علاج لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
علاج لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل, جنوری 15, 2013

Misuse of Antibiotics – May Kill Your Loved One's

بسم الله الرحمن الرحيم
In the Name of Allah, Most Gracious, Most Merciful

Irshad Mahmood – Global Auliyaa (PRESIDENT), Siraat-al-Mustaqeem Dawah Center

Search on the internet to check American, Canadian, or European Medical Journals before making any decisions. Thousands of Remedies are there for Thousands of diseases. Depending upon situation, Doctors need to decide and one must listen to his/her Family Doctor (Medical Practitioner), without bugging him/her, otherwise, he/she may say inside his/her heart, NOT directly to you “go to hell”. Below are key things to remember to save you and your loved ones life.

1>    How severe are sicknesses?
2>    How much is this urgency?
3>    Can you avoid antibiotics?
4>    Can you quit in the middle, without completing full course?
5>    Can it be cure with Home Remedy or Herbal Remedy if there is not urgency?

You must avoid taking antibiotics as much as you can, BUT if you have to take it, make sure to complete its full course (ten days), otherwise you will sure develop antibiotic resistant bacteria, which in turn might become super bug, and may kill you, since no medicine will work for you.

Here I would like to mention one simple case of severe pain and fever to understand. You should look first for the cause of the fever and take medication for that from your Family Doctor if it is not severe.

1>    Severe HIGH Fever:        Anytime above 104 degree Fahrenheit 40 degree centigrade.
                                                   MUST CALL 911 - EMERGENCY

2>    High Fever:                       Anytime above 102 degree Fahrenheit 39 degree centigrade.
                                                   Below 104 degree Fahrenheit 40 degree centigrade.
                                                   MUST RUSH TO SEE DOCTOR

3>    Medium Fever:                 Above 100 degree Fahrenheit 37.5 degree centigrade.
                                                   Below 102 degree Fahrenheit 39 degree centigrade.
                                                   Try over the counter medication, like Tylenol/Panadol
                                                   And other cough and cold medication etc.
                                                   Ask pharmacist to help you.

4>    Low Fever:                       Below 100 degree Fahrenheit 37.5 degree centigrade.
                                                   Above 99 degree Fahrenheit 37 degree centigrade.
                                                   Try home remedy or other herbal remedy first.
                                                   Watch it for 24 to 48 hours, if not improving consult Doctor.

Side effects of antibiotics: Every medicine has some side effects, some are short term temporary, while others are long term temporary and in exceptional cases permanent and same is true for Antibiotics. For short term temporary side effects, you don’t need to worry at all. For Long term temporary side effects, you will need to re-think for a long time, while for permanent side effects, you will need to re-think millions of times, and want to make sure if it is for life saving, like Chemotherapy or Radiation treatment etc. If it is for life saving, then you will sure need to go for it, even though it is very painful.

Confusion between side effects or due to disease: Here I would like to give an example, e.g. one gets some pimples on their back or face after taking antibiotics, make sure it is getting better or worse, if it is getting better, then no need to worry. You should worry, if it is getting worse, or painful, or itchy or very reddish etc. Keep in mind due to high fever ones may get this type of pimples, and as soon as fever goes down, you feel improvement, so in this case you should continue taking medications. So keep monitoring while continue giving antibiotics and don’t panic. Also for those symptoms which were before taking antibiotics, it may take at least two days before he/she feels improvements in many cases, so please be patient and don’t panic, instead make Duaa to get recover from it. Sometimes Doctors also prescribe anti-allergy etc. along with antibiotics to support recover softly.

Remember: Saving a life is like saving the whole world. Save yourself and your loved ones before it gets too late. (Ref. Al_Quraan_005.032)

YOU MUST AVOIDE ANTIBIOTICS, BUT IF YOU HAVE TO TAKE IT COMPLETE FULL COURSE (ten days)

Don’t even think about playing with Antibiotics now otherwise it will play with you later, since no medicine will work for you and will give you a very hard time until you die.

*******************

اتوار, دسمبر 16, 2012

پاکستان میں نیوکلیئر ادویات کے استعمال میں اضافہ

پاکستان میں ایٹمی صلاحیت کو بجلی پیدا کرنے، خوراک کی شیلف لائف بڑھانے، فصلوں کی پیداوار بڑھانے، بیماریوں کا سراغ لگانے اور کئی بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں صحت کے شعبے میں نیوکلیئر ادویات سے بھرپور استفادہ کیا جا رہا ہے، اس وقت ملک میں پچاس ایسے طبی مراکز موجود ہیں جہاں نیوکلیئر ادویات استعمال کی جا رہی ہیں، ان میں سے بیس میڈیکل سنٹرز پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیر اہتمام کام کر رہے ہیں جبکہ باقی سرکاری اور نجی شعبے میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان سوسائٹی آف نیوکلیئرمیڈیسن کے صدر ڈاکٹر درصبیح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں ہر سال دس لاکھ سے زائد مریض نیوکلیئر ادویات سے استفادہ کرتے ہیں جبکہ نیوکلیئر ادویات کے شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی تعداد ایک سو پچاس کے قریب ہے۔

ڈاکٹر در صبیح (جو کہ ملتان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر میڈیسن اینڈ ریڈیو تھراپی کے ڈائریکٹر بھی ہیں) نے بتایا کہ نیوکلیئر میڈیسن نہ صرف بیماریوں کی تشخیص میں معاون ثابت ہو رہی ہیں بلکہ ان کے ذریعے تھائی روئیڈ، سرطان اور جوڑوں کے درد سمیت متعدد بیماریوں کا علاج بھی کیا جا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صبیح کا کہنا تھا کہ دنیا اب نیوکلیئر میڈیسن سے بھی آگے یعنی مالیکولر ٹریٹمنٹ کی طرف جا رہی ہے،اس کی وجہ سے اب بیماری کے شکارانسان کے خلیے کا انفرادی تجزیہ کر کے اس کے مرض کی حقیقی وجہ معلوم کرکے مریض کے لیے انفرادی دوا تجویز کرنا بہت آسان ہو گیا ہے، اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل بعض ڈاکٹر کھانسی کے مریضوں کومختلف آپشنز استعمال کرتے ہوئے اپنے اندازے سے دوا تجویزکر دیا کرتے تھے اسی لیے ہر مریض پراس دوا کا مختلف اثر ہوتا تھا، کچھ ٹھیک ہوجاتے تھے اور کچھ کو آفاقہ نہیں ہوتا تھا۔ اب مالیکولرٹریٹمنٹ کے ذریعے ٹیلرڈ ٹریٹمنٹ ممکن ہو گیا ہے۔

نیوکلیئر ادویات سے علاج عام طور پر بہت مہنگا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں اس علاج پر اٹھنے والی لاگت پر حکومت کی طرف سے بھاری سبسڈی دی جاتی ہے، اس لیے یہ علاج ابھی تک عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔ایک اندازے کے مطابق تقریبا پچاس فی صد پاکستانیوں کو نیوکلیئر ادویات کی سہولت بغیر کسی معاوضے یا پھر انتہائی قلیل معاوضے پر دستیاب ہے۔

ہفتہ, دسمبر 08, 2012

پاکستان: آپریشن سے بچے کی پیدائش پر ڈاکٹروں کا اصرار کیوں؟

پاکستان میں آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجوہات اکثر بچے کو جنم دینے والی ماؤں کو بھی پتہ نہیں ہوتیں۔ ستائیس سالہ نازیہ جو حال ہی میں ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں، کا تجربہ کافی تلخ ہے وہ بتاتی ہیں، ”میری یہ پہلی ڈیلیوری تھی۔ میں ہسپتال گئی تھی معمول کے چیک اپ یا معائنے کے لئے۔ میں وہاں گئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپریشن کی ضرورت ہے اس لئے فوری طور پر ہسپتال میں داخل ہو جائیں۔ مجھے انہوں نے وجہ کوئی نہیں بتائی۔ بس داخل کرنے کے بعد آپریشن کر دیا۔ مجھے کسی طرح کا درد نہیں تھا نہ ہی کوئی مسلئہ تھا لیکن انہوں نے آپریشن کیوں کیا یہ میں نہیں بتا سکتی‘‘۔ نازیہ نے مزید بتایا کہ آپریشن پر اٹھنے والے اخراجات اتنے زیادہ تھے کہ انہیں مجبوراً آپریشن کے دوسرے دن ہی ہسپتال سے رخصت لینی پڑی کیونکہ مزید اخراجات اٹھانے کی سکت ان کا خاندان نہیں رکھتا۔

یہ صرف نازیہ کا ہی نہیں بلکہ کئی خواتین کا شکوہ ہے جو ماں بننے کے عمل سے گزری ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ان کی فیملی ڈاکٹرز معائنے کے بعد انہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں کہ بچے کی پیدائش قدرتی طریقے سے عمل میں آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ تاہم ان ہسپتالوں میں جہاں بچے کی پیدائش کے لئے اندراج کروایا جاتا ہے، وہاں کوئی نہ کوئی مسلئہ بتا کر آپریشن تجوہر کر دیا گیا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مقرر کردہ معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں آپریشن کے ذریعے بچے کی ولادت کا تناسب 15 فیصد سے تجاوز نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان میں اس کا کیا تناسب ہے اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ سرکاری سطح پر ہسپتالوں سے ریکارڈ اکٹھا نہیں کیا جاتا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ آپریشن سے بچوں کی ولادت کا تناسب پاکستان میں کہیں زیادہ ہے۔ اس کی آخر کیا وجہ ہے؟ اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سکریٹری اور معروف گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ آپریشن میں اضافے کی ایک وجہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے، ”بعض اوقات کھبی کوئی مسلئہ ہوا مثلاً کوئی انفیکشن ہوجاتا ہے اور ڈاکٹر محسوس کرتا ہے کہ آپریشن پہلے کر دینا زیادہ مناسب ہے تو آپریشن کر دیا جاتا ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ نارمل ڈیلوری کی جائے تو دس ہزار روپے ملتے ہیں لیکن اگر آپریشن کیا جائے تو اس سے تیس ہزار مل جاتے ہیں، اس لئے بعض ڈاکٹر یہ کام کر ڈالتے ہیں۔ اور بعض آپریشن اس لئے ہوتے ہوں گے کہ جونئیر ڈاکڑز کو سیکھایا جا سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ethical practice نہیں ہے‘‘۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں کہ اگر کسی خاتون کو ایسا لگتا ہے کہ ان کا آپریشن غیر ضروری طور پر کیا گیا تو اس شکایت کے اندارج کے لئے بھی کوئی خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں، ”آپ PMDC پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں اپنی شکایت کا اندراج تو کروا سکتے ہیں تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ پاکستان میں جو یہ معاملہ چل رہا ہے اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے‘‘۔ 

آپریشن سے پیدا ہونے والے بچوں کو غیر معمولی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے
ملتان کے ایک پرائیوٹ کلینک میں ماہر گائناکالوجسٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی ڈاکٹر غزالہ اعوان کا کہنا ہے کہ اگر کسی وجہ سے غیر ضروری آپریشن کا مشورہ دیا جا رہا ہے تو ان خواتین کو چاہئے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں میں ماہرین سے صلاح و مشورہ کیا کریں، ”سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو کیونکہ قدرتی یا آپریشن سے کی جانے والی ولادت کا کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا اس لئے بہتر ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں موجود کنسلٹنٹس سے مشورہ لیں‘‘۔

ڈاکٹر شیر شاہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ خواتین کو چاہئے کہ وہ ابتداء سے ہی کوشش کریں کہ ایسے ہسپتال سے رجوع کریں جس کے بارے میں وہ مطمئن ہوں۔

آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش پر ڈاکٹر کیوں مُصر

اتوار, نومبر 25, 2012

پاکستان کی ’خاموش ہیرو‘ کیلئے بین الاقوامی میڈیا ایوارڈ

جرمن ڈاکٹر روتھ فاؤ
رواں برس جرمنی میں ’خاموش ہیرو‘ کا بین الاقوامی میڈیا ایوارڈ ’بامبی‘ پاکستان میں گزشتہ پچاس برسوں سے جذام کے مرض کے خلاف برسر پیکار خاتون ڈاکٹر روتھ فاؤ کو دیا گیا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر جذام کی مشہور ڈاکٹر روتھ فاؤ کو یہ میڈیا پرائز جرمنی کے شہر ڈوسلڈورف ميں منعقدہ ايک تقريب ميں دیا گیا، جہاں دنیا بھر سے ٹیلی وژن اور فلم کی ایک ہزار سے زائد شخصیات جمع تھیں۔ جرمنی کے بین الاقوامی ٹیلی وژن اور میڈیا ایوارڈز یعنی بامبی انعامات جرمنی میں ایمی ایوارڈز کے برابر ہیں۔ یہ ایوارڈز فلم، ٹیلی وژن، موسیقی، کھیل اور اسی طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کو دیے جاتے ہیں۔ رواں برس 19 کیٹیگریز میں یہ انعامات دیے گئے ہيں۔ امسالہ ’خاموش ہیرو‘ کا ایوارڈ 83 سالہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کو دیا گیا۔ اس کے علاوہ ’بامبی ایوارڈ‘ حاصل کرنے والوں میں خلاء سے چھلانگ لگانے والے فیلیکس باؤم گارٹنر اور ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ سلمیٰ ہائیک شامل ہیں۔

روتھ فاؤ کی 50 سالہ کوششوں کی وجہ سے پاکستان میں جذام کے مریضوں کی تعداد میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس مرض پر ابھی تک پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کی دہشت کے بعد ڈاکٹر روتھ فاؤ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دیں گی۔ جرمنی کے سابق دارالحکومت بون میں ڈاکٹر بننے کے دوران سن 1957ء میں انہوں نے Daughters of the Heart of Mary نامی کلیسائی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ یہ مسیحی تنظیم فرانسیسی انقلاب کے دوران قائم کی گئی تھی۔ ڈاکٹر فاؤ کا پاکستان جانا اور وہاں فلاحی کام کرنا محض ایک اتفاق تھا۔

سن 1960ء میں انہیں بھارت میں کام کرنے کے لیے جانا تھا لیکن ویزے کے مسائل کی وجہ سے انہیں کراچی میں پڑاؤ کرنا پڑا۔ اسی دوران انہیں جذام سے متاثرہ افراد کی ایک کالونی میں جانے کا موقع ملا۔ مریضوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گی اور ایسے مریضوں کی مدد کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ مریضوں کی حالت قابل رحم تھی۔ وہاں کے باتھ روم گندگی سے بھرے پڑے تھے اور مریضوں کے جسموں پر جوئیں رینگ رہی تھیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ چوہے ان کے جسموں کو کاٹ رہے ہوتے تھے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ لوگ ابھی تک پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں اور جانوروں کی طرح رینگتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی قسمت سے مطمئن تھے لیکن یہ ان کی قسمت نہیں تھی۔ وہ اس سے بہت بہتر اور خوش زندگی گزار سکتے تھے۔‘‘

اس کے بعد سن 1963ء میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کا قائم کردہ کلینک جلد ہی جذام سے متاثرہ افراد کے لیے ايک دو منزلہ ہسپتال میں تبدیل ہو گیا اور رفتہ رفتہ پاکستان بھر میں اس کی شاخیں کھول دی گئیں۔ ان کے قائم کیے گئے ہسپتال میں نہ صرف ڈاکٹروں کو تربیت دی گئی بلکہ ہزاروں مریضوں کا علاج بھی کیا گیا۔ ان کی انہی کاوشوں سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے سن 1968ء میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ایک قومی پروگرام کا آغاز بھی کیا تھا۔ 

سن 1929ء میں جرمن شہر لائپزگ میں پیدا ہونے والی روتھ فاؤ اس وقت 17 برس کی تھیں، جب انہوں نے مشرقی جرمنی سے سرحد پار کر کے مغربی جرمنی آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماضی کے مغربی جرمنی میں داخلے کے لیے وہ مسلسل دو دن اور دو راتیں چلتی رہی تھیں۔ خوشحال زندگی گزارنے کے لیے اتنی مشکلات کا سامنا کرنے والی روتھ فاؤ آج پاکستانی صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ 

پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے روتھ فاؤ کہتی ہیں، ’’مجھے پاکستان میں کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔ میں نے لوگوں کی خدمت کے لیے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں بھی کام کیا ہے، جہاں زیادہ تر لوگ مجھے میرے کام کی وجہ سے جانتے ہیں اور کبھی بھی کسی نے میرے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘

جرمن میڈیا پرائز پاکستان کی ’خاموش ہیرو‘ کے نام

ہفتہ, نومبر 17, 2012

پاکستان: چھاتی کا سرطان ہزاروں خواتین کی موت کا سبب

اسلام آباد — پاکستان میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں ہر سال 40 ہزار خواتین چھاتی کے سرطان کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں اور ہر نو میں سے ایک اس مرض کا شکار ہو سکتی ہے جو انتہائی تشویش کا باعث ہے۔

سرطان سے بچاؤ اور اس مرض کے بارے میں آگاہی پھیلانے والی تنظیم پنک ربن سوسائٹی پاکستان کی ایک عہدیدار سونیا قیصر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک میں مختلف تنظیموں کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال 90 ہزار خواتین چھاتی کے سرطان کا شکار ہوتی ہیں۔

’’چھاتی کا سرطان کی شرح براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں ہی ہے، اور ملک میں کینسر کی مختلف اقسام میں سب سے زیادہ مریض چھاتی سرطان ہی کے ہیں۔ اس کے اعداد و شمار بھی بہت چونکا دینے والے ہیں کیوں کہ ہر سال 40 ہزار خواتین پاکستان میں اس بیماری کی وجہ سے موت کی نیند سو جاتی ہیں۔‘‘

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اکثر خواتین چھاتی کے سرطان کی بیماری کے بارے میں معلومات کے فقدان کا شکار ہیں اس لیے زیادہ تر واقعات میں مریضوں میں بیماری کی تشخیص ایسے مرحلے پر ہوتی ہے جب اس مرض کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بروقت بیماری کی تشخیص سے مریض کی صحتیابی کے امکانات نوے فیصد تک ہوتے ہیں۔

سونیا قیصر کہتی ہیں عموماً درمیانی عمر کی خواتین میں چھاتی کے سرطان کی شرح زیادہ ہوتی ہے لیکن پاکستان میں اکثریت میں دیکھا جا رہا ہے کہ نوجوان خواتین اور 16 سے 17 سال کی لڑکیاں بھی چھاتی کے سرطان کا شکار ہورہی ہیں۔‘‘

چھاتی کے سرطان کی یوں تو بہت سی وجوہات ہیں جن میں موٹاپا، معمولات زندگی میں ورزش کا نہ ہونا، عورتوں کا بچوں کو دودھ نہ پلانا اور موروثی اثرات نمایاں ہیں لیکن ہر عورت کو اس سے متاثر ہونے کا خطرہ بہرحال لاحق رہتا ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ خواتین کو وقتاً فوقتاً اپنی چھاتی کا خود معائنہ کرتے رہنا چاہیئے اور اگر انھیں کسی بھی مرحلے پر کوئی گلٹی محسوس ہو تو وہ فوری طور پر طبی ماہر سے رجوع کریں تاکہ ممکنہ بیماری کا بر وقت علاج ہو سکے۔

پاکستان: چھاتی کا سرطان ہزاروں خواتین کی موت کا سبب

جمعہ, نومبر 16, 2012

ایشیائی خواتین میں بریسٹ کینسر میں اضافہ

برطانیہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ملک میں رہائش پذیر ایشیائی نسل کی خواتین میں چھاتی کے کینسر کے مرض میں دیگر نسلی گروپوں کی خواتین کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے سفید فام خواتین کے مقابلے میں ایشیائی خواتین میں چھاتی کے کینسر کی بیماری کم پائی جاتی تھی۔ یہ نئی تحقیق کینسر ریسرچ یو کے نامی تنظیم کی مدد سے کی گئی ہے۔

برطانیہ میں رہائش پذیر مدھو کو 43 برس کی عمر میں پتہ چلا کہ انہیں چھاتی کا کینسر ہے۔ وہ کہتی ہیں ’میری چھاتی کا سائز تبدیل ہو رہا تھا اور عام طور پر پستان چھونے پر نرم ہوتے ہیں لیکن مجھے وہ سخت لگے۔ اس کے بعد میں نے ڈاکٹر کو دکھانے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر نے مجھے براہ راست ہسپتال جانے کو کہا‘۔

مدھو کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر رہنے والی رجنا بھی چھاتی کے کینسر کی مریض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب مجھے اپنے بائیں پستان سے کچھ رساؤ ہوتا ہوا دکھائی دیا تو میں نے ڈاکٹر کے پاس جانے کا سوچا۔ انہوں نے مجھے فوری طور پر ہسپتال جانے کو کہا جہاں مجھے بتایا گیا کہ مجھے کینسر ہے‘۔

برطانیہ میں چھاتی کا کینسر ایک عام بیماری کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر تین میں سے ایک خاتون اس سے متاثر ہے لیکن پہلے برطانیہ میں رہنے والی ایشیائی خواتین میں اس کے مریضوں کی تعداد کم پائی جاتی تھی۔ لیکن ایک نئی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں ایشیائی خواتین میں چھاتی کے کینسر کے مزید کیس سامنے آ رہے ہیں۔

اس تحقیق میں شریک ڈاکٹر پونم مگتاني کا کہنا ہے،’چھاتی کے کینسر کی وجہ سے خواتین کی اموات میں اضافے کے اعداد و شمار تو سامنے نہیں آئے ہیں لیکن جس طرح سے مریض سامنے آ رہے ہیں اس سے یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ پہلے کے مقابلے خواتین میں چھاتی کے کینسر میں اضافہ ہوا ہے‘۔


رجنا کے مطابق وہ وقت دور نہیں ہے جب زیادہ ایشیائی خواتین کو یہ پتہ چلے گا کہ انہیں چھاتی کینسر ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’میں اپنے خاندان میں پہلی عورت ہوں جسے چھاتی کا کینسر ہوا ہے اس لیے تعجب کی بات نہیں ہے کہ چھاتی کے کینسر کے معاملات کی تعداد بڑھ رہی ہے‘۔

مدھو کہتی ہیں۔’اپنے آس پاس میں جن لوگوں کو جانتی ہوں، میں نے محسوس کیا ہے کہ یہاں رہنے والی ایشیائی خواتین میں چھاتی کا کینسر ہے اور یہ دیکھ کر مجھے فکر ہوتی ہے۔ مجھے یہ پتہ نہیں ہے کہ یہ بیماری کہاں سے آ رہی ہے‘۔ 

اس تحقیق کی بنیاد سنہ 1991 اور 2001 میں کی گئی مردم شماری ہے۔ اس تحقیق میں الگ الگ نسلی گروپوں کی خواتین میں کینسر کے حوالے سے مطالعہ کیا گیا لیکن ڈاکٹر مگتاني کا کہنا ہے کہ اس کے نتائج ابھی بھی حتمی نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں،’یہ تحقیق چھاتی کے کینسر کے بارے میں ایک الگ طرح کا رجحان سامنے لائی ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے کام کرنے کے ساتھ ساتھ سكریننگ ہو اور یہ یقین ہونا چاہیے کہ سب کو سكریننگ کی سہولت ملے‘۔

روایتی طور پر دیکھیں تو ایشیائی خواتین ابھی بھی چھاتی کینسر پر بات کرنا پسند نہیں کرتی ہیں. لیکن اب لوگوں کا نظریہ بدل رہا ہے اور کینسر پر کام کرنے والے اس گروپ میں فی الحال 50 خواتین شامل ہیں۔ حالانکہ یہ گروپ چھاتی کے کینسر سے متاثرہ خواتین کی مدد کر رہا ہے لیکن ڈاکٹر مگتاني کا کہنا ہے کہ ایشیائی خواتین کو اس مہلک مرض کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے۔

ایشیائی خواتین میں بریسٹ کینسر میں اضافہ

بدھ, نومبر 14, 2012

ذیا بیطس سے بچاؤ کا دن آج منایا جا رہا ہے

دنیا بھر میں آج ذیا بیطس سے بچاؤ کا دن منایا جا رہا ہے، ذیا بیطس کے مریض معمولی زخم کی احتیاط نہ کریں تو جسمانی اعضاء سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔

راولپنڈی کے رہائشی حاجی نصیر گزشتہ کئی سال سے ذیا بیطس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ حاجی نصیر کے پاؤں میں معمولی چھالا نکلا، بروقت علاج نہ کرانے پر زخم اس قدر بگڑ گیا کہ ڈاکٹروں کو ٹانگ کاٹنا پڑی۔ 

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر انیس منٹ میں ذیا بیطس کا ایک مریض اپنے کسی اعضا سے محروم ہو جاتا ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ شوگر کے مریضوں کو ننگے پاؤں چلنے، ہیٹر سے پاؤں گرم کرنے، زیادہ گرم پانی سے پاؤں دھونے، تنگ جوتے اور گندی جرابوں کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ماہرین کے مطابق شوگر کے مریض اپنے پاؤں کا خود معائنہ کریں، اورمعمولی زخم کا علاج بھی مستند ڈاکٹر سے کرائیں۔

ذیا بیطس سے بچاؤ کا دن آج منایا جا رہا ہے

جلد پر داغ دھبے سرطان کی علامت ہو سکتے ہیں

جلد پر پائے جانے والے لیور سپاٹس کو ’سولر لنٹگو‘ یا شمسی چھائیاں بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں محض زیبائشی تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے اور نہ ہی ان کا تعلق محض بڑھتی ہوئی عمر سے ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کے کسی بھی حصے پر بننے والے یہ دھبے یا چھائیاں جلد کے سرطان کی علامت بھی ہو سکتے ہیں۔

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ چہرے، ہاتھوں یا بازوؤں پر بننے والے سیاہ یا گہرے رنگ کے دھبوں کی وجہ ان اعضاء پر پڑنے والی مسلسل دھوپ ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے، یہ دھبے بھی پڑنا شروع ہوجاتے ہیں، جو نقصان دہ نہیں ہوتے تاہم حُسن یا زیبائی کو متاثر کرتے ہیں۔

تاہم امراض جلد کی جرمن ماہر پروفیسر کرسٹیانے بائیرل کا کہنا ہے کہ ان دھبوں یا چھائیوں کا فوری معائنہ بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ اکثر یہ سرطان کی علامت ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ دھبے محض معمر افراد ہی کی جلد پر نہیں بنتے بلکہ 40 سال کی عمر سے ہی ایسے داغ دھبے نمایاں ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔

جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا متعدد طریقوں سے علاج ممکن ہے تاہم اس میں سب سے اہم امر یہ ہے کہ ان دھبوں کا رنگ کیسا ہے۔ پروفیسر کرسٹیانے بائیرل نے کہا، ’جلد کے سرطان کی اس قسم کا اکثر و بیشتر غلط اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس لیے سب سے ضروری عمل یہ ہے کہ جسم کے جس بھی حصے پر یہ چھائیاں نظر آنا شروع ہوں، اُس جگہ کی جلد کا مفصل معائنہ کروایا جائے۔ محض بائیوپسی وغیرہ کے ذریعے ہی یہ پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ آیا دھبے والی اس جلد کے اندر کوئی ضرر رساں خلیہ موجود ہے یا نہیں۔

چہرے کی جلد پر پڑنے والے دھبے یا چھائیاں چھپانے کے لیے کوسمیٹکس یا کریم اور لوشن وغیرہ دستیاب ہیں۔ کاسمیٹکس کی ماہر ایک جرمن خاتون Renate Donath کا کہنا ہے کہ معدنیات سے بھرپور فاؤنڈیشن اکثر چہرے کے دھبے یا چھائیاں چھپانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

گہرے دھبوں کو سفید مائل بنانے والی کریم فارمیسیز میں دستیاب ہیں تاہم ان کا استعمال زیادہ سے زیادہ دو ماہ تک کیا جانا چاہیے کیونکہ اس سے زیادہ عرصے تک اس کریم کا استعمال جلد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض کیسز میںalpha hydroxy acid سے تیار کردہ چھلکے یا جھلی نما پیلنگ کو چہرے پر لگا کر دھبے غیر نمایاں بنائے جاسکتے ہیں اور یہ جلد کے لیے بے ضرر ہوتے ہیں۔
 
جرمن ماہر امراض جلد Uta Schlossberger کا کہنا ہے کہ ’پیلنگ‘ کا غلط استعمال اور پھر اس عمل کے فوراً بعد دھوپ میں نکلنا جلد میں مختلف طرح کی انفکشنز اور داغ دھبوں کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ’پیلنگ‘ کے بعد جلد نہایت حساس ہوجاتی ہے۔ جب پگمنٹ یا نباتاتی خلیے کا رنگ دار مادہ جلد میں سرایت کر جائے، تب اس کا علاج محض لیزر کی مدد سے ہی ممکن ہوتا ہے۔

Uta Schlossberger کے مطابق ’لیزر تھراپی نباتاتی خلیے کے رنگ دار مادے کے ذخائر کو توڑ کر اُسے ریزہ ریزہ کردیتی ہےاور یہ ذرے جسم سے خارج ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک سادہ سا طریقہ علاج ہے تاہم ضرر رساں پگمنٹ یا نباتاتی خلیے کے رنگ دار مادے کی تشخیص کے بعد لیزر تھیراپی نہیں کرنی چاہیے، یہ اس رنگ دار ضرر رساں مادے کو جسم کے مختلف حصوں میں پھیلانے کا عمل شروع کر دیتی ہے‘۔

جلد پر داغ دھبے سرطان کی علامت ہو سکتے ہیں

خون کی کمی: ننھی کلی مرجھانے کا خطرہ

تھیلیسیمیا کی مریض 8 سالہ عفیفہ بہت خاص بچی ہے۔ اس کے خون کا گروپ hh ہے جو بہت نایاب ہے۔ ہر مہینے اس کو دو بوتل خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں ہر دس لاکھ میں سے صرف چار ایسے لوگ ہوں گے جن کا بلڈ گروپ hh ہوگا۔ خون فراہم کرنے والے ادارے کہتے ہیں پورے پاکستان میں اب تک محض 14 لوگ خون کے اس گروپ کے ساتھ دریافت ہوپائے ہیں اور کراچی میں تو صرف سات ہی لوگ hh گروپ کا خون رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی کو بھی اپنے خون کا عطیہ دے سکتے ہیں لیکن پھر ان کے اپنے لیے خون کا عطیہ کوئی نہیں دے سکتا۔ ان کا خون صرف اپنے ہی گروپ والے خون کو قبول کرتا ہے۔ ایسے میں سوچئے اگر کسی کو خون کی ضرورت ہو تو کیا کرے ۔

عفیفہ کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس کو خون کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ننھی سی بچی پچھلے چار سال سے تھیلیسیمیا کی مریض ہے اور اس کو ہر مہینے دو بوتل خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب اتنے نایاب خون کی دو بوتلیں ہر مہینے حاصل کرنا عفیفہ کے والدین کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

کچھ عرصے پہلے تک تو صرف دو ہی ایسے نیک لوگ تھے جو عفیفہ کے لئے خون دیا کرتے تھے اور اب بھی یہ عطیہ دینے والوں کی تعداد صرف تین ہوپائی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی عطیہ دینے والا اپنے خون کے پیسے نہیں لیتا بلکہ دو لوگ تو عفیفہ کو خون دینے کے لئے امریکہ اور دبئی سے اپنے خرچے پر خاص طور پر پاکستان آتے ہیں۔
 
عفیفہ بڑے ہو کر ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ رہی ہے
پاکستان میں عموماّّ یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کس کے خون کا گروپ کیا ہے جب تک کسی کو خون کی ضرورت خود نہ پڑ جائے۔ یورپی ممالک میں بھی، جہاں یہ معلومات پیدائش کے وقت ہی دستاویزات میں محفوظ کر لی جاتی ہیں hh گروپ کے خون والے لوگ بہت کم ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر دس لاکھ میں صرف ایک شخص ایسا ہوگا جو خون کے اس نایاب گروپ سے تعلق رکھتا ہوگا۔ بھارت اور خاص طور پر ممبئی میں جہاں یہ گروپ اب سے پچاس سال پہلے سب سے پہلے دریافت ہوا تھا دس لاکھ میں سے سو افراد ایسے مل سکتے ہیں جو ایسا گروپ والا خون رکھتے ہوں۔

مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر عفیفہ کا تھیلیسیمیا کا علاج ہوجائے تو ایسا خون رکھنا از خود کوئی بیماری نہیں۔ اب تک صرف ایک ہی راستہ نظر آیا ہے اور وہ بھی خاصہ مشکل۔ عفیفہ کی والدہ کی ہڈیوں کا گودا اگر عفیفہ کو مل سکے تو اس bone marrow transplant operation کے ذریعے عفیفہ کا تھیلیسیمیا ختم ہوسکتا ہے۔ مگر یہ آپریشن نہ صرف مہنگا ہوگا بلکہ خطرناک بھی۔ اس میں عفیفہ کی جان بھی جاسکتی ہے۔
 
 عفیفہ بڑے ہوکر ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ مشکل ہوگا۔ جب تک عفیفہ کے لئے خون دینے والے اتنی بڑی تعداد میں جمع نہ ہوجائیں کہ ہر مہینے اس کو دو بوتل خون مل سکے یا پھر کسی طور اس کے تھیلیسیمیا کا علاج ہوسکے یہ ایک بہت مشکل کام ہوگا۔ عفیفہ کوالبتہ ابھی بھی امید ہے، دنیا میں اس کے خون کا گروپ نایاب صحیح، نیکی ابھی بھی نایاب نہیں ہوئی ہے۔

خون کی کمی اور نایاب بلڈ گروپ: ننھی کلی کے مرجھانے کا خطرہ

پیر, نومبر 12, 2012

نیند کی کمی بیماریوں کی وجہ

لندن: برطانوی ماہرین نے کہا ہے کہ نیند کی کمی کے شکار لوگوں میں ذیابیطس، ڈپریشن، بلند فشار خون اور دل کی بیماریاں ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ برطانوی ماہرین کے اس حوالے سے کیے گئے سروے کے مطابق برطانیہ میں اکیاون فیصد لوگوں کو نیند کی کمی کی شکایت ہے۔ خواتین مردوں سے تین گنا زیادہ نیند کی کمی سے متاثر ہوتی ہیں۔ نیند کی کمی کا شکار لوگ توانائی میں کمی، طبیعت میں چڑ چڑا پن اور جسمانی کمزوری محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی بھی کام پر ٹھیک طرح توجہ نہیں دے پاتے اور کام کے اوقات کار میں طبیعت میں سستی بھی محسوس کرتے ہیں۔

ماہرین نے بتایا کہ لوگ نیند کی کمی کی شکایت دور کرنے کے لیے مختلف ادویات استعمال کرتے ہیں جن کے سائیڈ افیکٹ بھی ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ عرصے تک افاقہ نہیں ہوتا۔ بیالیس فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ نیند کی گولیوں کے استعمال سے ان کی نیند میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔

نمونیہ کے خلاف نیا ٹیکا۔۔۔ پاکستانی بچوں پر تجربہ شروع

ہر سال پاکستان میں کم سے کم ایک لاکھ 35 ہزار بچے نمونیہ کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔ اس موضی مرض کا علاج اتنا مشکل نہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ احتیاطی تدابیر کے نہ ہونے کی وجہ سے اتنی جانیں ہر سال ضایع ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین بھی اسی شش و پنج میں ہیں کہ کیسے اس مرض کی روک تھام کی جاسکے۔ لیکن اب بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک نئی دوا ایجاد ہوئی ہے جس پر ان کا بھروسہ زیادہ ہے۔

شاید اسی وجہ سے پاکستانی حکومت نے اس سے پہلے کہ بھارت یا خطے کا کوئی دوسرا ملک اس دوا کو اپنے ہاں استعمال کرے، پہلے خود استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پچھلے دنوں سندھ حکومت نے اسی فیصلے کہ مطابق سندھ کے تمام اضلاع میں اس نئی دوا کو متعارف کروایا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ابھی تک یہ دوا جنوبی ایشیا کے کسی دوسرے شہر میں متعرف نہیں ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں صرف تقریباََ 20 ایسے ممالک ہیں جو اس دوا کو استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔ سینے کے امراض کے ماہر ڈکٹر جاوید خان کا کہنا ہے کہ اس دوا کا استعمال پاکستان میں بر وقت ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر سال اتنے سارے بچوں کی موت کے باوجود پاکستان میں اس مرض کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں۔ جس طرح دوسری خطرناک بیماریوں کے بارے میں تشہیر کی جاتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ نمونیہ کے بارے میں اس کے مقابلے میں کچھ نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا ہے کہ نمونیہ کی احتیاطی ویکسین کی ایجاد سے اس بیماری سے لڑنے میں بہت مدد ملے گی۔ اب تک بچوں کی ویکسین صرف پولیو وغیرہ تک محدود تھی لیکن نمونیہ کی اس دوا کے میسر ہونے سے بہت سے بچوں کی زندگیاں بچائی جاسکیں گی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک ہی کیوں ایسی ادویات کے لئے تجربے گاہ بنتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نمونیہ کا تعلق گندگی سے ہے اور مغربی ممالک نے اس لعنت سے بڑی حد تک چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ پاکستان میں چونکہ حفظان صحت ابھی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے لہذا یہیں ایسے امراض بھی جنم لیتے ہیں۔ اسی لیے ان بیماریوں کی ادویات بھی یہیں استعمال میں لائی جاتی ہیں۔

انہوں نے حکومتِ پاکستان کی تعریف کی کہ ویکسین کے حوالے سے اٹھایا جانے والا یہ قدم اس موضی مرض سے بچنے میں بہت اہم کردار ادا کرے گا کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں یہ بیماری بہت عام ہے۔ خاص طور پر ان ممالک میں جہاں غربت ، کثیر الاولادی، اور صفائی کا نہ ہونا بڑے مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے ممالک میں اگر کسی کو نمونیہ ہوجائے تو دیہی علاقوں میں تو علاج بیس بیس میل تک نہیں ملتا۔

اتوار, نومبر 11, 2012

ملالہ ڈے پر پاکستان بھر میں تقریبات


 ملالہ ڈے پر پاکستان بھر میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا جبکہ سوات کی بہادر بیٹی کی مکمل صحت یابی کی دعائیں مانگی گئیں۔ 

سندھ اسمبلی میں ملالہ ڈے کی مناسبت سے تقریب سجائی گئی جس میں سول سوسائٹی، میڈیا اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی اور ملالہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مختلف ٹیبلوز پیش کیے۔ 

سپیکر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ جو لوگ مذہب اور انسانیت کے دشمن ہیں وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں۔ 

معروف مصنفہ فاطمہ ثریا بجیا نے اس موقعے پر ملالہ یوسفزئی کی درازی عمر کی دعائیں مانگیں۔ وادی سوات کے مخلتف سکولوں میں بھی ملالہ کی مکمل صحت یابی کےلیے دعائیں مانگی گئیں۔ 

اسلام آباد میں ملالہ زندہ باد کنونشن سے خطاب میں رکن قومی اسمبلی ممتاز عالم گیلانی کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان ملالہ کی لکھی ہوئی ڈائری کے متن کو قومی نصاب میں شامل کرے۔ 

کنونشن میں ملالہ کو نوبل انعام دینے اور ملالہ ایجوکیشن فائونڈیشن کے قیام کی قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔

جمعرات, نومبر 08, 2012

سبز چائے کینسر کے خطرات کم کرنے میں مفید

کینیڈا میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سبز چائے پینے والی خواتین میں کینسر کے مرض کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق بڑھتی عمر کے ساتھ جو خواتین باقاعدگی سے سبز چائے کا استعمال کرتی ہیں وہ معدے، بڑی آنت اور گلے کے کینسر سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ 

باقاعدگی سے سبز چائے استعمال کرنے والی ستر ہزار چینی خواتین پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج کے مطابق دیگر خواتین کی نسبت ان میں معدے کے کینسر کا خطرہ چودہ فیصد کم پایا گیا۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کینسر سے محفوظ رہنے کے لیے مناسب غذا کا استعمال اور صحت مند طرز زندگی اپنانا بھی بے حد ضروری ہے۔

سبز چائے پینے سے کینسر کے خطرات کم ہو جاتے ہیں: تحقیق

ہفتہ, نومبر 03, 2012

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے

ڈاکٹر صفدر محمود
safdar.mehmood@janggroup.com.pk
 
خیال آیا کہ عید ابھی کل ہی گزری ہے۔ تمام تر مسائل کے باوجود لوگ تین دن تک عید مناتے رہے ہیں اس لئے عید کے تناظر میں کوئی ہنستی مسکراتی تحریر لکھنی چاہئے۔ دل نے کہا جہاں ہر روز نا اہلی، کرپشن اور بے حسی کے زخم کھلتے ہوں وہاں ہنستے مسکراتے الفاظ تخلیق کرنا نہایت کٹھن کام ہوتا ہے۔ زخم کھا کر مسکرانا ہم جیسے کمزور لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔ ہم تو کرپشن اور نا اہلی کا ماتم کرتے رہیں گے اور بے حسی پر آنسو بہاتے رہیں گے کوئی ہماری فریاد سنے یا نہ سنے، سچی بات یہ ہے کہ ہم مسکرانا بھی چاہیں تو ایسی خبریں مسکرانے نہیں دیتیں۔
عید کے دن کے اخبارات میرے سامنے رکھے تھے اور میں دو خبریں پڑھ کر اداسی کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔ ہاں یاد رکھیئے کہ یہ دو خبریں تو دیگ کے محض دو دانے ہیں ورنہ کوئی دن نہیں گزرتا کہ اربوں کی کرپشن اور نا اہلی کی داستانیں پڑھنے اور سننے کو نہ ملتی ہوں۔ کرپشن کے پہاڑوں کے سامنے یہ خبر تو محض رائی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن نہ جانے کیوں میں اسے پڑھ کر مغموم ہو گیا اور حکومتی نا اہلی کا دل ہی دل میں ماتم کرنے لگا۔ پھر سوچنے لگا کہ جہاں قومی وسائل کو اس بے دردی سے ضائع کیا جا رہا ہو، وہاں معاشی امراض کا علاج ناممکن ہے۔ اصل مسئلہ وسائل کی قلت نہیں بلکہ وسائل کا زیاں ہے۔ میں آپ سے کوئی خفیہ بات شیئر نہیں کر رہا، چھپی ہوئی خبروں کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔
ہماری نوجوان نسل کو علم نہیں کیونکہ انہوں نے پاکستان کو بدحالی کا شکار ہی دیکھا ہے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے دہائی دو دہائیاں قبل ہمارا ریلوے کا نظام ہر لحاظ سے نہایت معیاری ہوا کرتا تھا۔ دولت مند طبقے تو ہوائی سفر اور ذاتی کاروں کی سہولیات کا فائدہ اٹھاتے تھے لیکن عوام کے لئے ریلوے کا سفر آرام دہ ہوا کرتا تھا۔ پھر اسے ہماری نااہلی اور بدنیتی کی نظر لگ گئی جبکہ دنیا کا ہر ترقی یافتہ ملک اپنے ریلوے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے میں مصروف ہے۔ موجودہ ریلوے کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر شخص ریلوے کے ہاتھوں پریشان ہے۔ چنانچہ حکومت نے چین سے 75 ڈیزل انجن درآمد کرنے کا منصوبہ بنایا جو دوسرے منصوبوں کی مانند کرپشن کی نذر ہو گیا۔ مجھے اس ناکامی میں کرپشن سے زیادہ نا اہلی کا پہلو نظر آتا ہے۔ ہماری حکومت نے 2009 میں چین کی حکومت سے 75 انجن خریدنے کا معاہدہ کیا اور اس مقصد کے لئے ایک چینی بینک سے ایک سو ملین یعنی دس کروڑ ڈالر کا قرضہ منظور کروایا۔ معاہدے کے مطابق حکومت پاکستان نے پندرہ ملین ڈالر بینک میں جمع کروا دیئے۔ رینٹل پاور ہاﺅسز کی مانند یہاں بھی کرشن ہوئی۔ اصولی طور پر انجنوں کی خریداری کے لئے عالمی سطح پر ٹینڈر ہونے چاہئیں تھے لیکن یہاں قانونی تقاضوں سے انحراف کیا گیا۔ بدعنوانی کے سبب خریداری نہ ہو سکی اور پاکستان قرضہ استعمال نہ کر سکا۔ معاہدے کے مطابق قرضہ استعمال نہ کرنے کی پاداش میں چینی بینک گزشتہ دو سال سے ہر روز پاکستان کو ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ کرتا رہا ہے۔ اس طرح وہ پندرہ ملین ڈالر جو پاکستان نے جمع کروائے تھے وہ جرمانے کی مد میں ادا ہو گئے ہیں اور انجن بھی نہ منگوائے جا سکے۔ تین سال تک انجن نہ منگوانے پر حکومت چین بھی ناخوش ہے اور چینی بینک بھی ناراض۔ اب اگر عالمی سطح پر ٹینڈر دیئے جاتے ہیں تو حکومت چین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور جو انجن 2009 میں چودہ لاکھ ڈالر کا مل رہا تھا اب کم سے کم 20 لاکھ ڈالر میں ملے گا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ مقصد کرپشن اور نااہلی کی دیگ میں سے فقط نمونے کا ایک دانہ دکھانا تھا۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس طرح کے حالات میں انسان کس طرح خوش رہ سکتا ہے اور کیونکر مسکرا سکتا ہے۔
دوسری خبر ہماری قومی بے حسی، ناشکری اور سرد مہری کی داستان تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک موثر اور متحرک ادارہ ہے جس کا دائرہ کار عالمی سطح پر تعلیم، ثقافت اور سائنس کے شعبوں پر محیط ہے۔ کوئی 193 ممالک اس کے رکن ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا تین سال منتخب رکن رہا ہوں اور یونیسکو کے ایجوکیشن کمیشن کا منتخب وائس چیئرمین رہا ہوں۔ درجن بھر اراکین پر مشتمل ایگزیکٹو بو رڈ یونیسکو کی سرگرمیوں اور کارکردگی کی نگرانی کرتا ہے، منصوبوں اور حکمت عملی کی منظوری دیتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں 1998 کے دوران یونیسکو کی ایک میٹنگ کے سلسلے میں پیرس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک روز دعوت نامہ ملا آج شام ہال میں ایک تقریب منعقد کی جائے گی جس میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت دینے والے ماہرین کو انعامات دیئے جائیں گے۔ میں اس تقریب میں اس تاثر کے ساتھ شریک ہوا کہ 193 ممالک میں پاکستان کہاں کسی انعام کا حق دار ٹھہرے گا جبکہ ان ممالک میں فرانس برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، چین جیسے ترقی یافتہ ممالک موجود ہیں۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور بے حد خوشی بھی جب ایک پاکستانی سائنس دان کو انعام لینے کے لئے پکارا گیا۔ وہ انعام لے کر لوٹا تو میں نے اسے سینے سے لگا لیا، مبارک باد دی اور کہا کہ میں تمہارا ممنون ہوں تم نے عالمی سطح پر میرے ملک کا نام روشن کیا۔ اس سائنس دان کا نام تھا ڈاکٹر ریاض الدین اور وہ لاہور میں ایک سائنسی ادارے کا سربراہ تھا۔ وطن واپس لوٹا تو میں گورنر پنجاب کو ساتھ لے کر ڈاکٹر ریاض الدین کے ادارے میں پہنچا اور اس کی عزت افزائی کی۔
ہمیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ ادارہ جینز اور ڈی این اے کے حوالے سے ریسرچ کر رہا تھا اور ان کی تحقیق سے نہ صرف مجرموں کو پکڑا جا سکتا تھا بلکہ اس سے زرعی پیداوار میں بھی خاصا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ ادارہ براہ راست وفاقی حکومت وزارت تعلیم کا حصہ تھا۔ وزارت تعلیم کا سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹر ریاض الدین کو سنگا پور اور کئی دوسرے ممالک سے نہایت پُر کشش آفرز آ رہی تھیں لیکن وہ وطن کی خدمت پر مصر تھا۔ 27 اکتوبر کے دی نیوز میں ایک خبر پڑھ کر میں پریشان ہو گیا۔ میں 1999 کے بعد ڈاکٹر ریاض سے کبھی نہیں ملا۔
خبر یہ تھی کہ ڈاکٹر ریاض الدین نے ہیپاٹائٹس کے مرض کے لئے ایک دوا ایجاد کی جس کی قیمت 70 روپے ہے جبکہ ہمارے ملک میں اس مرض کے لئے دستیاب دواﺅں کی قیمت 900 روپے ہے۔ میری اطلاع کے مطابق تجارت کے نام پر خون چوسنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈاکٹر ریاض کے پیچھے پڑ گئیں۔ اس خبر کے مطابق یہ انجکشن ہمارے دو سائنس دانوں کی ریسرچ کا پھل تھا۔ چنانچہ انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا اور وزارت سائنس نے ان کے خلاف فنڈز میں بے ضابطگی پر انکوائری ایف آئی اے کے حوالے کر دی۔ مجھے دوران ملازمت بہت سے سائنس دانوں سے پالا پڑا ہے۔ مان لیا کہ انہیں حکومتی ضابطوں کا کلرکوں کی مانند علم نہیں ہوتا اور وہ بعض اوقات ضابطوں کی خلاف ورزی کر جاتے ہیں لیکن اسے بے ایمانی نہیں کہا جا سکتا۔ اللہ بھلا کرے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا کہ جس نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور سپریم کورٹ کو مجرموں کے خلاف اقدام کرنے کے لئے خط لکھا۔ ایف آئی اے کی انکوائری نے ان سائنس دانوں کو کلین چٹ دے دی لیکن اس دوران ملک میں ہیپاٹائٹس کے لئے جو سستے انجکشن بنائے گئے تھے ان کی معیاد گزر گئی اور ایک لاکھ ٹیکے بے کار ہو گئے۔ خبر کے مطابق بیرون ملک سے مہنگے ٹیکے منگوا کر قومی خزانے کو 70 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ ہم نے ان سائنس دانوں کی یوں قدر و منزلت کی کہ ان کی تنخواہیں دو سال بند کئے رکھیں اور ان کے نام مجرموں کی مانند ای سی ایل پر ڈال دیئے۔ یہی ڈاکٹر ریاض سنگا پور یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں چلا گیا ہوتا تو بے پناہ تحقیقی کام کرتا، کروڑوں کماتا اور عزت پاتا۔ ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ نہ ہمارے ہاں تحقیق کے لئے ماحول، وسائل اور سامان موجود ہے اور نہ ہم اپنے سائنس دانوں کی قدر کرتے ہیں۔ ہمارے بہترین دماغ امریکہ برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں جا رہے ہیں اور ہم خالی ہاتھ سائنسی ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ دنیا جہان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں سائنسی تحقیق پر بے پناہ خرچ کرتی ہیں اور سائنسی ایجادات سے بے حساب کماتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی یہ شعور ہی پیدا نہیں ہوا اور ہم غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں رہی حکومت تو حکومت کے پاس سائنسی ریسرچ کے لئے نہ وسائل ہیں نہ ویژن اور نہ اہلیت.... سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں ہم کیسے ترقی کریں گے اور کیسے آگے بڑھیں گے؟ جو قوم علم کی قدر و منزلت سے آشنا نہیں وہ علم کی روشنی سے کیسے منور ہو گی؟

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا

 (نوٹ) (منگل والے کالم میں میں نے لکھا تھا ”دل کو پوری طرح فتح کر لینا گویا دنیا کو فتح کرنے کے مترادف ہے۔“ کمپوزنگ کی غلطیاں معمول کی بات ہے لیکن اس فقرے کو ”دل کو پوری طرح فتح نہیں“ لکھ کر بے معنی بنا دیا گیا۔ قا رئین نوٹ کر لیں)

روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء

جمعہ, نومبر 02, 2012

آسٹریلیا میں لڑکے کو نئی زندگی مل گئی

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ڈاکٹروں نے اپنی نوعیت کا پہلا سرجیکل آپریشن کرکے ایک بچے کی جان بچالی ہے، جس کا فشار خون ایک غیر معروف بیماری کے اچانک انتہائی بلند ہوجایا کرتا تھا۔ دس سالہ میتھیوگیتروپ اپنی تمام زندگی شدید نوعیت کے تناؤ میں رہا۔ اس کے جگر اور گردے کا ایسا عارضہ لاحق تھا، جسے طب کی زبان میں آٹوسومل ریسیسیو پولیسٹک کڈنی ڈزیز اینڈ کونجینائیٹل ہیپاٹک فائبروسس کہتے ہیں۔ اس کم عم میں اسے ایک بار دل کا دورہ بھی پڑچکا ہے۔ اس اذیت ناک زندگی میں روزانہ تیس طرز کی ادویات کھاتا تھا اور اس کے لیے خوراک بھی اسی مناسبت سےکیا کرتا تھا۔

محض چار برس کی عمر میں اسے نیند میں خلل کا عارضہ بھی لاحق ہوا تھا۔ روایتی طریقے سے اگر میتھیو گیتروپ کا علاج کیا جاتا تو روزانہ کی بنیاد پر اس کا خون تبدیل کرنا پڑتا یعنی ڈائلائسس، اس کا گردہ اور جگر تبدیل کرنا پڑتا اور یہ بھی خدشہ تھا کہ اسے پھر دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔

ایسے میں موناش ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے طبی عملے نے ایک تجرباتی نوعیت کے آپریشن کی ٹھانی۔ ریڈیائی شعاعوں کی تکینک کو اس انداز میں استعمال کیا گیا کہ میتھیو کے گردے کو خون فراہم کرنے والی رگ اور قریبی عضلات کو نشانہ بنایا گیا۔ سرجن ای این میریڈیتھ کے بقول اس کی مدد سے میتھیو گیتروپ کا فشار خون معمول پر آیا اور اس کی بیماری کی علامات بھی کافی حد تک ختم ہوگئیں۔ اس کم عمر لڑکے پر اس طرح رگ کو ناکارہ کرنے کا رینل ڈینرویشن طریقہء کار آزمانے سے پہلے اس کا اخلاقی پہلو سے تین اخلاقی کمیٹیوں نے جائزہ لیا اور پھر اجازت دی۔ یہ طریقہء بالغ افراد پر بھی فی الحال محض تجرباتی بنیادوں پر آزمایا گیا ہے۔

دس سالہ اس بچے کی چھوٹی رگوں کے لیے یہ آلہ ایک امریکی کمپنی نے خصوصی طور پر ڈیزائن کیا۔ گیتروپ کی والدہ ایلکس اپنی بیٹے کی حالت دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ ان کے بقول ان کا بیٹا اب خاصا پرسکون اور چوکنا رہنے لگا ہے اور اس کا بلند فشار خون بھی معمول پر آ گیا ہے۔  

’’اس نے پھر سے کہانیاں پڑھنا شروع کردی ہیں، یہ سننے میں بہت چھوٹی بات لگتی ہے مگر کافی عرصے تک یہ نہیں کر پارہا تھا، وہ اب سکول پر بھی خوب توجہ دے رہا ہے۔‘‘ وہ پر امید ہیں کہ ان کے بیٹے کو اب تکلیف دہ علاج کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ ایک نئی اور آسودہ زندگی بسر کر سکے گا۔
 

جمعرات, نومبر 01, 2012

کراچی لاڑکانہ میں ایڈز کے مریضوں میں اضافہ

کراچی: پاکستان میں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے، خصوصاً صوبہ سندھ کے دو شہروں کراچی اور لاڑکانہ میں ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حکومت سندھ کے ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق اس کی بنیادی وجہ منشیات، مرد و خواتین سیکس ورکرز اور تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کےجون 2012ء تک کے اعداد وشمار کے مطابق کراچی میں ایچ آئی وی پوزیٹو مریضوں کی رجسٹرڈ تعداد سب سے زیادہ رہی جو 3 ہزار 5 سو 69 ہے جبکہ یہاں 57 افراد کو ایڈز کا مرض لاحق ہے۔ دوسرا نمبر لاڑکانہ کا ہے جہاں ایچ آئی وی پوزیٹو مریضوں کی تعداد 238 ہے جبکہ تین افراد ایڈز میں مبتلا ہیں۔ 

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ڈاکٹر سلیمان اووڈھو نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بتایا کہ سن 2010ء تک ایڈز کے سب سے زیادہ مریض لاڑکانہ میں تھے جبکہ دو سال بعد کراچی لاڑکانہ سے آگے نکل گیا ہے۔ ڈاکٹر اووڈھو کے مطابق ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کا سبب نوجوانوں میں بہت تیزی سے بڑھتا ہوا منشیات کا استعمال ہے۔ دوسری اہم وجہ غیر محفوظ جنسی تعلقات یا بے راہ روی ہے۔ مریضوں کی بیشتر تعداد اپنی شریک حیات تک محدود نہیں۔ اسی طرح جسم فروشی کرنے والی خواتین خود بھی ایڈز کا شکار ہوجاتی ہیں اور دوسروں کو بھی اس موذی مرض میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں کراچی میں تیسری جنس کے افراد میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اور جنس کے کاروبار میں ان کے ملوث ہونے کا نتیجہ ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کی صورت میں نکل رہا ہے۔ 

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کا ایڈز اور ایچ آئی وی پوزیٹو کے بارے میں شعور پہلے کے مقابلے میں بہتر ہوا ہے لیکن اب بھی لوگوں کو بڑے پیمانے پر آگاہی کی ضرورت ہے۔
 

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

بچوں کو کھانسی میں اینٹی بائیوٹکس نہ دیں

اطالوی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو کھانسی میں اینٹی بائیوٹکس ادویات دینے سے پرہیز کریں۔

سردیوں میں بچوں کو نزلہ زکام کے ساتھ کھانسی بھی ہوجاتی ہے جس کا علاج دیگر ادویات کے ساتھ اینٹی بائیوٹکس کو سمجھا جاتا ہے۔ 

اطالوی ڈاکٹروں نے تین سو سے زائد بچوں کا معائنہ کیا جو سردی لگنے سے کھانسی کا شکار ہوئے۔ بچوں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا پہلے گروپ کو اینٹی بائیوٹکس، دوسرے کو کھانسی کے شربت اور تیسرے گروپ کو اینٹی بائیوٹکس اور کھانسی کی ادویات دی گئیں۔ اینٹی بائیوٹکس لینے والے بچوں کو کوئی فرق نہیں پڑا جبکہ باقی دونوں گروپوں کے بچے تقریباً ایک ساتھ ٹھیک ہوئے۔

پیر, اکتوبر 22, 2012

افسردگی دور کرنے والی ادویات سے دماغی عارضے کا خدشہ

افسردگی دور کرنے والی ادویات antidepressants کی ایک مخصوص قسم استعمال کرنے والے افراد میں دماغ کے اندر خون رسنے کی بیماری کے شکار ہونے کے خدشات زیادہ ہیں۔

یہ بات کینیڈا کے طبی محققین نے قریب 5 لاکھ افراد پر کی گئی تحقیق کے بعد کہی ہے تاہم بعض طبی ماہرین اب بھی ان ادویات کو محفوظ قرار دیتے ہیں۔ ان ادویات کو SSRIs یعنی Selective Serotonin Reuptake Inhibiors کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی چند مثالیں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی مانع افسردگی ادویات جیسےfluoxetine ،sertraline ، citalopram اور paroxetine ہیں۔ ان ادویات کے سبب معدے سے خون کے رساؤ کی شکایات تو پہلے ہی کی جاتی تھیں تاہم یہ بعد اب سے پہلے تک یہ بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی تھی کہ آیا SSRIs دماغ میں خون کے رساؤ یعنی hemorrhagic سٹروکس کا بھی باعث بنتی ہے!

اس تحقیق کے لیے کینیڈین طبی محقیقن نے ایسے سولہ سابقہ تحقیقوں کی جانچ کی، جن میں ایسے 5 لاکھ افراد کا جائزہ لیا گیا جن میں سے بعض SSRIs استعمال کررہے تھے اور بعض نہیں۔ مانع افسردگی ادویات کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ ان کا استعمال کرنے والے چالیس تا پچاس فیصد مریضوں میں دماغ کے اندر یا اطراف میں خون کے رساؤ کا خطرہ موجود رہتا ہے۔

اس تحقیقی دستے میں شامل پروفیسر ڈینیئل ہیکم البتہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ اعداد و شمار کافی زیادہ دکھائی دیتے ہیں تاہم کسی ایک مریض کے لیے خطرہ ’بہت ہی کم‘ ہے۔ اس تحقیق میں شامل کیے گئے افراد کی تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ایک سال سے زائد عرصے تک SSRI استعمال کرنے والے والے دس ہزار مریضوں میں سے محض ایک کو hemorrhagic سٹروکس کا سامنا ہو سکتا ہے۔

پروفیسر ڈینیئل نے ایک اور نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال یہ ثابت نہیں ہوا کہ مانع افسردگی ادویات براہ راست دماغ میں خون کے رساؤ کا سبب بنتی ہیں، ’’یہ ممکن ہے کہ یہ ادویات استعمال کرنے والے افراد دیگر کے مقابلے میں ویسے ہی زیادہ علیل ہوں اور ہوسکتا ہے کہ ان کی ایسی عادات ہوں جو دماغ کے عارضے کا سبب بنتی ہوں۔‘‘ کینیڈین محقیقن نے ان امور پر بھی توجہ مرکوز رکھی مگر ان کے زیر مطالعہ بعض سٹڈیز میں زیر مشاہدہ افراد کی تمباکو نوشی، شراب نوشی یا ذبابیطیس سے متعلق معلومات موجود نہیں تھیں۔ اس بنیاد پر پروفیسر ڈینیئل کہتے ہیں کہ مانع افسردگی ادویات کو محفوظ تصور کیا جاسکتا ہے۔

افسردگی دور کرنے والی ادویات سے دماغی عارضے کا خدشہ

اتوار, اکتوبر 14, 2012

ملالہ یوسفزئی: ’اہم اعضاء ٹھیک ہیں‘

پاکستان کی فوج کا کہنا ہے کہ طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہونے والی بچی ملالہ یوسفزئی کی صحت بدستور اطمینان بخش ہے اور ان کے اہم اعضاء بالکل ٹھیک ہیں۔ بی بی سی اردو سروس کے پروگرام سیربین میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجواہ نے کہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کے دل کی دھڑکن، نبض اور بلڈ پریشر صحیح ہے اور مجموعی طور پر اُن کی حالت تسلی بخش ہے۔ اہم اعضاء میں دل، پھیپھڑے، گردے اور دماغ شمار ہوتے ہیں۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ابھی بھی مصنوعی تنفس یا وینٹیلیٹر پر ہیں۔

ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ان واقعات کے بعد ملالہ یوسفزئی کے والدین کو ایک ذاتی خط لکھا ہے جس میں انھوں نے ’ان کی بہادر بیٹی کی جلد صحت یابی‘ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ سیکرٹری جنرل نے یہ خط اقوام متحدہ میں پاکستان کے نئے سفیر مسعود خان کو جمعے کے روز نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’ملالہ صرف آپ کے ملک (پاکستان) کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے مثال ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ تعلیم ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔

دوسری جانب صدر آصف علی زرداری نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ ملالہ پر حملے کے دوران زخمی ہونے والی دو اور طالبات شازیہ اور کائنات کو بھی مفت صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ شازیہ پشاور سی ایم ایچ میں زیرِ علاج ہیں اور کائنات کو سوات کے مقامی ہسپتال میں علاج کے بعد گھر بھیج دیا گیا ہے۔ صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صدر زرداری نے ان دونوں بچیوں کی صحت کے بارے میں دریافت کیا۔ بیان کے مطابق صدر زرداری نے اِن بچیوں کو قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے حقیقی چہرے کی نمائندگی کرتی ہیں اور انھوں نے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے مظالم کے خلاف قوم کا مجموعی شعور بیدار کیا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدر زرداری نے ملالہ، شازیہ اور کائنات کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔

ملالہ یوسفزئی: ’اہم اعضاء ٹھیک ہیں‘

ہفتہ, اکتوبر 13, 2012

ملالہ کی تمام رپورٹس کلیئر، 48 گھنٹے اہم

راولپنڈي: آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ملالہ کے میڈیکل ٹیسٹ کیے گئے جس کے بعد ڈاکٹروں نے تمام رپورٹس کلیئر قرار دے دیں۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق گولی نے دماغ کو متاثر نہیں کیا لیکن گولی لگنے سے سر کو شدید جھٹکا لگا جس کے باعث ملالہ شاک ویو میں چلی گئیں۔ ڈاکٹروں کا پینل ملالہ کو شاک ویو سے واپس لانے کی کوشش کررہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق ملالہ کے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر بھی نارمل ہے اور حادثے کے بعد معجزانہ طور پر حرام مغز بھی محفوظ رہا۔ اس سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا تھا کہ ملالہ یوسف زئی کی صحت کے لئے 36 سے 48 گھنٹے اہم ہیں۔

ڈاکٹروں نے ملالہ یوسف زئی کی تمام میڈیکل رپورٹس کلیئر قرار دیدیں