بدھ, نومبر 14, 2012

جلد پر داغ دھبے سرطان کی علامت ہو سکتے ہیں

جلد پر پائے جانے والے لیور سپاٹس کو ’سولر لنٹگو‘ یا شمسی چھائیاں بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں محض زیبائشی تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے اور نہ ہی ان کا تعلق محض بڑھتی ہوئی عمر سے ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کے کسی بھی حصے پر بننے والے یہ دھبے یا چھائیاں جلد کے سرطان کی علامت بھی ہو سکتے ہیں۔

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ چہرے، ہاتھوں یا بازوؤں پر بننے والے سیاہ یا گہرے رنگ کے دھبوں کی وجہ ان اعضاء پر پڑنے والی مسلسل دھوپ ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے، یہ دھبے بھی پڑنا شروع ہوجاتے ہیں، جو نقصان دہ نہیں ہوتے تاہم حُسن یا زیبائی کو متاثر کرتے ہیں۔

تاہم امراض جلد کی جرمن ماہر پروفیسر کرسٹیانے بائیرل کا کہنا ہے کہ ان دھبوں یا چھائیوں کا فوری معائنہ بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ اکثر یہ سرطان کی علامت ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ دھبے محض معمر افراد ہی کی جلد پر نہیں بنتے بلکہ 40 سال کی عمر سے ہی ایسے داغ دھبے نمایاں ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔

جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا متعدد طریقوں سے علاج ممکن ہے تاہم اس میں سب سے اہم امر یہ ہے کہ ان دھبوں کا رنگ کیسا ہے۔ پروفیسر کرسٹیانے بائیرل نے کہا، ’جلد کے سرطان کی اس قسم کا اکثر و بیشتر غلط اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس لیے سب سے ضروری عمل یہ ہے کہ جسم کے جس بھی حصے پر یہ چھائیاں نظر آنا شروع ہوں، اُس جگہ کی جلد کا مفصل معائنہ کروایا جائے۔ محض بائیوپسی وغیرہ کے ذریعے ہی یہ پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ آیا دھبے والی اس جلد کے اندر کوئی ضرر رساں خلیہ موجود ہے یا نہیں۔

چہرے کی جلد پر پڑنے والے دھبے یا چھائیاں چھپانے کے لیے کوسمیٹکس یا کریم اور لوشن وغیرہ دستیاب ہیں۔ کاسمیٹکس کی ماہر ایک جرمن خاتون Renate Donath کا کہنا ہے کہ معدنیات سے بھرپور فاؤنڈیشن اکثر چہرے کے دھبے یا چھائیاں چھپانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

گہرے دھبوں کو سفید مائل بنانے والی کریم فارمیسیز میں دستیاب ہیں تاہم ان کا استعمال زیادہ سے زیادہ دو ماہ تک کیا جانا چاہیے کیونکہ اس سے زیادہ عرصے تک اس کریم کا استعمال جلد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض کیسز میںalpha hydroxy acid سے تیار کردہ چھلکے یا جھلی نما پیلنگ کو چہرے پر لگا کر دھبے غیر نمایاں بنائے جاسکتے ہیں اور یہ جلد کے لیے بے ضرر ہوتے ہیں۔
 
جرمن ماہر امراض جلد Uta Schlossberger کا کہنا ہے کہ ’پیلنگ‘ کا غلط استعمال اور پھر اس عمل کے فوراً بعد دھوپ میں نکلنا جلد میں مختلف طرح کی انفکشنز اور داغ دھبوں کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ’پیلنگ‘ کے بعد جلد نہایت حساس ہوجاتی ہے۔ جب پگمنٹ یا نباتاتی خلیے کا رنگ دار مادہ جلد میں سرایت کر جائے، تب اس کا علاج محض لیزر کی مدد سے ہی ممکن ہوتا ہے۔

Uta Schlossberger کے مطابق ’لیزر تھراپی نباتاتی خلیے کے رنگ دار مادے کے ذخائر کو توڑ کر اُسے ریزہ ریزہ کردیتی ہےاور یہ ذرے جسم سے خارج ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک سادہ سا طریقہ علاج ہے تاہم ضرر رساں پگمنٹ یا نباتاتی خلیے کے رنگ دار مادے کی تشخیص کے بعد لیزر تھیراپی نہیں کرنی چاہیے، یہ اس رنگ دار ضرر رساں مادے کو جسم کے مختلف حصوں میں پھیلانے کا عمل شروع کر دیتی ہے‘۔

جلد پر داغ دھبے سرطان کی علامت ہو سکتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔