محبت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
محبت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار, اکتوبر 13, 2013

ننھا داعی

عبدالمالک مجاہد | دین و دانش

جمعہ کو نماز عصر کے بعد باپ بیٹے کا معمول تھا کہ وہ لوگوں کو دین کی دعوت دینے کے لیے اپنے گھر سے نکلتے، بازار کے وسط میں سڑک کنارے کھڑے ہو جاتے، آتے جاتے لوگوں میں اسلامی لٹریچر تقسیم کرتے۔ باپ مقامی ...مسجد میں خطیب ہیں ان کا گیارہ سالہ بیٹا گزشتہ کئی سالوں سے موسم کی شدت کی پروا کیے بغیراپنے والد کے ساتھ جاتا تھا۔

ایمسٹر ڈم ہالینڈ کا دارالحکومت ہے۔ یورپ کا یہ چھوٹا سا ملک بے حد خوبصورت ہے۔ یہاں بے حد و حساب پھول پیدا ہوتے ہیں۔ بارشیں کثرت سے ہوتی ہیں، اس لیے یہاں ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے۔ دودھ کی پیداوار اور اس کی پروڈکٹ کے اعتبار سے یہ ملک بڑا مشہور ہے۔ کتنی ہی مشہور زمانہ کمپنیاں یہاں سے خشک دودھ دنیا بھر میں سپلائی کرتی ہیں۔


اس روز موسم بڑا ہی خراب تھا۔ صبح سے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ یخ بستہ سردی کے ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے بارش بھی ہو رہی تھی۔ جمعہ کا دن تھا اور معمول کے مطابق باپ بیٹے کو لٹریچر تقسیم کرنا تھا۔ والد تھوڑی ہی دیر پہلے مسجد سے گھر پہنچے تھے۔ انہیں قدرے تھکاوٹ بھی تھی۔ بیٹے نے خوب گرم کپڑے پہنے اور اپنے والد صاحب سے کہنے لگا: ابا جان چلیے! لٹریچر تقسیم کرنے کا وقت ہو چکا ہے۔
مگر بیٹے! آج تو موسم بڑا خراب ہے۔ سردی کے ساتھ ساتھ بارش بھی ہو رہی ہے۔
میں تو تیار ہو گیا ہوں۔ بارش ہو رہی ہے تو پھر کیا ہے؟ یہاں تو بارش کا ہونا معمول کی بات ہے، بیٹے نے جواب دیا۔
بیٹے! موسم کا تیور آج ہم سے یہ کہہ رہا ہے کہ ہم آج گھر پر ہی رہیں، والد نے جواب دیا۔
ابا جان! آپ تو خوب جانتے ہیں کہ کتنے ہی لوگ جہنم کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمیں ان کو بچانا ہے۔ انہیں جنت کا راستہ دکھانا ہے۔ آپ کو تو خوب معلوم ہے کہ جنت کا راستہ نامی کتاب پڑھ کر کتنے ہی لوگ راہِ راست پر آگئے ہیں۔
والد: بیٹے! آج میرا اس موسم میں باہر جانے کا قطعاً ارادہ نہیں ہے کسی اور دن پروگرام بنا لیں گے۔
بیٹا: ابا جان! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آج میں اکیلا ہی ان کتابوں کو تقسیم کر آئوں۔ بیٹے نے اجازت طلب نگاہوں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ والد تھوڑی دیر تردد کا شکار ہوئے اور پھر کہنے لگے: میرے خیال میں تمہارے اکیلے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ کا نام لے کرتم بے شک آج اکیلے ہی چلے جائواور لوگوں میں کتابیں تقسیم کر آئو۔

والد نے بیٹے کو Road to Paradise ’’جنت کا راستہ‘‘ نامی کچھ کتابیں پکڑائیں اور اسے فی اما ن اللہ کہہ کر الوداع کہہ دیا۔ قارئین کرام! اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ہمارے اس ننھے داعی کی عمر صرف گیارہ سال ہے اسے بچپن ہی سے اسلام سے شدید محبت ہے اور وہ نہایت شوق سے دین کے کاموں میں پیش پیش رہتا ہے۔

ننھا داعی گھر سے نکلتا ہے، اس کا رخ بازار کی طرف ہے جہاں وہ کافی عرصہ سے لٹریچر تقسیم کرتا چلا آ رہا ہے۔ اب وہ بازار میں اپنی مخصوص جگہ پر کھڑا ہے وہ اپنی مسکراہٹ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ان کو سلام کرتا ہے۔ انہیں روکتا ہے۔ ان سے بات چیت کرتا ہے مسکراتے ہوئے ان سے کہتا ہے: دیکھیے سر!
میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے شدید محبت کرتا ہے۔ وہ انہیں کتاب پیش کرتا ہے، ان سے کہتا ہے: جناب! یہ فری ہے۔ یہ آپ کے لیے ہے۔ ان میں کچھ لوگ اس ننھے لڑکے سے کتاب لے لیتے ہیں کچھ شانے اچکا کر آگے نکل جاتے ہیں۔ کچھ کتابیں تقسیم کرنے کے بعد اب اس کا رخ قریبی محلے کی طرف ہے وہ بعض گھروں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے اگر کوئی باہر نکلتا ہے تو مسکراتے ہوئے اسے کتاب کا تحفہ پیش کرتا ہے۔ کوئی قبول کرلیتا ہے کوئی انکار کرتا ہے مگر وہ ان چیزوں سے بے پروا اپنے مشن میں لگا ہوا ہے۔

کتابیں تقسیم کرتے ہوئے کم و بیش دو گھنٹے گزر چکے ہیں۔ اب اس کے ہاتھوں میں آخری کتاب رہ گئی ہے۔ وہ اس سوچ میں تھا کہ یہ آخری کتاب کسے دی جائے۔ اس نے گلی میں آنے جانے والے کئی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انہیں کتاب دینے کی پیش کش کی، مگر انہوں نے تھینک یو کہہ کر انکار کیا اور آگے چل دئیے۔

گلی میں ایک جگہ جہاں بہت سارے گھر ایک ہی ڈیزائن کے بنے ہوئے ہیں وہ ان میں سے ایک گھر کا انتخاب کرتا ہے اور اس کے دروازے پر جا کر گھنٹی بجاتا ہے، کسی نے جواب نہ دیا۔ اس نے بار بار گھنٹی بجائی، مگر اندر مکمل خاموشی تھی۔ نجانے اسے کیا ہوا۔ یہ اس کے طریق کار کے خلاف تھا کہ وہ کسی کے دروازہ کو اس طرح بجائے مگر آج اس نے دروازہ کو زور زور سے بجانا شروع کر دیا زور سے کہا: کوئی اندر ہے تو دروازہ کھولو۔
 
 اندر بدستور مکمل خاموشی تھی۔ وہ مایوس ہونے لگا، اس نے کچھ سوچا اور آخری بار اپنی انگلی گھنٹی پر رکھ دی۔ گھنٹی بجتی رہی، بجتی رہی… اور آخر کار اسے اندر سے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ اس کے دل کی حرکت تیز ہونے لگی۔ چند لمحوں بعد آہستگی سے دروازہ کھلتا ہے۔
ایک بوڑھی خاتون چہرے پر شدید رنج و غم کے آثار لیے سامنے کھڑی تھی، کہنے لگی: ہاں میرے بیٹے! بتائو میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟
ننھے داعی نے مسکراتے ہوئے کہا: نہایت ہی معزز خاتون! اگر میں نے آپ کو بے وقت تنگ کیا ہے تو اس کے لیے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ دراصل میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا رب آپ سے حقیقی اور سچی محبت کرتا ہے۔ آپ کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ میں کچھ کتابیں تقسیم کر رہا تھا۔ میرے پاس یہ آخری کتاب بچی ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ کتاب میں آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ اس کتاب میں کیا ہے؟ یہ آپ کو پڑھنے کے بعد معلوم ہو گا، مگر اتنی بات میں کہے دیتا ہوں یہ کتاب آپ کو آپ کے حقیقی رب کے بارے میں بہت کچھ بتائے گی۔ اسے پڑھ کر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے پیدا کرنے والے نے ہمیں کن مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے اور ہم اپنے رب اپنے خالق اور مالک کو کیسے راضی کر سکتے ہیں۔ بوڑھی عورت نے کتاب وصول کی اور بچے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: جیتے رہو بیٹا، جیتے رہو۔

ننھے داعی کا آج کے لیے مشن مکمل ہو چکا تھا، اس کو جتنی کتابیں تقسیم کرنا تھیں وہ کر چکا تھا۔ اس کا رخ اب اپنے گھر کی طرف تھا۔ یوں بھی شام کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ وہ ہنستا مسکراتا اپنے گھر واپس آ گیا۔

ہفتہ کے ایام جلد ہی گزر گئے۔ آج ایک بار پھر جمعہ کا دن ہے۔ باپ بیٹا حسب معمول جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں ہیں۔ ننھے داعی کے والد نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ نماز پڑھانے کے بعد حسب معمو ل حاضرین سے کہا کہ آپ میں سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہو یا کوئی بات کہنا چاہتا ہو تو اسے بر سر عام ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ وہ اٹھ کر بیان کر سکتا ہے۔
حاضرین میں تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ آج کسی کے پاس کوئی خاص سوال نہیں۔ اچانک پچھلی صفوں پر بیٹھی ہوئی خواتین میں سے ایک بوڑھی خاتون کھڑی ہوتی ہے۔ وہ قدرے بلند آواز میں کہنا شروع کرتی ہے;

خواتین و حضرات! آپ لوگوں میں سے مجھے کوئی بھی نہیں پہچانتا نہ ہی آج سے پہلے میں کبھی اس مسجد میں آئی ہوں۔ میں تو گزشتہ جمعہ تک مسلمان بھی نہ تھی بلکہ میں نے اسلام قبول کرنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔

چند ماہ گزرے میرے خاوند کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد میں اس دنیا میں بالکل تنہا تھی۔ گزشتہ جمعہ کے روز موسم غیر معمولی ٹھنڈا تھا۔ وقفے وقفے سے ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں اس دنیا اور تنہائی سے تنگ آچکی تھی۔ دنیا میں میرا کوئی بھی نہ تھا۔ میں کتنے دنوں سے سوچ رہی تھی کہ میں خود کشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کیوں نہ کر لوں۔

جب میرا خاوند نہیں رہا تو میں اس دنیا میں رہ کر کیا کروں گی۔ بالآخر گزشتہ جمعہ کو میں نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ میں بازار گئی وہاں سے ایک نہایت مضبوط رسی خریدی۔ سیڑھی پر چڑھ کر چھت کے ایک گارڈر سے رسی کو باندھا۔ پھر میں نے رسی کے ایک سرے سے پھندا بنایا، اگلا مرحلہ یہ تھا کہ کرسی کو اپنے قریب کر کے مجھے اس پر پائوں رکھنا تھا اور گلے میں پھندا ڈال کر کرسی کو ٹھوکر مار دینی تھی۔ اس طرح پھندہ میرے گلے میں اٹک جاتا اور میری زندگی کا خاتمہ ہو جاتا۔ جوں ہی میں نے گلے میں رسی ڈالی، نیچے سے گھنٹی بجنے کی آواز آئی۔ پہلے تو میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی، مگر گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ میں نے سوچا میرا ملنے والا کون ہو سکتا ہے؟ مدتیں گزر گئی ہیں مجھے کوئی ملنے کے لیے کبھی نہیں آیا۔
میں نے فیصلہ کیا کہ میں گھنٹی کو نظر انداز کر دوں اور خود کشی کر لوں۔ ادھر گھنٹی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ کوئی غیر مرئی طاقت مجھ سے کہہ رہی تھی کہ دیکھو دروازے پر کون ہے؟

لیکن ایک سوال بار بار میرے ذہن میں آ رہا تھا اس دنیا میں تو میرا کوئی بھی نہیں پھر یہ گھنٹی دینے والا کون ہو سکتا ہے؟
اسی دوران کسی نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ میں نے سوچا چلو کوئی بات نہیں، میں خود کشی کے پروگرام کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کر دیتی ہوں چنانچہ میں نے رسی کو گردن سے اتارا، کرسی کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی اور آہستہ آہستہ نچلی منزل کی طرف چل دی۔

میں نے دروازہ کھولا تو ایک بہت پیارے اور خوبصورت بچے کو دیکھا جو مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، مجھے دیکھ کر اسے یوں لگ رہا تھا کہ اسے کوئی بڑی نعمت مل گئی ہو۔ میں نے آج تک اس عمر کے بچے کے چہرے پر اتنی خوبصورت مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ میں بتا نہیں سکتی کہ وہ بچہ مجھے کتنا پیارا لگا۔

اس کے منہ سے نکلنے والے کلمات نہایت پیارے اور دل کش تھے۔ جس انداز سے اس نے میرے ساتھ گفتگو کی وہ ناقابل فراموش تھی۔ اس نے مجھ سے کہا: اے معزز اور محترم خاتون! میں آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کو بتا دوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے حقیقی محبت کرتے ہیں اور آپ کا ہر لحاظ سے خیال رکھتے ہیں۔ اس نے ’’جنت میں جانے کا راستہ‘‘ نامی کتاب میرے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا: اسے اطمینان سے ضرور پڑھیے۔

وہ خوبصورت اور روشن چہرے والا بچہ جدھر سے آیا تھا ادھر ہی واپس چلا گیا مگر میرے دل میں شدید ہلچل پیدا کر گیا۔ میں نے دروازہ بند کیا اور نچلی منزل پر ہی بیٹھ کر اس کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھنے لگی۔ میں کتاب پڑھتی چلی گئی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ کتاب میرے لیے اور صرف میرے لیے لکھی گئی ہے۔ میں نے جیسے ہی کتاب ختم کی میرے ذہن میں انقلاب آچکا تھا۔ مجھے روشنی مل گئی تھی۔ میں اوپر والی منزل میں گئی۔ چھت سے رسی کھولی اور کرسی کو پیچھے ہٹا دیا۔ اب مجھے ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہ رہی تھی۔

معزز حاضرین! اس نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا; میں نہایت سعادت مند اور خوش بخت ہوں کہ میں نے اپنے حقیقی رب کو پہچان لیا ہے۔ میں نے فطرت کو پا لیا ہے۔ میں اب الحمد للہ! مسلمان ہو چکی ہوں۔ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ہدایت سے نوازا۔ کتاب کے آخری صفحہ پر اس مرکز کا ایڈریس دیا ہوا تھا میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کر سکوں، خصوصاً اس ننھے سے داعی کا جو میرے پاس نہایت ہی مناسب وقت پر آیا۔ بس یہ چند لمحوں کی با ت تھی اگر وہ نہ آتا تو میں جہنم کا ایندھن بننے ہی والی تھی۔

لوگ حیران و ششدر ہو کر بڑھیا کی بات سن رہے تھے، جب اس کی بات ختم ہوئی تو مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں شاید ہی کوئی آنکھ ہو جس میں آنسو نہ چھلک رہے ہوں۔ مسجد میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ امام مسجد منبر سے نیچے اترے، سامنے والی صف میں ان کا ننھا داعی بیٹا بیٹھا ہوا تھا۔

انہوں نے روتے ہوئے اسے اپنے بازوئوں میں لیا اور سینے سے لگا لیا۔ وہ کہہ رہے تھے: بیٹے! مجھے تم پر فخر ہے۔ تم صحیح معنوں میں ننھے داعی اور مجاہد ہو۔ مسجد میں شاید ہی کوئی شخص ہو جس کی یہ تمنا نہ ہو کہ کاش اس کا بیٹا بھی اس قسم کا داعی ہوتا!!!

جمعرات, ستمبر 12, 2013

میری پسند

روشن چہرہ، بھیگی زلفیں
کس کو کس پر ترجیح دوں

اک قصیدہ دھوپ کا لکھوں
ایک غزل برسات کے نام

===+===+===
ہم سے کب منسوب ہے رونق تمہاری بزم کی
ہم نہ ہوں گے تب بھی ہوگی
صبح تیری، شام تیری، رات تیری

===+===+===
یوں بھی تو راز کُھل ہی جائے گا اک دن ہماری محبت کا
محفل میں جو ہم کو چھوڑ کر سب کو سلام کرتے ہو

===+===+===
تم بھی ہو بیتے وقت کی مانند ہو بہو
تم نے بھی صرف یاد آنا ہے، آنا تو نہیں

===+===+===
چلو عہد محبت کی کی ذرا تجدید کرتے ہیں
چلو تم چاند بن جائو ہم پھر سے عید کرتے ہیں

===+===+===
اب ذرا گردش حالات نے آ گھیرا ہے
تم بہر حال میرے ہو، بس تمہیں یہی یاد نہیں

===+===+===
خاموش سی یہ بستی اور گفتگو کی حسرت
ہم کس سے کریں بات؟ کوئی بولتا ہی نہیں

===+===+===
بات ٹھری جو عدل پر واعظ
پھر یہ منت یہ التجا کیا ہے؟
چاند سا جب کہا
تو کہنے لگے
چاند کہئے نا
چاند سا کیا ہے؟

===+===+===
اس نے بُھلا دیا تو شکوہ نہ کر اے دل
دل میں بسنے والوں کو بڑے اختیار ہوتے ہیں

===+===+===
ابھی تو چند لفظوں میں سمیٹا ہے تجھے میں نے
ابھی میری کتابوں میں تیری تفسیر باقی ہے

===+===+===
نہیں معلوم مجھے تجھ سے محبت ہے کہ چاہت
دن بہ دن تیری یاد میں ٹوٹتا بکھرتا جا رہا ہوں

===+===+===
غضب آیا ستم ٹوٹا قیامت ہوگئی برپا
فقط اتنا ہی پوچھا تھا کہاں مصروف رہتے ہو

===+===+===
نہ پرواہ اسے میری
نہ میر اس کو ضرورت میری
میں گلی کا ایک مجنوں
وہ پردے دار لوگ

===+===+===
تیرا خیال درست کہ وہ خوب صورت ہیں
میر
مجھے حُسن یار سے نہیں
اپنے یار سے محبت ہے

===+===+===
میری تکمیل میں حصہ ہے تمہارا بھی بہت
میں اگر تم سے نہ ملتا تو ادھورا رہتا

===+===+===
اک وہ کہ جنہیں یاد نہیں قصہ ماضی
اک ہم کہ ابھی پہلی ملاقات نہیں بھولے

===+===+===
نہ کمزور پڑا میرا تم سے تعلق
اور نہ کہیں اور ہوئے سلسلے مضبوط
یہ وقت کی سازش ہے
کبھی تم مصروف تو کبھی ہم مصروف

===+===+===
سامنے منزل تھی اور پیچھے اس کی آواز
رکتا تو سفر جاتا چلتا تو بچھڑ جاتا

===+===+===
تیری نگاہ ناز میں میرا وجود بے وجود
میری نگاہ شوق میں تیرے سوا کوئی نہیں

===+===+===
کاش میں پلٹ جائوں بچپن کی وادی میں
نہ کوئی ضرورت تھی نہ کوئی ضروری تھا

===+===+===
تیری آنکھوں کو دیکھنے والے
سنا ہے اور کوئی نشہ نہیں کرتے

===+===+===
تم یاد کرو یا بھول جائو تمہاری مرضی
تم یاد تھے، تم یاد ہو، تم رہو گے
یہ یاد رکھنا
===+===+===

بدھ, اگست 08, 2012

محبت کی انوکھی داستان

جاوید اور ریحانہ (کرسٹینا) 2006 میں ملے اور 2010 میں ان کی شادی ہوئی
جاوید اور کرسٹینا کی محبت اور شادی کی داستان کسی فلم سے کم نہیں۔ جاوید بھارت کی گلیوں اور فٹ پاتھوں پر پلے بڑھے لیکن انہیں امریکی سیاح کرسٹینا سے محبت ہو گئی۔ دونوں کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ امریکی شہر اٹلانٹا میں رہتے ہیں۔

اب جاوید نیند میں بھی انگریزی میں ہی بڑبڑاتے ہیں جس سے ان کی بیوی کو لگتا ہے کہ وہ اپنے نئے ملک سے ہم آہنگ ہورہے ہیں۔

لیکن وہ کہتی ہیں ’وہ آج بھی جاوید ہے اور آج بھی بھارتی ہے‘۔

جاوید کا تعلق بھارتی ریاست بہار کے مونگیر ضلع سے ہے۔ وہ بچپن میں ہی گھر سے بھاگ کر پہلے ممبئی اور پھر دلی گئے جہاں انہیں نشے اور جوئے کی عادت پڑ گئی۔ اس وقت انہیں آوارہ بچوں کی سماجی آباد کاری کے لیے کام کرنے والے ’سلام بالک‘ نامی ٹرسٹ نے بچایا۔

جاوید کی ملاقات کرسٹینا سے پہلی بار سنہ دوہزار چھ میں اس وقت ہوئی جب کرسٹینا نے سلام بالک ٹرسٹ کے زیرِ انتظام دہلی کی سیر کے لیے آئیں۔

دو سال قبل کرسٹینا اور جاوید کی شادی ہوچکی ہے اور جاوید اٹلانٹا میں فارمیسی کے کورس میں داخلہ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔

کرسٹینا کہتی ہیں کہ میں جاوید کی اس وقت مدد کرتی ہوں جب وہ انگریزی میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر پاتے ہیں۔

جاوید اور کرسٹینا کی شادی کی تصاویر آج سلام بالک ٹرسٹ کے دفاتر میں لگی ہوئی ہیں۔ وہاں لوگ جاوید کو بہت محبت بھرے الفاظ میں یاد کرتے ہیں اور جاوید اور کرسٹینا کی محبت کی داستانیں سناتے ہیں۔

ٹرسٹ میں کام کرنے والے ایک کارکن اے کے تیواری کا کہنا ہے ’وہ ایک بہت خوش مزاج بچہ تھا، وہ اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہتا تھا، وہ دہلی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ایک سماجی کارکن بن گیا۔ اور پھر اس کی کرسٹینا سے ملاقات ہوئی‘۔

یہ محبت کی داستان دہلی میں پہاڑ گنج کے علاقے میں شروع ہوئی جہاں جاوید ایک سیاحی رہنماء کے طور پر کام کررہے تھے۔ وہ سیاحوں کو اپنی کہانی سنایا کرتےکہ وہ کیسے نشے کے عادی ہوتے تھے اور کس طرح سلام بالک نے انہیں ان لعنتوں سے بچایا۔

جاوید کی کہانی سننے والوں میں ایک کرسٹینا بھی تھیں۔

بعد میں کرسٹینا نے ٹرسٹ میں رضاکارانہ طور پر کام کیا اور وہ بھاگے ہوئے بچوں کے لیے تصویریں بناتیں، بچوں کو کہانیاں سناتیں اور ان کو لکھنا سکھاتیں۔ کرسٹینا کے اپنے والدین طلاق شدہ تھے جس کی وجہ سے انہیں پیار کی اہمیت کا اندازہ تھا۔

جاوید کی کہانی سن کر کرسٹینا کہتی کہ یہ غیرمعمولی کہانی ہے کیونکہ امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ کرسٹینا کو جاوید کی مسکراہٹ اور اس کی آنکھوں کی چمک بے حد پسند تھی۔

امریکہ واپس آنے کے ایک سال بعد کرسٹینا نے لکھا کہ معلوم نہیں کہ وہ جاوید کو یاد بھی ہیں یا نہیں۔ یاد دہانی کے لیے انہوں نے لکھا کہ میں وہی ہوں جو ایک کالے کتے کے ساتھ بچوں کو کھیلاتی تھی۔ 

انھوں نے لکھا کہ حالانکہ میں تم بہت دور ہوں لیکن میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میں زندگی میں تم جیسے کسی ایسے آدمی سے نہیں ملی (امریکہ میں بھی نہیں) جس کے لیے میرے دل میں اتنی جگہ ہو۔۔۔

جاوید نے اس ای میل کو کئی بار پڑھا۔ اسے وہ لڑکی بخوبی یاد تھی لیکن اسے اس بات کا احساس تھا کہ کہاں وہ گلیوں اور سڑکوں والا اور کہاں وہ پردیسی!

جاوید نے جواب میں لکھا کہ میں تو ’کچھ بھی نہیں مگر تم تو سب کچھ ہو‘۔

جاوید اور ریحانہ (کرسٹینا) اب امریکی شہر اٹلانٹا میں رہ رہے ہیں
اس کے بعد کرسٹینا نو بار بھارت آئیں اور جاوید سے ملتی رہیں۔ جاوید نے اپنے والدین کو کرسٹینا کے بارے میں بتایا تو وہ ان سے ملنے دہلی آئے۔

دونوں کی شادی جاوید کے گاؤں میں سنہ دو ہزار دس میں ہوئی۔ کرسٹینا نے شادی پر لال ساڑی پہنی اور ہاتھوں میں مہندی لگائی۔ انہوں نے اپنا نام تبدیل کرکے ریحانہ خاتون رکھا اور کئی دنوں تک جشن کا ماحول رہا۔

جب کرسٹینا کو پتہ چلا کہ جاوید کے والدین کی شادی چالیس سال پرانی ہے تو اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس کی خواہش ہے کہ اس کی بھی شادی اسی طرح قائم رہے۔

کرسٹینا کے والد امریکی ایئر لائن ڈلٹا میں پائلٹ ہیں اور وہ جاوید سے ملنے دو بار ہندوستان آچکے ہیں۔ شادی کے بعد کرسٹینا نے کہا کہ وہ جاوید کو امریکہ میں قسمت آزمائی کا ایک موقعہ دیں اور اگر انہیں پسند نہیں آیا تو وہ واپس بھارت آجائیں گے۔

کرسٹینا نے کہا سب اتنا اچھا ہوا کہ یقین نہیں آتا۔ ’یہ محبت کی عجیب داستان ہے، لوگ ہمیں اس پر کتاب لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں‘۔

محبت کی انوکھی داستان