اتوار, اپریل 10, 2016

مجھے پورا یقین تھا تنہا نہیں چھوڑو گے



جناب میرا دوست میدان جنگ سے نہیں لوٹا، میں اس کو ڈھونڈنے جانا چاہتا ہوں اجازت دیجیئے-

کمانڈر نے کہا:
میں تمہیں وہاں جانے کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا-
کمانڈر نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں زندگی کسی ایسے شخص کی وجہ سے خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتا جس کے بارے میں قوی احتمال ہے کہ وہ مارا جا چکا ہے-
کمانڈر کی بات اپنی جگہ درست تھی مگر سپاہی اس سے نہ تو قائل ہوا اور نہ ہی اس نے کوئی اہمیت دی کہ اس کا میدان جنگ میں جانا اس کی زندگی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، وہاں سے بھاگ کر سیدھا میدان جنگ میں پہنچ گیا جہاں گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا-

گھنٹے بعد زخموں سے چور لڑکھڑاتا کاندھے پر دوست کی لاش اٹھائے آتا دکھائی دیا تو کمانڈر نے بھاگ کر اس کے کندھے سے لاش اتاری، اسے سہارا دے کر زمین پر بٹھایا اور تاسف کرتے ہوئے کہا:
میں نے تمہیں کہا تو تھا کہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر محض ایک لاش تلاش کرنے جانا اس وقت ہر گز دانائی نہیں ہوگی مگر تم نے میری بات نہیں مانی اور دیکھ لو اپنا یہ حشر کروا کے لوٹے ہو- سپاہی نے کراہتے ہوئے مختصراً کہا:
نہیں جناب، جب میں اپنے دوست کے پاس پہنچا تو وہ ابھی بقید حیات تھا-
اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا تھا:
مجھے پورا یقین تھا کہ تم مجھے یوں تنہا مرنے کے لیے نہیں چھوڑو گے۔
سپاہی نے لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ اپنی بات پوری کرتے ہوئے کہا: میں نے اپنی دوست کی آنکھوں میں اپنی مردانگی پر ناز اور دوستی سے وفا کرنا پڑھا تھا جو میرے لیے کافی ہے-

کَلرکہار ... خوبصورت سیاحتی مقام

کلرکہار ضلع چکوال کا خوبصورت سیاحتی مقام ہے، اور چکوال سے تقریباً 26 کلو میٹر کے فاصلے پر اسلام آباد، لاہور موٹر وے کے ساتھ واقع ہے۔ کلرکہار میں لوکاٹ، ناشپاتی اور انار کے بڑے بڑے باغات کے علاوہ دیگر کئی اقسام کے پھلوں کے درخت کثیر تعداد میں ہیں جن میں کیلے کے درخت پر قابل ذکر ہں۔ ان درختوں سے پھل توڑنے کی اجازت نہیں ہے، کیوں کہ سرکار اس کا ٹھیکہ دیتی ہے اور روپے کماتی ہے، اور ٹھیکیدار کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ان درختوں میں ’’مور‘‘ کھلے عام پھرتے یعنی آزادانہ پھرتے بہت مشہور ہیں۔ پہاڑ ہرے بھرے ہیں، درخت اور جھاڑیاں کثیر تعداد میں ہیں۔ 

کلرکہار میں تخت بابریبہت مشہور جگہ ہے، جو انار کے باغ میں‌ واقع ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے کشمیر جاتے ہوئے یہاں ٹھراؤ کیا تھا۔ گرمیوں میں موسم کافی گرم اور سردیوں میں سرد ہوتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک مزار بھی ہے جہاں اکثر لوگ فاتحہ خوانی کے لئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کافی لوگ ہائیکنگ بھی کرتے ہیں۔

لوکاٹ اور انار کے باغات کے ساتھ ہی راستہ جھیل کی طرف جاتا ہے۔ جھیل جانے کے لئے پہلے صرف ایک طرف راستہ تھا یعنی جہاں سے داخلہ وہیں سے واپسی، چھٹی کے روز گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے سیاحوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اب صورت حال کافی بہتر ہوگئی ہے، کیوں اب ایک طرف سے جاکر دوسری طرف سے واپسی ممکن ہے۔

چکوال سے کلرکہار اور خوشاب جاتے ہوئے راستے میں پہاڑی علاقوں میں کافی خطرناک موڑ ہیں جس کے باعث کئی مہلک حادثات ہوچکے ہیں۔ پہلے سڑک کافی تنگ اور خراب حالت میں تھی لیکن اب مناسب حد تک چوڑا کرنے سمیت معیار بھی بہتر ہے۔ پہاڑ کاٹ کر کئی موڑ ختم اور کئی کافی چوڑے کر دیئے گئے ہیں۔ اسلام آباد لاہور موٹروے (ایم ٹو) کی تعمیر سے کلرکہار کی شہرت اور سیاحوں کی آمد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مقامی لوگوں کا روزگار بڑھا اور اس سیاحتی مقام کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کے اقدامات کیے گئے ہیں، جھیل کے سامنے ریسٹورنٹ اور گیسٹ ہائوسز بنائے گئے، سٹالز اور بچوں کے جھولے بھی لگائے گئے ہیں، جھیل کا راستہ چوڑا کیا گیا اور کشتی رانی کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔

کلرکہار سے مشرق کی جانب ایک سڑک چوآسیدن شاہ جانے کے لئے ہے، جس کے راستہ میں مشہور جگہ ’’کٹاس‘‘ ہے جس کے مشہور ہونے کی وجہ وہاں ہندوئوں کے پرانے زمانے کے مندروں کا ایک سلسلہ ہے، اور پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ’’گنگا کی آنکھ‘‘ ہے۔ اس علاقہ میں کوئلہ کی بہت ساری کانیں بھی ہیں، اس حوالے سے ایک سرکاری سکول بھی یہاں قائم کیا گیا ہے۔

کلرکہار سے چوآسیدن شاہ جاتے ہوئے سڑک پر سیمنٹ کے کئی کارخانے قائم کئے گئے ہیں، جن میں ’’لفارجے سیمنٹ‘‘ پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کی سب سے بڑا سیمنٹ کا کارخانہ ہے، اس کا پرانا نام ’’چکوال سیمنٹ فیکٹری‘‘ تھا جو مصر کی ایک کمپنی نے خرید لی ہے۔ اس کے علاوہ ’’ڈی جی سیمنٹ‘‘ اور ’’بیسٹ وے سیمنٹ‘‘ کے کارخانے ہیں۔ ان کارخانوں کے قیام سے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں، ’’ڈی جی خان سیمنٹ‘‘ اور ’’بیسٹ وے سیمنٹ‘‘ کے کارخانے پرویز مشرف کے دور میں‌ قائم ہوئے۔