دنیائے اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
دنیائے اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ, نومبر 30, 2012

فلسطین اقوام متحدہ کا غیر مبصر رکن بن گیا

اقوام متحدہ نے فلسطینی کو غیر رکن مبصر ملک کا درجہ دے دیا ہے۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی اتھارٹی کا درجہ بڑھائے جانے کی تجویز پر ہونی والی ووٹنگ میں 193 ممالک میں سے 138 ممالک نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا۔ اسرايل، امریکہ اور کینیڈا سمیت نو ممالک نے اس تجویز کے خلاف ووٹ ڈالا جب کہ 41 ممالک نے اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کیا۔

ووٹنگ سے پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب میں فلسطینی رہنما محمود عباس نے کہا، ’آج اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ فلسطین کے پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کرے۔‘ انہوں نے مزید کہا ’پیسنٹھ سال پہلے آج ہی کے دن اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی نے قرارداد 181 کو منظوری دے کر فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا اور اسرائيل کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ دے دیا تھا۔‘


اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہونے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے پر جشن کا ماحول تھا۔ لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر نغمے گائے، آتش بازی کی اور گاڑیوں کے ہارن بجا كر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اسرائيل کے سفیر نے ووٹنگ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’اس تجویز سے امن کو کوئی فروغ نہیں ملے گا بلکہ اس سے امن کو دھچكا ہی لگے گا اسرائيلي لوگوں کا اسرائيل سے چار ہزار سال پرانا تعلق اقوام متحدہ کے کسی فیصلے سے ٹوٹنے والا نہیں ہے۔‘ امریکہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اسرائيل کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنی چاہیے اور اس طرح اقوام متحدہ میں یک طرفہ اقدامات کے ذریعے ریاست کا درجہ حاصل نہیں کرنا چاہیے۔ برطانیہ اور جرمنی نے اس تجویز کے لیے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، لیکن دونوں ملک فلسطینیوں کی اس تجویز کے لائے جانے سے خوش نہیں تھے۔ لیکن اقوام متحدہ میں اس تجویز کو بھارت سمیت فرانس، روس، چین اور جنوبی افریقہ جیسے کئی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ گزشتہ سال فلسطینی اتھارٹی نے مکمل رکنیت حاصل کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں درخواست دی تھی لیکن سلامتی کونسل میں امریکہ نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا تھا اور فلسطینیوں کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے رکن ممالک سے کہا کہ وہ فلسطینی انتظامیہ کی کامیابیوں کو تسلیم کریں۔


غیر مبصر رکن کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد اب فلسطین کو اقوامِ متحدہ کے اداروں میں شمولیت حاصل ہو جائے گی جن میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف بھی شامل ہے۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی بیت المقدس کے علاقوں کو فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے جن علاقوں پر اسرائیل نے سنہ 1967 میں قبضہ کر لیا تھا۔

فلسطین اقوام متحدہ کا غیر مبصر رکن بن گیا

جمعرات, نومبر 29, 2012

پانچ سو باوقار ترین مسلمان شخصیات

اردن کا شاہی مرکز برائے تزویری تحقیقات پانچ سو باوقار ترین مسلمان شخصیات کے ناموں پر مشتمل فہرست منظر عام پر لایا ہے۔ یہ فہرست سن دو ہزار نو سے ہر سال تیار کی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ ابن عبدالعزیز کی طرف سے مختلف فلاحی تنظیموں کو ایک ارب چوبیس کروڑ ڈالر دیئے جانے کے پیش نظر ان کا نام اس فہرست میں پہلے مقام پر درج کیا گیا ہے۔

دوسرے مقام پر ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوگان کا نام ہے۔ سن دو ہزار نو میں ایسی فہرست شروع کئے جانے کے بعد اردوگان کو ہر سال پہلے تین مقامات میں سے کوئی مقام حاصل ہوتا ہے۔ رواں سال اردن کے بادشاہ تیسرے مقام پر ہیں، فہرست تیار کرنے والوں نے انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق بڑھانے اور غریبوں کو مدد دینے کے لیے ان کی سرگرمیوں کو بہت سراہا ہے۔ مزید برآں اس فہرست میں کئی روسی مسلمان شامل ہیں جن میں روس کے مفتیوں کی کونسل کے سربراہ شیخ رویل گین الدین، تاتارستان کے سربراہ رستم منی خانوو اور چیچنیا کے سربراہ رمضان کادیروو قابل ذکر ہیں۔

دنیا کی پانچ سو باوقار ترین مسلمان شخصیات کی فہرست تیار

اتوار, نومبر 25, 2012

مصر میں ججوں کی ہڑتال

مصر میں ججوں نے صدر مرسی کی جانب سے اختیارت حاصل کرنے کے صدراتی حکم کو تنقید کا نشانے بناتے ہوئے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ ایک ہنگامی اجلاس میں ججوں کی یونین نے صدر مرسی پر زور دیا کہ وہ اختیارات میں اضافے کے لیے جاری کیا جانے والا فرمان واپس لیں کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی پر غیر معمولی حملہ ہے۔ ہڑتال کے دوران عدالتیں اور پراسیکیوٹرز احتجاجاً کام نہیں کریں گے۔ 

صدراتی حکم نامے میں عدالت کو آئین ساز اسمبلی کو ختم کرنے کے اختیارات پر قدغن لگائی گئی ہے۔ مصر کی آئین ساز اسمبلی ملک کے لیے نیا آئین بنا رہی ہے۔

ادھر مصر کی حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے صدر محمد مرسی کے اس حکم نامے کے خلاف اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ حزب اختلاف نے کہا کہ وہ صدر مرسی کو وسیع اختیارات واپس کرنے کے لیے ایک ہفتے کا دھرنا دیں گے۔ جمعہ کو دارلحکومت قاہرہ کے تحریر سکوائر بڑی تعداد میں مظاہرین جمع ہوئے تھے لیکن انہیں سنیچر کی صبح تک منتشر کر دیا گیا۔ جس کے لیے پولیس نے آنسو گیس استمعال کی۔ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ آئندہ منگل کو تحریر سکوائر پر ایک بڑے احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔ 

جمعہ کو صدر محمد مرسی نے قاہرہ میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مصر کو ’آزادی اور جمہوریت‘ کی راہ پر لے جا رہے ہیں اور وہ ملک کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی استحکام کے محافظ ہیں۔ صدارتی حکم نامے کے مطابق اب کوئی بھی صدر کے بنائے ہوئے قوانین، کیے گئے فیصلوں اور جاری کیے گئے فرمان کو چیلنج نہیں کر سکے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ صدارتی اقدامات عدالتی یا دیگر کسی بھی ادارے کی جانب سے نظرِ ثانی سے مبرا ہوں گے۔ 

اس کے ساتھ ہی ان افراد کے مقدمات کی دوبارہ سماعت کا راستہ کھل گیا جو سنہ 2011 میں حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ پلٹنے والی تحریک میں قتل کے الزام میں مجرم پائے گئے تھے۔

حزب اختلاف کا کہنا ہے صدر مرسی حسنی مبارک کی طرح آمر بن رہے ہیں حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ صدر کا یہ اقدام حکومت کی قانونی حیثیت کے خلاف بغاوت ہے اور صدر نے خود کو مصر کا نیا ’فرعون‘ بنانے کی کوشش کی ہے۔۔

پیر, نومبر 12, 2012

جذبات سے عمل تک

”دنیا کو کہو سلام!“ یہ وہ افتتاحیہ ہے جسے روس اور سی آئی ایس میں مسلمانوں کے سوشل نیٹ ورک ”سلام ورلڈ“ کی قیادت نے ایک مقابلے میں منتخب کیا ہے۔

اس افتتاحیہ نعرے کے خالق کزاخستان کے عبد راسل ابیلدینوو ہیں۔ ری پبلک کازان کے الشاط سعیتوو کو اس مقابلے میں دوسرا مقام حاصل ہوا ہے۔ ان کا لکھا نعرہ تھا، ”عقیدے میں یگانگت، انٹر نیٹ پہ یگانگت!“۔

”سلام ورلڈ“ کے صدر عبدالواحد نیازوو نے ریڈیو ”صدائے روس“ کی نامہ نگارہ کو بتایا۔، ”میں نعرہ منتخب کرنے والی کمیٹی میں شریک رہا۔ یہ مقابلہ تین ماہ تک جاری رہا۔ انگریزی میں لکھا نعرہ ”سے سلام ٹو دی ورلڈ“ کو چنا گیا ہے۔ یہ نعرہ مجھے اچھا لگا ویسے ہی جیسے دوسرے اور تیسرے مقام پر آنے والے نعرے اچھے لگے۔ ایسے بہت سے اور بھی اچھے نعرے تھے، جنہیں تخلیق کرنے والوں نے ہمارے نیٹ ورک کے نظریے اور مقصد کو سمجھا ہے“۔

اس مقابلے میں روس کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں کی جانب سے بھیجے گئے دوہزار سے زیادہ نعروں پر غور کیا گیا، عبدالواحد نیازوو بتا رہے ہیں، ”30 % نعرے روس کے جنوب کی شمالی قفقاز کی ریپلکوں انگوشیتیا، چیچنیا اور داغستان کے مسلمانوں کی جانب سے وصول ہوئے تھے۔ ان ریاستوں کے مسلمانوں نے بہت زیادہ فعالیت کا مظاہرہ کیا لیکن جیت کازان اور الماآتا کے حصے میں آئی۔ ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ روس اور آزاد برادری کے دیگر ملکوں کے نوجوان لوگ ان سرگرمیوں میں شریک ہوں جو ہمارے اس منصوبے کے توسط سے رونما ہونگی۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سے ہمارا منصوبہ بحیثیت مجموعی متاثر ہوگا“۔

یاد دلادیں کے ماہ رمضان کے ایام میں ”سلام ورلڈ“ کا آزمائشی مرحلہ شروع کیا گیا تھا۔

اس وقت مذکورہ نیٹ ورک کے استنبول میں واقع صدر دفتر میں تیرہ ملکوں کے نمائندے مصروف کار ہیں جو اس نیٹ ورک کو پوری استعداد کے ساتھ شروع کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جیسا کہ عبدالواحد نیازوو نے بتایا ہے کہ اس نیٹ ورک کو اگلے برس کے ماہ اپریل میں روس کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا۔

فی الحال دنیا بھر میں مقابلہ کرنے کی خاطر سلام ورلڈ نے اشتہار ”جذبات سے عمل تک“ کے نام سے بہترین بل بورڈ تیار کرنے کے بین الاقوامی مقابلے کا اعلان کیا ہے۔ نیازوو کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں مسلسل اسلام مخالف اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے، جیسے کہ خاص طور پر غم و غصہ کی لہر دوڑا دینے والی فلم ”مسلمانوں کی معصومیت“۔ عبدالواحد نیازوو کہتے ہیں: ”جی ہاں، مسلمانوں نے اپنے غیض کا درست اظہار کیا لیکن ہوا کیا؟ بس مسلمانوں نے امریکی جھنڈا نذر آتش کردیا یا اسے پاؤں تلے روند ڈالا، یا پھر مغربی ملکوں کے سفارتخانوں پہ پتھر برسائے۔ آج زیادہ سے زیادہ لوگ سمجھ چکے ہیں کہ گوگل اور یو ٹیوب پہ مغرب والے دہرے معیارات کا استعمال کرکے ان کی جتنی بھی دل آزاری کرتے رہیں، جب تک مسلمانوں کا اپنا اطلاعاتی انفراسٹرکچر بشمول انٹرنیٹ سرور کے نہیں ہوگا، ہم اسی طرح ذلت اور ندامت کا نشانہ بنائے جاتے رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ مہینوں میں ہمارے منصوبے میں لوگوں کی دلچسپی کئی گنا بڑھی ہے“۔

”جذبات سے عمل تک“ نام کے بین الاقوامی مقابلے کے شرکاء کو چاہیے کہ وہ بہترین ڈیزائن اور بہترین نعرہ تیار کرکے بھجوائیں۔ اہم یہ ہونا چاہیے کہ اس میں اس نظریے کا اظہار ہو کہ موجودہ عہد میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور آزادی اظہار کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

جیتنے والے کے تیار کردہ بل بورڈ کے ڈیزائن اور نعرے کو دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں نمایاں طور پر لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔ عبدالواحد نیازوو نے مزید کہا، ”روس سے پہلا نعرہ اور تین ڈیزائن وصول ہو چکے ہیں۔ نعرہ یوں ہے، ”ہمیں حضرت عیسیٰ بھی پیارے ہیں اور محمد بھی“۔ سادہ سی بات ہے لیکن اس میں بہت بڑی سوچ مضمر ہے۔ ہمارے مقابلے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو اور سب سے پہلے غیر مسلموں پہ واضح کیا جائے کہ یاد رکھو ہمارے مذہب کا سارا حسن اس میں ہے کہ کسی بھی انسان کے مذہبی جذبات اور کسی بھی مذہب کے عقائد کی تعظیم کی جانی چاہیے“۔

”جذبات سے عمل تک“ نام کا بل بورڈ تیار کیے جانے کا بین الاقوامی مقابلہ اسلامی تنظیم تعاون کی اعانت سے ہو رہا ہے اور اس میں کوئی بھی شخس حصہ لے سکتا ہے۔

جذبات سے عمل تک

جمعرات, نومبر 01, 2012

حضرت علی رضی اللہ عنہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ بچپن سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوشِ تربیت میں پلے تھے اور جس قدر ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے مطلع ہونے کا موقع ملا تھا اور کسی کو نہیں ملا۔ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی نسبت کثیر الروایت کیوں ہیں؟ فرمایا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دریافت کرتا تھا تو بتاتے تھے۔ اور چپ رہتا تھا تو خود ابتدا کرتے تھے۔

اس کے ساتھ ذہانت، قوتِ استنباط، ملکۂ استخراج ایسا بڑھا ہوا تھا کہ عموماً صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اعتراف کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عام قول تھا کہ خدا نہ کرے کہ کوئی مشکل مسئلہ آن پڑے اور علی رضی اللہ عنہ ہم میں موجود نہ ہوں۔ عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ خود مجتہد تھے مگر کہا کرتے تھے کہ جب ہم کو علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ مل جائے تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔

(ابو حنیفہ سے اقتباس)

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

لاکھوں فرزندان اسلام آج حج ادا کریں گے

اے میرے رب، میں حاضر ہوں۔ 

لاکھوں عازمین رات بھر منیٰ میں قیام اور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد میدان عرفات کے لیے روانہ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ عازمین بسوں، ویگنوں اور گاڑیوں کے علاوہ خصوصی طور پر چلائی گئی ٹرین کے ذریعے میدان عرفات کے لئے روانہ ہورہے ہیں۔ 
 
منیٰ سے عرفات کے درمیان فاصلہ تقریباً 14 کلومیٹر ہے مگر بے پناہ رش کے باعث بڑی تعداد میں عازمین پیدل بھی میدان عرفات کی جانب رواں دواں ہیں۔ 
 
عازمین آج میدان عرفات میں قیام کریں گے اور حج کا اہم ترین رکن وقوف عرفہ ادا کریں گے، اس موقع پرمفتی اعظم مسجد نمرہ میں حج کا خطبہ دیں گے۔ حاجی نماز ظہر اور عصر کی ادائیگی کے بعد دعائیں مانگیں گے اور نماز مغرب ادا کئے بغیر عرفات سے مزدلفہ روانہ ہوجائیں گے۔ جہاں مغرب اور عشا کی نماز ادا کریں گے اور کھلے آسمان تلے شب بسری اور نوافل ادا کریں گے۔ فجر کی نماز کے بعد حجاج واپس منیٰ روانہ ہوں گے جہاں وہ بڑے شیطان کو کنکریاں ماریں گے اور جانور کی قربانی کے بعد سرمنڈوا کر احرام کھول دیں گے جس کے بعد حجاج طواف زیارت کے لئے مکہ روانہ ہوں گے۔ طواف زیارت کے بعد عازمین دوبارہ منیٰ آئیں گے اور اگلے دو دن تینوں شیطانوں کو کنکریاں ماریں گے۔ 

اس سال 25 لاکھ سے زائد مسلمان اور ایک لاکھ اسی ہزار پاکستانی حج فریضہ حج ادا کررہے ہیں۔

جمعہ, ستمبر 28, 2012

یو ٹیوب کا بائیکاٹ؛ گوگل رینکنگ میں تیسرے نمبر پر

کمپنی کو ناقابل تلافی نقصان، روزانہ 30 لاکھ صارفین کی کمی کا سامنا ہے

دنیا بھر میں یو ٹیوب کے بائیکاٹ کی وجہ سے گوگل کو نا قابل تلافی نقصان کا سامنا ہے، کمپنی رینکنگ پہلے نمبر سے تیسرے نمبر پر آ گئی ہے اور اسے روزانہ 30 لاکھ صارفین کی کمی کا سامنا ہے۔

انٹرنیٹ کی ٹریفک رینکنگ پر نظر رکھنے والے پورٹل ’الیکسا‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے مسلمان ملکوں میں معروف سرچ انجن گوگل اور اس کی ملکیتی یو ٹیوب کے بائیکاٹ نے کمپنی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یو ٹیوب سے گستاخانہ فلم نہ ہٹانے پر گوگل کے بائیکاٹ کی وجہ سے کمپنی رینکنگ میں پہلے نمبر سے تیسرے پر آ گئی ہے۔ سائبر سپیس پر حکمرانی کرنے والی گوگل کمپنی یومیہ 30 لاکھ وزیٹرز سے محروم ہو رہی ہے۔ الیکسا کے مطابق گوگل پچھلے آٹھ برسوں سے انٹرنیٹ سرچ انجن کی دنیا میں پہلے نمبر پر رہا ہے، لیکن صارفین کے حالیہ بائیکاٹ سے کمپنی پہلے، دوسرے اور اب تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔ 

اردن سے شائع ہونے والے ”الدستور“ اخبار نے گوگل کی گرتی ساکھ سے متعلق اپنی رپورٹ میں مغربی میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ ’متنازع مواد‘ بلاک نہ کرنے کے باعث انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں نے گوگل سرچ انجن کا متبادل تلاش کرنا شروع کردیا ہے۔ گوگل کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کا فائدہ کمپنی سے کاروباری مسابقت رکھنے والے سرچ انجن اٹھا رہے ہیں۔


پیر, ستمبر 10, 2012

برما: روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف مظاہرے

گذشتہ ہفتے برما کے بدھ بھکشوؤں کی طرف سے مسلمان روہنگیا (Rohingy) اقلیت کے خلاف مظاہروں پر بہت سے مبصرین کو حیرت ہوئی ہے۔ تجزیہ کار کہتےہیں کہ ملک کی بدھسٹ آبادی کی طرف سے حب الوطنی کا یہ جارحانہ مظاہرہ، برما کے حکام کی قومی تشخص کو اجاگر کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس تشویش کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ یہ کوششیں قابو سے باہر ہوسکتی ہیں۔

برما میں فوجی حکومت کے خلاف 2007 ءکی تحریک کے بعد، گذشتہ ہفتے بدھ بھکشوؤں نے پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ لیکن سنہ 2007 کی تحریک اور ان مظاہروں کے درمیان ایک نمایاں فرق تھا۔

2007ء کی تحریک میں جسے Saffron Revolution کا نام دیا گیا ہے، محبت اور جمہوریت کا پیغام دیا گیا تھا، لیکن گذشتہ ہفتے Mandalay میں مارچ کرنے والے سیکڑوں بھکشوؤں نے روہنگیا کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ روہنگیا کا شمار دنیا کی مظلوم ترین اقلیتوں میں ہوتا ہے۔

یہ بھکشو صدر Thein Sein کی اس تجویز کی حمایت کررہے تھے کہ اس مسلمان اقلیت کو جس کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے، عام آبادی سے الگ کردیا جائے اور ملک بدر کردیا جائے۔

فرقہ وارانہ کشیدگی اتنی زیادہ ہے کہ یہ بات بھی نظر انداز کر دی گئی ہے کہ 2007 میں جب فوجی حکومت نے بدھ بھکشوؤں کے خلاف پُر تشدد کارروائی کی تھی، اس وقت صدرتھائین سائن برما کے وزیرِاعظم تھے ۔

لندن اسکول آف اکنامکس کے محقق، Maung Zarni کہتے ہیں کہ حکام بدھوں کی قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کےبقول، اُن جنرلوں کو بھکشوؤں کا قاتل سمجھا جاتا ہے۔ دنیا نے وہ مناظر دیکھے ہیں جب Saffron Revolution کے دوران، فوجیوں نے بدھ بھکشوؤں پر گولیاں چلائی تھیں۔ اب انھوں نے بڑی کامیابی سے خود کو بدھ مت کے چیمپین، اور مغربی برما میں بدھ آبادیوں کے محافظ بناکر پیش کیا ہے۔ یہ در اصل انتہائی عیاری پر مبنی، لیکن خطرناک، سیاسی چال ہے۔

سنہ1988 میں طالب علموں نے جمہوریت کی حمایت میں جو مظاہرے کیے تھے ، بدھ بھکشوؤں نے ان کی بھی زبردست حمایت کی تھی ۔ فوج نے اس احتجاج کو بھی طاقت کے زور پر کچل دیا تھا ۔

اگرچہ ان تمام مظاہروں اور احتجاجوں کے مقاصد عظیم تھے، لیکن تجزیہ کار کہتےہیں کہ تاریخی طور پر برما میں بدھ مت نسلی قوم پرستی کے جذبے سے متاثر ہوا ہے جو کبھی کبھی سر اٹھاتا رہتا ہے ۔

برما کی آبادی میں 90 فیصد لوگ بدھ مت کے ماننے والے ہیں اور نسلی طور پر برمی ہیں، لیکن بقیہ آبادی 100 سے زیادہ مختلف نسلی اور مذہبی اقلیتوں پر مشتمل ہے۔

Vahu Development Institute کی آنگ تھو نائین کہتی ہیں کہ حکام ایک طویل عرصے سے برمی اکثریت کے خیالات کو پوری آبادی پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں تاکہ اقلیتوں کو اقتدار سے باہر رکھا جاسکے۔ ان کے الفاظ میں، تحریری شکل میں تو ایسے قوانین اور ضابطے موجود نہیں ہیں، لیکن عملاً، اگر آپ عیسائی ہیں، یا مسلمان ہیں، تو آپ کو فوج میں کسی بڑے عہدے پر ترقی نہیں دی جائے گی ۔ فوج میں آپ کوئی اہم عہدہ حاصل نہیں کر سکتے۔

برما کے میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ اگرچہ حکام نے بھکشوؤں کو تین روز مظاہروں کی اجازت دے دی تھی، لیکن جب وہ بہت زیادہ بڑھنے لگے، تو انھوں ان کی حوصلہ شکنی کی کوشش کی۔

برما: روہنگیا اقلیت کے خلاف مظاہرے

جمعہ, ستمبر 07, 2012

فیس بک کی حریف سلام ورلڈ

ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کی انٹرنینشل اسلامک یونیورسٹی میں ایک روسی طالبہ جحان جعفر نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر ویڈیو شائع کی تو اس پر ترک زبان میں رائے کا اظہار کیا گیا۔ جحان جعفر یہ زبان بولنا نہیں جانتی تھیں لیکن انہوں نے ویڈیو کے صفحے پر موجود ترجمے کی سہولت کی مدد سے اس رائے کا جواب دیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’سلام ورلڈ‘ پر یہ ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ویب سائٹ کو امید ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ملانے اور رابطوں کو آسان بنایا جا سکے گا۔

ملائیشیا کے علاوہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ سلام ورلڈ کا تجرباتی ٹیسٹ اس وقت بوسنیا، ترکی، مصر اور انڈونیشیا میں موجود ایک ہزار صارفین کے ذریعے کیا جارہا ہے اور نومبرمیں سائٹ دنیا بھر میں استعمال کے لیے دستیاب ہوگی۔ ویب سائٹ کی پہلی جھلک سے یہ سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس کی طرح ہی نظر آتی ہے۔

نیلی اور سفید وضع قطع اور وال پر پیغامات لکھنے، تصاویر اور ویڈیوز شائع کرنے جیسی خصوصیات سماجی رابطے کی مقبول ویب سائٹ فیس بک کی ابتدائی خصوصیات سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن کثیر الثقافتی اور کثیراللسان منصوبے کے حامی افراد کا کہنا ہے کہ ویب سائٹ پر موجود مواد ان میں تفریق کرے گا۔ سلام ورلڈ کا مقصد مسلمانوں کو ایک محفوظ جگہ فراہم کرنا ہے جہاں پر توہین مذہب، جوئے سمیت اسلامی اصولوں کے خلاف کسی قسم کا مواد موجود نہ ہو۔

ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ مسلم دنیا کے لیے ایک ویب سائٹ تیار کی گئی ہے اس سے پہلے بھی کوششیں کی گئی ہیں لیکن وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ فن لینڈ کی مسلم ڈاٹ کام (Muxlim.com) اس وقت بند ہوچکی ہے۔ اسی طرح سے مصر کی جماعت اخوان المسلمین نے اخوان بک ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائٹ شروع کی تھی اور یہ بھی بند ہوچکی ہے۔ 

ناقدین کا کہنا ہے کہ ان ویب سائٹس کا ہدف علاقائی صارفین تھے یا یہ اپنے خطے تک محدود تھیں۔ سلام ورلڈ ترکی سے شروع کی جارہی ہے لیکن اس کے اصلاح کاروں کا تعلق بارہ سے زیادہ ممالک سے ہے۔ ویب سائٹ کا مقصد دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحد کرنا ہے اور اس پر مواد کی جانچ پڑتال کرنے کے لیےتین سطحی فلٹر موجود ہونگے۔

ایک طالب علم عبدل ہادی بن حاجی کے مطابق’اگر سیاسی مقاصد کے لیے چیزوں کو سنسر کیا جائے گا، مثال کے طور پر شام میں اصل صورتحال، برما میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات کے بارے میں جاننے سے روکا جائے تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔

ماہرین کے مطابق اگر دنیا بھر میں مسلمان مسلم ورلڈ کا بڑے پیمانے پر استعمال شروع بھی ہوجائے تو پھر بھی اس کا فیس بک کی حریف بننا مشکل ہوسکتا ہے۔ تاہم مسلم ورلڈ کے ایشیا پیسفک کے سربراہ سلام سلیمانوف کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ ان کے خیال میں ایک متبادل کی اشد ضرورت ہے۔ ’اگر ہم ایک ارب پچاس کروڑ مسلمانوں کی بات کرتے ہیں تو ان میں سے ہوسکتا ہے میرے موقف کی حمایت کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہو لیکن پھر بھی عددی اعتبار سے یہ تعداد بہت بڑی ہوگی۔‘

فیس بک کی حریف سلام ورلڈ

جمعہ, اگست 10, 2012

ابن سینا

ان کا مکمل نام علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا (980 تا 1037 عیسوی) ہے جو کہ دنیائے اسلام کے ممتاز طبیب اور فلسفی ہیں۔ بوعلی سینا کو مغرب میں Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے۔

”الشیخ الرئیس“ ان کا لقب ہے، فلسفی، طبیب اور عالم تھے۔ اسلام کے عظیم تر مفکرین میں سے تھے اور مشرق کے مشہور ترین فلاسفروں اور اطباء میں سے تھے۔ صفر 370 ہجری 980 عیسوی کو فارس کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”افنشہ“ میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ اسی گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ ان کے والد ”بلخ“ (اب افغانستان) سے آئے تھے۔ بچپن میں ہی ان کے والدین بخارا (اب ازبکستان) منتقل ہوگئے جہاں ان کے والد کو سلطان نوح بن منصور السامانی کے کچھ مالیاتی امور کی ادارت سونپی گئی۔ بخارا میں دس سال کی عمر میں قرآن ختم کیا اور فقہ، ادب، فلسفہ اور طبی علوم کے حصول میں سرگرداں ہوگئے اور ان میں کمال حاصل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے سلطان نوح بن منصور کے ایک ایسے مرض کا علاج کیا تھا جس سے تمام تر اطباء عاجز آچکے تھے، خوش ہوکر انعام کے طور پر سلطان نے انہیں ایک لائبریری کھول کردی تھی۔ بیس سال کی عمر تک وہ بخارا میں رہے، اور پھر خوارزم چلے گئے جہاں وہ کوئی دس سال تک رہے (392-402 ہجری) خوارزم سے جرجان پھر الری اور پھر ہمذان منتقل ہوگئے جہاں نو سال رہنے کے بعد اصفہان میں علاء الدولہ کے دربار سے منسلک ہوگئے۔ اس طرح گویا انہوں نے اپنی ساری زندگی سفر کرتے گزاری۔ ان کا انتقال ہمذان میں شعبان 427 ہجری 1037 عیسوی کو ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ ”قولنج“ کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے اور جب انہیں اپنا اجل قریب نظر آنے لگا تو انہوں نے غسل کرکے توبہ کی، اپنا مال صدقہ کردیا اور غلاموں کو آزاد کردیا۔

ابن سینا نے علم ومعرفت کے بہت سارے زمروں میں بہت ساری تصانیف چھوڑیں ہیں جن میں اہم یہ ہیں:

ادبی علوم: اس میں منطق، لغت اور شعری تصنیفات شامل ہیں۔

نظری علوم: اس میں طبیعات، ریاضی، علومِ الہی وکلی شامل ہیں۔

عملی علوم: اس میں کتبِ اخلاق، گھر کی تدبیر، شہر کی تدبیر اور تشریع کی تصنیفات شامل ہیں۔

ان اصل علوم کے ذیلی علوم پر بھی ان کی تصنیفات ہیں 
ریاضی کی کتابیں: 
ابن سینا کی کچھ ریاضیاتی کتابیں یہ ہیں: رسالہ الزاویہ، مختصر اقلیدس، مختصر الارتماطیقی، مختصر علم الہیئہ، مختصر المجسطی، اور ”رسالہ فی بیان علہ قیام الارض فی وسط السماء“ (مقالہ بعنوان زمین کی آسان کے بیچ قیام کی علت کا بیان) یہ مقالہ قاہرہ میں 1917 میں شائع ہوچکا ہے۔

طبیعات اور اس کے ذیلی علوم: رسالہ فی ابطال احکام النجوم (ستاروں کے احکام کی نفی پر مقالہ)، رسالہ فی الاجرام العلویہ (اوپری اجرام پر مقالہ)، اسباب البرق والرعد (برق ورعد کے اسباب)، رسالہ فی الفضاء (خلا پر مقالہ)، رسالہ فی النبات والحیوان (پودوں اور جانوروں پر مقالہ)۔

طبی کتب: ابن سینا کی سب سے مشہور طبی تصنیف ”کتاب القانون“ ہے جو نہ صرف کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر شائع ہوچکی ہے بلکہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی۔ 
ان کی دیگر طبی تصنیفات یہ ہیں: کتاب الادویہ القلبیہ، کتاب دفع المضار الکلیہ عن الابدان الانسانیہ، کتاب القولنج، رسالہ فی سیاسہ البدن و فضائل الشراب، رسالہ فی تشریح الاعضاء، رسالہ فی الفصد، رسالہ فی الاغذیہ والادویہ، ارجوزہ فی التشریح، ارجوزہ المجربات فی الطب، اور کئی زبانوں میں ترجم ہوکر شائع ہونے والی ”الالفیہ الطبیہ“۔

ابن سینا نے موسیقی پر بھی لکھا، ان کی موسیقی پر تصنیفات یہ ہیں: مقالہ جوامع علم الموسیقی، مقالہ الموسیقی، مقالہ فی الموسیقی۔

ان کی اہم تصانیف میں
- کتاب الشفاء
- القانون فی الطب
- اشارات

یورپ میں ان کی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے اور وہاں ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔