پیر, ستمبر 10, 2012

برما: روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف مظاہرے

گذشتہ ہفتے برما کے بدھ بھکشوؤں کی طرف سے مسلمان روہنگیا (Rohingy) اقلیت کے خلاف مظاہروں پر بہت سے مبصرین کو حیرت ہوئی ہے۔ تجزیہ کار کہتےہیں کہ ملک کی بدھسٹ آبادی کی طرف سے حب الوطنی کا یہ جارحانہ مظاہرہ، برما کے حکام کی قومی تشخص کو اجاگر کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس تشویش کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ یہ کوششیں قابو سے باہر ہوسکتی ہیں۔

برما میں فوجی حکومت کے خلاف 2007 ءکی تحریک کے بعد، گذشتہ ہفتے بدھ بھکشوؤں نے پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ لیکن سنہ 2007 کی تحریک اور ان مظاہروں کے درمیان ایک نمایاں فرق تھا۔

2007ء کی تحریک میں جسے Saffron Revolution کا نام دیا گیا ہے، محبت اور جمہوریت کا پیغام دیا گیا تھا، لیکن گذشتہ ہفتے Mandalay میں مارچ کرنے والے سیکڑوں بھکشوؤں نے روہنگیا کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ روہنگیا کا شمار دنیا کی مظلوم ترین اقلیتوں میں ہوتا ہے۔

یہ بھکشو صدر Thein Sein کی اس تجویز کی حمایت کررہے تھے کہ اس مسلمان اقلیت کو جس کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے، عام آبادی سے الگ کردیا جائے اور ملک بدر کردیا جائے۔

فرقہ وارانہ کشیدگی اتنی زیادہ ہے کہ یہ بات بھی نظر انداز کر دی گئی ہے کہ 2007 میں جب فوجی حکومت نے بدھ بھکشوؤں کے خلاف پُر تشدد کارروائی کی تھی، اس وقت صدرتھائین سائن برما کے وزیرِاعظم تھے ۔

لندن اسکول آف اکنامکس کے محقق، Maung Zarni کہتے ہیں کہ حکام بدھوں کی قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کےبقول، اُن جنرلوں کو بھکشوؤں کا قاتل سمجھا جاتا ہے۔ دنیا نے وہ مناظر دیکھے ہیں جب Saffron Revolution کے دوران، فوجیوں نے بدھ بھکشوؤں پر گولیاں چلائی تھیں۔ اب انھوں نے بڑی کامیابی سے خود کو بدھ مت کے چیمپین، اور مغربی برما میں بدھ آبادیوں کے محافظ بناکر پیش کیا ہے۔ یہ در اصل انتہائی عیاری پر مبنی، لیکن خطرناک، سیاسی چال ہے۔

سنہ1988 میں طالب علموں نے جمہوریت کی حمایت میں جو مظاہرے کیے تھے ، بدھ بھکشوؤں نے ان کی بھی زبردست حمایت کی تھی ۔ فوج نے اس احتجاج کو بھی طاقت کے زور پر کچل دیا تھا ۔

اگرچہ ان تمام مظاہروں اور احتجاجوں کے مقاصد عظیم تھے، لیکن تجزیہ کار کہتےہیں کہ تاریخی طور پر برما میں بدھ مت نسلی قوم پرستی کے جذبے سے متاثر ہوا ہے جو کبھی کبھی سر اٹھاتا رہتا ہے ۔

برما کی آبادی میں 90 فیصد لوگ بدھ مت کے ماننے والے ہیں اور نسلی طور پر برمی ہیں، لیکن بقیہ آبادی 100 سے زیادہ مختلف نسلی اور مذہبی اقلیتوں پر مشتمل ہے۔

Vahu Development Institute کی آنگ تھو نائین کہتی ہیں کہ حکام ایک طویل عرصے سے برمی اکثریت کے خیالات کو پوری آبادی پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں تاکہ اقلیتوں کو اقتدار سے باہر رکھا جاسکے۔ ان کے الفاظ میں، تحریری شکل میں تو ایسے قوانین اور ضابطے موجود نہیں ہیں، لیکن عملاً، اگر آپ عیسائی ہیں، یا مسلمان ہیں، تو آپ کو فوج میں کسی بڑے عہدے پر ترقی نہیں دی جائے گی ۔ فوج میں آپ کوئی اہم عہدہ حاصل نہیں کر سکتے۔

برما کے میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ اگرچہ حکام نے بھکشوؤں کو تین روز مظاہروں کی اجازت دے دی تھی، لیکن جب وہ بہت زیادہ بڑھنے لگے، تو انھوں ان کی حوصلہ شکنی کی کوشش کی۔

برما: روہنگیا اقلیت کے خلاف مظاہرے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔