جمعرات, اگست 16, 2012

امریکہ: فوجی کی داڑھی پراعتراض، سماعت معطل ۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ شدت پسندی نہیں

میجر ندال حسن
امریکہ میں قتل کے ملزم ایک مسلم فوجی نفسیاتی ماہر میجر ندال حسن کے مقدمہ پر سماعت کے دوران ان کی داڑھی پر اعتراض ہوا ہے جس کے بعد عدالتی کارروائی معطل کردی گئی۔

میجر ندال حسن پر امریکہ کے ایک فوجی اڈے پر تیرہ افراد کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنے کا الزام ہے۔

اس مقدمہ پر سماعت کے دوران عدالت نے یہ کہتے ہوئے کارروائی معطل کردی کہ آيا ان کی داڑھی کو ہٹانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔

میجر ندال کے وکلاء کا کہنا تھا کہ داڑھی ان کے اسلامی عقیدے کا ایک اظہار ہے لیکن فوجی اصول و ضوابط کے مطابق ایک فوجی کو کلین شیو ہونا ضروری ہے۔

فوج کی طرف سے یہ بھی دلیل پیش کی گئی کہ ’داڑھی بڑھنے کے سبب گواہوں کو اُن کی شناخت میں مشکل آتی ہے۔‘

میجر ندال حسن پر دو ہزار نو میں ٹیکساس کے فورڈ ہوڈ فوجی ہوائی اڈے پر فوجیوں پر فائرنگ کرنے کا الزام ہے۔

امریکی فوجی اڈے پر یہ اپنی نوعیت کا ایک بھیانک فائرنگ کا واقعہ تھا اور اگر ندال قصوار وار پائے گئے تو اکتالیس سالہ حسن ندال کو سزائے موت سنائي جاسکتی ہے۔

اس مقدمہ کی سماعت میں کئی بار پہلے بھی تاخیر ہوئی ہے۔ پہلی بار جون میں سماعت کے لیے میجر ندال کو ٹیکساس کے سینٹرل فوجی کامپلیکس میں داڑھی کے ساتھ پیش کیا گيا تھا۔

پیر کے روز ان کے کورٹ ماشل سے پہلے میجر ندال کو بدھ کے روز عدالت کے روبرو کچھ اعتراف کرنا تھا لیکن اب ان کی بڑھی ہوئی داڑھی کے تنازع پر فیصلے تک عدالتی کارروائی روک دی گئي ہے۔

چونکہ کلین شیو کے بغیر فوجی اصول کی خلاف ورزی ہوتی ہے اس لیے جج نے ابھی تک انہیں عدالت میں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دی ہے۔

ان پر توہین عدالت کے جرم میں ایک ہزار ڈالر کا جرمانہ بھی عائد کیا جاچکا ہے اور انہیں عدالتی کارروائي عدالت کے پاس ایک کمرے میں ٹی وی پر دیکھنا پڑتا ہے۔

لیکن جج کا کہنا ہے کہ کورٹ مارشل کے وقت انہیں موجود رہنا ضروری ہے کیونکہ اگر وہ قصوروار پائے جائیں تو اپیل کے لیے ان کے پاس وجوہات موجود ہوں۔

میجر ندال کے وکلاء کی دلیل ہے کہ ان کے ’موکل کو اپنی موت کا پہلے سے احساس ہے اور انہیں یقین ہے کہ داڑھی کے بغیر موت ایک گناہ ہوگا۔ ان کے مطابق زبردستی ان کی داڑھی منڈوانا ان کے حقوق کی پامالی ہوگي۔‘

فائرنگ کے واقعے میں پولیس کی جوابی کارروائی میں میجر ندال زخموں کے سبب وہ سینے کے جسم کے نچلے حصے سے مفلوج ہوگئے تھے۔ انہیں ہسپتال کے ایک خصوصی وارڈ میں رکھا گيا ہے۔

امریکہ: فوجی کی داڑھی پراعتراض، سماعت معطل

مصری اولمپک دستہ، عریاں فلمیں اور شیشہ

مصر کی ریسلنگ ٹیم کے دو کھلاڑی اپنے دوسرے راؤنڈ کے
 مقابلوں میں حاضر ہی نہ ہوئے
لندن اولمپکس میں دو نقرئی تمغے جیتنے والی مصری دستے کے وطن واپس پہنچنے پران کا استقبال کرنے والا تو کوئی نہ تھا لیکن ان سے پوچھ گچھ کے لیے اہلکار ضرور وہاں موجود تھے۔

دو ہزار بارہ کے مقابلوں کے دوران مصری دستے کے ساتھ کئی ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے ملک میں ایک بھرپور سکینڈل کا روپ دھار لیا اور اب اس سلسلے میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔

مصری ٹیم اولمپک مقابلوں میں شرکت کے لیے جس ہوٹل میں ٹھہری تھی اسے اچانک اس وقت مکمل طور پر خالی کرنا پڑا تھا جب مصری فٹبال ٹیم کے ارکان میں سے ایک کے کمرے سے دھواں نکلنے لگا۔

مصری فٹبالر جن کمروں میں قیام پذیر تھے انہیں میں سے ایک میں ’شیشہ‘ یعنی حقہ پیا جا رہا تھا جس کے سبب دھواں اٹھا اور پورے ہوٹل میں فائر الارم بج پڑے۔

مصر کی ریسلنگ ٹیم کے دو کھلاڑی اپنے دوسرے راؤنڈ کے مقابلوں میں حاضر ہی نہ ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنا نظام الاوقات یا شیڈول دیکھا اور نہ ہی کسی نے انہیں اس بارے میں بتایا۔

یہی نہیں مصری ٹیم کو ’نائیکی‘ کے نقلی جوتے اور دیگر سامان فراہم کیا گیا نتیجتاً ہنگامی بنیاد پر ’نائیکی‘ کو انہیں اصل ’کٹ‘ فراہم کرنا پڑی۔

سونے پر سہاگہ یہ کہ فٹبال ٹیم کے ایک کھلاڑی کی وجہ سے مصریوں کو سات سو پاؤنڈ کا اضافی بل بھرنا پڑا کیونکہ موصوف ’عریاں‘ فلمیں دکھانے والے کئی چینل مستقل دیکھتے رہے۔ مصر کی طرف سے اولمپک مقابلوں میں شرکت کرنے والا مصری تاریخ کا یہ سب سے بڑا دستہ تھا لیکن اسے چوروں کی طرح منہ چھپا کر واپس پہنچنا پڑا۔

مصری اولمپک دستہ، عریاں فلمیں اور شیشہ

امریکا کا آواز سے چھ گنا تیز سفر کا تجربہ ناکام

امریکی فضائیہ کا کہنا ہے کہ ’ویو رائیڈر‘ نامی ہائپر سونک جیٹ کے آواز کی رفتار سے چھ گنا زیادہ رفتار سے سفر کرنے کا تجربہ ایک مرتبہ پھر ناکام ہوگیا ہے۔

میک کسی شے کی رفتار کے آواز کی رفتار سے تناسب کا نام ہے اور درجۂ حرارت اور بلندی جیسے عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک میک اندازاً سات سو اڑسٹھ میل فی گھنٹہ کے برابر ہوتا ہے۔

’میک چھ‘ یا تین ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار سے لندن سے نیویارک کا سفر ایک گھنٹے میں طے کرنا ممکن ہے۔

امریکی حکام کے مطابق ویو رائیڈر کے تازہ تجربے کے دوران اسے ایک بی باون بمبار طیارے کی مدد سے بحرالکاہل کے اوپر پچاس ہزار فٹ کی بلندی سے چھوڑا گیا لیکن تکینکی خرابی کی وجہ سے اس کا سپرسانک انجن چل ہی نہیں سکا اور جہاز بحرالکاہل میں گر کر لاپتہ ہوگیا۔

امریکی فضائیہ کے ترجمان کے مطابق جیٹ کی پرواز کے سولہویں سیکنڈ میں ہی خرابی کا پتہ چل گیا تھا۔ امریکی فضائیہ کی تحقیقاتی تجربہ گاہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’بدقسمتی سے ثانوی نظام میں خرابی کی وجہ سے اس سے قبل کہ ہم سکریم جیٹ انجن چلا پاتے مشن ناکام ہوگیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’تمام ڈیٹا کے مطابق ہم نے انجن چلانے کے لیے بہترین حالات پیدا کرلیے تھے اور ہم اپنے تجربے کے اہداف حاصل کرنے کے لیے پرامید تھے‘۔

یہ لگاتار دوسرا موقع ہے کہ اس جیٹ کا انجن چلنے میں ناکام رہا ہے۔ دو ہزار گیارہ کیے گئے ایک اور تجربے میں بھی جیٹ کا انجن چل نہیں سکا تھا تاہم جون دو ہزار دس میں کیے گئے ایک تجربے میں ویو رائیڈر نے آواز سے پانچ گنا زیادہ تیز رفتار سے سفر کیا تھا لیکن وہ اپنی مطلوبہ رفتار تک پہنچنے میں ناکام رہا تھا۔

اب امریکی فضائیہ کے پاس صرف ایک ایکس اکیاون اے تجرباتی جیٹ باقی بچا ہے اور ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ آیا فضائیہ چوتھی مرتبہ تجربہ کرے گی یا نہیں۔

یہ منصوبہ ایک ہائپرسونک طیارے کی تیاری کے لیے جاری کئی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اس منصوبے کے لیے امریکی محکمۂ دفاع اور امریکی خلائی ادارے ناسا نے رقم فراہم کی ہے اور یہ تیز رفتار میزائلوں کی تیاری کے منصوبے کا حصہ ہے۔

اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیق کو ایسے مسافر طیاروں کی تیاری کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جو موجودہ زمانے کے جیٹ طیاروں سے کہیں تیز اڑ سکیں۔

ماضی میں کنکارڈ طیارے آواز سے دگنی رفتار سے سفر کرتے رہے ہیں اور وہ لندن سے نیویارک کا سفر تین گھنٹے میں طے کیا کرتے تھے۔ تاہم سنہ انیس سو ترانوے کے بعد سے ان کا استعمال ترک کردیا گیا تھا۔

یورپی ایروسپیس کمپنی اِیڈز کے نائب صدر پیٹر روبی کا کہنا ہے کہ ہائپر سونک مسافر طیارے مستقبل قریب میں سامنے آنے لگیں گے۔

انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب سپر سانک سے ہائپر سونک پرواز تک کے سفر کے بارے میں دلچسپی پائی جاتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اس قسم کا جہاز نہایت مہنگا ہوگا کیونکہ اس قسم کی رفتار کے حصول کے لیے بےپناہ توانائی درکار ہوتی ہے۔ لیکن کاروباری اور سیاسی شخصیات کے لیے ڈھائی گھنٹے میں ٹوکیو سے پیرس پہنچنے کا خیال ہی بہت پرکشش ہے۔ میرے خیال میں دو ہزار پچاس تک مارکیٹ میں قابلِ عمل ہائپرسونک مسافر طیارہ آ جائے گا‘۔

آواز سے چھ گنا تیز سفر کا تجربہ ناکام