پيغمبر اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پيغمبر اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر, نومبر 12, 2012

جذبات سے عمل تک

”دنیا کو کہو سلام!“ یہ وہ افتتاحیہ ہے جسے روس اور سی آئی ایس میں مسلمانوں کے سوشل نیٹ ورک ”سلام ورلڈ“ کی قیادت نے ایک مقابلے میں منتخب کیا ہے۔

اس افتتاحیہ نعرے کے خالق کزاخستان کے عبد راسل ابیلدینوو ہیں۔ ری پبلک کازان کے الشاط سعیتوو کو اس مقابلے میں دوسرا مقام حاصل ہوا ہے۔ ان کا لکھا نعرہ تھا، ”عقیدے میں یگانگت، انٹر نیٹ پہ یگانگت!“۔

”سلام ورلڈ“ کے صدر عبدالواحد نیازوو نے ریڈیو ”صدائے روس“ کی نامہ نگارہ کو بتایا۔، ”میں نعرہ منتخب کرنے والی کمیٹی میں شریک رہا۔ یہ مقابلہ تین ماہ تک جاری رہا۔ انگریزی میں لکھا نعرہ ”سے سلام ٹو دی ورلڈ“ کو چنا گیا ہے۔ یہ نعرہ مجھے اچھا لگا ویسے ہی جیسے دوسرے اور تیسرے مقام پر آنے والے نعرے اچھے لگے۔ ایسے بہت سے اور بھی اچھے نعرے تھے، جنہیں تخلیق کرنے والوں نے ہمارے نیٹ ورک کے نظریے اور مقصد کو سمجھا ہے“۔

اس مقابلے میں روس کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں کی جانب سے بھیجے گئے دوہزار سے زیادہ نعروں پر غور کیا گیا، عبدالواحد نیازوو بتا رہے ہیں، ”30 % نعرے روس کے جنوب کی شمالی قفقاز کی ریپلکوں انگوشیتیا، چیچنیا اور داغستان کے مسلمانوں کی جانب سے وصول ہوئے تھے۔ ان ریاستوں کے مسلمانوں نے بہت زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کیا لیکن جیت کازان اور الماآتا کے حصے میں آئی۔ ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ روس اور آزاد برادری کے دیگر ملکوں کے نوجوان لوگ ان سرگرمیوں میں شریک ہوں جو ہمارے اس منصوبے کے توسط سے رونما ہونگی۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سے ہمارا منصوبہ بحیثیت مجموعی متاثر ہوگا“۔

یاد دلادیں کے ماہ رمضان کے ایام میں ”سلام ورلڈ“ کا آزمائشی مرحلہ شروع کیا گیا تھا۔

اس وقت مذکورہ نیٹ ورک کے استنبول میں واقع صدر دفتر میں تیرہ ملکوں کے نمائندے مصروف کار ہیں جو اس نیٹ ورک کو پوری استعداد کے ساتھ شروع کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جیسا کہ عبدالواحد نیازوو نے بتایا ہے کہ اس نیٹ ورک کو اگلے برس کے ماہ اپریل میں روس کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا۔

فی الحال دنیا بھر میں مقابلہ کرنے کی خاطر سلام ورلڈ نے اشتہار ”جذبات سے عمل تک“ کے نام سے بہترین بل بورڈ تیار کرنے کے بین الاقوامی مقابلے کا اعلان کیا ہے۔ نیازوو کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں مسلسل اسلام مخالف اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے، جیسے کہ خاص طور پر غم و غصہ کی لہر دوڑا دینے والی فلم ”مسلمانوں کی معصومیت“۔ عبدالواحد نیازوو کہتے ہیں: ”جی ہاں، مسلمانوں نے اپنے غیض کا درست اظہار کیا لیکن ہوا کیا؟ بس مسلمانوں نے امریکی جھنڈا نذر آتش کردیا یا اسے پاؤں تلے روند ڈالا، یا پھر مغربی ملکوں کے سفارتخانوں پہ پتھر برسائے۔ آج زیادہ سے زیادہ لوگ سمجھ چکے ہیں کہ گوگل اور یو ٹیوب پہ مغرب والے دہرے معیارات کا استعمال کرکے ان کی جتنی بھی دل آزاری کرتے رہیں، جب تک مسلمانوں کا اپنا اطلاعاتی انفراسٹرکچر بشمول انٹرنیٹ سرور کے نہیں ہوگا، ہم اسی طرح ذلت اور ندامت کا نشانہ بنائے جاتے رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ مہینوں میں ہمارے منصوبے میں لوگوں کی دلچسپی کئی گنا بڑھی ہے“۔

”جذبات سے عمل تک“ نام کے بین الاقوامی مقابلے کے شرکاء کو چاہیے کہ وہ بہترین ڈیزائن اور بہترین نعرہ تیار کرکے بھجوائیں۔ اہم یہ ہونا چاہیے کہ اس میں اس نظریے کا اظہار ہو کہ موجودہ عہد میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور آزادی اظہار کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

جیتنے والے کے تیار کردہ بل بورڈ کے ڈیزائن اور نعرے کو دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں نمایاں طور پر لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔ عبدالواحد نیازوو نے مزید کہا، ”روس سے پہلا نعرہ اور تین ڈیزائن وصول ہو چکے ہیں۔ نعرہ یوں ہے، ”ہمیں حضرت عیسیٰ بھی پیارے ہیں اور محمد بھی“۔ سادہ سی بات ہے لیکن اس میں بہت بڑی سوچ مضمر ہے۔ ہمارے مقابلے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو اور سب سے پہلے غیر مسلموں پہ واضح کیا جائے کہ یاد رکھو ہمارے مذہب کا سارا حسن اس میں ہے کہ کسی بھی انسان کے مذہبی جذبات اور کسی بھی مذہب کے عقائد کی تعظیم کی جانی چاہیے“۔

”جذبات سے عمل تک“ نام کا بل بورڈ تیار کیے جانے کا بین الاقوامی مقابلہ اسلامی تنظیم تعاون کی اعانت سے ہو رہا ہے اور اس میں کوئی بھی شخس حصہ لے سکتا ہے۔

جذبات سے عمل تک

حضرت زکریا کی اللہ سے دعا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل



اتوار, نومبر 11, 2012

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چالیس فرمان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میری امت کے فائدے کے واسطے دین کے کام کی چالیس حدیثیں سنائے گا اور حفظ کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن عالموں اور شہیدوں کی جماعت میں اٹھائے گا اور فرمائے گا کہ جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہوجاؤ“۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے
  • جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں بھیجتا ہے۔
  • اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔
  • اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہ کرے۔
  • چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔
  • رشتہ قطع کرنے والا جنت میں نہ جائے گا۔
  • مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں، (۱) سلام کا جواب دینا۔ (۲) مریض کی مزاج پرسی کرنا۔ (۳) مسلمان کے جنازہ کے ساتھ جانا۔ (۴) مسلمان کی دعوت قبول کرنا۔ (۵) چھینک کا یَرحمُکَ اللہ کہہ کر جواب دینا۔
  • ٹخنوں کا جو حصہ پائجامہ کے نیچے رہے گا وہ جہنم میں جائے گا۔
  • مسلمان تو وہ ہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے مسلمان محفوظ رہیں۔
  • جو شخص نرم عادت سے محروم رہا، ساری بھلائی سے محروم رہا۔
  • پہلوان وہ شخص نہیں جو لوگوں کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہی ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔
  • جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو۔
  • اللہ کے نزدیک سب عملوں میں وہ زیادہ محبوب ہے جو دائمی ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔
  • اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے جس میں کتا یا تصویریں ہوں۔
  • تم میں سے وہ شخص میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے جو زیادہ خلیق ہے۔
  • دنیا مسلمان کے لئے قیدخانہ اور کافر کے لئے جنت ہے۔
  • مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے قطع تعلق رکھے۔
  • مومن کو ایک ہی سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاسکتا۔
  • حقیقی غنا دل کا غنا ہوتا ہے۔
  • دنیا میں ایسے رہو جیسے کوئی مسافر یا رہگذر رہتا ہے۔
  • انسان کے جھوٹا ہونا کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو بات سنے بغیر تحقیق کئے لوگوں سے بیان کردے۔
  • آدمی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہے۔
  • جو کسی مسلمان کے عیب چھپائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کے عیب چھپائے گا۔
  • وہ شخص کامیاب ہے جو اسلام لایا اور جس کو بقدر کفایت رزق مل گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی روزی پر قناعت دے دی۔
  • سب سے سخت عذاب میں قیامت کے روز تصویر بنانے والے ہوں گے۔
  • مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔
  • کوئی اس وقت تک پورا مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔
  • وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا پڑوسی اس کی ایذاؤں سے محفوظ نہ رہے۔
  • میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہ پیدا ہوگا۔
  • آپس میں قطع تعلق نہ کرو اور ایک دوسرے کے درپے نہ ہو اور آپس میں بغض نہ رکھو اور حسد نہ کرو اور اے اللہ کے بندو سب بھائی ہوکر رہو۔
  • اسلام ان تمام گناہوں کو ڈھا دیتا ہے جو پہلے کئے تھے اور ہجرت اور حج ان تمام گناہوں کو ڈھا دیتے ہیں جو اس سے پہلے کئے تھے۔
  • کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی بے گناہ قتل کرنا اور جھوٹی شہادت دینا ہے۔
  • ہر ایک بدعت گمراہی ہے۔
  • اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض جھگڑالو آدمی ہے۔
  • پاک رہنا آدھا ایمان ہے۔
  • اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب جگہ مسجدیں ہیں۔
  • قبروں کو سجدہ گاہ نہ بناؤ۔
  • نماز میں اپنی صفوں کو سیدھا رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے قلوب میں اختلاف ڈال دے گا۔
  • ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی طرح ہوگا۔
  • سب اعمال کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو اپنی عمر میں اضافہ اور رزق میں ترقی چاہتا ہو اسے اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئیے۔
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب انسان اپنے ماں باپ کے لئے دعا مانگنا چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں تنگی کردیتا ہے۔
  • جو شخص کسی مسلمان کو دنیاوی مصیبت سے چھڑائے گا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی مصیبتوں سے چھڑا دے گا۔ اور جو شخص کسی مفلس غریب پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے گا اور جب تک مسلمان بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں لگا رہتا ہے۔
  • حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ”جو شخص مسجدمیں بائیں جانب اس لئے کھڑا ہوتا ہے کہ وہاں لوگ کم کھڑے ہوتے ہیں تو اسے دو اجر ملتے ہیں“....طبرانی، مجمع الزوائد
  • حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف میں ایک کنارے سےدوسرے کنارے تک تشریف لاتے، ہمارے سینوں اور کندھوں پر ہاتھ مبارک پھیر کر صفوں کو سیدھا فرماتے اور ارشاد فرماتے: آگے پیچھے نہ رہو اگر ایسا ہوا تو تمہارے دلوں میں ایک دوسرے سے اختلاف پیدا ہوجائے گا اور فرمایا کرتے: اللہ تعالیٰ اگلی صف والوں پر رحمتیں نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں.... ابوداؤد
  • حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، میں بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں، جیسا کہ وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے، تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میرا کسی مجمع میں ذکر کرتا ہے تو میں اس مجمع سے بہتر ،یعنی فرشتوں کے مجمع میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر بندہ میری جانب ایک بالشت متوجہ ہوتا ہے ، تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اگر وہ ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ (بڑھتا ہوں) متوجہ ہوتا ہوں۔ وہ اگر میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر چلتا ہوں۔ (صحیح بخاری)
  • حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے، پس (کھانے کے دوران) لقمہ ہاتھ سے گرجائے تو اس پر جو چیز لگ جائے اس سے لقمہ کو صاف کرکے کھا لے اور اسے شیطان کے لئے نہ چھوڑے۔

جمعہ, نومبر 09, 2012

جمعۃ المبارک کی فضیلت و اہمیت

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ،

اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ 

 

پیر, اکتوبر 01, 2012

سچی توبہ

اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ تمام آفاقی کتابوں میں اپنے رب کو ایک ماننے کی تعلیم دی گئی ہے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی بار بار توبہ کرنے کا ذکر آیا ہے۔ اسی طرح احادیث نبوی یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات و فرامین میں بھی اکثر مقامات پر اپنے رب سے اپنی تمام اگلی اور پچھلی غلطیوں، لغزشوں اور گناہوں پر توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم نے ارشاد فرمایا: ’’میں دن میں ستر بار سے بھی زیادہ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں۔‘‘
(بخاری شریف)

اہل ایمان کے لیے حکم ہے کہ وہ توبہ کریں، بار بار کریں اور اس انداز سے کریں جس سے نصیحت و راہ نمائی بھی ملے اور یہ دوسروں کے لیے بھی تقلید کا سبب بنے۔

رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے: ’’اے لوگو! اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش مانگو، میں دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (مسلم شریف)

پروردگار عالم اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف صاحبان ایمان ہی توبہ کرتے ہیں، کیوں کہ وہ توبہ کی اہمیت بھی جانتے ہیں اور اس کے فوائد سے بھی آگاہ ہیں۔

کائنات کا خالق اس وقت بڑی خوشی کا اظہار فرماتا ہے جب اس کے ایمان والے بندے توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتے ہیں اور فرماں برداروں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس وقت باری تعالیٰ اپنے ان بندوں کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور پھر وہ لوگ اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہوجاتے ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ مومن توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، پسندیدہ باتوں کی تلقین کرنے والے، ناپسندیدہ باتوں سے منع کرنے والے اور اﷲ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (اور اے نبی) آپ ان مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے۔‘‘
(سورۃ التوبہ آیت112)

اس آیۂ مبارکہ میں اﷲ رب العزت نے مومن یعنی اہل ایمان انہی لوگوں کو قرار دیا ہے جو اﷲ رب العزت کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاتے ہیں۔

جب وہ اﷲ رب العزت کو اپنا خالق تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر ان پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اسی پالنے والے کی عبادت کریں، اسی کے آگے اپنا سر جھکائیں، اسی سے فریاد کریں اور اسی کے سامنے دست طلب دراز کریں۔ اہل ایمان جب دل سے ایمان والے ہوجاتے ہیں تو پھر انھیں کچھ حدود اور پابندیوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔

مثال کے طور پر ایمان لانے کے بعد ان کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ تمام اچھی اور پسندیدہ باتوں کو عوام الناس میں پھیلائیں اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی ہدایت کریں۔ اس کے ساتھ ان پر یہ فرض بھی عائد ہوجاتا ہے کہ وہ خود بھی ناپسندیدہ باتوں سے بچیں اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی نصیحت کریں، بلکہ عملی طور پر انھیں ناپسندیدہ باتوں سے بچائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایمان والوں کی ایک اور نشانی یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ اﷲ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان صرف اس حد تک جاتے ہیں جہاں تک جانے کی اجازت ان کے پروردگار نے دی ہے اور اس حد کو عبور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ جس کام کی اجازت ان کا رب دے رہا ہے، وہ کام یہ لوگ خوشی سے کرتے ہیں اور جس کام سے رکنے کا حکم دے رہا ہے، اس سے رک جاتے ہیں۔

چناں چہ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پیغمبر حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے:’’(اور اے نبی) آپ ان مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے۔‘‘

خوش خبری کس بات کی؟ اس بات کی کہ انہوں نے جس طرح اﷲ رب العزت کے احکام کی تعمیل کی اور اس کی فرماں برداری کی، اس سے خوش ہوکر اﷲ ان سے راضی ہوگیا اور اب انہیں اخروی کام یابی عطا ہوگی۔ یہ خوش خبری بھی ہمارا مالک اپنے رسول، ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے دے رہا ہے۔ اہل ایمان کے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوگی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص مغرب کی طرف سے طلوع آفتاب سے پہلے پہلے توبہ کرلے، اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔‘‘ (مسلم شریف)

یہاں مغرب کی طرف سے سورج طلوع ہونے کا جو حوالہ دیا گیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ یہ منظر صرف روز قیامت ہی طلوع ہوگا، اور اس قیامت کے بعد نہ کسی کی توبہ قبول ہوگی اور نہ ہی اس کا وقت ہی باقی رہے گا، اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کو مذکورہ بالا حدیث کے ذریعے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ وہ توبہ کا وقت گزرنے سے پہلے توبہ کرلیں تاکہ بعد کے پچھتاوے سے بچ سکیں۔

کتاب مبین میں ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:’’کچھ شک نہیں کہ اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ222)

یہاں بھی وہی بات دہرائی گئی ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرتے ہیں، اس کے آگے سر جھکاتے ہیں اور اس کے حکم کے مطابق خود کو پاک اور صاف رکھتے ہیں، گندگی اور غلاظت سے بچتے ہیں، ایسے لوگوں کا شمار اﷲ کے پسندیدہ لوگوں میں ہوتا ہے اور ایسے لوگ اﷲ کے دوست ہیں۔

بے شک وہ ایسے ہی دوستوں سے خوش ہوتا ہے اور انھیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے جنت کی بشارت دیتا ہے۔

سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب دعوت حق کا سلسلہ شروع ہوا تو عرب معاشرے کے ایسے ایسے لوگوں نے صدق دل سے اسلام قبول کیا جن کا ماضی اچھا نہیں تھا۔ وہ لوگ ہر طرح کی معاشرتی برائیوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ مگر جب وہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے تو ان کی دنیا ہی بدل گئی۔

انھوں نے خلوص دل سے اپنے داغ دار ماضی کے لیے اﷲ رب العزت سے توبہ کی اور آئندہ کے لیے راہ راست پر رہنے کا عہد کیا۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی اور پھر ان کے درجات ایسے بلند ہوئے کہ وہ صحابۂ کرام کے منصب پر فائز ہوئے یعنی رسول کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی کہلائے۔

ہمارے بزرگ اور دوست ذرا اس بات پر غور فرمائیں کہ اس پالن ہار نے کس طرح ان عربوں کی کایا پلٹی جس کے نتیجے میں یہ معاملہ بنا کہ اﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اﷲ سے راضی ہوگئے۔ اﷲ جن سے راضی ہوجائے، پھر وہ اسی کے ہوجاتے ہیں، اس کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ وہی ان کا محافظ ہوتا ہے اور وہی ان کا مددگار! ان کا پروردگار انہیں ہر طرح کی پریشانیوں سے بچالیتا ہے اور انہیں سکینہ کی کیفیت کا بے مثال تحفہ عطا فرمادیتا ہے۔

سکینہ کیا ہے؟ سکینہ ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کو تمام مشکلات اور پریشانیوں سے نجات دلا دیتی ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہونے والے خوش قسمت افراد کے اندر کی بے چینی اور اضطراب مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ وہ قلبی سکون اور سلامتی کے احساس سے سرشار ہوجاتے ہیں۔

پھر وہ مرحلہ آجاتا ہے کہ سکینہ سے فیض یاب ہونے والوں کو اپنے پالن ہار کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ صرف اﷲ کی یاد میں مگن ہوجاتے ہیں اور دنیاوی دکھوں و پریشانیوں کے حصار سے نکل جاتے ہیں۔ اس وقت انھیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ دنیا کا کوئی دکھ ہو یا پریشانی، کوئی تکلیف ہو یا آزمائش، اس میں مبتلا کرنے والی بھی اﷲ کی ذات ہے اور اس سے نکالنے والی بھی یہی ذات ہے۔

جب یہ احساس فروغ پاجائے تو پھر انسان اپنے دکھ درد یا پریشانی کا ذمہ دار کسی انسان کو نہیں سمجھتا، بلکہ اسے اپنے رب کا حکم سمجھ کر اس پر راضی ہوجاتا ہے۔ سکینہ کا انعام اﷲ تعالیٰ کی جانب سے صرف پسندیدہ بندوں کو ہی عطا کیا جاتا ہے۔

آج ہمارے معاشرے کا حال بہ حیثیت مجموعی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے پریشان ہے، اس سے ڈر رہا ہے، اس سے خوف کھارہا ہے۔ ہر فرد دوسرے فرد کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔

اسے کسی پر بھی اعتبار نہیں رہا ہے۔ ہر شخص دوسرے شخص کو اپنا استحصالی سمجھ رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ کہیں یہ میرا مال یا میری جائیداد ہڑپ نہ کرلے، کہیں میرا مال و متاع نہ چھین لے، کہیں میرا عہدہ، میری کرسی نہ چھین لے، کہیں میری عزت کے درپے نہ ہوجائے۔

کسی کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اس کے ذہن میں جتنے بھی خیالات آرہے ہیں، جتنے اندیشے، وسوسے اور خدشات اسے پریشان کررہے ہیں، یہ سب پروردگار عالم کی طرف سے اس کے لیے آزمائش ہیں۔ وہ جب چاہے گا، انھیں خود ہی دور کردے گا۔ وہ کسی کے حکم کا پابند نہیں ہے۔

لیکن وہ اپنے محبوب بندوں کی جائز خواہشات اور تمناؤں سے واقف ہے اور اگر انھیں مناسب سمجھتا ہے تو عطا کردیتا ہے ورنہ بعد کے لیے یعنی آخرت کے لیے ذخیرہ کردیتا ہے۔ لیکن وہ اپنے رحم و کرم سے اپنے بندوں کو سکینہ کا تحفہ ضرور عطا کرتا ہے جو بلاشبہہ مقدر والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اﷲ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جب تک حالت نزع نہ طاری ہوجائے۔‘‘ (ترمذی) امام ترمذی نے اسے احسن کہا ہے۔

اس حدیث پاک میں بھی ایک نصیحت اور ایک وارننگ ہے۔ ارشاد ہورہا ہے کہ اﷲ رب العزت اپنے بندے کی توبہ صرف اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اس پر نزع طاری نہ ہوجائے یعنی وہ مرض الموت کی کیفیت میں مبتلا نہ ہوجائے، گویا اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اسی وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک وہ اپنے ہوش و حواس میں رہتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ اس نزاعی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جس کے بعد اسے بہرصورت مرنا ہوتا ہے تو پھر توبہ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔

اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ سبھی مسلمانوں کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ ہر وقت اس سے توبہ کرتے رہیں، نہ جانے کب موت سر پر آن پہنچے اور انہیں توبہ کرنے کی مہلت بھی نہ ملے۔

جمعہ, ستمبر 28, 2012

یو ٹیوب کا بائیکاٹ؛ گوگل رینکنگ میں تیسرے نمبر پر

کمپنی کو ناقابل تلافی نقصان، روزانہ 30 لاکھ صارفین کی کمی کا سامنا ہے

دنیا بھر میں یو ٹیوب کے بائیکاٹ کی وجہ سے گوگل کو نا قابل تلافی نقصان کا سامنا ہے، کمپنی رینکنگ پہلے نمبر سے تیسرے نمبر پر آ گئی ہے اور اسے روزانہ 30 لاکھ صارفین کی کمی کا سامنا ہے۔

انٹرنیٹ کی ٹریفک رینکنگ پر نظر رکھنے والے پورٹل ’الیکسا‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے مسلمان ملکوں میں معروف سرچ انجن گوگل اور اس کی ملکیتی یو ٹیوب کے بائیکاٹ نے کمپنی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یو ٹیوب سے گستاخانہ فلم نہ ہٹانے پر گوگل کے بائیکاٹ کی وجہ سے کمپنی رینکنگ میں پہلے نمبر سے تیسرے پر آ گئی ہے۔ سائبر سپیس پر حکمرانی کرنے والی گوگل کمپنی یومیہ 30 لاکھ وزیٹرز سے محروم ہو رہی ہے۔ الیکسا کے مطابق گوگل پچھلے آٹھ برسوں سے انٹرنیٹ سرچ انجن کی دنیا میں پہلے نمبر پر رہا ہے، لیکن صارفین کے حالیہ بائیکاٹ سے کمپنی پہلے، دوسرے اور اب تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔ 

اردن سے شائع ہونے والے ”الدستور“ اخبار نے گوگل کی گرتی ساکھ سے متعلق اپنی رپورٹ میں مغربی میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ ’متنازع مواد‘ بلاک نہ کرنے کے باعث انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں نے گوگل سرچ انجن کا متبادل تلاش کرنا شروع کردیا ہے۔ گوگل کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کا فائدہ کمپنی سے کاروباری مسابقت رکھنے والے سرچ انجن اٹھا رہے ہیں۔


پیر, ستمبر 24, 2012

ہو گیا ہے دل ٹھنڈا؟

تو پھر طے یہ ہوا کہ کوئی بھی ایک پاگل ہم سب کو پاگل کرسکتا ہے۔ عقل کو کوٹھے پر بٹھا سکتا ہے۔ دماغ کو انگلیوں پر نچا سکتا ہے۔

محبوبِ خدا موسٰی، عدمِ تشدد کے داعی عیسٰی اور رحمت العالمین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر وہ وہ کیا جا سکتا ہے جو جو نہ کرنے کے لیے منع فرمایا گیا ہے۔

میرے والد کہتے تھے گلی میں کتا بھونکے تو نظرانداز کرو۔ جواباً بھونکو گے تو وہ اور بھونکے گا۔ راہ گیر کتے کی بجائے تمہیں عجب نگاہوں سے دیکھیں گے۔ شکر ہے میرے والد بروقت انتقال کر گئے۔

کیا روزانہ لاکھوں مسلمان مساجد، مدارس اور گھروں میں سورہ فیل تلاوت نہیں کرتے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ کعبے کو ابرہہ کے لشکر سے آسمانی ابابیلوں نے بچایا تھا یا عبدالمطلب اور ان کے قبیلے نے؟ مگر اب خدا پر اتنے بھروسے کی کیا ضرورت؟ ہم تو خود ابابیلیں ہیں۔

جتنی توہینِ رسالت خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہوئی اس حساب سے تو مکہ اور مدینہ میں کھوپڑیوں کے مینار بن جانے چاہیے تھے۔ کم ازکم اس بڑھیا کی گردن تو اڑ ہی جانی چاہیے تھی جو روزانہ اپنے چوبارے سے آپ پر کوڑا پھینکتی تھی۔ کم ازکم طائف میں آپ پر پتھراؤ کرنے والوں کو دو پہاڑوں کے پاٹوں میں پیس دینے کی اجازت تو جبرائیل کو مل ہی جانی چاہیے تھی۔ کم از کم مدینے میں آپ کے قتل کی سازش کرنے والے یہودیوں کو دس روز کے اندر اندر شہر چھوڑنے کی مہلت تو بالکل نہیں دینی چاہیے تھی۔ کم ازکم فتحِ مکہ کے بعد ہندہ کو تو ذبح ہونا ہی چاہیے تھا۔ اور جو بدر اور احد کے حملہ آور اور قاتل زندہ بچ گئے تھے انہیں تو بالکل معاف نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مگر ہوا کیا؟ کیا پورے دورِ نبوت میں سوائے ایک ہجو گو یہودی کعب بن اشرف کی گردن اڑانے کے علاوہ کسی اور کے قتل کے فرمان پر عمل ہوا یا معاف کردیا گیا؟

کیونکہ حکم دے دیا گیا تھا کہ تمہارا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ باقی خدا پر چھوڑ دو۔ لہٰذا ابو لہب کے دونوں ہاتھ توڑنے اور گلے میں آگ کی رسی ڈالنے کا کام بھی خدا کو اپنے ہی ذمے لینا پڑا۔ 

مگر اتنا دل اور اس دل میں اتنا صبر تو صرف پیغمبر کا ہی حق ہے۔ اس کے وارثوں میں اتنی تاب و برداشت کہاں؟ لہٰذا اس پر کان دھرنے کی کیا پڑی کہ غصہ آدمی کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ بھوسے کو۔ یہ بات سمجھنے کی کیا جلدی ہے کہ غصے میں کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ۔ بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ۔

بھلا آصف زرداری، راجہ پرویز اشرف، رحمان ملک، مولانا فضل الرحمٰن، منور حسن، جنرل حمید گل، مولانا سمیع الحق، عمران خان، نواز شریف و شہباز شریف، غلام احمد بلور سمیت سب معزز و محترم عاشقانِ رسول دورِ رسالت کے یہ پہلو کیوں اجاگر کریں؟

کیونکہ نمازِ جمعہ کے بعد مردہ موبائیل فون پکڑے اپنے اپنے ڈرائنگ رومز اور حجروں میں ریموٹ کنٹرول پر چینلز بدل بدل کر عشق اور دیوانگی کی کشتی دیکھنے اور رات گئے پرامن رہنے کی اپیل کا جو لطف ہے وہ دھوپ میں سڑک پر نکل کے قیادت و تلقینِ امن کی بیگاری میں کہاں؟ اور ابھی 19 لاشوں کو بیچنے کا کام بھی تو آن پڑا ہے؟

ہستیاں مٹا آئے، اپنا گھر جلا آئے

آپ اپنے لوگوں کو خاک میں ملا آئے

ہوگیا ہے دل ٹھنڈا؟

چین مل گیا تم کو؟


ہفتہ, ستمبر 15, 2012

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر دستاویزی فلم

مصر کے اسلام پسند حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے بارے میں دستاویزی فلم بنائیں گے۔ یہ فلم امریکہ میں بنائی گئی ”معصوم مسلمان“ کے نام سے فلم کا جواب ہوگی جس کی وجہ سے عرب ممالک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مصر کی سلفی مذہبی جماعت ”النور“ کے ترجمان محمد نور نے صحافیوں کے سامنے کہا کہ یہ دستاویزی فلم آدھ گھنٹہ جاری ہوگی۔ اس کا نام ”حضرت محمد کے بغیر ہماری دنیا“ ہوگا۔ یہ فلم عربی زبان میں ہوگی، پھر انگریزی اور فرانسیسی میں اس کا ترجمہ کردیا جائے گا۔

مصر کے اسلام پسند حضرت محمد کی زندگی کے بارے میں دستاویزی فلم بنائیں گے

پیر, اگست 27, 2012

دہر ميں اسم محمد سے اجالا کر دے...

قصہ مختصر…عظيم سرور

رمضان کا مبارک مہينہ اس سال بہت سي حسين ياديں چھوڑ کر رخصت ہو گيا۔ ان يادوں ميں بہت اچھے ٹي وي پروگراموں کي ياديں بھي ہيں جو جيو ٹي وي پر پيش کيے گئے۔ ان پروگراموں ميں ايک سادہ سا پروگرام وہ تھا جس نے ميرے دل اور ذہن ميں بہت سے چراغ روشن کرديئے۔ يہ پروگرام اسم محمد کے رنگوں سے سجا ہوا تھا۔ اس پروگرام کو ديکھتے ہوئے مجھے ہر بار احساس ہوا کہ اس ميں قرآن پاک ميں اللہ تعالٰي کے فرمان ”ورفعنا لک ذکرک“ کي تفاسير پرنور رنگوں کي صورت ميں پيش ہورہي ہيں۔ ہر روز پروگرام ميں تين شرکاء اسم محمد کے ايک پہلو کو ذہن ميں رکھ کے خطّاطي کرتے اور خطوں اور رنگوں کے ذريعے اسم محمد کي رحمتوں، برکتوں اور عظمتوں کو اجاگر کرتے۔

جيو ٹي وي پر يہ پروگرام ڈاکٹر محمد طاہر مصطفٰي پيش کررہے تھے۔ ڈاکٹر طاہر نے اسماء النبي پر مقالہ لکھا اور لاہور کي ٹيکنالوجي يونيورسٹي کے اسلامي علوم کے شعبے سے ڈاکٹر کي ڈگري حاصل کي۔ ٹيلي وژن پر يہ پروگرام کرنے کا خيال ان کو اس طرح آيا کہ مغربي دنيا ميں شرپسند اور شيطان صفت لوگ پيغمبر اسلام کي بے ادبي کرتے ہوئے آئے روز اخباروں اور کتابوں ميں خاکے بناتے رہتے ہيں۔ ہم ان خاکوں پر احتجاج تو کرتے ہيں ليکن اس کا کوئي مثبت جواب نہيں ديتے۔ حال ہي ميں ايک شيطان صفت عورت نے انٹرنيٹ پر پيغمبر اسلام کي شخصيت پر خاکے بنانے کا مقابلہ کروايا ہے اور دنيا بھر کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اس خاص سائٹ پر اپنے يہ خاکے ارسال کريں۔ پہلے جو کام کسي ايک اخبار ميں کوئي ايک شخص کرتا تھا اب انٹرنيٹ پر وہ کام کئي افراد کررہے ہيں۔

اقبال نے کہا تھا، چراغ مصطفوي سے شرار بو لہبي ہميشہ جنگ جاري رکھے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے ميں بھي لوگ ان کے اور ان کے پيغام کے دشمن تھے۔ ان کو کبھي جادوگر، کبھي مجنون، کبھي شاعر، کبھي ابتر کہہ کر پکارتے تھے۔ اللہ تعالٰي ان کي ہر ہر بار ترديد فرماتا تھا اور قرآن کي آيات ميں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات اور نام کي سربلندي کا حکم ديتا تھا۔ اللہ تعالٰي نے نبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کرنے کا جو وعدہ فرمايا ہے وہ قيامت تک جاري رہے گا، اس عرصے ميں شيطان بھي اپني کارروائياں جاري رکھے گا ليکن اللہ کے بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شيدائي بھي اسم محمد کا پرچم بلند کرتے رہيں گے۔ اسم محمد کے اجالے سے دنيا کو منوّر کرتے رہيں گے اور اسم محمد کي رحمتوں کے رنگوں سے زمين کو سجاتے رہيں گے۔ جيو ٹي وي کا يہ پروگرام بھي اس کا حصّہ تھا۔ ڈاکٹر طاہر مصطفٰي نے خيال پيش کيا کہ ہم پاکستان کے لوگوں کو دعوت ديں کہ وہ آئيں اور نبي اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي شخصيت کے مختلف پہلوؤں کو ان کے ”اسماء“ کے رنگوں سے سجي خطّاطي کے ذريعے اجاگر کريں۔ بہت پہلے پاکستان کے نامور مصوّر صادقين نے سورة الرحمن کي آيات کي خطّاطي کرکے مصوّري ميں ايک باب کا اضافہ کيا تھا۔ ڈاکٹر طاہر نے کہا کہ کيوں نہ ہم اسمائے محمد کي خطاطي کے شہہ پارے پيش کرکے مغرب کے شيطان صفت لوگوں کے شر اور فساد کا مثبت اور پر نور جواب ديں۔ ان کا يہ خيال منظور ہوا اور رمضان کے پورے ماہ ميں انہوں نے ہر روز تين مصوّروں کو بلا کر ان سے يہ نور پارے تخليق کروائے۔

اس پروگرام کو ديکھتے ہوئے ميں نے ہر بار سوچا کہ اس ماہ رمضان کا يہ تحفہ جاري رہنا چاہئے، لوگ اپنے نور پارے ساري دنيا سے ارسال کريں گے تو پوري دنيا کو پيغام جائے گا کہ اسم محمد کا اصل رنگ و روپ کيا ہے۔ الفاظ اور اسماء کي تاثير ہوتي ہے، ان ميں طاقت ہوتي ہے اور ان کے ارتعاش ميں پيغام ہوتا ہے۔ پھر جب نام محمد کي قوّت اس خوبصورت انداز ميں ساري دنيا ميں پھيل جائے گي تو پھر رحمت کے اثرات مرتّب ہونے لگيں گے اور دنيا ميں سلامتي کي فضاء پيدا ہونا شروع ہو جائے گي۔ اس پروگرام ميں حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کرنے والے اپني عقيدتوں اور محبتوں کے رنگ بھي جگائيں گے اور پھر اقبال کا وہ پيغام عملي صورت اختيار کر جائے گا جس ميں انہوں نے کہا تھا:

قوّت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر ميں اسم محمد سے اجالا کردے