زبان کی حفاظت

قرآن اور احادیث نبوی میں راست گوئی، خوش مزاجی اور خوش اخلاقی کو بنیادی اہمیت دی گئی


پروفیسر امیرالدین مہر

انسان کی اہم خصلت جس کی وجہ سے وہ معاشرے میں مشہور و مقبول،ہر دل عزیز اور ہر شخص کا پسندیدہ بنتا ہے اور اپنی معاشرتی و معاشی، سیاسی و سماجی زندگی میں کامیاب و کامران ہوتا ہے،وہ اس کی زبان اور گفتگو ہے۔ انسان کے جسم میں زبان ایک چھوٹا سا عضو ہے، لیکن یہ اپنے کردار و افعال کی وجہ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اسے اپنی آیات و انعامات میں شمار کیا ہے۔ اس کی نعمت کے بارے میں ارشاد باری تعالٰی ہے: ”کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں، ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے اور اسے دونوں راستوں کی رہنمائی نہیں کی۔“ (سورة البلد)
 اللہ تعالٰی نے قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشادات میں زبان کے بارے میں بہت سی اچھی بنیادی باتیں بتائیں اور اسے سنبھال کر رکھنے اور احتیاط سے استعمال کرنے کے بارے میں بہت سی ہدایات دی ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے: اور لوگوں سے بھلی بات کہو۔ اہل ایمان کے بارے میں فرمایا گیا: ”جو لغو (بات اور کام) سے دور رہتے ہیں“۔ (سورة البقرہ)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:پاکیزہ بات صدقہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ بھلائی کی بات کہے یا خاموش رہے۔ (متفق علیہ)
بعض اوقات انسان اپنی زبان کو آزاد چھوڑدیتا ہے اور اس کی حفاظت اور نگرانی نہیں کرتا تو یہ اپنے منفی اور مثبت اثرات ضرور دکھاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک بندہ اللہ کی رضا کا کوئی کلمہ کہتا ہے اور اس کی طرف خاص توجہ نہیں کرتا، لیکن اس کی وجہ سے اللہ اس کے درجات بلند کردیتا ہے۔ ایک اور بندہ اللہ کی ناراضی کا کوئی کلمہ کہتا ہے جس کی طرف وہ کوئی خاص توجہ نہیں کرتا، لیکن اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں جاگرتا ہے۔“ (صحیح بخاری )

معلوم ہوا کہ زبان سے نکلنے والا ہر کلمہ اپنے مثبت یا منفی اثرات اور وزن رکھتا ہے اور نتیجہ دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبان کی اہمیت اور اثرات کے پیش نظر فرمایا: جو شخص مجھے اس چیز کی ضمانت دے جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان (زبان) ہے اور اس چیز کی ضمانت دے جو اس کی دو رانوں کے درمیان ہے (شرم گاہ) تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری)

جس بات کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضامن ہوں اور مومن بندہ ان کی شرائط کو پورا کرے، تو اس کے لیے جنت لازم ہے۔ 

 زبان کے کردار پر غور کیا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ اکثر عبادتیں، نیکیاں بھلائیاں، بھلائی کی باتیں اور حقوق العباد کی ادائیگی زبان کے ذریعے ہوتی ہے،لہٰذا ان میں زبان کا ۷۰ فیصد حصہ ہے تو کوئی مبالغہ نہیں۔ جیسے کلمہٴ شہادت، نماز، ذکر، دعا، استغفار، حج کے احکام اور دعائیں، سلام کا تبادلہ، سچ بولنا، حق بات کہنا، وعظ و نصیحت، تلاوت قرآن، انصاف کی بات کرنا اور فیصلہ دینا، اقامت، اذان کہنا، نماز پڑھانا، تعلیم دینا، شکر ادا کرنا، لوگوں میں صلح کرانا، سچّی گواہی دینا، وعدہ کرنا، بیمار کی عیادت اور دعا اور بہت سے اخلاق و آداب زبان کے وسیلے سے ادا ہوتے ہیں، اسی طرح بہت سی برائیوں کا تعلق بھی زبان سے ہے، جیسے کفر کے بول، جھوٹ، گالی گلوچ، جھوٹی گواہی، لعنت کرنا، غیبت، بہتان، چغلی، گندے مذاق اور ٹھٹھے، کسی کی بے عزتی، خوشامد، فحش اور بے حیائی کی باتیں کرنا، گناہ کے کاموں کے مشورے، بے ہودہ راگ، طعنہ زنی، عیب جوئی اور کتنے ہی برے اخلاق اور بے حیائی کے کام ہیں جن کا بڑا حصہ زبان ادا کرتی ہے۔
 ایک حدیث میں زبان کا کردار اس طرح آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب انسان صبح اٹھتا ہے تو اس کے جسم کے تمام اعضاء عاجزی سے کہتے ہیں تو ہمارے حقوق کے بارے میں اللہ تعالٰی سے ڈر۔ ہم تیرے ساتھ ہیں، اگر تو سیدھی اور درست رہے گی تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ (جامع ترمذی)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبان کے کردار کا ایک پہلو یہ بتایا ہے کہ وہ کسی کو گالی دیتی ہے اور بدگوئی کرتی ہے، ناشائستہ اور نامناسب الفاظ کہتی ہے، اس کے بعد وہ تو دانتوں کے حصار میں چھپ کر بیٹھ جاتی ہے، اور جوتے دوسرے اعضاء جھیلتے ہیں اور پٹائی برداشت کرتے ہیں، لیکن یہ حفظ و امان میں بیٹھی رہتی ہے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے بیٹے حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کو زبان کے دو بنیادی کردار یعنی گفتگو اور خاموشی کے بارے میں وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ”خاموشی کی وجہ سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے اس کا تدارک تو آسان ہے مگر گفتگو سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے، اس کا تدارک مشکل ہوتا ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ مشکیزہ کا منہ باندھ کر ہی پانی کو بہنے سے روکا جاسکتا ہے“۔

معاشرتی اور عمومی لحاظ سے دیکھا جائے تو میٹھے اور اچھے بول بعض اوقات اتنا بڑا کام کرجاتے ہیں کہ ایسے کام ہزاروں لاکھوں خرچ کرنے سے نہیں ہوپاتے۔ جب گفتگو کی یہ اہمیت اور ضرورت ایک حقیقت ہے تو گفتگو کے فرائض و آداب کا جاننا، سیکھنا اور ان کا گفتگو میں استعمال اور یاد رکھنا ضروری ہے۔ ایک اچھے انسان کی حیثیت سے اس طرف توجہ کرنا لازم ہے اور مسلم و مومن کی حیثیت سے اللہ تعالٰی کے اس قول کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو۔ (سورہ ق)

گفتگو کا حقوق العباد سے تعلق ہونے کی وجہ سے اس کی حیثیت دُہری ہے۔ ایک طرف یہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتا ہے تو دوسری طرف یہ حقوق العباد میں سے ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں بازپُرس بھی دہری ہوگی۔ جیسے کوئی کسی سے سچ بولتا ہے تو یہ شخص اس کا حق ادا کردیتا ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالٰی کا حق بھی ادا کردیتا ہے، دوسرے پہلو سے اگر کوئی شخص کسی سے جھوٹ بولتا ہے تو یہ اس شخص سے دروغ بیانی کرکے اس کا حق تلف کرتا ہے اور اللہ تعالٰی کی نافرمانی بھی کرتا ہے۔ اسے احتیاط، ذمے داری اور شرعی و اخلاقی ضابطوں کے مطابق استعمال کرنے کے لیے چند اہم نکات بیان کیے جاتے ہیں۔
  • گفتگو چاہے مختصر ہو یا تفصیلی اسے شروع کرنے سے پہلے اس کے نکات پر غور کرلیا جائے، چاہے چند منٹوں اور سیکنڈوں کے لیے ہی، لیکن سوچنا ضرور چاہیے۔
  • پہلے تولو، پھر بولو کا اصول ہر وقت سامنے رہے، یہ بات سامنے رہے کہ اس گفتگو کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
  • جو باتیں ایک مسلمان پر فرض ہیں، ان کے اظہار میں سچ و حق کو سامنے رکھے جو باتیں ضرور کہنی چاہےئیں، ان میں سچ بولنا حق بات کہنا، انصاف کی بات کرنا، سچی گواہی دینا، سچا وعدہ کرنا، نیکی کا کہنا اور برائی سے روکنا، سچا اقرار کرنا اور اللہ کا ذکر کرنا شامل ہیں۔
  • مخاطب کی سمجھ، معیار اور مرتبے کے مطابق گفتگو کرنا، اپنے والدین، بڑی عمر کے افراد، اہل علم، اساتذہ، رشتے داروں سے گفتگو میں بہترین انداز سے گفتگو کی جائے، عام آدمیوں، بچوں اور چھوٹی عمر والوں سے گفتگو کا انداز اور ہوگا۔
  • مخاطب اور دوسرے شخص کی بات سننا اور بات مکمل ہونے پر اپنی بات کہنا۔
  • گفتگو میں اسلامی آداب، ثقافت اور علاقائی تہذیب کے آداب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور نرمی سے دل پسند بات کرنا چاہیے۔
  • گفتگو کرتے وقت ہلکی پھلکی مسکراہٹ اور بات درمیانی آواز میں کی جائے۔ خواہ مخواہ آواز بلند کرنا، آواز کو مصنوعی بنانا اور کرخت دار کرنا مناسب نہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: ”سب سے بری اور ناپسندیدہ آواز گدھے کی ہے“۔ (سورہٴ لقمان)
  • عورتوں کو نامحرموں اور غیرمردوں سے بات کرنی ہو تو صاف اور کھرے لہجے میں بات کرنی چاہیے۔ اس موقع پر نرمی، نزاکت اور مٹھاس والی گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔
  • اہم اور ضروری بات کو خاص طور پر اور عام باتوں کو بھی ٹھہر ٹھہر کر اور صاف کہنا چاہیے اور جہاں اشتباہ کا موقع ہو تو وہ دو دو بلکہ تین تین مرتبہ بات کہنی چاہیے۔
  • سائل کے سوال پر جواب معلوم ہو تو بتانا چاہیے اور اگر معلوم نہ ہو تو مجھے معلوم نہیں کہنا چاہیے، اس سے خیر و بھلائی آتی ہے انسان کی عزت اوربڑائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔