ہفتہ, نومبر 03, 2012

سندھ: بیوی کو زخمی کرنے پر خاوند گرفتار

پاکستان کے صوبہ سندھ میں پولیس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کی ناک، کان اور چھاتی کو بلیڈ سے زخمی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ یہ واقعہ گزشتہ ہفتے وسطی سندھ کے ضلع سانگھڑ میں پیش آیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بھٹ شاہ میں چھاپہ مار کر ملزم مارو بھیل کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 

کراچی سے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق ملزم مارو بھیل نے صحافیوں کو بتایا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے بھائی اور والد گرفتار ہیں تو انہوں نے گرفتاری دینے کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس سے پہلے ہی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ ملزم مارو بھیل نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنی بیوی لالی بھیل پر بد کرداری کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ’انہوں نے کئی بار لالی کو روکا مگر لالی نے ان کی بات نہیں مانی۔‘ ملزم کا کہنا تھا کہ ’وہ تنگ آ کر بیوی کو اپنے بھائی کے گھر سانگھڑ شہر لے آئے مگر وہاں بھی لالی کے رشتے دار پہنچ گئے، ایک روز جب اس کا بھائی بیوی بچوں کے ساتھ گیا ہوا تھا تو انہوں نے لالی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔‘ مارو بھیل نے بتایا کہ’وہ لالی کے منہ پر کپڑا باندھ کر اسے قریبی فصل میں لے گئے، جہاں لالی کے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ کر بلیڈ کی مدد سے کان، ناک اور چھاتی کو زخمی کر دیا۔‘

  ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ لالی بھیل کے ناک، کان اور چھاتی کی پلاسٹک سرجری کی ضرورت پڑے گی، صوبائی وزیر اقلیت امور موہن کوہستانی نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی ہے اور انہیں ایک لاکھ روپے دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

مارو بھیل مزدوری کرتے ہیں اور ان کے تین بچے ہیں، اس واقعے میں ایک نومولود بچہ ہلاک بھی ہوگیا تھا۔ مارو بھیل کا کہنا ہے کہ بچہ پیروں تلے دب کر ہلاک ہوا۔ زخمی لالی بھیل کو کراچی کے جناح ہپستال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لالی بھیل نے ملزم کی گرفتاری پر خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق’مارو بھیل انہیں جنگل میں لے گیا جہاں رسی سے باندھ کر ناک، دونوں کان اور چھاتی کو زخمی کیا اور اس کے بعد وہاں ہی چھوڑ کر فرار ہوگیا۔‘ مسمات لالی کا دعویٰ ہے کہ ان کے نومولود بیٹے کو مبینہ طور پر گلہ گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہے، کیونکہ ان کے شوہر کا الزام تھا کہ یہ بچہ اس کا نہیں کیونکہ اس کی شکل مختلف ہے۔

لالی بھیل اور ان کے شوہر مارو بھیل دونوں کا تعلق ضلع سانگھڑ سے ہے اور دونوں کی شادی کو چھ سال ہو چکے ہیں۔ اپنی بیٹی لالی کو علاج کے لیے کراچی لانے والے آچر بھیل نے بتایا کہ میاں بیوی میں رنجش تو گزشتہ چار سالوں سے تھی مگر ایک سال قبل مارو کی بہن کے بیوہ ہونے کے بعد اس میں شدت آگئی۔ آچر بھیل نے بتایا کہ مارو نے انہیں شکایت کی تھی کہ اسے لالی کے کردار پر شک ہے، جس کے بعد وہ اپنی بیٹی کو اپنے پیر باقر شاہ کی مزار پر لے گئے تھے جہاں اس نے قسم لی تھی کہ اس پر جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

سندھ: بیوی کو زخمی کرنے پر خاوند گرفتار

پاکستان میں مسافر پرندوں کے ڈیرے

کراچی کے ساحلوں اور اندرون سندھ کی جھیلوں پر مسافر پرندوں کے ڈیرے لگ گئے ہیں۔ کلفٹن ، ہاکس بے، پیراڈائز پوائنٹ اور سینڈز پٹ کی سنہری ریت میں جھنڈ در جھنڈ کھیلتے اور بھانت بھانت کی سریلی آوازیں نکالتے ہزاروں پرندے ان ساحلوں کی خوب صورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ ان پرندوں کی آمد کے ساتھ ہی ساحل پر ان کا نظارہ کرنے والوں کا بھی رش بڑھ گیا ہے۔

یہ پرندے سائبیریا، وسط ایشیائی ریاستوں، منگولیا، روس، مشرقی یورپ، چین اور دیگر ممالک سے براستہ افغانستان اور ایران، پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ میدانی علاقوں کے آبی مقامات پر ڈیرہ ڈالتے ہیں۔

ان پرندوں کی آمد کی بنیادی وجہ وہ سخت موسم ہوتا ہے جس میں نہ صرف شدید برف باری ہوتی ہے بلکہ اس قدر یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیں کہ انسان تک پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ ان دنوں برفیلے علاقوں کا درجہ حرارت منفی 30 ڈگری سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ پرندے قدرت سے سدھائے ہوئے طریقے پر چلتے ہوئے معتدل موسم کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔

ستمبر کے آخر سے ان پروندوں کی آمد کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو اپریل تک رہتا ہے۔ ان پرندوں کی آمد کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ویٹ لینڈ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر بابر حسین نے کہا ’سائبریا سے ہرسال تقریباً ایک سو دس اقسام کے پرندے پاکستان آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بطخیں اور بگلے ہوتے ہیں۔ ان پرندوں کے نظارے کا بہترین وقت جنوری کا مہینہ ہوتا ہے جب یہ پرندے اپنے پورے جوبن پر ہوتے ہیں۔‘

بابر حسین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر پرندے ’سینڈزپٹ ‘ پر اترتے ہیں جبکہ اندرون سندھ رن آف کچھ اور ہالیجی جھیل بھی ان پرندون کی قیام گاہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ سینڈزپٹ پر مینگروز کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے یہاں پرندوں کو آسانی سے خوراک مل جاتی ہے۔ سندھ کی آبی قیام گاہوں میں گھاس کی ایک خاص قسم بھی پائی جاتی ہے جس کے چھوٹے چھوٹے پتے اور بیج و چھوٹی مچھلیاں ان کی پسندیدہ خوراک ہے۔ یہ پرندے اپنی افزائش نسل کے بعد اپریل کے وسط تک واپسی کا سفر شروع کردیتے ہیں۔‘

کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کے جنگلوں، دمکتی جھیلوں اور تالابوں میں بھی سینکڑوں مہاجر پرندے ہر سال اپنا عارضی بسیرا بناتے ہیں۔ ان پرندوں میں تلور، کونج، بھگوش، چارو، چیکلو، لال سر، بنارو اور دیگر چھوٹی بطخیں اور دوسرے بے شمار پرندے شامل ہیں۔ یہ پرندے زیادہ تر رن کچھ کے ساحلی علاقے اور تھر کے ریگستانوں میں اُترتے ہیں۔ اس کے علاوہ منچھر، کلری اور ہالیجی جھیلیں بھی ان پروندوں کے ٹھہرنے کی پسندیدہ جگہیں ہیں۔

ڈپٹی کنزویٹو سندھ وائلڈ لائف ڈاکٹر فہمیدہ اور دیگر ماہرین کے مطابق کئی سال پہلے تک پاکستان میں تقریباً 10لاکھ پرندے آتے تھے لیکن اب ہر سال ان پرندوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ اس کی سب سے پہلی اور بنیادی وجہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ہے۔ قدرت نے ان پرندوں کو بہت حساس ناک دی ہے جس کی مدد سے یہ بارود اور خطرے کی بو بہت دور سے ہی پہچان لیتے ہیں لہذا افغانستان کے راستے آنے والے پرندوں نے آمد بند کردی ہے۔

ادھر سندھ کی جن جھیلوں اور تالابوں پر یہ بسیرا کرتے تھے وہ صنعتی فضلے، کوڑا کرکٹ اور دیگر زہریلے مادے سے بھر گئے ہیں لہذا ان پرندوں نے اس وجہ سے بھی آنا کم کردیا ہے۔ شوگر ملوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں اور مواد نے دریا میں چھپی ان کی خوراک کو بھی زہریلا بنا دیا ہے۔ اس وجہ سے اب یہ پرندے پاکستان کا رخ کرنے کے بجائے بھارت جانے لگے ہیں۔ بھارتی ریاست راجستھان اور گجرات میں ان کا پرجوش استقبال کیا جاتا ہے۔ یہاں ان کے تحفظ کے لئے بھی کئی تظیمیں سرگرم عمل ہیں۔

ان پرندوں کی آمد میں کمی کی ایک بڑی وجہ غیر قانونی شکار بھی ہے۔ موسم بدلتا نہیں کہ شکاریوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ یہ شکاری با اثر ہونے کے سبب قانون سے کھیلتے اور محض اپنے شوق میں ہزاروں پرندے مار دیتے ہیں۔

کراچی سمیت سندھ کے ساحلوں پر مسافر پرندوں کے ڈیرے

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے

ڈاکٹر صفدر محمود
safdar.mehmood@janggroup.com.pk
 
خیال آیا کہ عید ابھی کل ہی گزری ہے۔ تمام تر مسائل کے باوجود لوگ تین دن تک عید مناتے رہے ہیں اس لئے عید کے تناظر میں کوئی ہنستی مسکراتی تحریر لکھنی چاہئے۔ دل نے کہا جہاں ہر روز نا اہلی، کرپشن اور بے حسی کے زخم کھلتے ہوں وہاں ہنستے مسکراتے الفاظ تخلیق کرنا نہایت کٹھن کام ہوتا ہے۔ زخم کھا کر مسکرانا ہم جیسے کمزور لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔ ہم تو کرپشن اور نا اہلی کا ماتم کرتے رہیں گے اور بے حسی پر آنسو بہاتے رہیں گے کوئی ہماری فریاد سنے یا نہ سنے، سچی بات یہ ہے کہ ہم مسکرانا بھی چاہیں تو ایسی خبریں مسکرانے نہیں دیتیں۔
عید کے دن کے اخبارات میرے سامنے رکھے تھے اور میں دو خبریں پڑھ کر اداسی کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔ ہاں یاد رکھیئے کہ یہ دو خبریں تو دیگ کے محض دو دانے ہیں ورنہ کوئی دن نہیں گزرتا کہ اربوں کی کرپشن اور نا اہلی کی داستانیں پڑھنے اور سننے کو نہ ملتی ہوں۔ کرپشن کے پہاڑوں کے سامنے یہ خبر تو محض رائی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن نہ جانے کیوں میں اسے پڑھ کر مغموم ہو گیا اور حکومتی نا اہلی کا دل ہی دل میں ماتم کرنے لگا۔ پھر سوچنے لگا کہ جہاں قومی وسائل کو اس بے دردی سے ضائع کیا جا رہا ہو، وہاں معاشی امراض کا علاج ناممکن ہے۔ اصل مسئلہ وسائل کی قلت نہیں بلکہ وسائل کا زیاں ہے۔ میں آپ سے کوئی خفیہ بات شیئر نہیں کر رہا، چھپی ہوئی خبروں کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔
ہماری نوجوان نسل کو علم نہیں کیونکہ انہوں نے پاکستان کو بدحالی کا شکار ہی دیکھا ہے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے دہائی دو دہائیاں قبل ہمارا ریلوے کا نظام ہر لحاظ سے نہایت معیاری ہوا کرتا تھا۔ دولت مند طبقے تو ہوائی سفر اور ذاتی کاروں کی سہولیات کا فائدہ اٹھاتے تھے لیکن عوام کے لئے ریلوے کا سفر آرام دہ ہوا کرتا تھا۔ پھر اسے ہماری نااہلی اور بدنیتی کی نظر لگ گئی جبکہ دنیا کا ہر ترقی یافتہ ملک اپنے ریلوے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے میں مصروف ہے۔ موجودہ ریلوے کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر شخص ریلوے کے ہاتھوں پریشان ہے۔ چنانچہ حکومت نے چین سے 75 ڈیزل انجن درآمد کرنے کا منصوبہ بنایا جو دوسرے منصوبوں کی مانند کرپشن کی نذر ہو گیا۔ مجھے اس ناکامی میں کرپشن سے زیادہ نا اہلی کا پہلو نظر آتا ہے۔ ہماری حکومت نے 2009 میں چین کی حکومت سے 75 انجن خریدنے کا معاہدہ کیا اور اس مقصد کے لئے ایک چینی بینک سے ایک سو ملین یعنی دس کروڑ ڈالر کا قرضہ منظور کروایا۔ معاہدے کے مطابق حکومت پاکستان نے پندرہ ملین ڈالر بینک میں جمع کروا دیئے۔ رینٹل پاور ہاﺅسز کی مانند یہاں بھی کرشن ہوئی۔ اصولی طور پر انجنوں کی خریداری کے لئے عالمی سطح پر ٹینڈر ہونے چاہئیں تھے لیکن یہاں قانونی تقاضوں سے انحراف کیا گیا۔ بدعنوانی کے سبب خریداری نہ ہو سکی اور پاکستان قرضہ استعمال نہ کر سکا۔ معاہدے کے مطابق قرضہ استعمال نہ کرنے کی پاداش میں چینی بینک گزشتہ دو سال سے ہر روز پاکستان کو ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ کرتا رہا ہے۔ اس طرح وہ پندرہ ملین ڈالر جو پاکستان نے جمع کروائے تھے وہ جرمانے کی مد میں ادا ہو گئے ہیں اور انجن بھی نہ منگوائے جا سکے۔ تین سال تک انجن نہ منگوانے پر حکومت چین بھی ناخوش ہے اور چینی بینک بھی ناراض۔ اب اگر عالمی سطح پر ٹینڈر دیئے جاتے ہیں تو حکومت چین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور جو انجن 2009 میں چودہ لاکھ ڈالر کا مل رہا تھا اب کم سے کم 20 لاکھ ڈالر میں ملے گا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ مقصد کرپشن اور نااہلی کی دیگ میں سے فقط نمونے کا ایک دانہ دکھانا تھا۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس طرح کے حالات میں انسان کس طرح خوش رہ سکتا ہے اور کیونکر مسکرا سکتا ہے۔
دوسری خبر ہماری قومی بے حسی، ناشکری اور سرد مہری کی داستان تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک موثر اور متحرک ادارہ ہے جس کا دائرہ کار عالمی سطح پر تعلیم، ثقافت اور سائنس کے شعبوں پر محیط ہے۔ کوئی 193 ممالک اس کے رکن ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا تین سال منتخب رکن رہا ہوں اور یونیسکو کے ایجوکیشن کمیشن کا منتخب وائس چیئرمین رہا ہوں۔ درجن بھر اراکین پر مشتمل ایگزیکٹو بو رڈ یونیسکو کی سرگرمیوں اور کارکردگی کی نگرانی کرتا ہے، منصوبوں اور حکمت عملی کی منظوری دیتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں 1998 کے دوران یونیسکو کی ایک میٹنگ کے سلسلے میں پیرس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک روز دعوت نامہ ملا آج شام ہال میں ایک تقریب منعقد کی جائے گی جس میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت دینے والے ماہرین کو انعامات دیئے جائیں گے۔ میں اس تقریب میں اس تاثر کے ساتھ شریک ہوا کہ 193 ممالک میں پاکستان کہاں کسی انعام کا حق دار ٹھہرے گا جبکہ ان ممالک میں فرانس برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، چین جیسے ترقی یافتہ ممالک موجود ہیں۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور بے حد خوشی بھی جب ایک پاکستانی سائنس دان کو انعام لینے کے لئے پکارا گیا۔ وہ انعام لے کر لوٹا تو میں نے اسے سینے سے لگا لیا، مبارک باد دی اور کہا کہ میں تمہارا ممنون ہوں تم نے عالمی سطح پر میرے ملک کا نام روشن کیا۔ اس سائنس دان کا نام تھا ڈاکٹر ریاض الدین اور وہ لاہور میں ایک سائنسی ادارے کا سربراہ تھا۔ وطن واپس لوٹا تو میں گورنر پنجاب کو ساتھ لے کر ڈاکٹر ریاض الدین کے ادارے میں پہنچا اور اس کی عزت افزائی کی۔
ہمیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ ادارہ جینز اور ڈی این اے کے حوالے سے ریسرچ کر رہا تھا اور ان کی تحقیق سے نہ صرف مجرموں کو پکڑا جا سکتا تھا بلکہ اس سے زرعی پیداوار میں بھی خاصا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ ادارہ براہ راست وفاقی حکومت وزارت تعلیم کا حصہ تھا۔ وزارت تعلیم کا سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹر ریاض الدین کو سنگا پور اور کئی دوسرے ممالک سے نہایت پُر کشش آفرز آ رہی تھیں لیکن وہ وطن کی خدمت پر مصر تھا۔ 27 اکتوبر کے دی نیوز میں ایک خبر پڑھ کر میں پریشان ہو گیا۔ میں 1999 کے بعد ڈاکٹر ریاض سے کبھی نہیں ملا۔
خبر یہ تھی کہ ڈاکٹر ریاض الدین نے ہیپاٹائٹس کے مرض کے لئے ایک دوا ایجاد کی جس کی قیمت 70 روپے ہے جبکہ ہمارے ملک میں اس مرض کے لئے دستیاب دواﺅں کی قیمت 900 روپے ہے۔ میری اطلاع کے مطابق تجارت کے نام پر خون چوسنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈاکٹر ریاض کے پیچھے پڑ گئیں۔ اس خبر کے مطابق یہ انجکشن ہمارے دو سائنس دانوں کی ریسرچ کا پھل تھا۔ چنانچہ انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا اور وزارت سائنس نے ان کے خلاف فنڈز میں بے ضابطگی پر انکوائری ایف آئی اے کے حوالے کر دی۔ مجھے دوران ملازمت بہت سے سائنس دانوں سے پالا پڑا ہے۔ مان لیا کہ انہیں حکومتی ضابطوں کا کلرکوں کی مانند علم نہیں ہوتا اور وہ بعض اوقات ضابطوں کی خلاف ورزی کر جاتے ہیں لیکن اسے بے ایمانی نہیں کہا جا سکتا۔ اللہ بھلا کرے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا کہ جس نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور سپریم کورٹ کو مجرموں کے خلاف اقدام کرنے کے لئے خط لکھا۔ ایف آئی اے کی انکوائری نے ان سائنس دانوں کو کلین چٹ دے دی لیکن اس دوران ملک میں ہیپاٹائٹس کے لئے جو سستے انجکشن بنائے گئے تھے ان کی معیاد گزر گئی اور ایک لاکھ ٹیکے بے کار ہو گئے۔ خبر کے مطابق بیرون ملک سے مہنگے ٹیکے منگوا کر قومی خزانے کو 70 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ ہم نے ان سائنس دانوں کی یوں قدر و منزلت کی کہ ان کی تنخواہیں دو سال بند کئے رکھیں اور ان کے نام مجرموں کی مانند ای سی ایل پر ڈال دیئے۔ یہی ڈاکٹر ریاض سنگا پور یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں چلا گیا ہوتا تو بے پناہ تحقیقی کام کرتا، کروڑوں کماتا اور عزت پاتا۔ ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ نہ ہمارے ہاں تحقیق کے لئے ماحول، وسائل اور سامان موجود ہے اور نہ ہم اپنے سائنس دانوں کی قدر کرتے ہیں۔ ہمارے بہترین دماغ امریکہ برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں جا رہے ہیں اور ہم خالی ہاتھ سائنسی ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ دنیا جہان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں سائنسی تحقیق پر بے پناہ خرچ کرتی ہیں اور سائنسی ایجادات سے بے حساب کماتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی یہ شعور ہی پیدا نہیں ہوا اور ہم غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں رہی حکومت تو حکومت کے پاس سائنسی ریسرچ کے لئے نہ وسائل ہیں نہ ویژن اور نہ اہلیت.... سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں ہم کیسے ترقی کریں گے اور کیسے آگے بڑھیں گے؟ جو قوم علم کی قدر و منزلت سے آشنا نہیں وہ علم کی روشنی سے کیسے منور ہو گی؟

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا

 (نوٹ) (منگل والے کالم میں میں نے لکھا تھا ”دل کو پوری طرح فتح کر لینا گویا دنیا کو فتح کرنے کے مترادف ہے۔“ کمپوزنگ کی غلطیاں معمول کی بات ہے لیکن اس فقرے کو ”دل کو پوری طرح فتح نہیں“ لکھ کر بے معنی بنا دیا گیا۔ قا رئین نوٹ کر لیں)

روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء

اقبال، قائد اعظم اور غازی علم دین

حامد میر
hamid.mir@janggroup.com.pk
 
 بہت سے نوجوان پوچھتے ہیں کہ شاعر مشرق علامہ محمداقبال نے برطانیہ اور جرمنی کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی پھر اُن کے دل میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت قائم کرنے کا خیال کیوں پیدا ہوا؟ ایک طالب علم نے ای میل کے ذریعہ پوچھا ہے کہ کچھ دانشوروں کے خیال میں قائد اعظم محمد علی جناح ایک سیکولر پاکستان کے حامی تھے اگر پاکستان کو سیکولر بنانا تھا تو پھر ہندوستان تقسیم کیوں کیا گیا کیونکہ انڈین نیشنل کانگریس بھی تو سیکولر جماعت تھی؟ یہ دُرست ہے کہ اقبال اور قائد اعظم نے یورپ میں تعلیم حاصل کی، دونوں ابتداء میں متحدہ ہندوستان کے حامی تھے لیکن یہ دونوں انڈین نیشنل کانگریس سے مایوس ہو گئے تھے۔ پاکستان کیوں بنایا گیا اور کیسے بنایا گیا؟ اس موضوع پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن قیام پاکستان کے نظریاتی پس منظر پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ بہت کم محققین نے 31 اکتوبر 1929ء کو پیش آنے والے ایک اہم واقعے پر توجہ دی ہے جس نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی شخصیت اور نظریات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ یہ واقعہ تھا غازی علم دین کی پھانسی۔ تھوڑا سا غور کیا جائے تو سمجھ آ جاتی ہے کہ علامہ اقبال نے غازی علم دین کی شہادت کے تقریباً ایک سال کے بعد 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد کے ذریعہ مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کا خیال کیوں پیش کیا؟
غازی علم دین 4 دسمبر 1908ء کو کوچہ چابک سواراں رنگ محل لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُن کا خاندان فرنیچر سازی سے منسلک تھا۔ اُن کے والد طالع مند لاہور کے علاوہ کوہاٹ میں بھی فرنیچر سازی کرتے رہے۔ غازی علم دین اپنے والد کے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ وہ بالکل غیرسیاسی اور سادہ سے نوجوان تھے۔ 1927ء میں لاہور کے ایک ہندو پبلشر راج پال نے قرآن پاک کے خلاف ایک کتاب ستیارتھ پرکاش شائع کی۔ مسلمانوں نے اس کتاب کی اشاعت پر بہت احتجاج کیا لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی بلکہ کچھ عرصے کے بعد راج پال نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ایک کتاب شائع کر دی جس میں امہات المومنین کے بارے میں نازیبا باتیں لکھی گئی تھیں۔ مسلمانوں نے راج پال کے خلاف قانونی کارروائی کی بہت کوششیں کیں لیکن برطانوی سرکار یہ کہہ کر معاملہ ٹالتی رہی کہ قانون میں گستاخ رسول کے خلاف کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ 24 ستمبر 1927ء کو یکی دروازہ لاہور کے ایک کشمیری نوجوان خدا بخش نے گستاخ رسول پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن راج پال بچ نکلا۔ 19 اکتوبر 1927ء کو غزنی کا ایک نوجوان عبدالعزیز لاہور آیا اور اُس نے راج پال پر حملہ کیا لیکن ہندو پبلشر پھر بچ گیا۔ اُسے پولیس کا ایک حفاظتی دستہ مہیا کر دیا گیا اور اب وہ سرکاری سرپرستی میں اپنا مذموم کاروبار کرنے لگا۔ اس نے اپنی کتابوں کی قیمتیں کم کر دیں کیونکہ کئی سرمایہ دار ہندو اُس کی حوصلہ افزائی کرنے لگے تھے۔ غازی علم دین کو راج پال کی گستاخیوں کا علم ہوا تو انہوں نے خاموشی سے اُسے جہنم واصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 6 اپریل 1929ء کو غازی علم دین نے راج پال کو ہسپتال روڈ لاہور پر واقع اُس کی دکان میں گھس کر خنجر سے قتل کر دیا۔ غازی علم دین نے فوراً اقرار جرم کر لیا اور اپنے خاندان سے کہا کہ اُن کے مقدمے کی پیروی نہ کی جائے کیونکہ وہ شہادت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لاہور کے ایک نامور وکیل فرخ حسین نے رضاکارانہ طور پر غازی علم دین کی وکالت شروع کر دی لیکن سیشن کورٹ نے 22 مئی 1929ء کو غازی علم دین کے لئے سزائے موت سنا دی۔ یہ وہ موقع تھا جب قائد اعظم نے غازی علم دین کی سزائے موت کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی اور عدالت میں مو¿قف اختیار کیا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر رکیک حملے کرنا اور عوام میں نفرت پھیلانا زیر دفعہ 135 الف جرم ہے لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی اُس نے غازی علم دین کو اشتعال دلایا لہٰذا غازی علم دین کے خلاف زیردفعہ 302 قتل عمد کی بجائے زیر دفعہ 308 قتل بوجہ اشتعال کارروائی کی جائے جس کی سزا زیادہ سے زیادہ سات سال قید ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شادی لال نے اپیل مسترد کر دی اور غازی علم دین کو پھانسی کے لئے میانوالی جیل بھجوا دیا گیا۔ 31 اکتوبر 1929ء کو غازی علم دین کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور لاش اُن کے خاندان کے حوالے نہیں کی گئی۔ اس موقع پر علامہ محمد اقبال اور مولانا ظفر علی خان نے بہت اہم کردار ادا کیا اور غازی علم دین کے جسد خاکی کو لاہور لانے کے لئے باقاعدہ مہم چلائی۔ آخرکار غازی علم دین کا جسد خاکی بذریعہ ٹرین لاہور لایا گیا۔ مستند روایات کے مطابق غازی علم دین کے جنازے میں چھ لاکھ سے زائد مسلمان شریک تھے۔ بھاٹی چوک لاہور سے لے کر سمن آباد تک لوگ ہی لوگ تھے۔ غازی علم دین کے جسد خاکی کو علامہ اقبال اور سیّد دیدار علی شاہ جیسے بزرگوں نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ جب غازی علم دین کو لحد میں اُتار دیا گیا تو مولانا ظفر علی خان نے چیخ کر کہا کہ کاش! یہ مقام آج مجھے نصیب ہوتا۔ یہی وہ موقع تھا جب اقبال کے منہ سے بھی نکلا کہ ہم تو دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا۔
 
غازی علم دین کی پھانسی اور پھر اُن کے عظیم الشان جنازے نے برصغیر کے مسلمانوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ہندو اخبار ”پرتاپ“ نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کو غازی علم دین کی حمایت کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کے کچھ عرصے کے بعد علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا۔ 1933ء میں آریہ سماج نامی تنظیم کے سیکرٹری نتھو رام نے بھی اسلام کے بارے میں ایک گستاخانہ کتاب کراچی سے شائع کر دی۔ اس مرتبہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کی بے چینی روکنے کیلئے نتھو رام کی کتاب ضبط کر لی اور اسے ایک سال قید کی سزا دی۔ نتھو رام نے عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی اور رہا ہو گیا۔ ہزارہ کا ایک نوجوان عبدالقیوم کراچی میں وکٹوریہ گاڑی چلایا کرتا تھا۔ اس نے 1934ء میں نتھو رام کا پیچھا شروع کیا۔ ایک دن نتھو رام اپنی ضمانت کنفرم کرانے عدالت میں آیا تو عبدالقیوم نے بھری عدالت میں اُس پر خنجر کے وار کئے اور اُسے قتل کر دیا۔ عبدالقیوم گرفتار ہو گیا اور اُس نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے رسول کی شان میں گستاخی کرنے والے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ عبدالقیوم کو بھی پھانسی کی سزا ہوئی۔ کراچی کے مسلمانوں کا ایک وفد لاہور آیا اور علامہ اقبال سے درخواست کی کہ عبدالقیوم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرایا جائے۔ علامہ اقبال نے کچھ سوچا اور پھر کہا کہ اگر عبدالقیوم خود کہتا ہے کہ اُس نے شہادت خریدی ہے تو میں اُس کے اجر و ثواب کی راہ میں رکاوٹ کیوں بنوں؟ اسی تناظر میں علامہ اقبال نے یہ اشعار بھی کہے

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے؟ فقط عالم معنی کا سفر

ان شہیدوں کی دیت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں۔ کیا قیام پاکستان کے نظریاتی پس منظر میں عشق رسول سب سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں؟ علامہ اقبال اور قائد اعظم دونوں کو کانگریس کے حامی مسلمان علماءکی مخالفت اور فتووں کا سامنا تھا لیکن حرمت رسول کےلئے جو کردار غازی علم دین شہید سے لے کر علامہ اقبال نے ادا کیا وہ کئی علماء کے حصے میں نہ آیا۔ آج جو لوگ اقبال اور قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ بتائیں کہ کیا اُن کے سیکولرازم میں غازی علم دین کی حمایت کی گنجائش موجود ہے؟ پاکستان اسی لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو تحفظ حاصل ہو اور اسی لئے پارلیمنٹ نے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ بھی کیا اور توہین رسالت کا قانون بھی منظور کیا۔ یہ بھی طے ہے توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال قطعاً نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں سیرت رسول کی پیروی کرنی چاہئے۔ اقبال نے کہا تھا

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اِسم محمد سے اُجالا کر دے


روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء

امریکی طوفان سینڈی ہارپ کی کارستانی

نصرت مرزا

راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے روزنامہ ”جنگ“ میں دو مرتبہ ہارپ ٹیکنالوجی کی تباہ کاریوں کے بارے میں لکھا، پہلی مرتبہ 28 اگست 2010ء کو جب پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا اور دوسری مرتبہ جب جاپان میں 11 مارچ کو تباہی پھیلی تو 23 مارچ 2011ء کو ”جنگ“ میں کالم چھپا۔ اس سونامی نے جاپان کے ایٹمی ری ایکٹر کو بھی متاثر کیا۔ دونوں مرتبہ ہم نے لکھا تھا کہ ہارپ کی ٹیکنالوجی امریکہ نے حاصل کرلی ہے اور وہ دنیا بھر میں زلزلہ، سیلاب، طوفان اور سونامی لاسکتا ہے۔ ہم نے ان دونوں مضامین میں ساری تفصیلات لکھ دی تھیں کہ ہارپ کی مشین الاسکا میں واقع ہے اور وہاں 180 مائیکرویو انٹیناز کے ذریعے 3 گیگا واٹ کی انرجی حاصل کرکے اس کو Innosphere کے نظام میں ڈال کر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
ہم نے برملا لکھا تھا کہ پاکستان کا 2005ء کا زلزلہ اور 2010ء کا سیلاب ہارپ کی کارستانی ہے اور جاپان کا سونامی اس کا نتیجہ تھا۔ اگرچہ ہم نے ہیٹی، ایران، چین اور روس کے نقصانات کا ان مضامین میں احاطہ نہیں کیا تھا مگر وہ بھی ہارپ کے مرہون منت تھے۔ ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ قدرت کے نظام کو چھیڑ دیا گیا ہے۔ اب نہ جانے نقصانات کہاں پر جاکر رکیں گے اور کیا خود امریکہ اس کی زد میں آجائے گا، سو اب امریکہ کو اس کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔

سینڈی نامی طوفان امریکہ کے مشرقی ساحلوں سے ٹکڑنے سے 6 کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ نیویارک سُونا ہوگیا اور اس کی تمام ٹرینوں کی آمدورفت رک گئی ہے۔ واشنگٹن کا شہر بند کردیا گیا، دکانیں اور ڈیڑھ لاکھ گھروں کو بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی، ورجینیا اور نیوجرسی میں پانی داخل ہوگیا، ایٹمی ری ایکٹر، آئل ریفائنری بند کردی گئی، خوراک کے حصول کے لئے متاثرین کی طویل قطاریں لگ گئیں۔ طوفان کے باعث پہلی بار اقوام متحدہ کے دفاتر، سٹاک مارکیٹس بند کرنا پڑی ہیں۔
اس کے نقصانات کا تخمینہ 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور نقصانات میں مزید اضافے کا اندیشہ بدستور موجود ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ اس طوفان کو معمولی نہ سمجھا جائے، دس ہزار کے قریب پروازیں معطل کی جاچکی ہیں، 9 ریاستوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، ساحلی علاقوں سے لاکھوں افراد کو نکال تو لیا ہے۔ اوباما اور رومنی کی انتخابی مہم معطل ہوگئی ہے اور وقت مقررہ پر امریکی صدارتی انتخابات کا انعقاد بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ عذاب الٰہی ہے اور اللہ کے نظام کو چھیڑنے کا نتیجہ ہے یا پھر ہارپ کی کارستانی ہے۔ امریکہ میں کئی ویب سائٹس اس کو ہارپ کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں۔ ان کا 28 ہارپ Sensors جو پورے امریکہ میں لگے ہیں وہ تاریخ کے مضبوط ترین اور تباہ کن ہارپ کے حملہ کی اطلاع دے رہے ہیں اور 1-10 کے اسکیل میں کانٹا 10 پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے آگے پیمائش کی اُن کے پاس گنجائش نہیں ہے۔ وہاں اس قدر سفید بادل اور لہریں ہیں جو قدرتی نظر نہیں آتی اور کئی سائنسدان اور کالم نگار جن میں ایک الیکس تھوس شامل ہے وہ کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ پر ہارپ سے حملہ ہوگیا ہے۔ ممکن ہے یہ حملہ کسی اور جگہ کرنا ہو اور غلطی سے امریکہ کا رُخ کر گیا ہے مگر یہ طوفان قدرتی نہیں، مصنوعی ہے اس پر سب کو اتفاق ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ہارپ کا حملہ اس لئے کیا گیا تاکہ انتخابات ملتوی ہوجائیں اور یہ کہ صدر بارک اوباما کو مزید حکمرانی کا موقع مل جائے کیونکہ اب یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ انتخابات وقت پر نہیں ہوسکتے مگر کئی تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان نقصانات کا نزلہ اوباما پر ہی پڑے گا اور عین ممکن ہے کہ جیسا کہ امریکی سیاسی پنڈت کہہ رہے تھے کہ امریکہ میں تاریخ میں پہلی مرتبہ مارشل لاء لگ جائے اور دنیا کو جنگ کی لپیٹ میں لے لے۔ امریکہ کے سیاسی پنڈت یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ امریکی انتظامیہ کا دعویٰ درست نہیں ہے کہ تباہ کاری مشرقی ساحل پر بھی ہوگی۔ اُن کا کہنا ہے کہ تباہی زیادہ آبادی کے علاقوں تک پھیلے گی۔ اب سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ امریکہ اپنے ہی ملک کے لوگوں پر ہی حملہ آور ہوگیا ہے۔

9/11 کے واقعے کے بعد 29 اکتوبر 2012ء کو امریکہ دوبارہ اپنے عوام کو تکلیف اور اذیت میں مبتلا کرکے عالمی جنگ چھڑوانے کا ارادہ رکھتا ہے یا پھر اُس کا کوئی اور منصوبہ ہے، آنے والے چند دن اس بات کو واضح کردیں گے۔ مگر دنیا کے لئے کوئی اچھی خبر منتظر نہیں ہے۔ اس طوفان کے بعد امریکہ کا کیا رویہ ہوگا وہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔

روزنامہ جنگ، جمعہ 16 ذوالحجہ 1433ھ 2 نومبر 2012ء