ڈاکٹر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ڈاکٹر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ, دسمبر 21, 2012

حاملہ خواتین: صبح کے وقت متلی سے بچنے کا طریقہ

ایسی حاملہ خواتین جنہیں صبح کے وقت اکثر متلی کا سامنا رہتا ہے، انہیں اس کیفیت سے نجات کے لیے پورے دن میں تھوڑی تھوڑی مقدار میں پانچ یا چھ مرتبہ کھانا کھانا چاہیے۔ جرمنی میں گائنیکالوجی کے ماہر ڈاکٹروں کی تنظیم کے صدر کرسٹیان آلبرِنگ کہتے ہیں کہ حاملہ خواتین اگر کھانا کم مقدار میں کھائیں اور اسے اچھی طرح چبائیں، تو وہ اس خوراک کو بہت اچھی طرح ہضم کر سکیں گی۔ اس کے علاوہ ایسی حالت میں خواتین کو صرف وہی کچھ کھانا چاہیے، جو انہیں واقعی بہت پسند ہو۔ ورنہ یہ امکان بہت زیادہ ہو جائے گا کہ انہیں بار بار متلی کی کیفیت اور قے کا سامنا رہے گا۔

جرمن گائنیکالوجسٹس ایسوسی ایشن کے صدر کے مطابق حاملہ خواتین میں متلی اور قے کی کیفیت بہت زیادہ ہوتی ہے، خاص طور پر صبح کے وقت۔ اس کا سبب حمل کے بعد ہارمونز میں آنے والی وہ تبدیلیاں ہوتی ہیں جو صبح کے وقت زیادہ ہوتی ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر ان کے اثرات کسی بھی وقت سامنے آ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر Christian Albring کے بقول صبح کے وقت مسلسل متلی ہونے اور قے آنے جیسی کیفیت حمل کے چھٹے اور 14 ویں ہفتے کے درمیان سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد کے عرصے میں حاملہ خواتین میں یہ شکایت بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صبح کے وقت متلی کی یہ کیفیت اتنی شدید نہیں ہوتی کہ مریضہ کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑے۔ طبی زبان میں اس حالت کو hyperemesis gravidarum کہتے ہیں۔ ڈاکٹر آلبرِنگ کا کہنا ہے کہ صبح کے وقت طبیعت کی یہ خرابی یا morning sickness دو سے تین فیصد تک حاملہ خواتین میں دیکھنے میں آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ معمول کی حالت ہوتی ہے، جس کا کسی ہسپتال میں علاج ضروری نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر کرسٹیان آلبرِنگ کہتے ہیں، ’صبح کے وقت متلی کی شکار حاملہ خواتین کو خاص طور پر دن بھر ایسی خوراک استعمال کرنی چاہیے جن میں گلوکوز اور نشاستہ یعنی کاربوہائیڈریٹ زیادہ ہوں۔ ایسی خوراک میں خاص طور پر میٹھی اشیاء تو ہوں لیکن چکنائی اور تیزابیت پیدا کرنے والی خوراک سے اجتناب بہتر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسی خواتین کو پکے ہوئے کھانوں کی خوشبو سے دور رہنا چاہیے اور ریفریجریٹر میں رکھی گئی اشیاء سے پرہیز بھی کرنا چاہیے کیونکہ متلی کی کیفیت میں انسانوں کی سونگھنے کی حس بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

حاملہ خواتین: صبح کے وقت متلی سے بچنے کا طریقہ

اتوار, دسمبر 09, 2012

شکیل آفریدی نے سی آئی اے حکام سے 4 ملاقاتیں کیں

شکیل آفریدی کو مخبری کے دس ہزار ڈالر ملے، رابطے کے لئے سپیشل ڈیوائس تیار ہوئی۔ ہیپاٹائٹس ٹیسٹ کے بہانے اسامہ کے بچوں کے سیمپل امریکا بھجوائے گئے۔ اہلیہ کی وائس میچنگ بھی کی گئی۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ دنیا نیوز نے حاصل کر لی۔

ایبٹ آباد کمشن رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی آخری وقت تک اس بات سے لاعلم تھے کہ ایبٹ آباد کمپاونڈ میں جن افراد کی ڈی این اے سیمپلنگ انہیں کرنی ہے وہ کوئی اور نہیں اسامہ کے بچے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سی آئی اے کے لوگوں کے ساتھ پہلی ملاقات پشاورمیں ایک بین الاقوامی این جی او کے دفتر میں ہوئی تین سے چار ملاقاتوں میں ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایبٹ آباد کے اس علاقے میں جہاں اسامہ کا کمپاونڈ موجود تھا ہیپاٹائٹس کے خلاف مہم چلانے کی حامی بھر لی۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے اس علاقے میں تین بار ہیپاٹائٹس کے خلاف کمپئین چلائی مگر اسامہ بن لادن کے بچوں کو قطرے پلا سکے نہ اس کی آڑ میں سمپلنگ ہو سکی جس کے بعد ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایک لیڈی ہیلتھ وزیٹر کو تیس ہزار روپے انعام کا لالچ دیا اور کہا کہ اگر اس کمپاونڈ میں رہنے والے بچوں کی سمپلنگ نہ ہو سکی تو ہمارا پروگرام بند ہو جائے گا۔ لیڈی ہیلتھ وزیٹر نے اسامہ کے ساتھ رہائش پذیر خالد الکویتی کے ساتھ تعلقات استوار کئے اور اس کے ذریعے ڈی این اے سمپل حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ خالد الکویتی نے اس شرط پر کہ وہ گھر میں داخل نہیں ہو گی۔ بچوں کو باہر بلا کر ویکسین پلانے کی اجازت دے دی اور لیڈی ہیلتھ وزیٹر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ یہ سمپل کنفرمیشن کے لئے امریکہ بجھوائے گئے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ شکیل آفریدی کے پاس سی آئی اے کی دی ہوئی ایک ڈیوائیس تھی جس پر اسلام آباد سے سی آئی اے کی ایک خاتون اہلکار ان کے ساتھ رابطہ کرتی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شکیل آفریدی کو اسلام آباد بلایا جاتا تھا۔ اس دوران ایک بڑی گاڑی میں سی آئی اے کی ایک لیڈی ایجنٹ لیٹ کر سفر کرتی تھی تاکہ گاڑی بظاہر خالی محسوس ہو۔ ایجنسیوں کے پیچھا کرنے کا خدشہ دور ہونے پر شکیل آفریدی کو اس گاڑی میں سوار کرایا جاتا اور وہ بھی اس گاڑی میں لیٹ کر سفر کرتے جنہیں ہدایات دینے کے بعد گاڑی سے اتار دیا جاتا۔ اسامہ کے کمپاونڈ کی مکمل معلومات بھی سی آئی اے کو ڈاکٹر شکیل کو دی گئی ڈیوائیس کے ذریعے حاصل ہوئیں، اسامہ کی اہلیہ خیریہ کی وائس میچنگ بھی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی ایک اسسٹنٹ ڈاکٹر آمنہ کے ذریعے کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ڈی این اے کی کنفرمیشن پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ہدایت ملی کہ وہ تین روز میں اپنا پراجیکٹ وائینڈ اپ کر دیں۔ اپنی جائیداد کا انتظام کریں اور امریکہ شفٹ ہو جائیں۔ آپریشن کے دن تک سی آئی اے ڈاکٹر شکیل کو پاکستان چھوڑنے کا کہتی رہی انہیں بگرام کے راستے افغانستان لے جانے کی پیش کش بھی کی گئی لیکن وہ لیت لعل سے کام لیتے رہے اور آپریشن کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ڈآکٹر شکیل آفریدی کو سی آئی سے اس کام کے عوض دس ہزار ڈالر دئیے گئے۔

شکیل آفریدی نے سی آئی اے حکام سے 4 ملاقاتیں کیں: ایبٹ آباد کمیشن

ہفتہ, دسمبر 08, 2012

پاکستان: آپریشن سے بچے کی پیدائش پر ڈاکٹروں کا اصرار کیوں؟

پاکستان میں آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجوہات اکثر بچے کو جنم دینے والی ماؤں کو بھی پتہ نہیں ہوتیں۔ ستائیس سالہ نازیہ جو حال ہی میں ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں، کا تجربہ کافی تلخ ہے وہ بتاتی ہیں، ”میری یہ پہلی ڈیلیوری تھی۔ میں ہسپتال گئی تھی معمول کے چیک اپ یا معائنے کے لئے۔ میں وہاں گئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپریشن کی ضرورت ہے اس لئے فوری طور پر ہسپتال میں داخل ہو جائیں۔ مجھے انہوں نے وجہ کوئی نہیں بتائی۔ بس داخل کرنے کے بعد آپریشن کر دیا۔ مجھے کسی طرح کا درد نہیں تھا نہ ہی کوئی مسلئہ تھا لیکن انہوں نے آپریشن کیوں کیا یہ میں نہیں بتا سکتی‘‘۔ نازیہ نے مزید بتایا کہ آپریشن پر اٹھنے والے اخراجات اتنے زیادہ تھے کہ انہیں مجبوراً آپریشن کے دوسرے دن ہی ہسپتال سے رخصت لینی پڑی کیونکہ مزید اخراجات اٹھانے کی سکت ان کا خاندان نہیں رکھتا۔

یہ صرف نازیہ کا ہی نہیں بلکہ کئی خواتین کا شکوہ ہے جو ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ان کی فیملی ڈاکٹرز معائنے کے بعد انہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ بچے کی پیدائش قدرتی طریقے سے عمل میں آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ تاہم ان ہسپتالوں میں جہاں بچے کی پیدائش کے لئے اندراج کروایا جاتا ہے، وہاں کوئی نہ کوئی مسلئہ بتا کر آپریشن تجوہر کر دیا گیا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقرر کردہ معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں آپریشن کے ذریعے بچے کی ولادت کا تناسب 15 فیصد سے تجاوز نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان میں اس کا کیا تناسب ہے اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ سرکاری سطح پر ہسپتالوں سے ریکارڈ اکٹھا نہیں کیا جاتا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آپریشن سے بچوں کی ولادت کا تناسب پاکستان میں کہیں زیادہ ہے۔ اس کی آخر کیا وجہ ہے؟ اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سکریٹری اور معروف گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ آپریشن میں اضافے کی ایک وجہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے، ”بعض اوقات کھبی کوئی مسلئہ ہوا مثلاً کوئی انفیکشن ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر محسوس کرتا ہے کہ آپریشن پہلے کر دینا زیادہ مناسب ہے تو آپریشن کر دیا جاتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نارمل ڈیلوری کی جائے تو دس ہزار روپے ملتے ہیں لیکن اگر آپریشن کیا جائے تو اس سے تیس ہزار مل جاتے ہیں، اس لئے بعض ڈاکٹر یہ کام کر ڈالتے ہیں۔ اور بعض آپریشن اس لئے ہوتے ہوں گے کہ جونئیر ڈاکڑز کو سیکھایا جا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ethical practice نہیں ہے‘‘۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں کہ اگر کسی خاتون کو ایسا لگتا ہے کہ ان کا آپریشن غیر ضروری طور پر کیا گیا تو اس شکایت کے اندارج کے لئے بھی کوئی خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں، ”آپ PMDC پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں اپنی شکایت کا اندراج تو کروا سکتے ہیں تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ پاکستان میں جو یہ معاملہ چل رہا ہے اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے‘‘۔ 

آپریشن سے پیدا ہونے والے بچوں کو غیر معمولی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے
ملتان کے ایک پرائیوٹ کلینک میں ماہر گائناکالوجسٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر غزالہ اعوان کا کہنا ہے کہ اگر کسی وجہ سے غیر ضروری آپریشن کا مشورہ دیا جا رہا ہے تو ان خواتین کو چاہئے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں ماہرین سے صلاح و مشورہ کیا کریں، ”سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو کیونکہ قدرتی یا آپریشن سے کی جانے والی ولادت کا کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا اس لئے بہتر ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں موجود کنسلٹنٹس سے مشورہ لیں‘‘۔

ڈاکٹر شیر شاہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ خواتین کو چاہئے کہ وہ ابتداء سے ہی کوشش کریں کہ ایسے ہسپتال سے رجوع کریں جس کے بارے میں وہ مطمئن ہوں۔

آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش پر ڈاکٹر کیوں مُصر

اتوار, نومبر 25, 2012

پاکستان کی ’خاموش ہیرو‘ کیلئے بین الاقوامی میڈیا ایوارڈ

جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ
رواں برس جرمنی میں ’خاموش ہیرو‘ کا بین الاقوامی میڈیا ایوارڈ ’بامبی‘ پاکستان میں گزشتہ پچاس برسوں سے جذام کے مرض کے خلاف برسر پیکار خاتون ڈاکٹر روتھ فاؤ کو دیا گیا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر جذام کی مشہور ڈاکٹر روتھ فاؤ کو یہ میڈیا پرائز جرمنی کے شہر ڈوسلڈورف ميں منعقدہ ايک تقريب ميں دیا گیا، جہاں دنیا بھر سے ٹیلی وژن اور فلم کی ایک ہزار سے زائد شخصیات جمع تھیں۔ جرمنی کے بین الاقوامی ٹیلی وژن اور میڈیا ایوارڈز یعنی بامبی انعامات جرمنی میں ایمی ایوارڈز کے برابر ہیں۔ یہ ایوارڈز فلم، ٹیلی وژن، موسیقی، کھیل اور اسی طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کو دیے جاتے ہیں۔ رواں برس 19 کیٹیگریز میں یہ انعامات دیے گئے ہيں۔ امسالہ ’خاموش ہیرو‘ کا ایوارڈ 83 سالہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کو دیا گیا۔ اس کے علاوہ ’بامبی ایوارڈ‘ حاصل کرنے والوں میں خلاء سے چھلانگ لگانے والے فیلیکس باؤم گارٹنر اور ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ سلمیٰ ہائیک شامل ہیں۔

روتھ فاؤ کی 50 سالہ کوششوں کی وجہ سے پاکستان میں جذام کے مریضوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس مرض پر ابھی تک پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کی دہشت کے بعد ڈاکٹر روتھ فاؤ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دیں گی۔ جرمنی کے سابق دارالحکومت بون میں ڈاکٹر بننے کے دوران سن 1957ء میں انہوں نے Daughters of the Heart of Mary نامی کلیسائی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ یہ مسیحی تنظیم فرانسیسی انقلاب کے دوران قائم کی گئی تھی۔ ڈاکٹر فاؤ کا پاکستان جانا اور وہاں فلاحی کام کرنا محض ایک اتفاق تھا۔

سن 1960ء میں انہیں بھارت میں کام کرنے کے لیے جانا تھا لیکن ویزے کے مسائل کی وجہ سے انہیں کراچی میں پڑاؤ کرنا پڑا۔ اسی دوران انہیں جذام سے متاثرہ افراد کی ایک کالونی میں جانے کا موقع ملا۔ مریضوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گی اور ایسے مریضوں کی مدد کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کی حالت قابل رحم تھی۔ وہاں کے باتھ روم گندگی سے بھرے پڑے تھے اور مریضوں کے جسموں پر جوئیں رینگ رہی تھیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ چوہے ان کے جسموں کو کاٹ رہے ہوتے تھے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ لوگ ابھی تک پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں اور جانوروں کی طرح رینگتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی قسمت سے مطمئن تھے لیکن یہ ان کی قسمت نہیں تھی۔ وہ اس سے بہت بہتر اور خوش زندگی گزار سکتے تھے۔‘‘

اس کے بعد سن 1963ء میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کا قائم کردہ کلینک جلد ہی جذام سے متاثرہ افراد کے لیے ايک دو منزلہ ہسپتال میں تبدیل ہو گیا اور رفتہ رفتہ پاکستان بھر میں اس کی شاخیں کھول دی گئیں۔ ان کے قائم کیے گئے ہسپتال میں نہ صرف ڈاکٹروں کو تربیت دی گئی بلکہ ہزاروں مریضوں کا علاج بھی کیا گیا۔ ان کی انہی کاوشوں سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے سن 1968ء میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ایک قومی پروگرام کا آغاز بھی کیا تھا۔ 

سن 1929ء میں جرمن شہر لائپزگ میں پیدا ہونے والی روتھ فاؤ اس وقت 17 برس کی تھیں، جب انہوں نے مشرقی جرمنی سے سرحد پار کر کے مغربی جرمنی آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماضی کے مغربی جرمنی میں داخلے کے لیے وہ مسلسل دو دن اور دو راتیں چلتی رہی تھیں۔ خوشحال زندگی گزارنے کے لیے اتنی مشکلات کا سامنا کرنے والی روتھ فاؤ آج پاکستانی صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ 

پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے روتھ فاؤ کہتی ہیں، ’’مجھے پاکستان میں کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ میں نے لوگوں کی خدمت کے لیے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں بھی کام کیا ہے، جہاں زیادہ تر لوگ مجھے میرے کام کی وجہ سے جانتے ہیں اور کبھی بھی کسی نے میرے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘

جرمن میڈیا پرائز پاکستان کی ’خاموش ہیرو‘ کے نام

جمعہ, نومبر 02, 2012

آسٹریلیا میں لڑکے کو نئی زندگی مل گئی

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ڈاکٹروں نے اپنی نوعیت کا پہلا سرجیکل آپریشن کرکے ایک بچے کی جان بچالی ہے، جس کا فشار خون ایک غیر معروف بیماری کے اچانک انتہائی بلند ہوجایا کرتا تھا۔ دس سالہ میتھیوگیتروپ اپنی تمام زندگی شدید نوعیت کے تناؤ میں رہا۔ اس کے جگر اور گردے کا ایسا عارضہ لاحق تھا، جسے طب کی زبان میں آٹوسومل ریسیسیو پولیسٹک کڈنی ڈزیز اینڈ کونجینائیٹل ہیپاٹک فائبروسس کہتے ہیں۔ اس کم عم میں اسے ایک بار دل کا دورہ بھی پڑچکا ہے۔ اس اذیت ناک زندگی میں روزانہ تیس طرز کی ادویات کھاتا تھا اور اس کے لیے خوراک بھی اسی مناسبت سےکیا کرتا تھا۔

محض چار برس کی عمر میں اسے نیند میں خلل کا عارضہ بھی لاحق ہوا تھا۔ روایتی طریقے سے اگر میتھیو گیتروپ کا علاج کیا جاتا تو روزانہ کی بنیاد پر اس کا خون تبدیل کرنا پڑتا یعنی ڈائلائسس، اس کا گردہ اور جگر تبدیل کرنا پڑتا اور یہ بھی خدشہ تھا کہ اسے پھر دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔

ایسے میں موناش ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے طبی عملے نے ایک تجرباتی نوعیت کے آپریشن کی ٹھانی۔ ریڈیائی شعاعوں کی تکینک کو اس انداز میں استعمال کیا گیا کہ میتھیو کے گردے کو خون فراہم کرنے والی رگ اور قریبی عضلات کو نشانہ بنایا گیا۔ سرجن ای این میریڈیتھ کے بقول اس کی مدد سے میتھیو گیتروپ کا فشار خون معمول پر آیا اور اس کی بیماری کی علامات بھی کافی حد تک ختم ہوگئیں۔ اس کم عمر لڑکے پر اس طرح رگ کو ناکارہ کرنے کا رینل ڈینرویشن طریقہء کار آزمانے سے پہلے اس کا اخلاقی پہلو سے تین اخلاقی کمیٹیوں نے جائزہ لیا اور پھر اجازت دی۔ یہ طریقہء بالغ افراد پر بھی فی الحال محض تجرباتی بنیادوں پر آزمایا گیا ہے۔

دس سالہ اس بچے کی چھوٹی رگوں کے لیے یہ آلہ ایک امریکی کمپنی نے خصوصی طور پر ڈیزائن کیا۔ گیتروپ کی والدہ ایلکس اپنی بیٹے کی حالت دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ ان کے بقول ان کا بیٹا اب خاصا پرسکون اور چوکنا رہنے لگا ہے اور اس کا بلند فشار خون بھی معمول پر آ گیا ہے۔  

’’اس نے پھر سے کہانیاں پڑھنا شروع کردی ہیں، یہ سننے میں بہت چھوٹی بات لگتی ہے مگر کافی عرصے تک یہ نہیں کر پارہا تھا، وہ اب سکول پر بھی خوب توجہ دے رہا ہے۔‘‘ وہ پر امید ہیں کہ ان کے بیٹے کو اب تکلیف دہ علاج کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ ایک نئی اور آسودہ زندگی بسر کر سکے گا۔
 

جمعہ, اگست 10, 2012

ڈاکٹر شکیل آفریدی کے لئے امریکی سنٹرل انٹلی جینس ایجنسی کی طرف سے میڈل آف آنر

’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ امریکی سنٹرل انٹیلی جینس ایجنسی کےلینگ لے کے ہیڈکوارٹر میں کسی جگہ اُس پاکستانی ڈاکٹر کے لئے ایک میڈل آف آنر رکھا ہوا ہے جس نے اس ایجنسی کو ہیپاٹائٹس کےخلاف ایک بوگس سکیم چلا کر ایبٹ آباد میں اوسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کا سُراغ لگانے میں مدد کی تھی۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ ڈاکٹر شکیل آفریدی شاید عرصہ دراز تک اپنا یہ میڈل حاصل نہ کرسکے، کیونکہ اس وقت وہ پشاور کے سنٹرل جیل میں 33 سال کی قید تنہائی کی سزا بُھگت رہا ہے۔ یہ سزا اُسے بغاوت کے الزام میں مئی میں سُنائی گئی تھی۔

پاکستان کی آئی ایس آئی کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں آفریدی کو ایک جہادی تنظیم کا رکن ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے 25 مرتبہ غیرملکی خفیہ ایجنٹوں سے ملاقات کی اور ان سے ہدایات حاصل کیں اور اُنہیں حسّاس نوعیت کی معلومات فراہم کیں یہ جانتے ہوئے کہ ایسا کرکے وہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ شاید اس ڈاکٹر نے ٹیکے لگانے کا ایک جعلی پروگرام شروع کرکے اور پاکستانی اخباری اطلاعات کے مطابق اس کے لئے 61 ہزار ڈالر کی رقم لے کر طبّی پیشے کی ذمّہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہو۔

لیکن، اخبار کے خیال میں دلچسپ سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے لئے اکیسویں صدی کے بدنام ترین دہشت گرد کے بارے میں معلومات کیونکر حسّاس ہوسکتی ہیں، سوائے اس کے کہ یہ ادارہ یا اس کے عناصر اسے تحفظ فراہم کررہے ہونگے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ یہ ادارہ اوسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے پاکستان کے ساتھ تعلّقات میں حال ہی میں گرمجوشی آئی ہےاور آئی ایس آئی کے ایک نئے سربراہ نے واشنگٹن کی طرف زیادہ تعمیری رویّہ اختیار کیا ہے۔ لیکن یہ مفاہمت اس وقت تک اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک ڈاکٹرآفریدی جیل میں بند ہے۔ بن لادن کو ٹھکانے لگانے والے امریکی افراد کو واپس گھر لایا جا چُکا ہے اور ڈاکٹر آفریدی اُنہیں میں سے ایک تھا۔ اور امریکہ کی امداد کرنے والوں کو یہ اطمینان ہونا چاہئیے کہ جس طرح ہم اپنے فوجیوں کو میدان جنگ میں نہیں چھوڑ آئے اُسی طرح ہم اپنے دوستوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑتے۔

جمعرات, جولائی 05, 2012

ڈاکٹر آفریدی کا سی آئی اے کا اثاثہ ہونے سے قیدِ تنہائی تک کا سفر

ڈاکٹر شکیل آفریدی
دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت میں معاونت کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی، جو ایک وقت پر امریکی سی آئی اے کا اثاثہ تھے، اب قید تنہائی میں وقت گزارنے پر مجبور ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنے ایک تبصرے میں لکھا ہے کہ پاکستان میں کم ہی ایسی جیلیں ہیں جہاں اتنی تنہائی ہو جتنی کہ اس جیل میں ہے جس میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رکھا گیا ہے۔

شکیل آفریدی نے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ساتھ تعاون کیا تھا جس کے نتیجے میں امریکی افواج پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ایک خفیہ آپریشن کر کے بن لادن کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔

چند ماہ قبل پاکستان کی ایک عدالت نے ’غداری‘ کے الزام میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو 33 سال قید کی سزا سنا دی تھی۔

ڈاکٹر آفریدی کو ایک ایسی جگہ رکھا گیا ہے جہاں جیل کے سپاہیوں پر بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ صرف انتہائی قابل اعتماد افسران ہی ڈاکٹر آفریدی سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر آفریدی کو اس درجے کی سکیورٹی اس لیے دی گئی ہے کہ پاکستان کے شدت پسند افراد اور حلقے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا بدلہ شکیل آفریدی سے لے سکتے ہیں۔

جیل کی چار دیواری کے باہر شکیل آفریدی پاکستان کے بہت سے افراد کے لیے امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی نفرت کی ایک علامت کا نام بھی ہیں۔ ایک ایسا شخص جس نے بن لادن کو مروانے میں امریکا کا ساتھ دیا۔

دوسری جانب امریکی حکام پاکستان پر زور ڈال رہے ہیں کہ وہ ڈاکٹر آفریدی کو ان کے خلاف مقدمے کی آزادانہ کارروائی کی سہولت دے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی بیشتر تنظیمیں بھی یہی مطالبہ کررہی ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی کا کہنا ہے، ’میرے بھائی کو یقین ہے کہ انہیں جلد چھوڑ دیا جائے گا۔ ایک دعا ہے جو حضرت یونسؑ اس وقت مانگا کرتے تھے جب انہیں ایک مچھلی نے نگل لیا تھا۔ ڈاکٹر آفریدی یہی دعا مانگتے ہیں‘۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی پاکستان اور امریکا کے درمیان خراب تر ہوتے ہوئے تعلقات کی بھینٹ چڑھتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ گزشتہ برس مئی میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ہی سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے، تاہم یہ تعلقات اس وقت مزید خراب ہوگئے جب گزشتہ برس نومبر میں نیٹو افواج کے ایک فضائی حملے میں چوبیس پاکستانی فوجی ہلاک ہوگئے۔ یہ واقعہ افغان سرحد کے قریب پیش آیا تھا۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں اب تک بہتری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

ڈاکٹر آفریدی کا سی آئی اے کا اثاثہ ہونے سے قیدِ تنہائی تک کا سفر

بدھ, جولائی 04, 2012

’ فوجیوں‘ سے دوائی لے کر ہی آرام آتا ہے

بطور صحافی پاکستان میں فوجی افسروں سے بات کرنا ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے اور میں نے اس مشکل کا حل یوں نکالا کہ میں ایک مریض کا روپ دھار کر فوجی ڈاکٹر کے پاس چلا گیا۔

یہ فوجی ڈاکٹر لاہور کے سروسز ہسپتال میں ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں کی جگہ کام کررہے ہیں۔

مریض کا روپ دھارنے کی بنیادی وجہ فوجی ڈاکٹروں کا صحافیوں سے گفتگو سے اجتناب کرنا تھا کیونکہ ہسپتال میں موجود ساتھی صحافیوں نے بتایا کہ فوجی ڈاکٹر میڈیا سے بات نہیں کررہے۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی فوجی ڈاکٹرز نظر آئے جن میں سے کچھ یونیفارم اور کچھ سویلین کپڑوں میں ملبوس بیٹھے تھے۔

سویلین کپڑوں میں ملبوس فوجی ڈاکٹروں نے اپنی شاخت کے لیے بازوں پر’پاک آرمی‘ کی پٹی لگائی ہوئی تھی۔

سروسز ہسپتال میں ڈیوٹی دینے والی آرمی کی خواتین ڈاکٹرز اپنی روایتی یونیفارم ’خاکی ساڑھی‘ کی بجائے عام لباس میں دکھائی دیں۔

میرا طبی معائنہ فوجی وردری میں ملبوس باریش ڈاکٹر نے کیا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟

میں نے مرض بتانے کے بجائے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ میں کسی فوجی ڈاکٹر سے میڈیکل چیک اپ کروا رہا ہوں اور ساتھ ہی سوال پوچھ ڈالا کہ آپ کا سرکاری سویلین ہسپتال میں کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟

فوجی ڈاکٹر نے مختصر سا جواب دیا کہ تجربہ اچھا ہے اور میں اس سے پہلے بھی اس قسم کی ڈیوٹی کرچکا ہوں۔

میں نے نسخہ لکھنے کے دوران فوجی ڈاکٹر سے ایک اور سوال کردیا کہ سویلین ہسپتال میں کام کرنا آسان ہے یا ان کے ادارے کے ہسپتالوں میں۔ فوجی ڈاکٹر نے جواب دیا کہ سویلین ہسپتال میں کام کرنا آسان ہے اور یہاں آنے والے مریضوں کی تعداد بھی نسبتاً کم ہے۔

فوجی ڈاکٹر سے مختصر گفتگو کرنے کے بعد میں نے دوبارہ پرچی بنوائی اور ایک دوسرے کمرے کی جانب چلاگیا لیکن یہاں کوئی فوجی ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔

اسی دوران ہسپتال کے ایک ملازم نے بتایا کہ آج جتنے بھی مریض چیک اپ کے لیے ہسپتال آئے ان میں سے تقریباً ہر ایک نے یہ کوشش کی کہ وہ سویلین ڈاکٹر کے بجائے فوجی ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کرائے اور یہی وجہ ہے کہ سویلین ڈاکٹر کسی حد تک فارغ بیٹھے رہے۔

جہاں فوجی ڈاکٹروں کے لیے سویلین ہسپتال کا ماحول انجان تھا وہیں یہ فوجی ڈاکٹر خود بھی ہسپتال میں اجنبی لگ رہے تھے۔

ہسپتال کے ایک اہلکار نے بتایا کہ فوجی اور سویلین ڈاکٹر میں ویسے تو کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن فوجی ڈاکٹر مریضوں کا معائنہ کرتے وقت گپپیں نہیں مارتے اور ان کا زیادہ زور مریضوں کے چیک اپ پر رہا۔

کیا فوجی ڈاکٹروں نے سویلین ڈاکٹروں کی نسبت تیزی سے کام کیا اس سوال پر ہسپتال کے اہلکاروں کی رائے منقسم تھی اور ان میں کچھ کا خیال تھا کہ فوجی ڈاکٹر تیزی سے کام کرتے ہیں جبکہ دیگر اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ آج معمول سے کم رش تھا اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ فوجی ڈاکٹر تیزی سے کام کرتے ہیں یا پھر سویلین۔

فوجی ڈاکٹروں کے ساتھ کام والے ہسپتال کے سویلین اہلکاروں کی رائے جو بھی ہو البتہ مریضوں کو اس بات کا اطمینان تھا کہ ان کا چیک اپ بہت اچھا ہوا اور تسلی سے ان کی بات سنی گئی ہے۔

سروسز ہسپتال کے آوٹ ڈور کے مرکزی گیٹ پر ڈیوٹی دینے والے اہلکار کا کہنا ہے کہ آج مریض بہت خوش گئے ہیں کہ ان کا معائنہ ماہر تجربہ کار فوجی ڈاکٹروں نے کیا۔

فوجی ڈاکٹر جس طرح صبح فوج کی بس کے ذریعے ہسپتال پہنچے تھے بالکل اسی طرح دوپہر کو دوبارہ اکٹھے بس میں سوار ہوکر پولیس سکواڈ کے ساتھ واپس چلے گئے۔

اہلکار کی بات سن کر میرے پاس کھڑے ایک چینل کے رپورٹر نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو ’فوجیوں‘ سے دوائی لے کر ہی آرام آتا ہے۔

عام لوگ تو فوجی ڈاکٹروں سے چیک اپ سے مطمئن ہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ڈیڑھ ہزار سے زائد ڈاکٹروں کی کمی ڈیڑھ سو فوجی ڈاکٹر پورا نہیں کرسکتے۔

’ فوجیوں‘ سے دوائی لے کر ہی آرام آتا ہے

پیر, جولائی 02, 2012

پنجاب میں درجنوں ڈاکٹر گرفتار

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پولیس نے ہڑتال کرنے والے نوجوان سرکاری ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے درجنوں ڈاکٹروں کو گرفتار کرلیا ہے۔

پولیس نے رات گئے صوبائی دارالحکومت لاہور سے تین درجن سے زائد ڈاکٹروں کو حراست میں لیا۔

ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں کی گرفتاری اس وقت عمل میں لائی گئی جب نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم کا اجلاس ہورہا تھا جس میں ہڑتال کے بارے میں آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کیا جانا تھا۔

بی بی سی کے نامہ نگار عبادالحق کے مطابق پولیس نے رات گئے جن ڈاکٹروں کو حراست میں لیا ہے ان میں نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے اہم عہدیدار شامل نہیں ہے۔ پولیس کی کارروائی سے قبل ہی تنظیم کے عہدیدار پولیس جل دینے میں کامیاب ہوگئے۔

دوسری طرف ینگ ڈاکٹرز کی گرفتاری کے ردعمل میں لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں نوجوان ڈاکٹروں نے کام چھوڑ دیا۔ تاہم حکومت نے فوری طور مبتادل انتظامات کرتے ہوئے سینیئر ڈاکٹروں کو بھی طلب کرلیا ہے۔

صوبائی دارالحکومت لاہور میں پولیس کی بھاری نفری نے سروسز ہسپتال کے ڈاکٹرز ہاسٹل کو رات گئے گھیرے میں لے لیا اور عین اس وقت دھاوا بول دیا جب ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جنرل کونسل کا اجلاس ہورہا تھا۔

پنجاب میں نوجوان ڈاکٹر گزشتہ دو ہفتوں سے ہڑتال پر ہیں اور سرکاری ہسپتالو ں میں کام کرنے والے ان نوجوان ڈاکٹروں کا یہ مطالبہ ہے کہ پنجاب حکومت ان کے سروس سٹرکچر کا اعلان کرے۔

پولیس نے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کی گرفتاری کے لیے ہاسٹل کے کمروں کے دروازے توڑ دیئے اور جب پولیس کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں موجود ڈاکٹرز پچھلے راستے سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔

ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن کے اجلاس میں بیس سے زیادہ رہنما موجود تھے تاہم پولیس اب تک صرف ایک عہدیدار عامر بندیشہ کو گرفتار کرسکی ہے۔ پولیس نے ہاسٹل میں سرچ آپریشن کیا اور وہاں موجود ڈاکٹروں کو حراست میں لے کر انہیں شہر کے مختلف تھانوں میں منتقل کردیا ہے۔

ینگ ڈاکٹرزایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے حکومتی کارروائی کا نوٹس لینے کا مطالبہ کی ہے۔ تنظیم کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رہے گا۔

ادھر صوبائی مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق کا کہنا ہے کہ دو ہفتوں سے ہسپتالوں کا نظام مفلوج ہوگیا تھا اور حکومت نے مجبوری میں یہ قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چودہ دنوں تک نوجوان ڈاکٹروں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ وہ ہڑتال ختم کردیں۔

انہوں نے بتایاکہ سینئر ڈاکٹروں نے بھی ہڑتالی ڈاکٹروں کو قائل کرنے کے لیے وزیراعلیْ پنجاب سے مہلت مانگی لیکن نوجوان ڈاکٹروں نے اپنے سینئر ڈاکٹروں کی بات بھی نہیں مانی۔

خواجہ سلمان رفیق نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے ہسپتالوں میں معاملات کو معمول کے مطابق چلانے کے لیے بندوبست کرلیا ہے اور ان کے بقول پیر کے روز سے ہسپتالوں میں معمول کے مطابق کام ہوگا۔

صوبائی مشیر صحت کے مطابق نوجوان ڈاکٹروں کی اکثریت ہڑتال کی حامی نہیں ہے اور ہر ہسپتال میں آٹھ دس ایسے ڈاکٹرز ہیں جو دیگر ڈاکٹروں کو ہڑتال پر مجبور کررہے تھے۔

پنجاب حکومت کی درخواست پر فوج کی میڈیکل کور کے ایک سو پچاس ڈاکٹرز بھی آج سے سرکاری ہسپتالوں میں ڈیوٹی دیں گے۔

پنجاب حکومت نے سرکاری ہسپتال میں پیر کے روز پولیس مامور کرنے کا بھی فیصلہ کیا تاکہ کسی ناخوش گوار واقعہ سے بچا جاسکے۔

پنجاب حکومت نے ان چوبیس نوجوان ڈاکٹروں کو برطرف کردیا ہے جو ایک سال کے لیے ایڈہاک بنیادوں پر کام کررہے تھے۔ ان ڈاکٹروں پر دیگر ڈاکٹروں کو ہڑتال کےاکسانے کا الزام ہے۔

لاہور کے میو ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈاکٹروں کے کام چھوڑنے سے ایک بچے کی موت کا مقدمہ بھی ہڑتالی ڈاکٹروں کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔