دنیا کا مہمان نواز ترین ملک

کریملن سے دو قدم دور، روس کی گورنمنٹ لائیبریری کے مشرقی ادب کے مرکز میں روس کے معروف فوٹو گرافر ایوان دیمینتی ایوسکی اور صحافی سرگئی بائیکو، جنہوں نے پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کا ایک غیر معمولی دورہ کیا تھا، کے کام پہ مبنی نمائش کا افتتاح ہوا ہے۔ آرام کو بھلا کر اور اپنے کنبے کے افراد کو ماسکو چھوڑ کر وہ مہم جوئی اور تصویریں کھینچنے کی خاطر نکل کھڑے ہوئے، ایسی تصویریں جو روح پہ چھا جائیں۔

نمائش دیکھنے کی خاطر آنے والوں کا استقبال، روس میں پاکستان کے سفیر محمد خالد خٹک نے کیا جنہوں نے گلگت بلتستان کے اپنے ذاتی سفر کی یادیں سنائیں، جہاں کے نظاروں نے فوٹو گرافر ایوان دیمنتی ایوسکی کو اپنی جانب کھینچا تھا۔ سفیر محترم نے کہا کہ انہیں یہ جگہ خود تو پسند ہے ہی لیکن باقی سب کو بھی وہ وہاں جانے کا مشورہ دیتے ہیں، ”فوٹو کھینچنے والے اس سے پہلے نیپال، بھارت اور بھوٹان کے دشوار گذار سفر کئی بار کر چکے ہیں۔ انہوں نے یہ سفر مشکل حالات میں کندھوں پر رک سیک رکھ کر اور راتیں خیموں میں بسر کرتے ہوئے کیے ہیں۔۔ ایوان دیمنتی ایوسکی پاکستان کے مقامی لوگوں، مقامی تہواروں اور کھیلوں سے وابستہ واقعات اور خاص طور پر ہمالیہ کی تصویریں بنانے کی خاطر پاکستان گئے تھے۔ ان عظیم پہاڑوں سے انہیں پیار ہوگیا اور انہوں نے بہتر تصویر کشی کی خاطر خطرات مول لینا قبول کرلیا۔ پاکستان میں ان کا خیمہ پھسلتی برف کی زد میں آگیا لیکن ان کی اور ان کے ساتھیوں کی جان بچ گئی، کیونکہ وہ پہاڑوں میں بادلوں سے اوپر چلتی ہوئی نسیم سحر کا لطف لینے کی خاطر صبحدم بیدار ہوچکے تھے۔ اسی قسم کے ایک بادل میں پوشیدہ بوندوں کی نمی سے جمی ہوئی برف نے لڑھکنا شروع کردیا تھا جس سے سفر کرنے والوں کو جان کے لالے پڑ گئے تھے۔“

ایک روسی گیت کے الفاظ یوں ہیں ”اچھے پہاڑ دکھ کا کارن ہی بن سکتے ہیں۔“ لیکن مہم جووں کا کہنا ہے کہ انہیں پہاڑوں کے باسیوں کی مہمان نوازی نے بے حد متاثّر کیا۔ وہاں چونکہ سیاحوں کے جھنڈ نہیں ہیں اس لیے ان لوگوں نے روسی فوٹو گرافروں کو قابل تعظیم مہمانوں کے طور پر لیا۔

کبھی کبھار مہمان نوازی مقامی روایات سے بھی متصادم ہوجاتی تھی کیونکہ وہاں کے لوگ اپنی رشتہ دار عورتوں کو سفید فام فوٹو گرافروں کے کیمروں کی زد سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ایوان دیمنتی ایوسکی، جو نہ صرف مردوں بلکہ عورتوں کی تصویریں کھینچنے میں بھی دلچسپی رکھتے تھے، نے اس مسئلے سے نمٹنے کی خاطر چالاگی اختیار کرتے ہوئے راستے میں ایک فوٹو پرنٹر خرید لیا۔ جب بھی انہوں نے عورتوں اور بچیوں کی تصویریں کھینچنے کی خاطر ان کے سرپرست مردوں سے اجازت طلب کی تو ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ ان کی تصویریں  تحفتاً پرنٹ بھی کرکے دیں گے۔ اس پیش کش سے دور دراز دیہاتوں کی لڑکیاں بہت خوش ہوگئیں اور یوں انہیں ان کی تصویریں اکٹھی کرنے کی اجازت مل گئی۔

ان مسافروں نے جو کچھ بتایا وہ ان اطلاعات کے قطعی متضاد ہے جو عالمی ذرائع ابلاغ عامہ پاکستان کے بارے میں فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے مکمل تحفظ کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ پورے سفر کے دوران کسی نے بھی ان کی کوئی بھی چیز نہیں چرائی اور کسی نے ان کی توہیں نہیں کی۔ روسیوں اور یورپیوں کے لیے اس پر یقین کرنا مشکل ہے کیونکہ انہیں دہشت گردی کے واقعات اور دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کے بارے میں خبریں ملتی رہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سفر کرنے والوں نے یقین دلایا کہ پاکستان کے شمالی خطوں میں سکون اور سلامتی کی فضا کا راج ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔