بزرگ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بزرگ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ, نومبر 24, 2012

موٹر وے کے بیچوں بیچ رہائشی چینی جوڑا

بیجنگ… این جی ٹی… اپنے گھر سے محبت کسے نہیں ہوتی لیکن اس چینی میاں بیوی کے تو کیا ہی کہنے ہیں، جنہوں نے موٹر وے کی تعمیر کے لئے اپارٹمنٹ خالی کر دینے کا فیصلہ رد کر دیا۔ 

کہانی صرف یہیں تمام نہیں ہوئی بلکہ جب اس چینی جوڑے نے حکومت کی جانب سے مناسب رقم نہ ملنے پر اپنا اپارٹمنٹ چھوڑ دینے سے انکار کر دیا تو حکومت نے بھی بلڈنگ کے ارد گرد ہی موٹروے تعمیر کر دی۔ اب یہ عمر رسیدہ جوڑا سڑک کے بیچ رہائش اختیار کئے ہوئے ہے۔
 

جمعہ, نومبر 02, 2012

والد کا خیال نہ رکھنے پر تین بیٹوں کوجیل

بھارت کی ریاست راجستھان کے بارمیڑ ضلعے کی ایک عدالت نے تین لڑکوں کو اپنے والد کا خیال نہ رکھنے پر دو دو ماہ کی سزا سنائی ہے۔ اس عمر رسیدہ شخص کے بیٹوں پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے والد کا خیال نہیں رکھا اور انہیں بے سہارا چھوڑ دیا۔ بارمیڑ کے گودھاملانی کے ذیلی ضلعی مجسٹریٹ کی عدالت نے جمعرات کو یہ فیصلہ سنایا اور پولیس کو حکم دیا کہ وہ ان تینوں بیٹوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دے۔ ستر سالہ سونا رام وشنوعی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ایس ڈی یم نے یہ پایا کہ ان کے بچوں نے ان کا خیال نہیں رکھا اور انھیں بے سہارا چھوڑ دیا اور اسی لیے انہیں یہ سزا سنائی گئی۔ شکایت کے مطابق وشنوئی کے چھ بیٹے ہیں جن میں سے تین نے عدالت کے حکم کے باوجود ان کی مدد کرنے سے منع کردیا۔ شکایت نامے کے مطابق چھ میں سے تین بیٹوں نے عدالت کے سامنے اپنے والد کا خیال رکھنے کا وعدہ کیا لیکن دوسرے تین بیٹوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ ایک لاپرواہ والد رہے ہیں اور انہوں کبھی اپنی اولاد کی پروا نہیں کی۔

عدالت میں ان بیٹوں کو حاضر کرنے کے لیے عدالت کو کافی مشقت کرنی پڑی کیونکہ ان کے بیٹے عدالت سے جاری سمن وصول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ عدالت نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ ضعیف سونارام وشنوئی یہاں وہاں بھٹک رہے ہیں اس لیے ان کے بیٹوں کو چاہیے کہ وہ ان کی فکر کریں لیکن ان کے بیٹوں نے ان کی کوئی خبر نہیں لی۔ شروع میں عدالت نے ان کے بیٹوں کو اپنے والد کی دیکھ بھال کی جانب راغب کرنے اور احساس دلانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا۔ اس کے بعد ایس ڈی ایم شنکر لال نے بوڑھے اور معمر شہری کی نگرانی اور دیکھ بھال کے قانون کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ‎سزا سنائی۔

اس قانون کے مطابق اگر کسی شخص کو اس جرم کا مرتکب پایا گیا کہ وہ اپنے والدین کا خیال نہیں رکھ رہا ہے تو اسے تین ماہ کی قید ہو سکتی ہے اور پانچ ہزار تک جرمانہ۔ ریاست نے دو سال قبل اس قانون کو منظوری دی تھی۔

والد کا خیال نہ رکھنے پر تین بیٹوں کوجیل

بدھ, اکتوبر 31, 2012

بہلول کی باتیں

کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: ”تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟“

لوگوں نے کہا: ”حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟“

شیخ نے جواب دیا: ”ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔“

مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: ”تم کون ہو؟“

”میں ہوں جنید بغدادی۔“

”تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟“

”جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔“

”اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟“

”کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔“

پھر دوبارہ کہا: ”جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔“

یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: ”تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔“

یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: ”یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔“

”ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔“

بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: ”کون ہو تم؟“

”میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔“

بہلول نے کہا: ”خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟“

شیخ نے جواب دیا: ”جی ہاں جانتا تو ہوں۔“

”تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟“

”میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہوجائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔“ اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔

بہلول نے کہا: ”کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمہیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔“ پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: ”یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟“

”بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔“ اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: ”تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہوگا؟“

شیخ نے کہا: ”جی ہاں! معلوم ہے۔“

”اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟“

”جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔

بہلول نے کہا: ”معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔“

یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: ”اے حضرت! میں نہیں جانتا۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔“

کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: ”میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہوجائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔“

شیخ جنید نے بےساختہ کہا: ”جزاک اللہ خیرأً۔“ (اللہ تمہارا بھلا کرے)

پھر بہلول نے بتایا: ”گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہوگی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔“

پھر سونے کے متعلق بتایا: ”اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔“

بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔

حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

بہلول کی باتیں

پیر, اکتوبر 22, 2012

چاچا پاکستانی انتقال کرگئے

لاہور: چاچا پاکستانی جو ہر روز لاہور میں واہگہ بارڈر پر پاکستانی پرچم کشائی کی تقریب دیکھنے پہنچتے تھے 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کے گھر والوں کے مطابق وہ کچھ دنوں سے بخار میں مبتلا تھے اور ان کے گھر والوں کے پاس ان کا ہسپتال میں علاج کرانے کے لئے پیسے بھی نہیں تھے۔

چاچا پاکستانی کا اصل نام مہر دین تھا اور وہ 1922 میں پیدا ہوئے تھے، ان کے تمام بھائی ہندوستان کی تقسیم کے وقت پاکستان آگئے مگر وہ خود قیام پاکستان کے بعد آئے۔ ان کا پاکستان میں کوئی گھر نہیں اس لئے وہ اپنے بھتیجوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کے بھتیجے نے بتایا کہ ہماری پیدائش سے کر اب تک ہم نے انہیں باقائدگی سے واہگہ بارڈر جاتے دیکھا ہے۔ 

چاچا پاکستانی کوفوجی حکومت پسند تھی جبکہ وہ جمہوریت کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے انہیں عمرہ پر بھی بھیجا تھا۔ چاچا پاکستانی کے بھتیجے نے مزید بتایا کہ چاچا کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا اور وہ واہگہ بارڈر پر آنے والے لوگوں سے ملنے والی رقم سے اپنی گزر بسر کیا کرتے تھے۔ چاچا پاکستانی کو رینجرز اور واہگہ بارڈر پر آنے والے مختلف حکام کی جانب سے کئی ایوارڈز اور سرٹیفیکیٹس سے بھی نوازا گیا۔
 
چاچا پاکستانی کو ان کے پسندیدہ سفید اور ہرے پاکستانی جھنڈے میں لپیٹ کر ان کے گاؤں چنداری میں دفن کیا جائے گا۔

جمعہ, جولائی 20, 2012

والدین سے پیار کریں

کسی جگہ سیب کا ایک بہت پرانا اور گھنا درخت تھا، ایک چھوٹا لڑکا روزانہ درخت کے قریب جاتا اور اس کے پاس کھیلتا تھا۔ وہ درخت کے اوپر چڑھتا سیب توڑ کر کھاتا اور پھر درخت کے سائے تلے آرام کرتا۔ اسے درخت سے پیار تھا اور درخت کو بھی اس کے ساتھ کھیلنا اچھا لگتا تھا۔ وقت گزرتا رہا لڑکا جوان ہوگیا۔ اب اس نے روزانہ درخت کے پاس کھیلنا چھوڑ دیا۔ ایک روز لڑکا درخت کے قریب گیا، لیکن وہ اداس نظر آرہا تھا۔ درخت نے لڑکے سے کہا، میرے پاس آﺅ اور میرے ساتھ کھیلو۔ لڑکے نے جواب دیا، میں بچہ نہیں ہوں اور اب درختوں کے پاس نہیں کھیلتا، مجھے کھلونے چاہیئے، اور اس کے لئے رقم کی ضرورت ہے۔ درخت نے جواب دیا، مجھے افسوس ہے، میرے پاس تو رقم نہیں ہے۔ لیکن تم ایسے کرو میرے تمام سیب توڑ کر بیچ دو اور اس طرح تم رقم حاصل کرسکتے ہو۔ لڑکا بہت خوش ہوا، اس نے تمام سیب توڑے اور وہاں سے خوشی خوشی چل دیا۔ اس کے بعد لڑکا کبھی واپس نہیں گیا تو درخت اداس ہوگیا۔

ایک دن لڑکا جو بڑا ہوکر مرد بن گیا تھا واپس درخت کے پاس پہنچ گیا۔ اسے دیکھ کر درخت بہت خوش ہوا اور اس سے کہا، آﺅ میرے ساتھ کھیلو!

لڑکے نے جواب دیا، میرے پاس کھیلنے کے لئے وقت نہیں ہے، مجھے اپنے خاندان کے لئے کام کرنا ہے۔ ہمیں رہنے کے لئے ایک مکان چاہیئے ہے۔ کیا تم میری مدد کرسکتے ہو؟؟؟

مجھے افسوس ہے میں تمہاری مدد نہیں کرسکتا، کیوں کہ میرے پاس مکان نہیں ہے، درخت نے جواب دیا۔ لیکن تم مکان بنانے کے لئے میری ساری شاخیں کاٹ سکتے ہو۔ درخت نے مزید کہا۔

اس طرح اس نے درخت کی تمام شاخیں کاٹ لیں اور خوشی خوشی وہاں سے چل دیا۔

درخت اسے خوش دیکھ کر بہت مطمئن اور خوش ہوا، لیکن وہ شخص اس کے بعد کبھی واپس نہ آیا۔

درخت ایک بار پھر اداس اور اکیلا رہ گیا۔

شدید گرمی کے ایک روز، وہ شخص واپس آیا تو اسے دیکھ کر درخت بہت خوش ہوا، اور اس سے کہا آﺅ میرے ساتھ کھیلو۔
تو اس شخص نے کہا، میں اب بوڑھا ہو رہا ہوں، آرام اور تفریح کے لئے سیلنگ کرنا چاہتا ہوں، کیا تم مجھے کشتی دے سکتے ہو؟؟؟ 

تم میرا تنا کاٹ کر کشتی بنالو، سیلنگ کرو اور خوش رہو، درخت نے جواب دیا۔

اس شخص نے کشتی بنانے کے لئے درخت کا تنا بھی کاٹ لیا اور سیلنگ کے لئے چلا گیا۔ پھر وہ لمبے عرصے تک نظر نہیں آیا۔

بالآخر وہ کئی سالوں کے بعد واپس آیا۔

میرے بچے میں معذرت خواہ ہوں کہ اب میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیں بچا۔ درخت نے کہا۔ میرے پاس اب سیب بھی نہیں ہیں، درخت نے مزید کہا۔

کوئی بات نہیں، اب تو میرے دانت ہی نہیں کہ سیب کھا سکوں۔

اب تو میرا تنا بھی نہیں ہے جس پر تم چڑھ سکو۔

اس شخص نے جواب دیا، اب میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں۔

اب میں حقیقت میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتا، صرف اور صرف جڑیں بچ گئی ہیں اور وہ بھی خشک ہورہی ہیں۔ درخت نے روتے ہوئے کہا۔

اس شخص نے جواب دیا، اب مجھے مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں، صرف آرام کے لئے جگہ چاہیئے ہے، اس لئے کہ اب میں تھک گیا ہوں۔

بہت اچھا، پرانے درخت کی جڑیں لیٹنے اور آرام کے لئے بہترین جگہ ہے۔

آﺅ آﺅ میرے ساتھ بیٹھ جاﺅ اور آرام کرو، درخت نے کہا۔

وہ شخص وہاں بیٹھ گیا۔ درخت خوش ہوگیا اور آنسوﺅں کے ساتھ مسکرا دیا۔

اس کہانی میں آپ کے والدین اور آپ کا ذکر کیا گیا۔

اپنے والدین سے پیار کریں۔

ہفتہ, جون 30, 2012

بزرگوں کے زیر سایہ پرورش پانے والے بچے

جدید طبی اور نفسیاتی تحقیق کے مطابق چائلڈ کیئر سنٹر اور نرسری میں پرورش پانے والے بچوں کی نسبت گھروں میں دادا، دادی، نانا، نانی، یا کسی بزرگ کے زیر سایہ پرورش پانے بچے زیادہ ذہین اور مستعد ہوتے ہیں۔ ۳ سال سے کم عمر بچوں پر کی جانے والی تحقیق میں بچوں کے رویوں میں تبدیلی سے متعلق مسائل اور جسمانی نشوونما کو دیکھا گیا تھا۔ 

ماہرین نے اس خیال سے اتفاق کیا ہے کہ گھر کے بزرگ زیادہ توجہ اور شفقت سے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ۴۸۰۰ بچوں پر یہ تحقیق انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن یونیورسٹی آف لندن میں شروع کی گئی تھی۔ اس تحقیق کے پہلے مرحلے میں ایک سے تین سال، دوسرے مرحلے میں تین سے ۱۳سال اور آخر میں ۱۴سے ۲۰ سال کے نوجوانوں کے رویوں کا تعلق بچپن میں پرورش سے جوڑ کر دیکھا گیا تھا۔