

یہاں تک کہ ممبئی ائیر پورٹ پر وہ اپنی والدہ کو لے کر کس طرح جہاز میں سوار ہوئے اور جہاز کی کش نشست پر کس انداز میں بیٹھے ہوئے تھے اس تک کی تصویریں انٹرنیٹ پر ساتھ ساتھ اپ لوڈ ہوتی اور دنیا بھر میں دیکھی جاتی رہیں۔

فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پوسٹ ہونے والی ان کی تصویروں سے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ انہوں نے مدینہ پہنچ کر پاکستانی کھلاڑی شاہد آفریدی اور ایک دینی مفکر مولانا طارق جمیل سے بھی ملاقات کی ۔

مسٹر پرفیکٹ۔۔ فلمی دنیا میں تو پرفیکٹ ہیں ہی ۔۔ حج کے دوران اپنی ماں کے روبرو بھی انہوں نے خود کو ”پرفیکٹ بیٹا“ ثابت کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی۔۔۔۔ حج کی ادائیگی کے دوران انہوں نے اپنی والدہ کی خوب لگن اور محنت کے ساتھ ایسی خدمت کی کہ دیکھنے والے بھی کہہ اٹھے۔۔ ”بیٹا ہو تو عامر خان جیسا“۔

اس حوالے سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی صحافی شاہد نعیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حج کے تمام مناسک کی ادائیگی کے دوران عامر خان ناصرف اپنی والدہ کی وہیل چیئرخود چلاتے رہے بلکہ انہوں نے مناسک کی ادائیگی میں والدہ کی سہولت اور آرام کا ہر طریقے سے خیال رکھا۔

حد تو یہ کہ عرفات سے منٰی کے دوران شدید ٹریفک جام ہونے کے سبب انہوں نے باقی تمام حاجیوں کی طرح سات کلومیٹر کا طویل سفر پیدل اور اپنی والدہ کی وہیل چیئر دھکیلتے ہوئے طے کیا۔

الخالد ٹورز کے نگراں یوسف خیرادہ کے مطابق تمام مناسک حج کی ادائیگی کے دوران عامر خان پرجوش اور خوشگوار موڈ میں نظر آئے۔ وہ اپنی والدہ کی خدمت پر پوری طرح مطمئن تھے۔ انہوں نے اپنی والدہ کے لئے مزدلفہ میں جمرات کے لئے خود کنکریاں جمع کیں۔ اپنے ہونہار بیٹے کی خدمات سے عامرخان کی والدہ بھی خوش تھیں۔

عامر خان نے حج انتظامات کے لئے سعودی حکومت کے اقدامات کو سراہا۔

عامر خان۔۔۔ فلمی دنیا کے ’مسٹر پرفیکٹ‘ حاجی ہوگئے

منگل, اکتوبر 09, 2012

بھارت؛ شہروں سے لَوٹنے والی بِن بیاہی مائیں

بہت ساری خواتین بچوں کو اپنے گاؤں میں چھوڑکر واپس نہیں آئیں
بڑے شہروں کا چكا چوندھ اور سنہرے مستقبل کا خواب لئے جھارکھنڈ کی ہزاروں قبائلی لڑکیاں بڑے شہروں کا رخ تو کررہی ہیں مگر وہاں سے وہ جاتی ہیں بیماریاں اور گود میں بغیر شادی کے بچے لے کر۔ غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق جھارکھنڈ سے روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنے والی لڑکیوں کی تعداد میں تو اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان بچوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جنہیں یہ لڑکیاں واپس لے کر آرہی ہیں اور ریاست کے دور دراز جنگلات میں واقع اپنے گاؤں میں چھوڑ کر واپس جارہی ہیں۔ صورتحال اتنی خطرناک ہوگئی ہے کہ ایک سماجی تنظیم نے ان علاقوں میں ایسے بچوں کے لئے آشرم کھولنے شروع کردیئے ہیں۔

سمڈیگا ضلع کا سانور ٹنگریٹولی گاؤں میں میری ملاقات چھ سالہ پیٹر سے ہوئی۔ پیٹر کی والدہ دلی میں کام کرتی ہیں۔ ایک دن وہ گاؤں لوٹی حاملہ ہوکر اور پیدائش کے بعد پیٹر کو نانا نانی کے پاس چھوڑ کر واپس دلی چلی گئیں۔ پیٹر کے نانا کا کہنا ہے کہ پیدائش کے کچھ ہی مہینوں کے بعد وہ پھر دلی چلی گئی اور اب پانچ سال ہوگئے ہیں اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ نہ اس نے کبھی فون کیا نا کوئی خط بھیجا اور نہ ہی خرچ کے لیے پیسے۔ وہ کہاں ہیں کسی کو اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔

پیٹر اپنے نانا نانی کو اپنا والدین سمجھتا ہے۔ پیٹر کی طرح ہی سمڈیگا ضلع کے دور دراز کے علاقوں میں کئی ایسے بچے ہیں جو اپنی ماں کا انتظار کررہے ہیں۔ لیکن ان کا انتطار لمبا ہوتا جارہا ہے۔ اور اس بات کے امکانات کم ہیں کہ ان مائیں واپس آئیں گی۔ سمڈیگا گاؤں کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے میں شہر کے قریب ’مراکل فاؤنڈیشن‘ پہنچا تو آشرم میں پالنوں ميں ایسے بچوں کو لیٹا دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں۔ ان بچوں کی کلکیاروں کی آوازیں تو کہیں ان کے رونے چلانے کی آوازیں مجھے رہ رہ کر ستا رہی ہیں۔ اس آشرم میں تقریباً پچھتر ایسے بچے ہیں جن کے والدین کا کچھ پتہ نہیں۔ ان کی آشرم ان کی دیکھ بھال اور پرورش کا انتظام ہے۔ جھارکھنڈ میں بچوں کے حقوق اور حفاظت کے سرکاری کمیشن کے مطابق صرف سمڈیگا ضلع میں ہی ایسے بچوں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔ ایسا ہی حال گوملا، رانچی اور کھووٹی اضلا‏ع میں بھی ہے۔


آشرم کی سربراہ پربھا ٹے ٹے کہتی ہیں ’ آشرم میں نہ صرف ان بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے بلکہ ان حاملہ لڑکیوں کی بھی مدد کی جاتی جو اس سے پہلے سماج کے ڈر سے بغیر شادی کے پیدا ہوئے بچوں کو ادھر ادھر پھینک دیتی تھیں۔‘ آشرم کے باہر سڑک کے کنارے ایک پالنا رکھا ہوا جہاں اس طرح کی مائیں بچوں کو رکھ کر چلی جاتی ہیں اور پھر آشرم والے ان بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ مگر سمڈيگا ضلع کے گرجا کھیدنٹولی گاؤں کی نومیتا کے بچے خوش قسمت ہیں۔ نومیتا نے اپنے بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔ نومیتا کے تینوں بچے ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ حالانکہ نومیتا کو گاؤں کے لوگوں نے بالکل الگ تھلگ کردیا ہے۔ نومیتا بیمار رہتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے دوبارہ شہر جانے کی ہمت نہیں کی۔

جھارکھنڈ کے چائلڈ رائٹ پروٹیکشن کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سنجے کمار مشر کہتے غیر شادی شدہ ماؤں اور ان کے بچوں کے مسائل سنجیدہ روپ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ شہر جانے والی زیادہ تر لڑکیوں کا استحصال ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’زیادہ تر لڑکیاں دلالوں کے کہنے میں آ کر دلی یا دیگرشہروں کی پلیس مینٹ ایجنسیوں کے پاس چلی جاتی ہیں۔ پھر جن گھروں میں انہیں کام کرنے بھیجا جاتا ہے وہاں پر وہ جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔‘ سنجے کمار مشرا کہتے ہیں، ’جھارکھنڈ حکومت نے دلی پولیس اور وہاں موجود ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مل کر ایسی لڑکیوں کو بچانے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف علاقوں سے کئی لڑکیوں کو بچانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‘

سمڈیگا میں چرچ بھی ان خواتین کی مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک چرچ سے منسلک نن الیزابیتھ کا کہنا ہے کہ بعض لڑکیاں ایڈز جیسی بیمار کا شکار ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کئی لڑکیوں کے نام بتائے جس میں سے ایک لڑکی کی موت ایڈز سے ہوگئی ہے۔ چرچ، حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیوں کی کوششیں جاری ہیں لیکن اقتصادی پسماندگی کے سبب جھارکھنڈ کے ایسے بہت سے خاندان ہیں جو روزگار کی تلاش میں اپنی لڑکیوں کو بڑے شہروں میں بھیجنے کے لیے مجبور ہیں۔

قبائلی خواتین کا شہر کا رخ، بن بیاہی ماں بن کر لوٹنا

پیر, ستمبر 24, 2012

نابینا خاندان نے محلہ روشن کردیا

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے، پنجاب کے شہر دیپالپور (اوکاڑہ) میں محلہ ڈھکی کے میں ایک نابینا خاندان اندھیروں میں زندگی بسر کررہا ہے۔ لیکن، معذوری کے باوجود، نابینا خاندان خیرات اور صدقات کا طلب گار نہیں، بلکہ خود اپنے زور بازو پر روزگار کمانا جانتا ہے۔

​اِس نابینا خاندان کا سربراہ، عبدالرحمٰن مالش اور مساج کرتا ہے اور اس کا نابینا بھائی عبدالمنان چائے کے ہوٹل پر ملازم ہے۔ بڑی ماں نظیراں بی بی کو الله پاک نے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ بڑے بیٹے عبدالخالق کے علاوہ تین بچے آنکھوں کی دولت سے محروم ہیں۔ شکیلہ بی بی، عبدالرحمٰن اور عبدالمنان نابینا ہیں اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ بچے بچپن سے نابینا نہ تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بینائی سے محروم ہوتے گئے۔

نابینا بھائیوں نے آنکھوں کی معذوری کے باوجود بھکاریوں کا روپ اختیار نہیں کیا، بلکہ اپنی جمع پونجی سے قسطوں پر جنریٹر خریدا اور پورے محلے کو بجلی کا کنکشن دے کر نہ صرف خود روزگار کمایا، بلکہ محلہ کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بچایا۔ اہل محلہ اس نابینا خاندان کا مشکور ہے اور ان کی آنکھوں کے علاج کے لیےدعا گو ہے۔ 

’وائس آ ف امریکہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں نابینا خاندان کے سربراہ عبدالرحمٰن نے کہا کے بچپن میں بس اور ٹرین میں پکوڑے وغیرہ بیچا کرتا تھا، پھر میں نے گھر کے ساتھ ایک چھوٹی سی دکان میں مالش اور مساج کا کام شروع کیا۔ میرا چھوٹا بھائی عبدالمنان چائے کے ہوٹل پر ملازم ہے، اور وہ بھی آنکھوں سے محروم ہے۔

اوکاڑہ کا نابینا خاندان
اُن کے الفاظ میں: ’میری بڑی بہن بھی آنکھوں سے محتاج ہے۔ لیکن پھر بھی، گھر میں جھاڑو پوچا لگاتی ہے، جبکہ میری والدہ 80 سال کی بوڑھی خاتون ہے۔ میری شادی بھی ایک نابینا لڑکی سے ہوئی۔ اب گھر میں یہ حالات ہیں کہ ہانڈی روٹی پکانے والا کوئی نہیں۔ ہم بازار سے کھانا منگوا کر کھاتے ہیں‘۔

عبدالرحمٰن کے چھوٹے بھائی عبدالمنان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’ہمیں لوگ خیرات صدقات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن، ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا، کیوں کہ ہم خود روزگار کمانا جانتے ہیں۔ بس ہماری یہ خواہش ہے کہ کسی طرح ہماری بینائی واپس آ جائے۔

عبدالرحمٰن اور عبدالمنان کی بڑی بہن شکیلہ نےکہا کہ اُن کی شادی نہ ہونے کی وجہ اُن کی آنکھوں کی محتاجی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کا کھانا پکانے کو دل کرتا ہے۔ لیکن، وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔ اُنھیں اپنے دونوں بھائیوں پر فخر ہے کہ وہ آنکھوں کی محتاجی کے باوجود گھر کا خرچ چلا رہے ہیں۔

نابینا خاندان نے پورا محلہ روشن کردیا

پیر, اگست 06, 2012

ماں

موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں

فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گُھل جاتی ہے ماں
نوجوان ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں

کب ضرورت ہو مری بچے کو، اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں

پہلے بچوں کو کھلاتی ہے سکون اور چَین سے
بعد میں جو کچھ بچا وہ شوق سے کھاتی ہے ماں

مانگتی ہی کچھ نہیں اپنے لیے اللہ سے
اپنے بچوں کے لیے دامن کو پھیلاتی ہے ماں

پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی اُن بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں

پھیر لیتے ہیں نظر جس وقت بیٹے اور بہو
اجنبی اپنے ہی گھر میں ہائے بن جاتی ہے ماں

ہم نے یہ بھی تو نہیں سوچا الگ ہونے کے بعد
جب دیا ہی کچھ نہیں ہم نے تو کیا کھاتی ہے ماں

ضبط تو دیکھو کہ اتنی بے رخی کے باوجود
بد دعا دیتی ہے ہرگز اور نہ پچھتاتی ہے ماں

سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو
زندگی بھر کا صلہ اک پاتی ہے ماں

اس نے دنیا کو دیے معصوم رہبر اس لیے
عظمتوں میں ثانی قرآن کہلاتی ہے ماں

بعد مر جانے کے پھر بیٹے کی خدمت کے لیے
بھیس بیٹی کا بدل کر گھر میں آ جاتی ہے ماں