جمعہ, اگست 03, 2012

’وہ مجھے قتل کر دیتا تو بہتر ہوتا‘

اللہ رکھی نے بتیس سال نقاب میں گزار دیے
پاکستان میں ایک خاتون کو ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ کئی سال ہلاک رہنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئی ہیں۔ بتیس سال پہلے اللہ رکھی کے شوہر نے ان کی ناک کاٹ کر چہرہ بگاڑ ڈالا تھا جو کہ اب پاکستان کے ایک معروف ڈاکٹر نے آپریشن کرکے ٹھیک کردی ہے۔ بی بی سی کی اورلا گیورن نے وسطی پنجاب میں ان سے ملاقات کی۔

پتلی دبلی اور پر عزم سی اللہ رکھی کو اپنے خاندان کی خوبصورت ترین لڑکی مانا جاتا تھا۔ مگر تین دہائیوں پہلے دو بچوں کی اِس ماں نے جب ایک روز کھیتوں کا رخ کیا تو ان کے ذہن میں صرف ایک خیال تھا ۔۔۔ فرار۔۔۔

اُس نے ابھی ابھی اپنے شوہر غلام عباس سے مار کھائی تھی۔

بھاگتے بھاگتے وہ اپنے گاؤں، ٹھٹا پیر، کی بیرونی حدود تک پہنچ پائی تھی کہ غلام عباس اس تک پہنچ گیا۔ منٹوں میں مٹی کا رنگ اللہ رکھی کے خون سے لال ہو گیا۔ غلام عباس نے اس کی ناک کاٹ دی تھی۔

آج بھی اتنی ہی پر جوش شخصیت کی مالک اللہ رکھی مجھے چاول کے کھیتوں کے کنارے اس مقام پر لے گئی جہاں اس کے حسن کو اس سے چھینا گیا تھا۔

’اس نے مجھے بیٹھ کر اس کی بات سننے کو کہا۔ میں نے اس کو جواب میں کہا کہ اس نے میری زندگی روزانہ مار پیٹ کر تباہ کردی ہے اور میں اپنے والدین کے گھر بھاگ جانا چاہتی ہوں۔ مجھے گرا کر وہ میرے سینے پر بیٹھ گیا، جیب سے ایک اُسترا نکالا اور میری ناک الگ کر ڈالی۔ اس وقت میری آنکھوں میں خون بہنے لگا۔ اس کے بعد اس نے میری ایڑھی پر ایک لمبا زخم تراشا‘۔

خون میں لت پت اللہ رکھی کو ہسپتال کی بجائے گھر لے جایا گیا تاکہ وہ پولیس میں شکایت نہ کرسکے۔ بعد میں غلام عباس کو گرفتار کرلیا گیا اور اس نے چھ ماہ سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ اپنے بچوں کی خاطر اللہ رکھی نے اس کی رہائی کی منظوری تو دے دی مگر گھر آتے ہی غلام عباس نے اللہ رکھی کو طلاق دے کر گھر سے نکال دیا۔

اس وقت اس ملنسار لڑکی نے اپنی زندگی کو ایک نیا رخ دیا اور خود کو تنہائی میں دھکیل دیا۔ وہ اپنے بچوں سے بھی اپنا چہرہ چھپاتی تھی۔ ’میں نے بتیس سال اپنا چہرہ چھپائے گزار دیے۔ اگر وہ میرے ناک کی بجائے میرا گلا کاٹ دیتا تو شاید بہتر ہوتا‘۔

’میں اپنا نقاب نہیں اٹھاتی تھی کیونکہ خود کو دیکھنا برداشت نہیں ہوتا تھا۔ نہ شادیوں پر جا سکتی تھی نہ جنازوں پر۔ بچے مجھے دیکھ کر ڈرتے تھے اور مجھے لگتا تھا کہ میں لاش ہوں‘۔

آج کل ایک ڈوپٹہ اس کا سر تو ڈھانپے ہوئے ہے مگر اس کے چہرے پر نقاب نہیں۔ ان کے چہرہ پر مسکراہٹ اور ماتھے پر آپریشن کی وجہ سے ایک نشان ہے۔

مارچ میں پروفیسر حامد حسن نے ان کا مفت علاج کیا اور ان کی پسلیوں سے ان کی ناک دوبارہ بنائی۔

اللہ رکھی کے جسمانی اور ذہنی زخم تو بھر رہے ہیں مگر ان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ 

غلام عباس کو اپنے کیے پر کوئی دکھ نہیں
وہ آج پھر غلام عباس کی چھت تلے آگئیں ہیں جس نے ان کے ساتھ یہ ظلم کیا تھا۔ جب اللہ رکھی مجھے اپنی کہانی سنا رہی تھیں تو وہ برآمدے میں بیٹھا سن رہا تھا۔ اس کی عمر کے آثار نظر آتے ہیں مگر پچھتاوے کے نہیں۔

جب میں نے ان سے بات کی تو اس کے جوابات فوری خوفناک تھے۔

غلام عباس کہتے ہیں ’میں اب اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ بہتر ہے کہ آپ نہ پوچھیں۔ یہ سب اس کا ہی قصور ہے۔ جو کچھ ہوا اس کے جرائم کی وجہ سے ہوا۔ یہ سب بغیر وجہ کے نہیں ہوا‘۔ اللہ رکھی کے مبینہ جرائم کی تفصیلات غلام عباس دینا نہیں چاہتے۔

اللہ رکھی ان کے جوابات سنتی ہیں مگر کچھ کہتی نہیں۔ ’میں نے کبھی اس کو سزا نہیں دی۔ یہ کام میں نے خدا پر چھوڑ دیا ہے‘۔
 
اللہ رکھی کے بیٹے اظہر کا پیار انہیں غلام عباس کے گھر واپس لے آیا ہے
اللہ رکھی کا دھیان ایک مزدور پر لگا ہے جو کہ تپتی دھوپ میں قریب ہی ایک دیوار کھڑی کررہا ہے۔ یہ شخص اس کا بیٹا اظہر ہے جسے شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ اظہر کا خیال ہی اللہ رکھی کو واپس اس گھر میں لایا ہے۔

’مجھے یہاں رہنا بالکل اچھا نہیں لگتا، مجھے لگتا ہے میں ہر لمحہ مر رہی ہوں مگر میرا بیٹا چاہتا ہے کہ میں اس کے پاس رہوں۔ میری اولاد میرے لیے سب کچھ ہے۔ مجھے اپنے بیٹے اور پوتے کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔

اور اس ہمت نہ ہارنے والی خاتون کے تو اور بھی عزائم ہیں۔۔۔ کہتی ہیں کہ وہ اپنی ناک چھدوانا چاہتی ہیں۔

’وہ مجھے قتل کر دیتا تو بہتر ہوتا‘

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔