پیر, جولائی 02, 2012

آسٹریلوی ماہر نے پاکستان میں نئی ہند یورپی زبان کا سراغ لگا لیا

ماہرین زبان نے معلوم کرلیا ہے کہ پاکستان کے شمال میں بولی جانے والی بروشسکی زبان کا ماخذ ہند یورپی ہے اور اس کی قدیم فریگیائی زبان سے قربت ہے، جو ایک وقت میں یونان کے ایک علاقے میں بولی جاتی تھی۔

باوجود بے تحاشا تحقیق کے بروشسکی زبان کا ماخذ اب تک معلوم نہیں کیا جاسکا تھا۔ ایک اندازہ یہ تھا کہ بروشسکی کا تعلق عنیقیائی زبان سے ہے۔ آسٹریلوی محقق پروفیس ایلیا چیشول کا خیال ہے کہ اس زبان کی بنت اور گرامر ہند یورپی زبانوں سے ہم آہنگ ہے۔ ان کے مطابق قدیم زمانے میں یہ زبان بولنے والے فریگیا سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں پہنچے تھے۔ 
بروشسکی زبان کی اس زبان سے بہت مماثلت لگتی ہے۔ اس کی تصدیق اس زبان کے بولنے والون کے اس دعوے سے بھی ہوتی ہے کہ وہ سکندر مقدونی کے وارث ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہند یورپی زبانیں بہت سے علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ اس گروپ سے وابستہ زبانیں بولنے والوں کی تعداد ڈھائی ارب افراد بتائی جاتی ہے۔

پاکستان میں مقبول ترین سیاستدان

پاکستان میں اس وقت مقبول ترین سیاستدان کرکٹ کے سابق کھلاڑی اور موجودہ "تحریک انصاف" کے رہنما عمران خان ہیں۔ سب سے زیادہ غیر مقبول صدر آصف علی زرداری ہیں۔ سماجی آراء شماری کے معروف امریکی ادارے پیو ریسرچ سنٹر کی پاکستان میں کی گئی تازہ ترین آراء شماری کے نتائج یہی ہیں۔

یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ان نتائج کو دیکھ کر اچنبھا ہوا ہے: زرداری کو پسند کرنے والوں کی شرح 14 % رہی جو گذشتہ برس کی شرح 11% سے کچھ ہی زیادہ ہے لیکن تب کی نسبت جب وہ اس عہدے کے لیے چنے گئے تھے خوفناک حد تک کم ہے کیونکہ یہ شرح تب 64 % تھی۔ دلچسب بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پیشتر نااہل کردیے جانے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی مقبولیت کی شرح 36 % ہے یعنی موجودہ صدر، جن کا کہ گیلانی آخری لمحے تک تحفظ کرتے رہے، کی ریٹنگ سے ڈھائی گنا سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ روس کے انسٹیٹیوٹ برائے تزویری تحقیق کے ایک ماہر بورس وولہونسکی کی اس بارے میں رائے یوں ہے،"ان نتائج کو آنکنے کے لیے مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں متنوع گروہ، قبیلے اور برادریاں ہیں اس لیے کسی طرح کی بھی رائے شماری کو آنکنے کی خاطر بہت زیادہ احتیاط برتے جانے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی شرحیں انتخابات پر براہ راست اثرانداز نہیں ہونگی، چاہے وہ 2013 میں ہوں یا معینہ مدت سے قبل اسی برس کے اواخر میں۔

علاوہ ازیں پارلیمانی انتخاب کا اکثریتی نظام اور صدر کا بالواسطہ انتخاب پارٹیوں کے اندر افسرشاہانہ ڈھانچے کے کردار کو کہیں فزوں تر بنا دیتا ہے۔ یوں عمران خان کی ذاتی مقبولیت اور ان کی پارٹی میں کئی نامور سیاستدانون کے شامل ہونے کے باوجود "تحریک انصاف" کی حیثیت اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی روائتی پارٹیوں کی، تاحتٰی غیر مقبول صدر زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی۔"

فہرست میں دوسرے مقام پر مقبول ترین سیاستدان، سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی مقبولیت 2009 کی نسبت جب کہ یہ شرح 79% تھی، خاصی گر کر 62% ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود بہت بلند شرح ہے، بورس وولہونسکی کہتے ہیں:"وہ گذشتہ سالوں سے حزب اختلاف میں ہیں اور موجودہ حکومت کے اس بدنام ڈھانچے سے علیحدہ، جس نے ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے دوچار کردیا ہے۔ سب سے مضبوط صوبے پنجاب کی بااثر اشرافیہ نواز شریف کے حق میں ہے۔ پھر وہ مغرب اور سب سے بڑی بات یہ کہ امریکہ کی نظر میں خاصے قابل اعتبار سیاستدان ہیں۔ 2006-2007 میں جب پاکستان کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ مغرب کے تعلقات زیادہ کشیدہ ہوگئے تھے تب مغربی ذرائع ابلاغ نے ان کی ہی امیدواری کو عوام میں پھیلایا تھا۔ اب جبکہ تعلقات تاریخ میں بدترین حیثیت اختیار کرچکے ہیں، تب نواز شریف واحد شخصیت ہیں جو ان تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ وہ تمام باتیں بھلا دی جائیں، جب ان پر 1990 کی دہائی میں بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے تھے۔"

مذکورہ آراء شماری کے نتائج میں مسلح افواج کی مقبولیت بہت زیادہ پائی گئی ہے جو سول اداروں کی مقبولیت سے کہیں زیادہ ہے، موازنے کے طور پر ذرائع ابلاغ عامہ کی مقبولیت کی شرح 66 %، عدلیہ کی 58 % اور انتظامیہ و پولیس کی محض 24% ہے۔

فوج کے موجودہ سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے لیے کئی مواقع تھے کہ وہ حکومت میں مداخلت کر لیتے لیکن انہوں نے ایک بار بھی ایسے ارادے کا اظہار نہین کیا۔ فوج کی مقبولیت کی انتہائی بلند شرح اس بات کی غمّاز ہے کہ اگر فوج نے کار سرکار میں مداخلت کی تو اسے لوگوں کا اعتماد حاصل ہوگا۔

پاکستان سے غربت کا خاتمہ، یورپی نوجوان بھی میدان میں

ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے سرکاری طور پر ترقی پذیر ملکوں میں غربت کے خاتمے کے لئے تعاون کی خبریں تو ملتی رہتی ہیں۔ ان فلاحی منصوبوں میں تعاون کا سلسلہ اب غیر سرکاری سطح پر بھی فروغ پا رہا ہے۔

اس کی تازہ مثال یورپ سے تعلق رکھنے والے وہ نوجوان ہیں جو آج کل پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے رومان لینز اور ہالینڈ کے ڈیوڈ اِکِنک کوہ پیمائی کا شوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس شوق کو سماجی بھلائی کے کاموں کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ انھوں نے سات بر اعظموں کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کوہ پیمائی کے دوران ملنے والی شہرت اور وسائل کو وہ فلاحی منصوبوں کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

رومان اور ڈیوڈ پاکستان میں چھوٹے قرضوں کے ذریعے غربت کے خاتمے کے لیے جدو جہد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اُخوّت کی دعوت پر پاکستان پہنچے ہیں۔ ان کے آٹھ روزہ دورے کا مقصد اُخوّت کی سرگرمیوں اور اس کے فلاحی منصوبوں کے لیے معاونت کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔

لاہور میں اپنے قیام کے دوران ان یورپی نوجوانوں نے اُخوّت سے بلا سود قرضہ حاصل کرنے والوں، اُخوّت کو عطیات دینے والوں اور اُخوّت کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں سے ملاقاتیں کیں۔ لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں انھوں نے اُخوّت کے لیے دو لاکھ روپے کے پہلے عطیے کا بھی اعلان کیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان یورپی نوجوانوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم "نو ماونٹین از ٹو ہائی" بھی بنا رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوہ پیمائی کی طرح دنیا میں انسانی بھلا ئی کا کوئی بھی منصوبہ ناممکن نہیں ہے۔ ہر آدمی محنت اور کوشش سے اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئےجرمن نوجوان رومان نے بتایا کہ وہ اور ان کا دوست ڈیوڈ آج کل سٹوڈنٹ ویزے پر امریکا میں مقیم ہیں اور ہاورڈ یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں، انہیں اُخوّت کے بارے میں بوسٹن میں مقیم ایک پاکستانی نوجوان کے ذریعے پتہ چلا تھا۔ ان کے مطابق وہ ترقی پذیر ملکوں میں عوامی بھلائی کے منصوبوں میں معاونت کے خواہاں ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں مغربی ملکوں میں اُخوّت کے لیے عطیات اکٹھے کریں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چھوٹے قرضوں کے ذریعے غربت کے خاتمے کا اُخوّت کا ماڈل اس وقت امریکا اور برطانیہ کے کئی تعلیمی اداروں میں کیس سٹڈی کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے۔

ڈیوڈ نامی نوجوان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بعض عالمی ذرائع ابلاغ میں پائے جانے والے تاثر کے برعکس انہیں پاکستان کے لوگ محنتی اور مہمان نواز لگے ہیں۔

اخوت کے ڈائریکٹر ہمایوں احسان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یورپی نوجوانوں کا اُخوّت کے ماڈل کو سمجھنے کے لیے پاکستان آنا ان کے لیے خوشی کا باعث ہے اور اس سے اُخوّت کو اپنے کامیاب ماڈل کو دنیا کے سامنے ایک مثال کے طور پر پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔ ہمایوں احسان کے بقول اس طرح کے رابطے مشرق اور مغرب کے لوگوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے اور ان کے مابین فاصلے کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

پاکستانی اولمپکس ہاکی سکواڈ میں سینیئرز کی واپسی

پاکستان ہاکی فیڈریشن نے لندن اولمپکس کے لیے بیس رکنی پاکستانی ہاکی سکواڈ کا اعلان کردیا ہے۔

پنلٹی کارنر سپیشلسٹ سہیل عباس ٹیم کی قیادت کریں گے اور انہیں مئی میں اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے باوجود کپتانی پر برقرار رکھا گیا ہے۔

ستائیس جولائی سے شروع ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں شرکت کے لیے لندن روانگی سے قبل ٹیم مینجمنٹ بیس میں سے اٹھارہ کھلاڑیوں کا انتخاب کرے گی۔

حالیہ میچوں میں ٹیم کی خراب کارکردگی کے بعد سلیکٹرز نے ایک مرتبہ پھر پرانے اور تجربہ کار کھلاڑیوں پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ٹیم میں سنٹر فارورڈ ریحان بٹ، محمد وسیم اور سابق کپتان شکیل عباسی کی واپسی ہوئی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سکواڈ کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے چیف سلیکٹر حنیف خان نے کہا کہ ’ہم نے تجربہ کار کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا ہے تاکہ باقی کھلاڑی ان کے تجربے سے مستفید ہوسکیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے حال ہی میں چند جونیئر کھلاڑیوں کو بھی آزمایا اور یہ سکواڈ جونیئر اور سینیئر کھلاڑیوں کا مجموعہ ہے‘۔

پاکستان ماضی میں تین مرتبہ اولمپکس میں ہاکی کے مقابلوں میں طلائی تمغہ جیت چکا ہے اور آخری مرتبہ اس نے یہ اعزاز اٹھائیس برس قبل لاس اینجلس اولمپکس میں حاصل کیا تھا۔

اولمپکس میں ہاکی کے کھیل میں پاکستان کو آخری تمغہ سنہ انیس سو بانوے میں ملا تھا جب اس نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

بیجنگ اولمپکس میں پاکستان نے ان مقابلوں میں اپنی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آٹھویں پوزیشن حاصل کی تھی۔

لندن اولمپکس میں پاکستان کی ہاکی ٹیم کی شمولیت دو ہزار دس کا ایشیا کپ جیتنے کی وجہ سے یقینی ہوئی تھی اور ان مقابلوں میں اسے گروپ اے میں آسٹریلیا، برطانیہ، سپین، ارجنٹائن اور جنوبی افریقہ کے ہمراہ رکھا گیا ہے۔

چیف سلیکٹر حنیف خان کے مطابق اگر پاکستانی ٹیم لندن اولمپکس میں وکٹری سٹینڈ پر بھی پہنچ جاتی ہے تو وہ بھی کسی طلائی تمغے سے کم نہیں ہوگا۔

لندن اولمپکس کے لیے پاکستانی سکواڈ یہ ہے: سہیل عباس ( کپتان)، عمران شاہ، عمران بٹ، محمد عرفان، محمد عمران، کاشف شاہ، فرید احمد، راشد محمود، محمد رضوان جونیئر، محمد توثیق، وسیم احمد، ریحان بٹ، شکیل عباسی، محمد وقاص، عمر بھٹہ، علی شاہ، محمد زبیر، عبدالحثیم خان،محمد رضوان اور شفقت رسول

پنجاب میں درجنوں ڈاکٹر گرفتار

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پولیس نے ہڑتال کرنے والے نوجوان سرکاری ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے درجنوں ڈاکٹروں کو گرفتار کرلیا ہے۔

پولیس نے رات گئے صوبائی دارالحکومت لاہور سے تین درجن سے زائد ڈاکٹروں کو حراست میں لیا۔

ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں کی گرفتاری اس وقت عمل میں لائی گئی جب نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم کا اجلاس ہورہا تھا جس میں ہڑتال کے بارے میں آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کیا جانا تھا۔

بی بی سی کے نامہ نگار عبادالحق کے مطابق پولیس نے رات گئے جن ڈاکٹروں کو حراست میں لیا ہے ان میں نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے اہم عہدیدار شامل نہیں ہے۔ پولیس کی کارروائی سے قبل ہی تنظیم کے عہدیدار پولیس جل دینے میں کامیاب ہوگئے۔

دوسری طرف ینگ ڈاکٹرز کی گرفتاری کے ردعمل میں لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں نوجوان ڈاکٹروں نے کام چھوڑ دیا۔ تاہم حکومت نے فوری طور مبتادل انتظامات کرتے ہوئے سینیئر ڈاکٹروں کو بھی طلب کرلیا ہے۔

صوبائی دارالحکومت لاہور میں پولیس کی بھاری نفری نے سروسز ہسپتال کے ڈاکٹرز ہاسٹل کو رات گئے گھیرے میں لے لیا اور عین اس وقت دھاوا بول دیا جب ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جنرل کونسل کا اجلاس ہورہا تھا۔

پنجاب میں نوجوان ڈاکٹر گزشتہ دو ہفتوں سے ہڑتال پر ہیں اور سرکاری ہسپتالو ں میں کام کرنے والے ان نوجوان ڈاکٹروں کا یہ مطالبہ ہے کہ پنجاب حکومت ان کے سروس سٹرکچر کا اعلان کرے۔

پولیس نے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کی گرفتاری کے لیے ہاسٹل کے کمروں کے دروازے توڑ دیئے اور جب پولیس کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں موجود ڈاکٹرز پچھلے راستے سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔

ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن کے اجلاس میں بیس سے زیادہ رہنما موجود تھے تاہم پولیس اب تک صرف ایک عہدیدار عامر بندیشہ کو گرفتار کرسکی ہے۔ پولیس نے ہاسٹل میں سرچ آپریشن کیا اور وہاں موجود ڈاکٹروں کو حراست میں لے کر انہیں شہر کے مختلف تھانوں میں منتقل کردیا ہے۔

ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے حکومتی کارروائی کا نوٹس لینے کا مطالبہ کی ہے۔ تنظیم کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رہے گا۔

ادھر صوبائی مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق کا کہنا ہے کہ دو ہفتوں سے ہسپتالوں کا نظام مفلوج ہوگیا تھا اور حکومت نے مجبوری میں یہ قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چودہ دنوں تک نوجوان ڈاکٹروں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ وہ ہڑتال ختم کردیں۔

انہوں نے بتایاکہ سینئر ڈاکٹروں نے بھی ہڑتالی ڈاکٹروں کو قائل کرنے کے لیے وزیراعلیْ پنجاب سے مہلت مانگی لیکن نوجوان ڈاکٹروں نے اپنے سینئر ڈاکٹروں کی بات بھی نہیں مانی۔

خواجہ سلمان رفیق نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے ہسپتالوں میں معاملات کو معمول کے مطابق چلانے کے لیے بندوبست کرلیا ہے اور ان کے بقول پیر کے روز سے ہسپتالوں میں معمول کے مطابق کام ہوگا۔

صوبائی مشیر صحت کے مطابق نوجوان ڈاکٹروں کی اکثریت ہڑتال کی حامی نہیں ہے اور ہر ہسپتال میں آٹھ دس ایسے ڈاکٹرز ہیں جو دیگر ڈاکٹروں کو ہڑتال پر مجبور کررہے تھے۔

پنجاب حکومت کی درخواست پر فوج کی میڈیکل کور کے ایک سو پچاس ڈاکٹرز بھی آج سے سرکاری ہسپتالوں میں ڈیوٹی دیں گے۔

پنجاب حکومت نے سرکاری ہسپتال میں پیر کے روز پولیس مامور کرنے کا بھی فیصلہ کیا تاکہ کسی ناخوش گوار واقعہ سے بچا جاسکے۔

پنجاب حکومت نے ان چوبیس نوجوان ڈاکٹروں کو برطرف کردیا ہے جو ایک سال کے لیے ایڈہاک بنیادوں پر کام کررہے تھے۔ ان ڈاکٹروں پر دیگر ڈاکٹروں کو ہڑتال کےاکسانے کا الزام ہے۔

لاہور کے میو ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈاکٹروں کے کام چھوڑنے سے ایک بچے کی موت کا مقدمہ بھی ہڑتالی ڈاکٹروں کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔

یورو کپ: سپین اپنے اعزاز کا دفاع کرنے میں کامیاب

سپین اپنے اعزاز کا دفاع کرنے میں کامیاب رہا
فٹ بال کے عالمی چیمپئن سپین نے یورپی ملکوں کے درمیان سنہ دو ہزار بارہ کے مقابلوں میں اٹلی کو چار گول سے شکست دے کر یورپین چیمپیئن ہونے کا اعزاز دوبارہ حاصل کرلیا ہے۔

یورپی ممالک کے درمیان فٹ بال کے مقابلوں کی تاریخ میں اتنی بڑی سبقت سے کوئی ٹیم اس سے قبل فائنل نہیں جیتی ہے۔

اٹلی کے خلاف سپین کی سنہ انیس سو بیس کے بعد یہ پہلی بڑی کامیابی ہے۔

سپین کی ٹیم نے مسلسل تین بڑے بین الاقوامی مقابلے جیتنے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا ہے۔

سنہ دو ہزار آٹھ میں سپین کی ٹیم نے یورو کپ جیتا تھا۔ اس کے دوسال بعد اس نے عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور اب وہ دوبارہ یورو کپ جیتنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

یورو سنہ دو ہزار بارہ کا یہ فائنل جسے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے دیکھا کسی حد تک یک طرفہ ثابت ہوا۔ اٹلی کی ٹیم کوئی گول نہ کرسکی اور سپین کی ٹیم اپنے چھوٹے چھوٹے پاسوں کی وجہ سے کھیل پر چھائی رہی۔

اٹلی کے کھلاڑی بیلوٹولی جنھوں نے سیمی فائنل مقابلے میں دو گول کیے تھے اس میچ میں بالکل بے بس نظر آئے اور ایک بھی جان دار حملہ کرنے میں ناکام رہے۔

سپین کی ٹیم نے پہلے ہاف میں دو گول کیے اور باقی دو گول دوسرے ہاف میں ہوئے۔ سپین کی ٹیم نے کھیل کے چودہویں ہی منٹ میں اٹلی پر گول کردیا تھا۔ یہ گول سپین کی طرف سے سلوا نے کیا۔ دوسرا گول کھیل کے اکتالیسویں منٹ میں ہوا جب ایلبا نے گول کیا۔

دوسرے ہاف میں سپین نے بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا اور اٹلی کی ٹیم دوسرے ہاف کے شروع ہی سے شکست خردہ سی نظر آنے لگی۔
سپین کے دارالحکومت میں جیت کا جشن
سپین نے دوسرے ہاف میں کئی ایک تبدیلیاں کئیں۔ فرننڈو ٹوریز کو فیبرگاس کی جگہ کھیل میں شامل کیا گیا۔ ٹوریز نے کھیل کے اکاسویں منٹ میں گول کر کے سپین کی برتری کو تین صفر کردیا۔

اس کے بعد کھیل بالکل ہی یک طرفہ ہوگیا۔ اٹلی کے کھلاڑی تھکے اور شکست خورہ نظر آنے لگے۔ سپین کی طرف سے چوتھا اور آخری گول میتا نے اٹھسویں منٹ میں کیا۔ انھیں بھی ایک منٹ قبل ہی سلوا کی جگہ میدان میں بلایا گیا تھا۔

کولمبو ٹیسٹ: پاکستان کے 488 رنز پر 4 کھلاڑی آؤٹ

کولمبو میں کھیلے جانے والے کرکٹ ٹیسٹ میچ کے دوسرے روز بارش کے باعث کھیل وقت مقررہ سے پہلے روک دیا گیا اور پاکستان کی ٹیم نے اب تک میزبان سری لنکا کے خلاف چار وکٹوں کے نقصان پر 488 رنز بنائے ہیں۔

پاکستان کے افتتاحی بلے باز محمد حفیظ نے 172 کے انفرادی اسکور پر اتوار کو دوبارہ بیٹنگ کا آغاز کیا تھا لیکن وہ صرف چار رنز کے فرق سے اپنے کریئر کی پہلی ڈبل سنچری بنانے میں ناکام رہے۔

اظہر علی نے اپنی سنچری مکمل کی اور اُنھیں 157 کے انفرادی اسکور پر رندیو کی گیند پر کلاسیکرا نے کیچ آؤٹ کیا۔

سری لنکا کے ہیراتھ اب تک 143 رنز کے عوض دو وکٹیں حاصل کرچکے ہیں۔

تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں سری لنکا کو ایک – صفر سے برتری حاصل ہے۔

Rung HD, Hadiqa Kiani, Coke Studio, Season 5, Episode 3 download free mp3

Rung HD, Hadiqa Kiani, Coke Studio, Season 5, Episode 3 download free mp3