منگل, اگست 28, 2012

پاکستان آسٹريليا کرکٹ: پہلا ون ڈے آج کھيلا جائے گا

شارجہ میں ايک اورميدان سج گيا ہے، پاکستان اور آسٹريليا کے درميان پہلا ون ڈے آج شارجہ کے تاريخي ميدان پر کھيلا جائے گا۔ یہ میچ پاکستان کے وقت کے مطابق شام 7 (14:00 GMT) بجے شروع ہوگا۔

پاکستان نے آسٹريليا کے خلاف آخري سيريز 2002ء ميں جيتي تھي اب ديکھنا ہے کہ پاکستان کا انتظار ختم ہوتا ہے يا آسٹريلوي ٹيم کي کاميابيوں ميں مزيد اضافہ ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق تو آسٹريليا آگے ہے، ليکن شارجہ کي کنڈيشنز پاکستان کے لئے نئي نہيں ہيں تاہم آسٹريلوي ٹيم کے لئے مشکل ضرور ہيں ليکن اس پر بھي کوئي دباؤ نہيں۔ دونوں ٹيميں شارجہ کرکٹ گراؤنڈ ميں پہلے ميچ کي تياريوں ميں مصروف ہيں اور شائقين کو ايک دلچسپ ميچ کي توقع ہے۔

پاکستان میں انتہا پسندی اور وہابی نظریات

پاکستان میں بہت سے لوگ طالبان اور ان کی پر تشدد کارروائیوں کی مخالفت کرتے ہیں تاہم عجیب بات یہ ہے کہ وہ سعودی عرب کے اُس وہابی نظریے کو چیلنج نہیں کرتے، جو شدت پسندی کو اساس فراہم کرتا ہے۔

ایسا ہرگز مشکل نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے لوگ نہ ملیں جو طالبان اور ان کی طرف سے کیے جانے والے خود کش حملوں کو ناپسند نہ کرتے ہوں لیکن تضاد یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ سعودی عرب میں موجود وہابی فرقے کی طرف سے پھیلائے جانے والے ان نظریات کی مخالفت نہیں کرتے، جو ریاستی سطح پر پاکستان میں سرایت کرتے جارہے ہیں۔

پاکستان میں اگر کوئی سعودی عرب کی کسی پالیسی پر تنقید کرتا ہے تو اسلام اور اسلامی روایات کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد اسے اسلام پر تنقید کے مترادف سمجھتی ہے۔ اگرچہ پاکستان نے ابتداء میں سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ ہی قریبی تعلقات قائم کیے تاہم 1979ء میں ایران میں انقلاب کے بعد پاکستانی حکومت کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہوگیا۔

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات اس وقت مزید قریبی اور مضبوط ہوگئے جب افغانستان کی جنگ شروع ہوئی۔ 80 کی دہائی میں سابقہ سوویت یونین کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں ان دونوں ممالک نے مجاہدین کی مدد کے لیے امریکا کے ساتھ بھی اپنے رابطوں میں اضافہ کردیا۔ افغان جنگ تو ختم ہوگئی لیکن پاکستان کا سعودی عرب اور وہاں پائی جانے والی وہابی تحریک کی طرف جھکاؤ ختم نہ ہوا۔

انتہا پسندی کی جڑیں

پاکستان کے سابق وزیر قانون اقبال حیدر نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ پاکستان میں جہادی اور دہشت گرد تنظیموں کی زیادہ تر تعداد وہابی نظریات کی ماننے والی ہے، ’’چاہے وہ طالبان ہوں یا لشکر طیبہ، اس میں رتی برابر بھی شک نہیں کہ وہ سعودی وہابی نظریات کے ماننے والے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان تنظیموں کو پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

مقتول پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں وزیر قانون کے عہدے پر فائز رہنے والے اقبال حیدر پاکستان میں انتہا پسندی کے بیج بونے کے حوالے سے سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق پر الزام عائد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 80 کی دہائی میں جنرل ضیاء نے وہابی گروپوں کی مدد کو ریاستی پالیسی بنا لیا تھا۔

اقبال حیدر یہ بھی کہتے ہیں کہ ضیاء الحق نے ملک کے اندر اقلیتی گروپوں بالخصوص شیعہ کمیونٹی کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کی مدد کی۔ حیدر کے مطابق شیعہ کمیونٹی کو بالخصوص اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ اپنے مذہبی نظریات کی وجہ سے ایران کے ساتھ ہمددری رکھتی تھی۔

دوسری طرف پاکستانی مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق برصغیر پاک و ہند میں وہابی نظریات کا اثر اتنا ہی پرانا ہے، جتنا کہ وہابی ازم۔ ڈاکٹر مبارک علی دیوبندی تعلیمات کو وہابی ازم کا ایک مظہر قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں وہابی نظریات کو ریاستی سطح پر دیگر نظریات کے مقابلے میں ترجیح دی گئی ہے۔ مبارک علی کے بقول یہ ایک عجیب بات محسوس ہوتی ہے کیونکہ پاکستان میں وہابی ازم ایک اقلیتی سنی فرقہ ہے۔

معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ وہابی نظریات نے نہ صرف پاکستانی معاشرے کی بنیادی ساخت کو متاثر کیا بلکہ انہوں نے اس علاقے کی کثیر الجہتی تہذیب کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے بقول وہابی نظریات کے حامی کثیرالثقافتی رویوں کے مخالف ہیں، ’’وہ مقدس مقامات، میوزک فیسٹیولز اور دیگر تہذیبی مراکز کو نشانہ بناتے ہیں، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام کے خلاف ہیں۔‘‘ مبارک علی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہابی ازم میں چونکہ عرب روایات کا پرچار کیا جاتا ہے، اس لیے یہ ایک غیر محسوس طریقے سے بہت سے پاکستانیوں کی نفسیات کا حصہ بن گیا ہے۔ ’’لوگ اب سعودی عرب کی تقلید کی کوشش میں ’خدا حافظ‘ کے لیے ’اللہ حافظ‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ’رمضان‘ کو ’رمادان‘ کہتے ہیں۔

سعودی امریکی اتحاد

مغربی ممالک پاکستان کے خفیہ اداروں بالخصوص آئی ایس آئی پر الزام عائد کرتے ہیں کہ ان میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو طالبان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ امریکا کا بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کے ’محفوظ ٹھکانے‘ موجود ہیں اور پاکستان ان جنگجوؤں کے خلاف مناسب کارروائی سے گریزاں ہے۔ لیکن اقبال حیدر کہتے ہیں کہ مغربی ممالک کے ایسے مطالبات میں ایک تضاد ہے۔ ان کے بقول پاکستان کو تو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم سعودی عرب کو کچھ نہیں کہا جاتا، جو پاکستان میں سرگرم وہابی جنگجوؤں کو سب سے زیادہ مالی مدد فراہم کرتا ہے۔

سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ ریاض حکومت ہی امریکا اور پاکستان کے مابین ثالثی کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ اقبال حیدر کہتے ہیں کہ ایرانی انقلاب سے قبل جو کردار تہران ادا کرتا تھا، وہ اب ریاض کے پاس چلا گیا ہے۔ وہ پاکستان میں شیعہ اقلیت کے قتل کے واقعات کے لیے بھی پاکستانی حکومت کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے حیدر نے مزید کہا کہ پاکستانی ریاست اپنے اسٹریٹیجک مفادات اور جغرافیائی سیاست میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے دیگر نظریات کے مقابلے میں ’وہابی ازم کی اجارہ داری‘ چاہتی ہے۔

پاکستان میں انتہا پسندی اور وہابی نظریات

روسی صدر کا اکتوبر میں مجوزہ دورہ پاکستان

روسی صدر ولادیمیر پوٹن دو اکتوبر کو ایک سرکاری دورے پر پاکستان جائیں گے۔ کسی روسی صدر کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہوگا۔ پاکستان میں خارجہ، داخلہ، پیداوار اور دفاع سمیت کئی وزارتوں کے حکام نے روسی صدر کے دورے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ پاک فضائیہ کے سربراہ بھی حال ہی میں روس کا دورہ کرکے آئے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستانی صدر بھی اپنے روسی ہم منصب سے کئی ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ روس پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی پاکستان کی مدد کرنے کی خواہش کا اظہار کرچکا ہے۔ کئی پاکستانی دانشور روس کو گوادر میں کردار آفر کرنے کی بات بھی کررہے ہیں۔ مبصرین پاکستان اور روس کے مابین تعلقات کے فروغ کی نئی کوششوں کو پاک امریکی تعلقات میں بگاڑ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

محمد حفیظ ایک روزہ میچوں کے سرفہرست باؤلر

پاکستانی کرکٹر محمد حفیظ ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کے باؤلروں کی عالمی فہرست میں اول پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

پیر کو کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین فہرست میں محمد حفیظ 727 پوائنٹس کے ساتھ سر فہرست ہیں۔ اس سے قبل یہ اعزاز جنوبی افریقہ کے باؤلر ساٹ سوبے کے پاس تھا جو اب فہرست میں دوسرے درجے پر آگئے ہیں۔

پاکستان ہی کے سعید اجمل 696 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔

ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں بیٹنگ کے شعبے میں کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی پہلے دس درجوں میں جگہ نہیں بنا سکا۔

جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ پہلے اور اے بی ڈی ویلیئرز تیسرے نمبر پر ہیں جب کہ بھارت کے ویرات کوہلی دوسری پوزیشن حاصل کرسکے ہیں۔

محمد حفیظ ایک روزہ میچوں کے سرفہرست باؤلر