جمعہ, اگست 03, 2012

لندن اولمپکس: پہلا طلائی تمغہ چین کی سلنگ یی نے جیتا

لندن اولمپکس 2012 میں پہلا طلائی تمغہ جیتنے والی چینی خاتون، سلنگ یی
اولمپک 2012ء میں پہلا طلائی تمغہ چین کی 19 سالہ خاتون نشانہ باز سلنگ یی نے اپنے نام کیا۔ سلنگ یی نے 502.9 اسکور کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی ، پولینڈ کی سلویا بوگاکا نے 502.2 اسکور کرکے چاندی ، جب کہ چین ہی کی ڈان لو تیسری پوزیشن کے ساتھ کانسی کے تمغے کی حقدار ٹھہریں۔

لندن اولمپکس میں شریک پاکستان کی پہلی خاتون پیراک انم بانڈے ہفتے کو ہونے والے 400 میٹر انفرادی مقابلوں میں اگلے راؤنڈ تک کوالی فائی کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ انم بانڈے 35 پیراکوں میں سب سے آخری نمبر پر رہیں اور وہ واحد پیراک تھیں جنھوں نے فاصلہ پانچ منٹ سے زیادہ وقت میں طے کیا۔ تاہم، وہ 400 میٹر انفرادی مقابلوں میں اپنے قومی کارڈ کو بہتر بنانے میں کامیاب رہیں۔

پاکستان 2012ء اولمپکس میں ہاکی، سومنگ، ایتھلیٹکس اور نشانہ بازی کے مقابلوں میں حصہ لے گا۔ پاکستان ہاکی ٹیم سہیل عباس کی سربراہی میں اپنا پہلا میچ 30 جولائی کو سپین ، یکم اگست کو ارجنٹینا، تین اگست کو برطانیہ، پانچ اگست کو جنوبی افریقہ اور سات اگست کو آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گی۔

ایتھلیٹکس کے 100 میٹر مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی لیاقت علی اوررابعہ عاشق کررہے ہیں، جب کہ پیراکی کی 100میٹر فری سٹائل کیٹگری میں اسرار حسین اور نشانے باز خرم انعام پاکستان کی طرف سے لندن 2012ء میں حصہ لیں گے۔

سنہ 2008 میں چین کے شہر بیجنگ میں ہونےوالے اولمپکس میں میزبان ملک نے100 میڈلز کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی تھی ، جب کہ امریکہ 36طلائی تمغوں کے ساتھ دوسری، روس 23 تمغوں کے ساتھ تیسری اور برطانوی اولمپک دستے نے 19 طلائی تمغوں کے ساتھ چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔

ہیڈنگلے ٹیسٹ: جنوبی افریقہ کا عمدہ آغاز

جنوبی افریقہ نے انگلینڈ کے خلاف ہیڈنگلے میں جاری دوسرے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن چائے کے وقفے پر تین وکٹوں کے نقصان پر ایک سو تریسٹھ رنز بنا لیے۔

جمعرات کو شروع ہونے والے ٹیسٹ میں انگلینڈ نے ٹاس جیت کر جنوبی افریقہ کو پہلے بیٹنگ کرنے کی دعوت دی۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے کپتان گریم سمتھ اور ایلورو پیٹرسن نے اننگز کا آغاز کیا اور پر اعتماد بیٹنگ کرتے ہوئے ٹیم کا مجموعی سکور چوراسی رنز تک پہنچا دیا۔ اسی دوران ایلورو پیٹرسن نے اپنی نصف سنچری بنائی۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے کپتان گراہم سمتھ نے باون، ہاشم آملہ نے نو جبکہ کیلس نے انیس رنز بنائے۔ انگلینڈ کی جانب سے اینڈرسن اور بریسنن نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔

ہینڈنگلے ٹیسٹ میں انگلینڈ کی ٹیم میں سپنرگرہیم سوان کی جگہ فاسٹ بولر سٹیفن فِن کو شامل کیا گیا ہے۔ انگلینڈ نے نوجوان بیٹسمین جیمز ٹیلر کو روی بوپارا کی جگہ ٹیم میں شامل کیا ہے۔ روی بوپارا نے’ذاتی وجوہات‘ کی وجہ سے ٹیم میں شریک ہونے سے انکار کیا تھا۔

واضح رہے کہ جنوبی افریقہ کی ٹیم ہینڈنگلے ٹیسٹ جیت کر ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر آسکتی ہے۔ تاہم برطانوی ٹیم کے کپتان اینڈریو سٹراس کا کہنا ہے کہ ان کی پوری توجہ ہیڈنگلے ٹیسٹ جیتنے پر ہوگی۔

انگلینڈ کی ٹیم اس وقت ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر ہے۔
 

’وہ مجھے قتل کر دیتا تو بہتر ہوتا‘

اللہ رکھی نے بتیس سال نقاب میں گزار دیے
پاکستان میں ایک خاتون کو ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ کئی سال ہلاک رہنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئی ہیں۔ بتیس سال پہلے اللہ رکھی کے شوہر نے ان کی ناک کاٹ کر چہرہ بگاڑ ڈالا تھا جو کہ اب پاکستان کے ایک معروف ڈاکٹر نے آپریشن کرکے ٹھیک کردی ہے۔ بی بی سی کی اورلا گیورن نے وسطی پنجاب میں ان سے ملاقات کی۔

پتلی دبلی اور پر عزم سی اللہ رکھی کو اپنے خاندان کی خوبصورت ترین لڑکی مانا جاتا تھا۔ مگر تین دہائیوں پہلے دو بچوں کی اِس ماں نے جب ایک روز کھیتوں کا رخ کیا تو ان کے ذہن میں صرف ایک خیال تھا ۔۔۔ فرار۔۔۔

اُس نے ابھی ابھی اپنے شوہر غلام عباس سے مار کھائی تھی۔

بھاگتے بھاگتے وہ اپنے گاؤں، ٹھٹا پیر، کی بیرونی حدود تک پہنچ پائی تھی کہ غلام عباس اس تک پہنچ گیا۔ منٹوں میں مٹی کا رنگ اللہ رکھی کے خون سے لال ہو گیا۔ غلام عباس نے اس کی ناک کاٹ دی تھی۔

آج بھی اتنی ہی پر جوش شخصیت کی مالک اللہ رکھی مجھے چاول کے کھیتوں کے کنارے اس مقام پر لے گئی جہاں اس کے حسن کو اس سے چھینا گیا تھا۔

’اس نے مجھے بیٹھ کر اس کی بات سننے کو کہا۔ میں نے اس کو جواب میں کہا کہ اس نے میری زندگی روزانہ مار پیٹ کر تباہ کردی ہے اور میں اپنے والدین کے گھر بھاگ جانا چاہتی ہوں۔ مجھے گرا کر وہ میرے سینے پر بیٹھ گیا، جیب سے ایک اُسترا نکالا اور میری ناک الگ کر ڈالی۔ اس وقت میری آنکھوں میں خون بہنے لگا۔ اس کے بعد اس نے میری ایڑھی پر ایک لمبا زخم تراشا‘۔

خون میں لت پت اللہ رکھی کو ہسپتال کی بجائے گھر لے جایا گیا تاکہ وہ پولیس میں شکایت نہ کرسکے۔ بعد میں غلام عباس کو گرفتار کرلیا گیا اور اس نے چھ ماہ سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ اپنے بچوں کی خاطر اللہ رکھی نے اس کی رہائی کی منظوری تو دے دی مگر گھر آتے ہی غلام عباس نے اللہ رکھی کو طلاق دے کر گھر سے نکال دیا۔

اس وقت اس ملنسار لڑکی نے اپنی زندگی کو ایک نیا رخ دیا اور خود کو تنہائی میں دھکیل دیا۔ وہ اپنے بچوں سے بھی اپنا چہرہ چھپاتی تھی۔ ’میں نے بتیس سال اپنا چہرہ چھپائے گزار دیے۔ اگر وہ میرے ناک کی بجائے میرا گلا کاٹ دیتا تو شاید بہتر ہوتا‘۔

’میں اپنا نقاب نہیں اٹھاتی تھی کیونکہ خود کو دیکھنا برداشت نہیں ہوتا تھا۔ نہ شادیوں پر جا سکتی تھی نہ جنازوں پر۔ بچے مجھے دیکھ کر ڈرتے تھے اور مجھے لگتا تھا کہ میں لاش ہوں‘۔

آج کل ایک ڈوپٹہ اس کا سر تو ڈھانپے ہوئے ہے مگر اس کے چہرے پر نقاب نہیں۔ ان کے چہرہ پر مسکراہٹ اور ماتھے پر آپریشن کی وجہ سے ایک نشان ہے۔

مارچ میں پروفیسر حامد حسن نے ان کا مفت علاج کیا اور ان کی پسلیوں سے ان کی ناک دوبارہ بنائی۔

اللہ رکھی کے جسمانی اور ذہنی زخم تو بھر رہے ہیں مگر ان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ 

غلام عباس کو اپنے کیے پر کوئی دکھ نہیں
وہ آج پھر غلام عباس کی چھت تلے آگئیں ہیں جس نے ان کے ساتھ یہ ظلم کیا تھا۔ جب اللہ رکھی مجھے اپنی کہانی سنا رہی تھیں تو وہ برآمدے میں بیٹھا سن رہا تھا۔ اس کی عمر کے آثار نظر آتے ہیں مگر پچھتاوے کے نہیں۔

جب میں نے ان سے بات کی تو اس کے جوابات فوری خوفناک تھے۔

غلام عباس کہتے ہیں ’میں اب اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ بہتر ہے کہ آپ نہ پوچھیں۔ یہ سب اس کا ہی قصور ہے۔ جو کچھ ہوا اس کے جرائم کی وجہ سے ہوا۔ یہ سب بغیر وجہ کے نہیں ہوا‘۔ اللہ رکھی کے مبینہ جرائم کی تفصیلات غلام عباس دینا نہیں چاہتے۔

اللہ رکھی ان کے جوابات سنتی ہیں مگر کچھ کہتی نہیں۔ ’میں نے کبھی اس کو سزا نہیں دی۔ یہ کام میں نے خدا پر چھوڑ دیا ہے‘۔
 
اللہ رکھی کے بیٹے اظہر کا پیار انہیں غلام عباس کے گھر واپس لے آیا ہے
اللہ رکھی کا دھیان ایک مزدور پر لگا ہے جو کہ تپتی دھوپ میں قریب ہی ایک دیوار کھڑی کررہا ہے۔ یہ شخص اس کا بیٹا اظہر ہے جسے شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ اظہر کا خیال ہی اللہ رکھی کو واپس اس گھر میں لایا ہے۔

’مجھے یہاں رہنا بالکل اچھا نہیں لگتا، مجھے لگتا ہے میں ہر لمحہ مر رہی ہوں مگر میرا بیٹا چاہتا ہے کہ میں اس کے پاس رہوں۔ میری اولاد میرے لیے سب کچھ ہے۔ مجھے اپنے بیٹے اور پوتے کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔

اور اس ہمت نہ ہارنے والی خاتون کے تو اور بھی عزائم ہیں۔۔۔ کہتی ہیں کہ وہ اپنی ناک چھدوانا چاہتی ہیں۔

’وہ مجھے قتل کر دیتا تو بہتر ہوتا‘

صحرائے تھر کا خوب صورت پرندہ ’مور‘ ۔۔ موت کے ہاتھوں بے بس

صوبہ سندھ کا صحرائے تھر بنجر ہونے کے باوجود اپنے آپ میں بہت دلکش ہے۔ خاص کر یہاں کے حیوانات۔ اوران حیوانات میں بھی سرفہرست ہے مور۔
مگر گذشتہ کچھ عرصے سے صحرائے تھر کے مور موت کے شکنجے میں گرفتار ہیں اور پچھلے انیس بیس دنوں میں 100 سے زائد مور ہلاک ہوچکے ہیں۔ ابتدا میں تو پتہ ہی نہیں چلا کہ ماجرہ کیا ہے پھر معلوم ہوا کہ ان میں ”رانی کھیت“ نامی بیماری پھوٹ پڑی ہے۔ اب سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ کہیں وہ اس صحرا سے ختم ہی نہ ہوجائیں۔

موروں کی ہلاکت کی سب سے پہلی اطلاع ملی تھر کے علاقے مٹھی سے۔ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے کئی مور ہلاک ہوگئے۔ محکمہ جنگلی حیات کو اطلاع ملی تو انہوں نے کئی دن تحقیق میں گزار دیئے۔ اسی دوران کچھ ماہرین نے بتایا کہ موروں کو رانی کھیت کا جان لیوا مرض لاحق ہوگیا ہے۔

ابھی مٹھی میں معاملہ سنبھالا ہی نہیں تھا کہ یکے بعد دیگرے علاقے کی دس تحصیلوں سے بھی موروں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہونے لگیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مٹھی کے دیہاتوں کے بعد اب یہ بیماری ڈیپلو اور ننگر پارکر تحصیلوں تک پہنچ چکی ہے جہاں کے دس دیہات میں قریب ڈیڑھ درجن مور ہلاک ہوچکے ہیں۔

ادھر محکمہ وائلڈ لائف حکام نے متاثرہ دیہاتوں میں ادویات کی فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ متاثرہ دیہاتوں میں وائلڈ لائف کی ٹیمیں اور ادویات ضرورت سے کم ہیں۔

محکمہ وائلڈ لائف ذرائع کے مطابق اس بیماری کا دورانیہ 2 سے 18 دن تک کا ہوتا ہے اس لئے مٹھی سمیت جن علاقوں میں پہلے مرحلے میں ہی یہ بیماری پھیلی تھی وہاں اب ہلاکتوں میں واضح کمی آرہی ہے۔

اس بیماری نے وباء کی شکل اختیار کرکے اسلام کوٹ اورنوکوٹ کے مختلف دیہاتوں کو گھیرا ہوا ہے جہاں سے اب تک ایک درجن سے زائد موروں کی ہلاکت کی اطلاعات مل چکی ہیں جبکہ پورے تھر میں مجموعی تعداد ایک سو سے بڑھ چکی ہے۔

محکمہ پولٹری کی جانب سے پورے ضلع میں بھیجی جانے والی چارٹیموں میں صرف ایک ہی ماہر ڈاکٹر شامل ہے۔ صوبائی وزیروائلڈ لائف دیا رام اسرانی نے اپنے دورہ تھر کے دوران میڈیا کو یہ بتایا تھا کہ تھر میں اب تک ہلاک ہونے والے موروں کی تعداد صرف 11 ہے، جسے مقامی آبادی نے مسترد کردیا تھا۔

مقامی افراد کے مطابق صرف ببوگاؤں میں 33 سے زیادہ مور مرچکے ہیں۔ صوبائی وزیر نے مور بچاؤ مہم مزید تیز کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

سرکاری اعداد و شما ر کے مطابق تھرپارکر میں پائے جانے والے موروں کی تعداد 7 ہزارسے زیادہ ہے۔ دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ جنگل میں آزاد گھومنے والے موروں کو صرف چار ٹیموں کے ذریعے دوا پہنچانا مشکل کام ہے۔ اگر فوری طورپر بڑے پیمانے پر مہم شروع نہ کی گئی تو موروں کی نسل ختم ہوجائے گی۔

اس وقت بھی تھرپا رکر کے پیراکی، تھرپارکر ضلع کی یونین کونسل کلوئی، بھٹارو، مہرانو اور کھیتلاری میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہے اور گاؤں خان محمد لاشاری، بابن کوہ اور گرڑابہ کے مور بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ اگر فوری طور پر مور بچاؤ مہم میں تیزی نہ لائی گئی تو صحرائے تھر میں بڑے پیمانے پر مور ہلاک ہوسکتے ہیں۔


صحرائے تھر کا خوب صورت پرندہ ’مور‘ ۔۔ موت کے ہاتھوں بے بس

زہریلی چائے بدستور معمہ، نرسیں ہسپتال سے فارغ

سول ہسپتال کراچی کی ان گیارہ عیسائی نرسوں کو علاج کے بعد اسپتال سے فارغ کردیا گیا ہے جن کے بارے کہا جارہا ہے کہ انہیں رمضان میں سرعام کھانے پینے پر سزا کے طور پر کسی نے چائے میں زہر ملا کر پلا دیا تھا۔ تاہم پاکستان کی عیسائی برادری کے راہنماؤں اور متعدد مسیحی تنظیموں نے اس واقعے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے واقعے کی شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کرانے کا پرزور مطالبہ کیا ہے۔

واقعہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب اس وقت پیش آیا جب یہ نرسیں ہاسٹل کے کمرے میں چائے پی رہی تھیں کہ چائے پیتے ہی ان کی حالت خراب ہوگئی جس پر انہیں فوری طور پر ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرایا گیا۔ ان میں سے تین نرسوں کی حالت زیادہ خراب تھی جس کے سبب انہیں آئی سی یو آئی سی یو منتقل کرنا پڑا۔

متاثرہ نرسوں کے اہل خانہ اور مسیحی تنظیموں نے اس شبہے کا اظہار کیا ہے کہ انہیں عیسائی ہونے کے سبب جان بوجھ کر زہر دیا گیا اور زہر دینے کی وجہ صرف یہ ہے کہ رمضان میں نرسوں کے کھلے عام کھانے پینے پر سخت اعتراض کیا گیا تھا۔

متاثرہ نرسوں میں سے ایک نرس نے بیان دیا ہے کہ چائے اس کی ایک ساتھی نے بنائی تھی جسے پیتے ہی ان کی حالت خراب ہوگئی تاہم ہسپتال کے سینیئر عہدیداروں کا کہنا ہے کہ چائے ان نرسوں سے ازخود بنائی تھی۔

پولیس سرجن کمال شیخ اور سول ہسپتال کے اسسٹنٹ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شکیل ملک واقعے کی مختلف زاویوں سے تحقیق کررہے ہیں۔ تحقیق کے دوران اس نکتے پر سب سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے کہ کہیں واقعہ مذہبی رقابت کا نتیجہ تو نہیں۔

ادھر میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر قرار عباسی نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے تمام نرسوں کا طبی معائنہ کرنے کے بعد واقعے کی اطلاع عیدگاہ تھانے میں جمع کرادی ہے جس پر پولیس مزید کارروائی کرے گی۔

ڈاکٹر قرار عباسی نے بتایا کہ زہریلی چائے کے نمونے، برتن اوردیگر ساز و سامان کراچی کے نجی ہسپتال آغا خان کی لیبارٹری کو کیمیائی چانچ پڑتال کی غرض سے بھجوادیئے ہیں۔ رپورٹ جلد ہی متوقع ہے۔

واقعے پر رکن پارلیمنٹ سلیم کھوکھر نے اظہار افسوس اوررمضان میں سر عام کھانے پینے کی سزا کے طور پر نرسوں کو زہر دینے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ رات کے وقت پیش آیا تھا اور رات میں کسی کا روزہ نہیں ہوتا۔ تاہم انہوں نے میڈیا کو بریفنگ کے دوران کہا کہ سرکاری حکام اور پولیس کی مشترکہ ٹیموں کے ذریعے اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہئے۔

دوسری جانب واقعے پر عیسائی برادری میں خاصا غم و غصہ ہے۔ اس حوالے سے مسیحی برادری کے افراد کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ بھی کرچکے ہیں۔ کچھ راہنماؤں کی جانب سے سول ہسپتال کی انتظامیہ پر واقعے کو چھپانے کا بھی الزام لگایا گیا ہے تاہم ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سعید قریشی نے واقعے میں ہسپتال کے کسی بھی فرد کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔

مسیحی راہنما جاوید مائیکل کا کہنا ہے کہ واقعے کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسیحی برادری مسلمانوں کے عقائد کا احترام کرتی ہے اور پورے رمضان کھلے عام کھانے پینے سے اجتناب برتی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے عہدیدار عبدالحئی نے بھی واقعے کی مذمت کی ہے۔

زہریلی چائے بدستور معمہ، نرسیں ہسپتال سے فارغ

اولمپکس 2012ء: آج پاکستان ہاکی ٹیم کا مقابلہ برطانوی ٹیم سے ہوگا

* آج پاکستان ہاکی ٹیم کا مقابلہ برطانیہ کی ہاکی ٹیم سے ہوگا، دونوں ٹیموں کے پوائنٹس برابر ہیں لیکن برطانیہ پوائنٹس ٹیبل پر دوسرے نمبر پر ہے۔