بدھ, نومبر 14, 2012

سماجی رابطوں کے پر خطر اثرات

دو نومبر کو بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں انیس سو اسی کی دہائی کے ایک نمایاں کنزرویٹو سیاستدان پر ایک شخص سے جنسی بدسلوکی کے غلط الزامات عائد کیےگئے۔ اس پروگرام کے نشر ہونے کے فوری بعد اندازوں اور قیافوں کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ یہ سیاستدان کون ہوسکتا ہے۔

اس میں سے کچھ بحث ٹوئٹر پر ہو رہی تھی جس پر بعض افراد لارڈ میک الپائن کو نیوز نائٹ کے اس پروگرام سے جوڑ رہے تھے۔ اس ساری بحث کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ لارڈ میک الپائن کا نام ٹوئٹر پر نمایاں ٹرینڈز میں شامل ہو گیا۔ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے کے مطلب ہے کہ اس خطے یا پوری دنیا میں بڑی تعداد میں لوگ اسی موضوع پر بیک وقت بات کر رہے ہوتے ہیں۔ میڈیا میں آنے والی رپورٹوں میں سے بعض یہ بتاتی ہیں کہ لارڈ میک الپائن ان ہزاروں افراد میں سے چند افراد کے خلاف ہتک عزت کا دعوی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اس بارے میں قانون واضع ہے جو یہ کہتا ہے کہ ایک فرد واحد جب کوئی مواد انٹرنیٹ پر آن لائن شائع یا پوسٹ کرتا ہے، چاہے وہ فیس بک ہو یا ٹوئٹر یا پھر نیوز ویب سائٹس کے کمنسٹس والے حصے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتا ہے تو وہ اپنے لکھے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس قانون سے لاعلمی موثر دفاع نہیں ہے۔

جب ایک فردِ واحد انٹرنیٹ پر مواد شائع کرتا ہے یا لکھتا ہے وہ ایک پبلشر یا ناشر کے طور پر عمل کر رہا ہوتا ہے اور ان کی مطبوعہ یا شائع شدہ مواد یا تبصرے اسی طرح قانون کی زد میں آتے ہیں جیسے ایک کاروباری ناشر آتا ہے یا ایک اخبار۔ اس میں ٹویٹ کے ذریعے اشاعت بھی شامل ہے اور ایک ری ٹویٹ اس کی مزید اشاعت کے زمرے میں آتی ہے۔ ری ٹویٹ کا مطلب ہے کسی کی لکھی ہوئی ٹویٹ کو آگے اپنے ساتھیوں یا فالوور کے ساتھ شئیر کرنا۔ جو کسی کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ یا آگے بڑھاتا ہے تو وہ بھی ٹویٹ میں موجود مواد کا ذمہ دار بنتا ہے۔ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ جس شخص نے اصل ٹویٹ کی ہو وہ ان تمام ری ٹویٹ کرنے والوں کے عمل کا بھی ذمہ دار ٹہرایا جا سکتا ہے۔ اب یہ اصل ٹویٹ کرنے والے شخص کے اختیار میں نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی ٹویٹ کو ری ٹویٹ ہونے سے روک سکے مگر پھر بھی وہ ذمہ دار بن سکتا ہے۔ اس کا دفاع یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ فرد واحد یہ دعویٰ کرے کہ وہ تو صرف کسی کی کہی ہوئی بات یا ٹویٹ کو ری ٹویٹ کر رہا تھا۔ اس کا دفاع یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ کسی نے ایک بات کی تو اسے دہرانا ٹھیک ہے۔ عدالت ہر ٹویٹ کو ہتک عزت کے عمل کے طور پر دیکھے گی اور جتنا وہ ٹویٹ دہرائی جائے گی اتنا ہی اس کا نقصان زیادہ پہنچنے کا امکان ہے اور اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ اس کے نتیجے میں لوگ ہتک عزت کے دعوے کرنے پر مائل ہوں۔ اسی طرح یہ بات اہم ہے کہ جب آپ کو الزام ثابت کرنا پڑتا ہے تو اس میں یہ کافی نہیں ہوگا کہ کسی کی بات صحیح طریقے سے نہیں کی گئی بلکہ شائع کرنے والے ناشر کو اس الزام میں موجود حقیقت کو بھی ثابت کرنا پڑتا ہے۔

اس کی مثال یو ں ہے کہ فرض کریں کہ اگر میں ایک فرد واحد اپنے افسر پر ایک الزام عائد کرتا ہوں جسے میرے ایک دوست نے ری ٹویٹ کیا ہے۔ میرے اس دوست کو اس الزام کو ثابت کرنے کے قابل ہونا چاہیے اور صرف یہ کہنا کافی نہیں ہوگا کہ میں نے یہ بات کی ہے جس کی بنا پر اس نے ری ٹویٹ کیا۔ اگرچہ عدالتوں نے ماضی میں دیے گئے فیصلوں میں یہ واضع کیا ہے کہ وہ ایک ملزم سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے دفاع کو کامیاب کرنے کے لیے یہ ثابت کر سکیں کہ وہ ذمہ دارانہ صحافت کے اصولوں کے مطابق کام کرتے رہے ہیں۔ اس میں کہانی کی حقیقت کا پتہ کرنا اور تصدیق کرنا اور اس کے موضوع کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دینا شامل ہیں۔ ٹوئٹر پر موجود ایک ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنے کے بعد معذرت بھی درست نہیں سمجھی جائے گی۔

ان مقدمات میں لوگ کثیر رقوم ہتک عزت کے دعوؤں کی صورت میں مانگ سکتے ہیں۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ شائع ہونے والا مواد کیسا ہے اور اس کے اثرات کس قسم کے ہو سکتے ہیں جن میں ایک فوری معذرت بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اگر لارڈ میک الپائن ان حالیہ ٹویٹس کے نتیجے میں مقدمہ کرتے ہیں تو یہ مقدمہ ان کثیر تعداد میں کیےگئے مقدمات میں شامل ہو گا جو کہ فرد واحد کے سوشل میڈیا کے استعمال کے نتیجے میں سامنے آر ہے ہیں۔

برطانیہ میں سوشل میڈیا کے نتیجے میں ہتک عزت کے دعوے کا سب سے پہلا مقدمہ نیوزی لینڈ کے کرکٹر کرس کینز نے کیا جس کے نتیجے میں انہیں ہرجانے کے طور پر نوے ہزار پاؤنڈ ادا کرنے کا حکم دیا۔ ہندوستانی پریمئر لیگ کے سابق سربراہ لیلت مودی نے ٹوئٹر پر کرس کینز کے خلاف میچ فکسنگ کا غلط الزام عائد کیا تھا۔ اس مقدمے کا فیصلے دیتے ہوئے لارڈ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی اور مواصلاتی ذرائع کے نیتجے میں اب پہلے کی نسبت یہ زیادہ ممکن ہے کہ ایک بات یا خبر زیادہ دور تک اور تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے نیتجے میں پیدا ہونے والے اثرات پہلے کی نسبت بہت زیادہ دور رس اور لامحدود ہو گئے ہیں۔ جو پیغام ہمیں عدالتوں سے واضع اور زور شور سے مل رہا ہے وہ یہ ہے کہ اب آپ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ٹوئٹر اور فیس بک پر لکھی گئی باتوں کو ایک مجلس میں کی گئی عام گپ شپ کے طور پر نہیں لے سکتے۔

سماجی رابطوں کے پر خطر اثرات

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔