ہفتہ, دسمبر 08, 2012

لِپ سٹک کے استعمال سے دماغ پر اثر پڑ سکتا ہے

لِپ سٹک لگانے والی خواتین ہوشیار ہو جائیں کیونکہ نئی تحقیق کے مطابق لِپ سٹک کے استعمال سے دماغ پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق زیادہ تر لِپ سٹک مصنوعات میں سيسا موجود ہوتا ہے جس کی ہلکی سی مقدار بھی دماغ اور سیکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ ایک امریکی میگزین کی طرف سے کرائے گئے سروے میں 22 لِپ سٹک برانڈز کو شامل کیا گیا۔ ان میں 55 فیصد لِپ سٹک میں زہریلے عناصر پائے گئے۔ امریکا میں کی گئی تحقیق میں 12 لِپ سٹک مصنوعات میں سيسا پایا گیا ان میں سيسا بہت زیادہ مقدار میں پایا گیا جو دماغ کے لیے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ ماہرین نے خواتین کو متنبہ کیا ہے کہ سيسے کی کم مقدار سے بھی صحت کے لیے سنگین خطرے پیدا ہو سکتے ہیں اور اس سے دماغی صحت پر اثرات پڑ سکتا ہے۔
 

دورہ بھارت، آفریدی ون ڈے ٹیم سے ڈراپ۔۔۔۔۔۔۔۔

سٹار آل راؤنڈر شاہد خان آفریدی کو دورہ بھارت کے لیے قومی ون ڈے ٹیم سے ڈراپ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شاہد آفریدی دورہ بھارت میں صرف ٹی 20 میچوں میں حصہ لے سکیں گے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ ذرائع کے مطابق شاہد آفریدی کو ڈومیسٹک میچوں میں خراب کارکردگی کی وجہ سے دورہ بھارت کے لئے قومی ون ڈے سے ڈراپ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ شاہد آفریدی کو ٹی 20 ٹیم میں شامل رکھنے کا امکان ہے۔ تجربہ کار بلے باز یونس خان اور شعیب ملک بھی قومی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی کے ذریعے عمر گل بھی سلیکٹر کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انہیں ون ڈے اور ٹی 20 ٹیم میں شامل رکھے جانے کا امکان ہے جبکہ کامران اکمل کو بھی دونوں طرز کی ٹیمیں کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ قومی ٹیم کے مڈل آرڈر بیٹسمین اسد شفیق، آل راؤنڈر عبدالرزاق اور سپنر رضا حسن انجری کے باعث پہلے دورہ بھارت کے لیے سلیکشن کی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں۔ قومی کرکٹ ٹیم دورہ بھارت میں تین ون ڈے اور 2 ٹی 20 میچ کھیلے گی۔ قومی ٹیم کا اعلان کل متوقع ہے۔

پولیس اہلکار نے چودہ برس سے چھٹی نہیں کی

بھارت کے دارالحکومت دلی میں تعینات پولیس سب انسپکٹر گزشتہ چودہ برسوں سے ایک روز کی چھٹی لیے بغیر اپنی ڈیوٹی کررہے ہیں۔ بلجیت سنگھ رانا کی عمر اس وقت ساٹھ برس ہے اور وہ گزشتہ چالیس برسوں سے پولیس کی ملازمت میں ہیں۔ پولیس کی حاضری سے متعلق گزشتہ چودہ برسوں کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس مدت میں ایک دن بھی چھٹی نہیں کی۔ ان کے اہل خانے کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ان کے تین بیٹوں کی جب شادی ہوئي تب بھی بلجیت سنگھ نے چھٹی نہیں لی۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ بلجیت سنگھ رانا اپنے اہل و عیال کا پورا خيال رکھتے ہیں اور انہوں نے ان کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔

بلجیت سنگھ رانا کی اہلیہ سوشیلا سنگھ نے بی بی سی کو بتایا ’انہوں نے ہماری ضروریات یا گھر سے متعلق کسی کام کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ ہاں شروع میں جب وہ چھٹی نہیں لیتے تھے تو ہم ان سے ناراض ہوجاتے تھے کیونکہ ہمیں یہ لگتا تھا کہ ان کے علاوہ سب کو ایک روز کی چھٹی ملتی ہے لیکن ان کو نہیں ملتی ہے۔‘ سوشیلا سنگھ نے مزید کہا ’لیکن پھر ہمیں بعد میں لگا کہ یہ تو ان کا اپنا انداز ہے اور انہوں نے اپنے اہل و عیال کو کبھی تنہا بھی تو نہیں چھوڑا۔ جب ہمیں ضرورت پڑی وہ پاس میں ہوتے ہیں تو پھر ہم نے بھی اس سے مصلحت سمجھ کر قبول کر لیا۔‘

سب انسپکٹر بلجیت سنگھ رانا سبزي خور ہیں اور یوگا بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بیمار نہیں ہوئے اس لیے انہوں نے کبھی بیماری کی چھٹی بھی نہیں لی۔ سخت محنت اور کام کے لیے لگن کی وجہ سے انہیں دو بار صدارتی میڈل سے بھی نوازا گيا ہے۔ رانا اکتیس اگست کو ریٹائر ہوگئے تھے لیکن پولیس نے انہیں صلاح و مشورہ کے لیے دوبارہ بھرتی کر لیا ہے۔ ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ وہ کام کے حوالے سے رانا کی لگن پر فخر کرتے ہیں۔ ان کے سپروائزر اور ایڈشنل ڈپٹی کمشنر آ‌ف پولیس منگيش کشیپ کہتے ہیں ’چھٹی ضرور لینی چاہیے، خاص طور پر پولیس کی نوکری میں جو بہت مشکل کام ہے۔ بلجیت سنگھ نے گزشتہ چودہ برسوں میں کوئي چھٹی نہیں لی۔ ہمارے محکمہ میں ایسا دوسرا شخص تلاش کرنے سے بھی نہیں ملے گا۔‘

پولیس اہلکار چودہ برس سے بغیر چھٹی کے کام پر

دنیا میں مہنگا ترین پٹرول پاکستانیوں کے لئے

پاکستانی دنیا میں سب سے مہنگا پٹرول خریدنے پر مجبور ہوگئے،ایک گیلن کی قیمت عام شہری کی ڈیڑھ دن کی تنخواہ کے برابر ہے۔ ایک بین الاقوامی ادارے کی رپوٹ کے مطابق پاکستان میں ایک گیلن پٹرول پانچ ڈالر تیرہ سینٹ کا ملتا ہے جو عام ورکر کی روزانہ آمدنی سے چھالیس فیصد زائد ہے۔ اس طرح ساٹھ ممالک کی فہرست میں پاکستان ٹاپ پر آگیا۔ 

گزشتہ سہ ماہی میں یہ پوزیشن بھارت کے پاس تھی جو اب دوسرے نمبر پر آگیا۔ بھارت میں ایک گیلن پٹرول کی قیمت چار ڈالر سرسٹھ سینٹ ہے جبکہ بھارتی شہری کی اوسط آمدنی تین ڈالر ستانوے سینٹ ہے۔ اس طرح وہ سوا یوم کی تنخواہ دے کر ایک گیلن پٹرول خریدتا ہے جو پاکستان سے کچھ ہی بہتر ہے. جب کہ چین میں ایک گیلن پیٹرول کی قیمت چار ڈالر ستاسی سینٹ ہے۔ پیٹرول پمپ پر ایک چینی صارف کو اپنی روزانہ کی آمدنی کا تیس فیصد دینا پڑتا ہے۔ پاکستان میں گیسولین کی فروخت میں بائیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس فہرست کی دوسری طرف حالات مختلف ہیں۔ ایک امریکی اپنی آمدنی کا صرف تین فیصد دے کر ایک گیلن پیٹرول خرید سکتا ہے۔ ناروے میں قیمت تو ساڑھے دس ڈالر کے قریب ہے مگر یہ ایک شہری کی آمدنی کا صرف چار فیصد ہے۔ پاکستان میں سی این جی کی قیمت اور سپلائی کے حوالے مشکلات کی وجہ سے آئندہ آنے والے دنوں میں پیٹرول کی طلب اور قیمت میں مزید اضافہ کا خدشہ بھی موجود ہے۔

پاکستانی مہنگا ترین پٹرول خریدنے پر مجبور

ڈاکٹر عمران قتل: لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ

ڈاکٹر عمران فاروق
لندن میں میٹروپولیٹن پولیس نے ایم کیو ایم کے ایک کے سابق رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں ایجویئر کے علاقے میں واقع ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ مارنے اور تلاشی لینے کی تصدیق کی ہے۔ میٹروپولیٹن (میٹ) پولیس کے پریس آفس نے جمعہ کی شب بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بزنس ایڈریس پر تلاشی کا کام دو دن سے جاری تھا۔ میٹ پولیس کے ایک اہلکار جوناتھن نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ چھاپہ جمعرات کو مارا گیا تھا جس کے بعد مفصل تلاشی کا کام شروع ہوا جو جمعہ کی شام کو مکمل کر لیا گیا۔ میٹ آفس کے اہلکار نے ایم کیو ایم کے دفتر سے قبضے میں لیے گئے شواہد کی تفصیل نہیں بتائی۔ پولیس کے مطابق ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے سلسلے میں تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ پولیس نے یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی اور نہ ہی کسی شخص کو تفتیش کے لیے روکا گیا ہے۔
لندن میں ایم کیو ایم کے ترجمان مصطفٰی عزیز آبادی سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بارے میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بزنس ایڈریس پر پولیس نے چھاپہ مارا ہے انہوں نے کہا کہ ’ایسی کوئی بات نہیں۔‘ مصطفٰی عزیز آبادی نے کہا کہ کل سے اخبار والے یہ خبر اڑاتے پھر رہے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

 گزشتہ ستمبر میٹروپولیٹن پولیس سروس کی انسدادِ دہشت گردی کی ٹیم نے کہا تھا کہ ڈاکٹر فاروق قتل سے چند ماہ پہلے اپنا ایک آزاد سیاسی ’پروفائل‘ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے ڈاکٹر فاروق اپنا سیاسی کیریئر از سر نو شروع کرنے کے متعلق سوچ رہے ہوں۔ اس وجہ سے پولیس ہر اس شخص سے بات کرنا چاہتی ہے جو ڈاکٹر فاروق سے سیاسی حوالے سے رابطے میں تھا۔ پولیس کے علم میں ہے کہ ڈاکٹر فاروق نے جولائی 2010 میں ایک نیا فیس بک پروفائل بنایا تھا اور سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر بہت سے نئے روابط قائم کیے تھے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کی ہلاکت کی دوسری برسی کے موقع پر پولیس نے ایک مرتبہ پھر لوگوں سے اپیل کی کہ اگر ان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو وہ سامنے لائیں۔

پچاس سالہ ڈاکٹر عمران فاروق کو جو سنہ 1999 میں لندن آئے تھے، 16 ستمبر 2010 کو ایجویئر کے علاقے میں واقع گرین لین میں چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اکتوبر میں پولیس کو حملے میں استعمال ہونے والی چھری اور اینٹ بھی ملی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے اور لگتا ہے کہ اس کے لیے دوسرے افراد کی مدد بھی حاصل کی گئی تھی جنہوں نے ہو سکتا ہے جان بوجھ کر یا انجانے میں قتل میں معاونت کی ہو۔

ڈاکٹر عمران قتل: لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپہ

پاکستان: آپریشن سے بچے کی پیدائش پر ڈاکٹروں کا اصرار کیوں؟

پاکستان میں آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجوہات اکثر بچے کو جنم دینے والی ماؤں کو بھی پتہ نہیں ہوتیں۔ ستائیس سالہ نازیہ جو حال ہی میں ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں، کا تجربہ کافی تلخ ہے وہ بتاتی ہیں، ”میری یہ پہلی ڈیلیوری تھی۔ میں ہسپتال گئی تھی معمول کے چیک اپ یا معائنے کے لئے۔ میں وہاں گئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپریشن کی ضرورت ہے اس لئے فوری طور پر ہسپتال میں داخل ہو جائیں۔ مجھے انہوں نے وجہ کوئی نہیں بتائی۔ بس داخل کرنے کے بعد آپریشن کر دیا۔ مجھے کسی طرح کا درد نہیں تھا نہ ہی کوئی مسلئہ تھا لیکن انہوں نے آپریشن کیوں کیا یہ میں نہیں بتا سکتی‘‘۔ نازیہ نے مزید بتایا کہ آپریشن پر اٹھنے والے اخراجات اتنے زیادہ تھے کہ انہیں مجبوراً آپریشن کے دوسرے دن ہی ہسپتال سے رخصت لینی پڑی کیونکہ مزید اخراجات اٹھانے کی سکت ان کا خاندان نہیں رکھتا۔

یہ صرف نازیہ کا ہی نہیں بلکہ کئی خواتین کا شکوہ ہے جو ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ان کی فیملی ڈاکٹرز معائنے کے بعد انہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ بچے کی پیدائش قدرتی طریقے سے عمل میں آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ تاہم ان ہسپتالوں میں جہاں بچے کی پیدائش کے لئے اندراج کروایا جاتا ہے، وہاں کوئی نہ کوئی مسلئہ بتا کر آپریشن تجوہر کر دیا گیا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقرر کردہ معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں آپریشن کے ذریعے بچے کی ولادت کا تناسب 15 فیصد سے تجاوز نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان میں اس کا کیا تناسب ہے اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ سرکاری سطح پر ہسپتالوں سے ریکارڈ اکٹھا نہیں کیا جاتا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آپریشن سے بچوں کی ولادت کا تناسب پاکستان میں کہیں زیادہ ہے۔ اس کی آخر کیا وجہ ہے؟ اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سکریٹری اور معروف گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ آپریشن میں اضافے کی ایک وجہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے، ”بعض اوقات کھبی کوئی مسلئہ ہوا مثلاً کوئی انفیکشن ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر محسوس کرتا ہے کہ آپریشن پہلے کر دینا زیادہ مناسب ہے تو آپریشن کر دیا جاتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نارمل ڈیلوری کی جائے تو دس ہزار روپے ملتے ہیں لیکن اگر آپریشن کیا جائے تو اس سے تیس ہزار مل جاتے ہیں، اس لئے بعض ڈاکٹر یہ کام کر ڈالتے ہیں۔ اور بعض آپریشن اس لئے ہوتے ہوں گے کہ جونئیر ڈاکڑز کو سیکھایا جا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ethical practice نہیں ہے‘‘۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں کہ اگر کسی خاتون کو ایسا لگتا ہے کہ ان کا آپریشن غیر ضروری طور پر کیا گیا تو اس شکایت کے اندارج کے لئے بھی کوئی خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں، ”آپ PMDC پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں اپنی شکایت کا اندراج تو کروا سکتے ہیں تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ پاکستان میں جو یہ معاملہ چل رہا ہے اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے‘‘۔ 

آپریشن سے پیدا ہونے والے بچوں کو غیر معمولی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے
ملتان کے ایک پرائیوٹ کلینک میں ماہر گائناکالوجسٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر غزالہ اعوان کا کہنا ہے کہ اگر کسی وجہ سے غیر ضروری آپریشن کا مشورہ دیا جا رہا ہے تو ان خواتین کو چاہئے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں ماہرین سے صلاح و مشورہ کیا کریں، ”سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو کیونکہ قدرتی یا آپریشن سے کی جانے والی ولادت کا کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا اس لئے بہتر ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں موجود کنسلٹنٹس سے مشورہ لیں‘‘۔

ڈاکٹر شیر شاہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ خواتین کو چاہئے کہ وہ ابتداء سے ہی کوشش کریں کہ ایسے ہسپتال سے رجوع کریں جس کے بارے میں وہ مطمئن ہوں۔

آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش پر ڈاکٹر کیوں مُصر